نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 81 مسئلہ : قربانی نفل ہے۔


 اعتراض نمبر ٨١
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئلہ : قربانی نفل ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

ثلاث هن على فرائض وهن لكم تطوع الوتر وانحر والضحی۔ (ترجمہ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین کام مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے اوپرنفل : (۱ ) وتر (۲) قربانی اور (۳) صلاۃ الضحی ( یعنی چاشت کی نماز )

(رواه الامام احمد في مسنده ج ۱ ص ۲۳۱، رقم الحدیث ۲۰۵۰، طبع مؤسة قرطه مصر، ورواه الحاكم في کتاب الوترج ١ص۲۰۰، رقم الحدیث ۱۱۱۹، طبع دار الكتب العلميه بيرت) 

(السنن الكبرى للبيهقي ج ۲ص۴۸رقم الحدیث۴۲۴۸)

فقه حنفي

الاضحية وجبة على كل مسلم .

(هدایه اخیرین کتاب الاضحية صفحه ۴۴۳)

(ترجمہ) قربانی ہر مسلمان پر واجب ہے۔ 

(فقہ و حدیث ۱۲۰)

جواب:

یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں ابو جندب یحیی بن یحیی حیہ ضعیف اور مدلس ہے ۔ راشدی صاحب کے نزدیک قربانی کرنا نفلی عبادت ہے جیسا کہ اس مسئلہ کی سرخی جو انہوں نے قائم کی ہے سے ثابت ہوتا ہے ۔غیر مقلدین کو خوش ہونا چاہیے کہ قربانی سے چھٹی ہوگئی ۔ کیونکہ نفل عبادت کا انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ کرو توثواب نہ کرو تو کوئی گناہ نہیں۔ 

حنفی مذہب کے دلائل :

احناف کے ہاں ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے فرض، واجب ، رکن ،سنت موکدہ ، سنت غیرموکد و نفل وغیرہ کی اصلاحات فقہاء ومحدثین اور اصولین نے وضع کیں ہیں ۔ قرآن وسنت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل مبارک کو دیکھ کر علماء نے آسانی کے لیے ہر ایک عمل کا حکم الگ الگ اپنی کتب میں لکھ دیا ہے ۔ اور ان اصطلاحات کا استعمال غیر مقلد بھی کرتے ہیں قربانی کے واجب ہونے کا اقرارخودغیر مقلد علماء نے بھی کیا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔

 مولانامحمد یونس دہلوی غیر مقلد لکھتے ہیں ۔

کہ علماء کا اختلاف ہے کہ قربانی واجب ہے کہ سنت موکدہ بہت سے علماءقربانی کو واجب بتاتے ہیں اور اس کے وجوب پر آیت فصل لربک وانخر سے استدلال کرتے ہیں لیکن جمہور علماء سنت موکدہ ہونے کے قائل ہیں لیکن جانبین کی دلیلوں پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا جولوگ وجوب کے قائل ہیں ان کے دلائل مستحکم اور مضبوط ہیں ۔ بدور الامحلہ میں ، طرفین کے دلائل کی خوب تحقیق کی گئی ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ جسے قربانی کا اس قدر مقدور ہو کہ ایک بکرا یا مینڈھا یا بھیڑ خواہ نر ہو یا مادہ خرید سکتا ہے اسے قرانی کرنا واجب ہے۔( دستورالمتقی فی احکام النبی ص ۱۵۶) امام ابوحنیفہ اور بعض دیگر آئمہ کرام می فرماتے ہیں قربانی واجب ہے ۔ امام نووی شافعی شرح مسلم ج ۲ ص ۱۳۵ میں اور قاضی شوکانی نیل الاوطار ج ۵ ص ۱۱۸ میں لکھتے قال الربيعة والاوزاعی و ابو حنیفہ واللیث هي واجبة على الموسر وبه قال بعض المالكية وقال النخي وجبة على الموسر ا لاالحاج ۔علامہ بدرالدین البعلی الحنبلی مختصر الفتاوی المعریہ ج ص ۵۲۲ میں لکھتے ہیں۔ وفی وجب الاضحیۃ قولان لا احمد ومالك وغيره ھما۔الخ قربانی کے وجوب کے چند دلائل حسب ذیل ہیں:

 اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کرنے کا حکم دیا۔ فرمان باری تعالی ہے:

فصل لربك والنحر

اپنے رب کے لیے نماز پڑھیئے اور قربانی دیجئے ۔

(الکوثر آیت نمبر ۲) 

علامہ ابن جوزی نے اللہ تعالی کے فرمان واخر کی تفسیر میں پانچ اقوال نقل کئے ہیں اور ان میں سے پہلاقول یہ ہے کہ قربانی کے دن جانور ذبح کرو یہ قول حضرت ابن عباس نے ، امام عطاء، امام مجاہد اور جمہور علماۓ امت کا ہے۔(زادالمیر فی علم التفسیر جلدنمبر ۹ص۲۴۹) 

