اعتراض نمبر : ٨٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله: ریشمی کپڑے کا استعمال کسی طور جائز نہیں ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن حذيفة قال نهانا رسول اللہ ﷺ عن لبس الحريروالديباج و ان نجلس علیہ۔
( ترجمہ ) سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشم اور دیباج کالباس پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔
(بخاري ج٢ كتاب اللباس بابافتراش الحرير واللفظ له صفحه۸٦۸، رقم الحدیث، ۵۸۳٧)
اور ابوداؤد میں ہے:'
لاتركبوا الخز
(ترجمہ ) ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ریشم کے کپڑے پر نہ بیٹھو۔
(کتاب اللباس في جلود النمور كتاب اللباس صفحہ ۲۱۹ عن معاویہ رقم الهدیث ۴۱۲۹)
فقه حنفى
ولابأس بتوسدة والنوم عليه عند ابي حنيفة
(هدایہ آخیرین ج٤ کتاب الاکراهیہ فصل في اللبس صفحه۴٥٦) ( ترجمہ ) ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ریشمی تکیہ پرٹیک لگانے اور ریشمی بستر پر سونے میں کوئی حرج نہیں۔ ( فقه و حدیث ۱۲۴)
جواب:
فقہ حنفی میں مردوں کے لیے ریشم حرام ہے راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے احناف کا اس پر عمل ہے ہدایہ کی عبارت اگر راشدی صاحب مکمل نقل کر دیتے تو مسئلہ صاف ہو جا تا امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور صاحبین کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔حنفی مذہب میں فتوی صاحبین کے قول پر ہے راشدی صاحب نے ہدایہ کی مکمل عبارت نقل نہیں کی شروع کی اور آخر کی عبارت چھوڑ دی ہے اور درمیاں سے عبارت کا کچھ حصہ نقل کر دیا ہے آپ پہلے ہدایہ کی تکمل عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں فصل فی اللبس ۔ یہ فصل کپڑا پہنے کے احکام کے بیان میں ہے۔ امام قدوری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حلال نہیں ہے۔ البتہ عورتوں کے لیے حلال ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے ریشم اور دیباج کے پہننے سے منع فرمایا ہے اور یوں فرمایا کہ انہیں وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایک دوسری حدیث کی رو سے ریشم صرف عورتوں کے لیے حلال ہے اور وہ حدیث چند صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے جن میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہرتشریف لائے اور آپ کے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا تھا آپ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ریشم کا تکیہ لگانے اور اس پر سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
راشدی صاحب نے امام صاحب سے لیکر کوئی حرج نہیں تک عبارت لکھی ہے۔ اس عبارت کے آ گے آ تا ہے
وقالا يكره وفي الجامع الصغير ذكر قول محمد وحده ولم یز کر قول ابی يوسف و انما ذكره القدوري وغيره من المشايخ رحمهم الله اجمعین۔ حضرت صاحبین رحمهم اللہ فرماتے ہیں کہ مکروہ ہے جامع صغیر میں صرف امام محمد کا قول مذکور ہے امام ابوسف رحمۃاللہ علیہ کے قول کا تذکرہ نہیں ہے ان کا قول امام قدوری اور دیگر مشائخ نے بیان کیا ہے۔ ہم نے ہدایہ کی مکمل عبارت نقل کر دی ہے جس میں واضح طور پر مردوں پر ریشم حرام ہونے کا ذکر موجود ہے باقی رہا ریشم کے تکیہ کا مسئلہ اس میں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہے صاحبین تکیہ کے استعمال اور اس پر سونے کو بھی مکروہ فرمارہے ہیں اور احناف کا مذہب صاحبین والا ہے۔ ہدایہ کی مکمل عبارت ملاحظہ کرنے کے بعد مسئلہ واضح ہو گیا کہ حنفی مسلک حدیث کے خلاف نہیں ہے اب مزید وضاحت کی ضرورت تو نہیں مگر ہم عوام کے لیے نقل کر رہے ہیں ۔
امام صاحب جو تکیہ کے جواز کے قائل تھے ان کے پاس بھی دلائل موجود ہیں ۔ مگر احناف کامذہب بالکل منع کا ہے۔
( فقہ حنفی کی کتاب تبین الحقائح شرح کنز الدفائق مراد ہے ۔ ) ( کنز الدقائق )
