نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 83 سلام پھیرے بغیر نمازمکمل نہیں ہوگی


 اعتراض نمبر ٨٣
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : 
مسئلہ : سلام پھیرے بغیر نمازمکمل نہیں ہوگی

حدیث نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم 

عن على قال قال رسول اللہ ﷺ (يعني في الصلاة) تحريمها التكبير وتحليلها التسليم -

(ترجمہ ) سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نماز کے بارے میں فرمایا کہ نماز میں تکبر سے ہی دخل اور سلام سے ہی خارج ہوا جاسکتا ہے۔

(ترمذي ج١ أبواب الطهارة باب ماجاء مفتاح الصلاة الهور صفحه۳، رقم الحدیث۳)

فقه حنفى

وان تعمد الحدث في هذه الحالة او تكلم او عمل عملا ينافي الصلاة

تمت صلاته

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب الحدث في الصلاة صفحه ۱۳۰)

( ترجمہ ) سلام کے عوض کوئی بھی کام کیا جو نماز کے منافی تھا یا بات چیت کی یہاں تک کہ جان بوجھ کر وضوتوڑ دیا تو اس کی نماز مکمل ہوگئی ۔

( فقہ وحدیث ص ۱۲۲)

جواب:

احناف کے ہاں نماز کے کچھ واجبات ہیں ۔ جو ہماری نماز کی اردو کتب میں بھی موجود ہیں ۔ ان واجبات میں سے ایک واجب لفظ سلام سے نماز سے نکلنا بھی ہے فقہ حنفی کے دلائل درج ذیل ہیں ۔

 (1) مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی حنفی نے اپنی کتاب نمازمسنوں کلاں کے ص ۳۰۳ پر سرخی قائم کی ہے واجبات نماز پھر صفحہ ۳۰۳ سے لیکر صفحہ ۳۰۹ تک نماز کے تیرہ ( ۱۳ ) واجبات ذکر کئے ہیں نمبر ۱۱ ص ۳۰۸ پر لفظ سلام سے نکلنا‘‘ کی سرخی لگائی ہے پھر لکھتے ہیں ۔لفظ سلام کے ساتھ نماز سے نکلنا واجب ہے ہدایہ ج۱ ص ۷۳ شرح نقایہ ج۱ ص۷۰ کبیری ص ۲۲۸ پھر ترمذی ص ۲۷ ابوداؤد ج ۱ ص ۹۱ کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز کی چابی طہارت ہے۔(طہارت ہی سے آدمی نماز میں داخل ہوسکتا ہے اور نماز کا تحریمہ (یعنی تمام چیزوں کا اس حالت میں ممنوع ہو جانا ) تکبیر ہے اور نماز سے باہر آ نا جس میں تمام حلال چیز میں اس کے لیے حلال ہو جاتی ہیں وہ سلام ہے۔ حضرت صوفی صاحب کے اس حوالہ سے حنفی مسلک آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا ۔ ہماری نماز پر لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں تقریبا سب میں لکھا ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نمازص ۲۰۲۔ ۲۰۳ میں لکھا ہے :

یہ دعا پڑھ کر سلام پھیرے ۔ پہلے دائیں جانب منہ پھیر کر کہے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہے پھر 

بائیں جانب منہ پھیر کر کے السلام علیکم ورحمتہ اللہ دونوں طرف سلام پھیرتے ہی نمازختم ۔ اس عبارت کے بعد عامر بن سعد ﷺ کی روایت مسلم ج ١ ص ۲۱۶ سے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترمذی ج۱ ص ۳۹ نسائی ج۱ ص ۱۹۴ سے نقل کیں ہیں ۔ 

(۳) نماز مدلل ص ۱۳۲ میں لکھا ہے ، نماز کے آخری میں دائیں بائیں منہ پھیر کر سلام کہنا پھر مسلم ج1 ص ۲۱۶ مشکوۃ ص ۸۷ کے حوالہ سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث نکل کی ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی حدیث ابوداؤدج۱ص۱۵۰ مشکوۃ ص ۸۸ سے نقل کی ہے ۔

 (۴) مولانا ابوضیا عبداللہ ہزاروی حنفی اپنی کتاب صفہ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ ۱۸۳ پر لکھتے ہیں ۔ سلام ۔ جب نماز ختم ہو تو پہلے دائیں جانب السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہے اور پھر بائیں جانب کہہ کر نماز سے فارغ ہو جاۓ ۔ 