اکثر اصول کی کتابوں میں یہ اصول لکھا ہے والا مرللوجوب یعنی جس چیز کا حکم اور امر ہو وہ کم از کم واجب ہوا کرتا ہے لہذا قربانی واجب ہوئی ۔ فرمان باری تعالی ہے:

قل إن صلاتي و نسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين. لا شريك له ويذلك امرت وانا اول المسلمين (ترجمہ ) تو کہہ کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو پالنے والا سارے جہان کا ہے ۔ کوئی نہیں اس کا شریک اور یہی مجھ کو حکم ہوا ہے۔ اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ۔ 

( پار نمبر ۸ سورۃ انعام آیت نمبر ۱۶۳) 

اس آیت کریمہ میں بھی قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں امرت کا لفظ ہے جس کا معنی یہی ہے۔ کہ مجھے نماز اور قربانی کرنے کا امر ہوا۔ اور جس کا حکم اور امر ہو وہ اگر فرض نہ ہوتو واجب ہوا کرتا ہے لہذا اس سے واضح ہوا کہ قربانی واجب ہے۔

حدیث نمبر ١ :

ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔

( ترمذی ابواب الاضاحی ج ١ ص ۱۸۲)

اس حدیث سے واضح ہوا کہ آپ نے قربانی کرنے پر مواظبت کی ہے اور یہ مواظبت وجوب پر دلالت کرتی ہے۔

علامہ ابن رشد مالکی بدایۃ ج ۱ ص ۴۱۵ میں لکھتے ہیں ۔

انه لم يترك رسول اللہ الضحية قط فيما روى عنه حتى فيﷺ السفر

کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے كبھی قربانی ناغہ نہیں کی یہاں تک کہ سفر میں بھی

حدیث نمبر ۲:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص میں طاقت ہواور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے پاس نہ آۓ۔ 

(ابن ماجہ باب الاضاحی واجبتہ لا ۲۳۳)

 اس حدیث میں رسول اللہ ﷺاس شخص کو تنبیہ فرما رہے ہیں ( یعنی ناراضگی اور غصے کا اظہار فرمار ہے میں ) جو قربانی کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے۔ اتنی سخت تنبیہ نفل چھوڑ نے پر نہیں کی جاتی ۔ واجب چھوڑ نے پر ہوا کرتی ہے تو اس سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ قربانی واجب ہے۔

حدیث نمبر ٣ :

جندب بن سفیان بجلی کہتے ہیں : ہم نے ایک عیدالاضی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی اس دن بعض لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر تشریف لاۓ ۔ تو دیکھا کہ ان لوگوں نے نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے۔جس نے قربانی نہ کی ہو وہ اب اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ ( بخاری ج ۲ ص ۸۳۴) کتاب الاضاحی باب من ذبح قبل الصلاة اعاد مسلم ج ۲ ص ۱۰۰ کتاب الاصناحی باب دقتھا ) اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم ہے قربانی کے اعادہ کا اس شخص کو جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تھی ۔ عید کی نماز سے پہلے شہر میں قربانی کرنا جائز نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قربانی کرنانفل نہیں بلکہ واجب ہے ورنہ دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دینے کا کوئی معنی نہیں

حدیث نمبر ۴: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن فرمایا جس نے

نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہو وہ دوسرا جانور ذبح کرے۔الخ ( بخاری کتاب الاضاحی باب ما یشتی من الهم يوم النحر ) ( اس حدیث میں بھی دوبارہ کرنے کا حکم ہے اگر قربانی نفل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ کرنے کا حکم نہ دیتے آپ کا دوبارہ حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔

حدیث نمبر ٥

ام بلال رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑ کے چھ ماہ کے بچے کی قربانی کرنے کا 

( مجمع الزوائد جلد ۴ ص ۱۹)

حدیث نمبر ٦

 روایت ہے عقبہ بن عامر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دیں ان کو بکر یاں کہ بانٹ دیویں میں اس کو حضرت کے صحابہ میں قربانی کے لیے سو باقی رہ گئی اس میں سے ایک عتودیا ایک جدی سوذکر کیا میں نے رسول اللہ سےفرمایا آپ ﷺ نے اس کی تم قربانی کر دو ۔ ( ترمذی ابواب الاضاحی باب في الجذبح من الصنان في الاصناتی ) ہم نے چھ روایات ایسی نقل کی ہیں جن میں امر موجود ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے ۔

علماۓ کرام کے حوالہ ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ امام ابو بکر جصاص رازی کا حوالہ

یعنی جب اللہ تعالی نے نسک کو صلوۃ کے ساتھ ملا کہ بیان فرمایا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں صلوۃ سے عید اور قربانی مراد ہے اور اس سے قربانی کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ (وبذالك امرت ) موجود ہے اور امر سے وجوب ثابت ہوتا ہے) (احکام القرآن ج ۳ ص ۳۴) امام شوکانی غیر مقلد کا حوالہ

امر مطلق وجوب کے لیے آ تا ہے ۔ جیسا کہ قاضی شوکانی فرماتے ہیں ۔

والامر ظاهر في الوجوب . ( نیل الاوطارج ۵ ص ۱۱۹)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...