(1) مولانا محمد حنیف گنگوہی لکھتے ہیں حقائق میں ہے کہ ہمارے اکثر مشائخ نے قول صاحبین کولیا ہے اس لیے کہ راشد کا اثر مذکور صحیح بھی ہو تب بھی یہ حدیث حذیفہ سے معارض ہے کہ : حضور علیہ سلام نےحریر پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے: اس کی صحت اعلی درجہ پر ہے تو ایسی صورت میں ارشاد نبوی کے علاوہ کسی کا قول وفعل نہیں لیا جاۓ گا۔
( طلوع النير بن شرح اردو ہداید آخیرین ج ۲ ص ۲۸-۲۹)
(۲) درمختار میں ہے:
يحرم لبس الحرير ولو بحائل بينه وبين بدنه على المذهب الصحیح صحیح مذہب میں ریشم کا مرد کے لیے پہننا حرام ہے خواہ کپڑے پر ہی کیوں نہ ہو۔
(۳) علامہ شامی فرماتے ہیں:
انه مخالف لها في المتون الموضوعة لنقل المذهب فلا يجوز العمل والفتوى به
یہ روایت متون معتبرہ کے خلاف ہے جو کہ (امام اعظم کے مذہب کی نقل کے لیے وضع کئے گئے ہیں تو اس پر عمل اور فتوی جائز نہیں۔
(۴) نواب قطلب الدین محدث دہلوی حنفی ( مظاہر حق شرح مشکوۃ ج ۴ ص ۱۶۵ میں ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
تشریح: سونے چاندی کے برتنوں وغیرہ میں کھانے پینے اور ریشمی کپڑے پہننے کے بارےمیں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ ریشمی کپڑے کا استعمال جس طرح مردوں کے لیے حرام ہے اسی طرح اس کو بچوں کو بھی پہنانا حرام ہے اور پہنانے والوں کو گناہ ہوتا ہے ۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ یہ کہتے ہیں کہ ریشمی کپڑے کو بچھونے میں استعمال کرنا اور اس پر سونا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا
اسی طرح اگر تکیہ کے غلاف اور پردے ریشمی کپڑے کے ہوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جب که حضرت امام ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ اور حضرت امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے ان سب کو مکروہ کہا ہے حاصل یہ ہے کہ ان
( حدیث میں مردوں کے لیے ریشمی کپڑے پہننے اور ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی جو ممانعت منقول ہے اس میں پہنے کی ممانعت تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک تحریم پر محمول ہے لیکن ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ) ممانعت صاحبین رحمهم اللہ کے نزدیک تو تحریم ہی پر محمول ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک تزیہ پر محمول ہے کیونکہ ابھی اوپران کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ ریشمی کپڑے کو بچھونے وغیرہ میں استعمال کرنے کے مسئلہ میں یہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں میں ریشمی کپڑے کا استعمال بہر حال احتیاط وتقوی کے خلاف ہے۔ کیوں کہ کسی عمل کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے کرنے میں ’’ کوئی مضائقہ نہیں ہے اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ ہونے کے شک سے بچنے کے لیے اس عمل کو نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ پرہیز گار و متقی شخص اس کو کہتے ہیں جو اس کام کو بھی چھوڑ دے جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہو کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس خوف کے سبب کہ شاید اس میں کوئی مضائقہ ہو اور یہ ہی معنی اس مشہور حدیث کے بھی ہیں ۔ دع ماير بيك الى ما يريبك يعنی اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کام کو اختیار کروجس میں شک نہ ہو۔ بہر حال حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کو چونکہ ایسی کوئی دلیل قطعی حاصل نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر ریشمی کپڑے پر بیٹھنے یا سونے کو حرام قرار دیا جا سکے اور کپڑے پہننے کی ممانعت میں جو صریح نصوص ( یعنی اس کی حرمت کے واضح احکام ) منقول ہیں ان کے دائرہ حکم میں ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کا مسئلہ نہیں آ تا۔ کیونکہ پہنا اور بیٹھنا دو الگ الگ چیز میں ہیں کہ پہنے کا اطلاق بیٹھنے پر نہیں ہوسکتا اس لیے انہوں نے اس حدیث میں ( ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ممانعت کونہی تنزیہ پر محمول کیا ہے ۔