(۵) حکیم محمود احمد ظفر الكتاب المقبول في صلوۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ص ۴۲۲ پر لکھتے ہیں۔ نماز کا اختتام جب درود کے بعد دعا پڑھ لے تو دائیں جانب منہ پھیر کر کہے السلام علیکم ورحمتہ اللہ اور پھر بائیں جانب منہ پھیر کر کہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ اس طرح دونوں طرف منہ پھیر کر سلام پڑھنے سے نماز کا اختتام ہو گیا۔ پیر سیدنا علقمہ بن وائل کے حدیث ابوداؤد سے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی ترمذی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ان کے علاوہ کافی دلائل ذکر کئے ہیں آخر میں لکھتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر سلام پھیر کوئی شخص نماز سے الگ نہیں ہوسکتا۔ (الکتاب القبول ص ۴۲۳ )

(۲) مولانا محمد امان اللہ لکھتے ہیں نماز کا خاتمہ سلام پھیرنے کے ساتھ کرے ۔ ( دلائل السنية ص۸۰)

(۷) ڈاکٹرمحمودالحسن عارف نے نماز حبیب سلام میں ص ۹۵ تا ۹۸ تک نماز کے واجبات کا ذکر کیا ہے ۔ص ۹۸ نمبر ۱۲ پر لکھتے ہیں ۔نماز سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہ کر فارغ ہونا۔ پھر ص۱۰۹ پر لکھتے ہیں ۔ اور پھر دونوں طرف سلام پھیر دیں۔

(۸) مولانا ارشاداحمد فاروقی احکام و آداب طہار وضو اور نماز کے ص ۱۲۱ پر لکھتے ہیں ۔ (۸۷) لفظ سلام کا کہنا واجب ہے۔( کذافی المتون )

(۹) مولانا مفتی محمد ارشادالقاسمی صاحب لکھتے ہیں ۔

اور دائیں جانب اور بائیں جانب رخ کر کے دومرتبہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنا مطلب یہ ہے کہ دعا سے فارغ ہو کر پہلے دائیں جانب رخ کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے پھر اسی طرح بائیں جانب ۔

( نماز سنت کے مطابق پڑھیے ص ۱۱۵)

(۱۰) مولانا محمد الیاس گھمن صاحب نماز اہل السنۃ والجماعت ص ۹۵ پر لکھتے ہیں نماز کا اختتام سلام پر ہے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مسلم ج ۱ ص ۱۹۵ سے نقل کی ہے ۔ پھر لکھتے ہیں : الفاظ سلام ۔ سرخی کے بعد ترمذی ج ۱ ص ٦٥ شرح معانی الاثار ۱ ص ۱۹۰ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی ہے۔ 

(١١) علامہ بدرالدین عینی حنفی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج ۲ ص ۱۴۴ میں صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعین کے نام لکھے ہیں جن سے نماز کے آخر میں دو سلاموں کی احادیث مروی ہیں آپ فرماتے ہیں ۔ پس یہ بیس (۲۰) صحابہ سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ نمازی اپنی نماز کے آخر میں دوسلام کہے قارئین کرام ہم نے حنفی مسلک واضح کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں سلام کہہ کر نماز ختم کرنا واجب ہے راشدی صاحب نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اس پر ہمارا عمل ہے یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔(دیکھے مسلم ج ۱ ص ۱۹۵ باب ما یجمع صفة الصلوة ومايفتتح به ويختم به ) ۔ راشدی صاحب نے دھوکہ دیا کہ احناف کے مذہب میں سلام نہیں ہے۔اور حدیث میں سلام ہے۔ اب ضرورت تو نہیں ہے کہ ہم اس عبارت کا جواب دیں کیونکہ جو حنفی مذہب ہے وہ تو ہم نےلکھ دیا ہے ۔ مگر پھر بھی قارئین کی تسلی کے لیے کچھ وضاحت کرتے ہیں ۔ راشدی صاحب نے ہدایہ سے وہ مسئلہ نہیں لکھا جہاں پر سلام کا ذکر تھا۔ ہدایہ میں ہے ۔