(۵) مولانا محمد منظور نعمانی حنفی معارف الحدیث جلد نمبر ۶ ص ۲۹۲ میں لکھتے ہیں ۔
مردوں کے لیے وہ کپڑ احرام وناجائز ہے جو خالص ریشم سے بنایا گیا ہو یا اس میں ریشم غالب ہو۔
(٦) موطا امام محمد مترجم ص ۴۷۲ تا ۷۵ ۴ باب ما يكره من لبس الحرير والدیباج میں ہے۔ امام محمد رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کسی مسلمان مرد کے لیے روانہیں کہ وہ ریشم ، ریشمی کپڑا یا سونا پہنے۔ یہ تمام چیز میں چھوٹے بڑے مردوں کے لیے ناجائز ہیں عورتوں کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح حربی مشرک کو بطور تحفہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ہتھیار یا زرہ دینا جائز نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے ۔
(۷) مولانا حبیب اللہ مختار حنفی نے المختار شرح کتاب الآثار کے مختلف مقام پر مردوں کے لیے ریشم کا استعمال ناجائز لکھا ہے۔ دیکھئے ص ۲۰۸ ص۲۰۹۔۲۱۰ وغیرہ ۔ صفحہ ۱۱ پر لکھتے ہیں بچوں کوسونا چاندی یا ریشم پہنانامکروہ ہے اس لیے کہ جب مردوں کے لیے اس کا پہننا منع ہے تو اس کا پہنانا بھی منع ہے ۔ جیسے شراب پینا پلا نا دونوں حرام ہیں بچہ غیر مکلف ہے اسے پہنانے والے کو گناہ ہوگا۔
قارئین کرام حوالے تو بہت ہیں مگر ہم یہاں پر ختم کرتے ہیں امید ہے کہ آپ کو مسئلہ سمجھ آ گیا ہوگا اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے تکیہ استعمال کرنے اور بیٹھنے کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کی تفصیل قاضی خان کے حوالہ سے مظاہر حق میں گذر چکی ہے۔ کہ امام صاحب کے نزدیک بھی ان دونوں چیزوں کا استعمال بہتر نہیں ہے۔ آپ صرف ان کے استعمال کو قطعی حرام نہیں کہتے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں ملاحظہ فرمائیں بعض احادیث
مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کا حکم:
حدیث نمبر ١ :
مشکوۃ شریف میں حدیث موجود ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص دوسرخ کپڑے پہنے ہوئے گزرا اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہ حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مردکو سرخ کپڑا پہننا جائز نہیں ۔اب آپ اس کے معارض یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبر ۲:
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے غلام کا نام عبداللہ تھا ، وہ عطاء کے لڑکے کے ماموں تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے مجھے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام کہتے ہیں ۔ کپڑوں کے نقش و نگار کو سرخ گردوں کو اور ماہ رجب کے تمام روزے رکھنے کو ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا آپ نے جو رجب کے متعلق ذکر کیا ہے تو جوشخص دائمی روزے رکھتا ہو ( وہ رجب کے روزوں کو حرام کیسے کہہ سکتا ہے باقی رہا کپڑں کے نقش و نگار کا مسئلہ تو بات یہ ہے کہ میں نے حضرت عمر نے سے یہ سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریشم کو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور مجھے یہ خدشہ تھا ک نقش و نگار بھی شاید ریشم سے بناۓ جاتے ہیں ۔ رہا سرخ گدا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گدا بھی سرخ رنگ کا ہے۔ راوی کہتے ہیں میں یہ جوابات لے کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کےپاس گیا اور ان کو وہ جوابات بتلاۓ ، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے انہوں نے ایک طیاسی کسروانی جبہ نکالا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے نقش و نگار ہے ہوۓ تھے حضرت اسماء نے کہا یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو پھر میں نے اس پر قبضہ کر لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس جبہ کو پہنتے تھے ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا ءطلب کر تے ہیں ۔ ( مسلم شریف کتاب اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال )
اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوتیں ۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ سلام کا ایک کسروانی جبہ تھا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے۔اس حدیث سے فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ کپڑے پر چارانگل ریشم کا کام بنوانا جائز ہے۔
(۲) سرخ رنگ کے گدے کا استعمال جائز ہے۔ ہمارا استدلال اصل میں اس بات سے ہے کہ پہلے جو حدیث نقل کی اس میں سرخ رنگ کے کپڑے مردوں کو پہنا درست نہیں تھا مگر اس مسلم کی حدیث سے سرخ رنگ کے گدے کا استعمال کرنا جائز ثابت ہورہا ہے ۔ اسی طرح ریشم کے کپڑے حرام اور تکیہ کا استعمال مباح ہوسکتا ہے۔
(۳) اس حدیث سے بزرگوں کے تبرکات کا ثبوت بھی ہو رہا ہے۔اور ان سے بیماروں کو شفاء بھی ہوتی ہے یہ شرک نہیں ۔
(۴) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی کپڑے پر اگر تھوڑی مقدار میں ریشم لگا ہو تو جائز ہے شریعت میں صرف خالص ریشم کا کپڑا بنا ہوا پہنا حرام ہے۔ ہاں اگر کسی کپڑا پر ریشم لگا ہو۔ اور ہو بھی تھوڑی مقدار میں تو وہ کپڑا استعمال کرنا جائز ہے۔ کیونکہ وہ بالتبع ہوا۔
حدیث نمبر ۳:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو ایک سفر میں ریشم پہننے کی اجازت دی کیونکہ ان کو خارش یا کوئی اور
تکالیف لاحق ہوگئی تھی ۔
مسلم کتاب اللباس والزینتہ
حدیث نمبر ۴:
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوؤں کی شکایت کی تو آپ نے ان کو جنگ کے دنوں میں ریشم پہننے کی اجازت دے دی۔
( مسلم کتاب اللباس والزينة )
حدیث نمبر ۵:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوریشم کی ایک قبا ہدیہ میں دی گئی آپ نے اس کو پہن کر نماز پڑھی پھر کر اہت کے ساتھ اس کو زور سے کھینچ کر اتارا پھر فرمایا کہ یہ متقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے
( مسلم کتاب اللباس والزينة )
حدیث نمبر ۲:
ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ جس وقت ہم آزر بایجان میں تھے حضرت عمر نے ہمیں لکھا اے عتبہ بن فرقد تمہارے پاس جو مال ہے اس میں تمہاری کوشش کا دخل ہے نہ تمہارے باپ کی کوشش کا دخل ہے نہ تمہاری ماں کی کوشش کا دخل ہے سومسلمانوں کو ان کے گھروں پر ان چیزوں سے پیٹ بھر کر کھلاؤ جن سے تم اپنے گھر پر پیٹ بھر کر کھاتے ہو اور تم عیش وعشرت مشرکین کے لباس ، اور ریشم پہننے سے بچتے رہنا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے۔ مگر ریشم کی اتنی مقدار جائز ہے یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی دو انگلیاں درمیانی انگلی اور انگشت شہادت ملاکر بلند فرمائیں زہیر نے بھی اپنی انگلیاں بلند کیں ۔ ( مسلم )
حدیث نمبر٧:
ابوعثمان کہتے ہیں ہم عتبہ بن فرقد کے ساتھ تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ مکتوب آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ریشم کوصرف وہی شخص پہنے گا جس کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ البتہ ریشم کی اتنی مقدار جائز ہے۔
ابوعثمان نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا پھر جب میں نے طیالسہ کی چادر کو دیکھا تو ان انگلیوں کو طیالسی کی چادر میں دیکھا۔ ( مسلم )
حدیث نمبر 9:
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر کا مکتوب آ یا دراں حالیکہ اس وقت ہم آزربائیجان میں عتبہ بن فرقد کے پاس تھے یا شام میں تھے ۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع کیا ہے لیکن دو انگلیوں کی مقدار کا استثناء کیا ہے ابوعثمان نے کہا ہم نے اس سے نقش ونگار سمجھے۔
( مسلم کتاب الالباس والزينة )