ثم يسلم عن یمینہ فیقول السلام علیکم ورحمۃ اللہ وعن يساره مثل ذلك لماروى ابن مسعود رضي الله عنه إن النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم كان يسلم عن يمينه حتی یری بیاض خده الايمن وعن يستاره حتى يرى بياض خداه الايسر

پھر اپنی دائیں جانب سلام پھیرے اور السلام علیکم ورحمتہ کہے اور بائیں جانب بھی ایسا ہی کرے اس حدیث کی وجہ سے جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے مروی ہے کہ آپ ﷺ اپنی دائیں جانب سلام پھیرتے تھے تا کہ آپ کے دائیں رخسار کی سفیدی دیکھ لی جاتی تھی اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے حتی کہ بائیں رخسار کی سفیدی دیکھ لی جاتی تھی ۔ (احسن الہدایہ ترجمہ شرح اور بدایہ بلد ۲ ص ۷۳، ۷۴ باب صفتہ الصلاۃ ) قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا جس ہدایہ سے راشدی صاحب یہ مسئلہ نقل کر رہے ہیں اسی ہدایہ میں یہ مسئلہ بھی لکھا ہوا ہے۔ راشدی صاحب نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی ہے اللہ اسے معاف فرمائے ۔ راشدی صاحب نے ہدایہ کی جو عبارت نقل کی ہے وہ بھی پوری نقل نہیں کی شروع اور آخر کی عبارت چھوڑ دی ہے۔ جو کہ ایک صریح خیانت ہے۔ اس مقام پر صورت مسئلہ یہ ہے کہ صاحب ہدایہ نے دوصورتیں نقل کی ہیں اور دونوں کا حکم الگ الگ لکھا ہے ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کسی بے اختیار اور مجبور شخص سے مجبوری کے عالم میں ایسی بات سرزد ہو گئی جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے جو اسے نماز میں نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ پھر صاحب ہدایہ نے اس کی مثالیں دیں ہیں غیر مقلد ان مثالوں میں سے صرف ایک مثال کا ذکر کرتے ہیں باقیوں کا نہیں پھر دوسری صورت بتائی اور اس کا حکم بھی بتایا دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے آخری قعدہ میں تشہد مکمل پڑھ لیا اب اس کو درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیرنا تھا۔ مگر اس نے یہ نہیں کیا اور اس نے کسی وجہ سے یا بغیر وجہ کے بغیر سلام پھیرے نماز کوختم کر دیا۔ ایسی صورت میں اس شخص کی نماز کا کیا حکم ہے ۔ وہ نماز دوبارہ پڑھے گا یا نہیں اس کی یہ نماز ادا ہوئی یا اس کی ذمہ باقی ہے۔ یہ ہے صورت اصل مسئلے کی ۔ صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ کا جوحل پیش کیا ہے اس پر اعتراض ہے اگر راشدی صاحب زندہ ہوتے تو ہم ان سے عرض کرتے مگر وہ تو اب دنیا میں نہیں رہے ہم موجودہ غیر مقلدین سے کہتے ہیں کہ وہ ایسی صورت میں مسئلہ کا کیا حل بتاتے ہیں ۔ فقہاء کرام نے تو جوحدیث میں حکم تھا اس سے مسئلے کا حل بتاد یا۔مگر غیر مقلد نہ فقہاء کی مانتے ہیں اور نہ حدیث کی ۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ پہلے قرآن پاک سے خاص اس مسئلے کا حل بتائیں پھر سنت کی تین مشہور قسموں میں سے بتائیں کہ کس قسم ( قولی فعلی ۔ تقریری ) کی سنت سے ثابت ہے۔ اصل مسئلے کا خلاصہ ہم نے عرض کر دیا ہے۔ اب آپ کو ہدایہ کی عبارت سمجھنی آسان ہو جائے گی ۔ ملاحظہ فرمائیں ہدایہ کی کمل عبارت ۔

وإن سبقه الحدث بعد التشهد توضا وسلم

اور اگر حدث لاحق ہو گیا تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد تو وضو کرے گا اور سلام کرے گا۔

تشریح : تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد بخودحدث ہو گیا تو تشہد کی مقدار بیٹھنا آ خری فرض تھا جو پورا ہو گیا لیکن ابھی سلام کرنا جو واجب ہے وہ باقی ہے اس لیے اس کو دوبارہ وضو کر کے نماز پر نباء کرنا