حدیث نمبر ١٠:
حضرت سوید بن غفلہ نے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے جابیہ میں خطبہ دیتے ہوۓ فرمایا نبی ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے البتہ دو یا تین یا چارانگلیوں کا استثناءفرمایا ہے۔
( مسلم کتاب اللباس والزينة )
ان روایات میں نقش و نگار کے لیے چار انگلیوں تک ریشم لگانے کی مردکو اجازت مل گئی ہے۔ اور آپ ﷺ کے جبہ کو بھی لگا ہوا تھا۔ حرام اور نا جائز ہونے کے باوجودچارانگلیوں کی مقدار کپڑے پر لگا کپڑا استعمال کرنے کی اجازت شریعت میں موجود ہے ۔ امام صاحب کے خیال میں یہ چار انگلیاں کی اجازت بھی بالتبع ہوئی ہے ویسے نہیں آپ کے نزدیک کسی نہ کسی صورت میں ریشم بالتبع کا استعمال کرنے کا جواز ان روایات سے ثابت ہوتا ہے اور تکیہ اور گدا بھی بالتبع ہی میں شامل ہے کیونکہ شخص ریشم کو براہ راست پہن نہیں رہا۔ جب کے اس کی تجارت جائز ہے ۔ اگر دوسرے کو تحفہ اور ہدیہ دینا جائز ہے مشرک کو دینا جائز ہے۔ بیماری اعتراض نمبر : ٨٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله: ریشمی کپڑے کا استعمال کسی طور جائز نہیں ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن حذيفة قال نهانا رسول اللہ ﷺ عن لبس الحريروالديباج و ان نجلس علیہ۔
( ترجمہ ) سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشم اور دیباج کالباس پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔
(بخاري ج٢ كتاب اللباس بابافتراش الحرير واللفظ له صفحه۸٦۸، رقم الحدیث، ۵۸۳٧)
اور ابوداؤد میں ہے:'
لاتركبوا الخز
(ترجمہ ) ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ریشم کے کپڑے پر نہ بیٹھو۔
(کتاب اللباس في جلود النمور كتاب اللباس صفحہ ۲۱۹ عن معاویہ رقم الهدیث ۴۱۲۹)
فقه حنفى
ولابأس بتوسدة والنوم عليه عند ابي حنيفة
(هدایہ آخیرین ج٤ کتاب الاکراهیہ فصل في اللبس صفحه۴٥٦) ( ترجمہ ) ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ریشمی تکیہ پرٹیک لگانے اور ریشمی بستر پر سونے میں کوئی حرج نہیں۔ ( فقه و حدیث ۱۲۴)
جواب:
فقہ حنفی میں مردوں کے لیے ریشم حرام ہے راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے احناف کا اس پر عمل ہے ہدایہ کی عبارت اگر راشدی صاحب مکمل نقل کر دیتے تو مسئلہ صاف ہو جا تا امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور صاحبین کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔حنفی مذہب میں فتوی صاحبین کے قول پر ہے راشدی صاحب نے ہدایہ کی مکمل عبارت نقل نہیں کی شروع کی اور آخر کی عبارت چھوڑ دی ہے اور درمیاں سے عبارت کا کچھ حصہ نقل کر دیا ہے آپ پہلے ہدایہ کی تکمل عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں فصل فی اللبس ۔ یہ فصل کپڑا پہنے کے احکام کے بیان میں ہے۔ امام قدوری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حلال نہیں ہے۔ البتہ عورتوں کے لیے حلال ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے ریشم اور دیباج کے پہننے سے منع فرمایا ہے اور یوں فرمایا کہ انہیں وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایک دوسری حدیث کی رو سے ریشم صرف عورتوں کے لیے حلال ہے اور وہ حدیث چند صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے جن میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہرتشریف لائے اور آپ کے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا تھا آپ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ریشم کا تکیہ لگانے اور اس پر سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
راشدی صاحب نے امام صاحب سے لیکر کوئی حرج نہیں تک عبارت لکھی ہے۔ اس عبارت کے آ گے آ تا ہے