چاہئے اور سلام کرنا چاہیے ۔

لان التسليم واجب فلابد من التوضی لیاتی به" اس لیے کہ سلام واجب ہے اس لیے وضو کر نا ضروری ہے تا کہ سلام پھیر سکے۔ تشریح: تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد خود بخودحدیث ہو گیا تو نماز ابھی منقطع نہیں ہوئی ہے اس لیے اس پر نباءکرسکتا ہے اور سلام جو واجب ہے وہ باقی ہے اس لئے وضوکر کے نباءکرے اور اسلام پھیرے۔

 نوٹ : یہ پہلی صورت کامل ہے ۔ جو صاحب ہدایہ نے نقل کیا۔

جس کا خلاصہ یہ ہے ۔ کہ ایسا مجبور شخص دوبارہ وضوکر کے وہاں سے دوبارہ نماز شروع کرے جہاں سے چھوڑی تھی اور اپنی بقایا نماز کومکمل کرے اور اپنے نماز کے واجبات کو پورا کرے جو اس کے ذمہ ہے یعنی سلام پھیر کر نمازختم کرے۔ اب آ گے دوسری صورت کامل بتارے ہیں ۔

وإن تعمد الحدث في هذه الحالة او تكلم او عمل عملاينا في الصلاة تمت صلاتہ اور اگر اس حالت میں ( بعد التشہد ) نمازی نے جان بوجھ کر حدیث کردیا یا اس نے بات کی یا کوئی منافی نمازعمل کرلیا تو اس کی نماز پوری ہو جاۓ گی۔ 

نوٹ : اس عبارت پر راشدی صاحب کو اعتراض ہے جو اس نے اپنی کتاب ص ۱۴۴ پر نقل کیا ہے۔

تشریح : اوپر والے اور اس مسئلے میں فرق یہ ہے کہ اوپر خود بخود حدث ہوا تھا اس لئے پہلی نماز پرنباء کرسکتا تھا اس لئے وضو کر کے نباء کرے گا اور سلام پھیرے گا اور اس مسئلے میں یہ ہے کہ نمازی نے جان بوجھ کر حدث کیا ہے اس لیے اس کی اس غلط حرکت کی وجہ سے اس کی نماز ٹوٹ گئی ۔ اس لیے اب وہ نبا نہیں کر سکتا اور وضو کر کے سلام نہیں پھیر سکتا ۔ اور چونکہ صرف اس کے ذمہ سلام واجب ہے اس لیے یوں کہا جائے گا کہ نقص کے ساتھ نماز پوری ہو گئی لیکن یہ شخص بالقصد ایسا کرنے پر گہنگار ہو گا کیونکہ اس نے نماز جیسی شان والی عبادت کو اس کے مخصوص طریقہ کے خلاف ختم کیا اور سلام جو واجب تھا اس کا بھی بالقصد ترک کیا۔لہذا یہ نماز مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہوگی ۔ ہدایہ میں تمت صلاتہ کا جو ذکر ہے وہ فرضیت کی تمامیت کا ذکر ہے۔ کہ اس شخص کے ذمہ نماز کے فرضوں میں سے کوئی فرض باقی نہیں ہے۔ لیکن ترک واجب کی وجہ سے وجوب کی تمامیت باقی رہ گئی ہے ۔ جس کی تکمیل بلا اعادہ نماز ممکن نہ ہوگی ۔ اور گناہ جو ہوگا وہ الگ ہے ۔ 

( فتاوی شامی ج ۱ ص ۱۴۵) 

یہ ہے حنفی مسلک ہمارا یہ مسئلہ نہ قرآن کے خلاف ہے اور نہ حدیث کے اگر غیر مقلد اس کو قرآن کے خلاف کہتے ہیں تو قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش فرمائیں جس میں یہ مسئلہ ہو۔ اگر حدیث کے خلاف کہتے ہیں تو حدیث پیش فرمائیں ۔ اس مسئلہ میں جہاں تک احادیث کا تعلق ہے وہ احناف کی تائید کرتی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ 

حدیث نمبر١:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب امام نماز پوری کر لے اور قعدہ اخیرہ میں بیٹھ جاۓ پھر حدث کر دے قبل اس کے کہ کلام کرے تو اس کی نماز مکمل ہوگئی اور اس شخص کی بھی نماز مکمل ہوگئی جس نے اس کے پیچھے پوری نماز پڑھی ۔

(ابوداؤد ج ۱ ص ۱۰۷ باب الامام يحدث بعد ما يرفع راسه من اخرركة ترمذى مترجم ج ١، ص ۱۸۵ باب ما جاء في الرجل يحدث بعد التشهد (دار قطنی مترجم ج ۴ص۵۴۵ باب من احدث قبل التسليم في اخر صلوته او احدث قبل تسليم الامام فقد تمت صلوته ) 

اس حدیث میں امام کے حدث کر دینے ( بالقصد وضوتوڑ دینے پر امام اور مقتدیوں کی نماز کے تمام ہونے کا حکم بیان کیا گیا ہے حالانکہ امام لفظ سلام سے سلام پھیر کر نماز سے نہیں نکلا معلوم ہوا کہ لفظ سلام فرض نہیں جبکہ خروج بصنعہ فرض ہے ۔

خروج بصنعہ کا مطلب یہ ہے کہ نمازی ’قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد کسی اپنے فعل کے ذریعے قصدانماز سے نکلے۔ یہ ارادۃ اور قصدانکلنا امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے۔اور سلام کے ذریعہ نکلنا یہ واجب ہے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ متعدد احادیث میں مقدار تشہد کے بعد بغیر سلام کسی اور طریقے سے بھی نماز سے نکلنے پر نماز کی تمامیت کا حکم لگایا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گذرا۔

تشہد کے بعد نماز کے فرائض کا پورا ہونا 

حدیث نمبر ۲:

قاسم بن مغیمرہ سے روایت ہے کہ عقلمہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میر اہاتھ پکڑا اور کہا رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو تشہد پڑھنا سکھایا بعد اس کے فرمایا جب تو یہ پڑھ چکا ( یعنی تشہد ) تو تیری نماز پوری ہوگئی ۔اب چاہیے اٹھ کھڑا ہو اور چاہے بیٹھا رہ

(ابو داؤدمترجم جلد ١ ص ۷۲ ۳ باب التشحد طحاوی ج ١ ص ۱۸۹ مسند احمد ج ۱ ص ۴۲۲)

حدیث نمبر ۳:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں تشہد سے فارغ ہوتے تھے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص جان بوجھ کر بے وضو ہو جاۓ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد تو اس کی نماز مکمل ہوگئی۔ (امام ابونعیم اصفہانی حلیۃ الاولیاء ج ۵ ص ۱۷۷)

حدیث نمبر ۴:

حضرت عطاء بن ابی رباح رحمة اللہ علیہ سے بھی اس مفہوم کی روایت حلیۃ الاولیاء میں موجود ہے۔

(حلیۃ الاولیاء ج ۵ ص ۱۱۷)

حدیث نمبر ۵:

حضرت حکم اور حماد سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص تشہد پڑھتا ہے یا تشہد کی مقدار تک بیٹھتاہے تو اس کی نماز مکمل ہو جاتی ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۴۹۰)

اگر کسی کو اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل دیکھنا ہو تو ملاں علی قاری حنفی صاحب مرقات شرح کا رسالہ تشیع الفقہاءالحنفیہ اور علامہ عبدالحی لکھنوی کا حاشیہ عدة الرعایة شرح وقایہ کاص ۱۱۵ دیکھ لیں

 غیر مقلدین کا مذہب:

علامہ وحید الزماں غیر مقلد کنز الحقائق ص ۲۴ میں لکھتے ہیں ۔ کہ اگر ایک شخص نے نماز پڑھی اور سلام کے بعد اعلان کیا کہ میں نے نماز بے وضو پڑھائی ہے تو نماز ہوگئی لوٹانے کے ضرورت نہیں نواب سید صدیق حسن خاں نے غیر مقلد ہونے کے باوجوداپنی کتاب کشف الاقتباس اس اعتراض کا رد کیا ہے جو دیکھنا چاہئے دیکھ لے۔ قارئین آپ راشدی صاحب کے علم اور تعصب کا اندازہ کریں کہ ہوا نکالنے کو سلام کے قائم مقام سجھتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...