وقالا يكره وفي الجامع الصغير ذكر قول محمد وحده ولم یز کر قول ابی يوسف و انما ذكره القدوري وغيره من المشايخ رحمهم الله اجمعین۔ حضرت صاحبین رحمهم اللہ فرماتے ہیں کہ مکروہ ہے جامع صغیر میں صرف امام محمد کا قول مذکور ہے امام ابوسف رحمۃاللہ علیہ کے قول کا تذکرہ نہیں ہے ان کا قول امام قدوری اور دیگر مشائخ نے بیان کیا ہے۔ ہم نے ہدایہ کی مکمل عبارت نقل کر دی ہے جس میں واضح طور پر مردوں پر ریشم حرام ہونے کا ذکر موجود ہے باقی رہا ریشم کے تکیہ کا مسئلہ اس میں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہے صاحبین تکیہ کے استعمال اور اس پر سونے کو بھی مکروہ فرمارہے ہیں اور احناف کا مذہب صاحبین والا ہے۔ ہدایہ کی مکمل عبارت ملاحظہ کرنے کے بعد مسئلہ واضح ہو گیا کہ حنفی مسلک حدیث کے خلاف نہیں ہے اب مزید وضاحت کی ضرورت تو نہیں مگر ہم عوام کے لیے نقل کر رہے ہیں ۔
امام صاحب جو تکیہ کے جواز کے قائل تھے ان کے پاس بھی دلائل موجود ہیں ۔ مگر احناف کامذہب بالکل منع کا ہے۔
( فقہ حنفی کی کتاب تبین الحقائح شرح کنز الدفائق مراد ہے ۔ ) ( کنز الدقائق )
(1) مولانا محمد حنیف گنگوہی لکھتے ہیں حقائق میں ہے کہ ہمارے اکثر مشائخ نے قول صاحبین کولیا ہے اس لیے کہ راشد کا اثر مذکور صحیح بھی ہو تب بھی یہ حدیث حذیفہ سے معارض ہے کہ : حضور علیہ سلام نےحریر پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے: اس کی صحت اعلی درجہ پر ہے تو ایسی صورت میں ارشاد نبوی کے علاوہ کسی کا قول وفعل نہیں لیا جاۓ گا۔
( طلوع النير بن شرح اردو ہداید آخیرین ج ۲ ص ۲۸-۲۹)
(۲) درمختار میں ہے:
يحرم لبس الحرير ولو بحائل بينه وبين بدنه على المذهب الصحیح صحیح مذہب میں ریشم کا مرد کے لیے پہننا حرام ہے خواہ کپڑے پر ہی کیوں نہ ہو۔
(۳) علامہ شامی فرماتے ہیں:
انه مخالف لها في المتون الموضوعة لنقل المذهب فلا يجوز العمل والفتوى به
یہ روایت متون معتبرہ کے خلاف ہے جو کہ (امام اعظم کے مذہب کی نقل کے لیے وضع کئے گئے ہیں تو اس پر عمل اور فتوی جائز نہیں۔
(۴) نواب قطلب الدین محدث دہلوی حنفی ( مظاہر حق شرح مشکوۃ ج ۴ ص ۱۶۵ میں ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
تشریح: سونے چاندی کے برتنوں وغیرہ میں کھانے پینے اور ریشمی کپڑے پہننے کے بارےمیں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ ریشمی کپڑے کا استعمال جس طرح مردوں کے لیے حرام ہے اسی طرح اس کو بچوں کو بھی پہنانا حرام ہے اور پہنانے والوں کو گناہ ہوتا ہے ۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ یہ کہتے ہیں کہ ریشمی کپڑے کو بچھونے میں استعمال کرنا اور اس پر سونا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا
اسی طرح اگر تکیہ کے غلاف اور پردے ریشمی کپڑے کے ہوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جب که حضرت امام ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ اور حضرت امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے ان سب کو مکروہ کہا ہے حاصل یہ ہے کہ ان
( حدیث میں مردوں کے لیے ریشمی کپڑے پہننے اور ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی جو ممانعت منقول ہے اس میں پہنے کی ممانعت تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک تحریم پر محمول ہے لیکن ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ) ممانعت صاحبین رحمهم اللہ کے نزدیک تو تحریم ہی پر محمول ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک تزیہ پر محمول ہے کیونکہ ابھی اوپران کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ ریشمی کپڑے کو بچھونے وغیرہ میں استعمال کرنے کے مسئلہ میں یہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں میں ریشمی کپڑے کا استعمال بہر حال احتیاط وتقوی کے خلاف ہے۔ کیوں کہ کسی عمل کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے کرنے میں ’’ کوئی مضائقہ نہیں ہے اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ ہونے کے شک سے بچنے کے لیے اس عمل کو نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ پرہیز گار و متقی شخص اس کو کہتے ہیں جو اس کام کو بھی چھوڑ دے جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہو کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس خوف کے سبب کہ شاید اس میں کوئی مضائقہ ہو اور یہ ہی معنی اس مشہور حدیث کے بھی ہیں ۔ دع ماير بيك الى ما يريبك يعنی اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کام کو اختیار کروجس میں شک نہ ہو۔ بہر حال حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کو چونکہ ایسی کوئی دلیل قطعی حاصل نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر ریشمی کپڑے پر بیٹھنے یا سونے کو حرام قرار دیا جا سکے اور کپڑے پہننے کی ممانعت میں جو صریح نصوص ( یعنی اس کی حرمت کے واضح احکام ) منقول ہیں ان کے دائرہ حکم میں ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کا مسئلہ نہیں آ تا۔ کیونکہ پہنا اور بیٹھنا دو الگ الگ چیز میں ہیں کہ پہنے کا اطلاق بیٹھنے پر نہیں ہوسکتا اس لیے انہوں نے اس حدیث میں ( ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ممانعت کونہی تنزیہ پر محمول کیا ہے ۔
(۵) مولانا محمد منظور نعمانی حنفی معارف الحدیث جلد نمبر ۶ ص ۲۹۲ میں لکھتے ہیں ۔
مردوں کے لیے وہ کپڑ احرام وناجائز ہے جو خالص ریشم سے بنایا گیا ہو یا اس میں ریشم غالب ہو۔
(٦) موطا امام محمد مترجم ص ۴۷۲ تا ۷۵ ۴ باب ما يكره من لبس الحرير والدیباج میں ہے۔ امام محمد رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کسی مسلمان مرد کے لیے روانہیں کہ وہ ریشم ، ریشمی کپڑا یا سونا پہنے۔ یہ تمام چیز میں چھوٹے بڑے مردوں کے لیے ناجائز ہیں عورتوں کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح حربی مشرک کو بطور تحفہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ہتھیار یا زرہ دینا جائز نہیں۔ یہی امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے ۔
(۷) مولانا حبیب اللہ مختار حنفی نے المختار شرح کتاب الآثار کے مختلف مقام پر مردوں کے لیے ریشم کا استعمال ناجائز لکھا ہے۔ دیکھئے ص ۲۰۸ ص۲۰۹۔۲۱۰ وغیرہ ۔ صفحہ ۱۱ پر لکھتے ہیں بچوں کوسونا چاندی یا ریشم پہنانامکروہ ہے اس لیے کہ جب مردوں کے لیے اس کا پہننا منع ہے تو اس کا پہنانا بھی منع ہے ۔ جیسے شراب پینا پلا نا دونوں حرام ہیں بچہ غیر مکلف ہے اسے پہنانے والے کو گناہ ہوگا۔
قارئین کرام حوالے تو بہت ہیں مگر ہم یہاں پر ختم کرتے ہیں امید ہے کہ آپ کو مسئلہ سمجھ آ گیا ہوگا اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے تکیہ استعمال کرنے اور بیٹھنے کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کی تفصیل قاضی خان کے حوالہ سے مظاہر حق میں گذر چکی ہے۔ کہ امام صاحب کے نزدیک بھی ان دونوں چیزوں کا استعمال بہتر نہیں ہے۔ آپ صرف ان کے استعمال کو قطعی حرام نہیں کہتے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں ملاحظہ فرمائیں بعض احادیث
مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کا حکم:
حدیث نمبر ١ :
مشکوۃ شریف میں حدیث موجود ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر والے کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص دوسرخ کپڑے پہنے ہوئے گزرا اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہ حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مردکو سرخ کپڑا پہننا جائز نہیں ۔اب آپ اس کے معارض یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبر ۲:
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق کے غلام کا نام عبداللہ تھا ، وہ عطاء کے لڑکے کے ماموں تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے مجھے حضرت عبداللہ بن عمر لینڈ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام کہتے ہیں ۔ کپڑوں کے نقش و نگار کو سرخ گردوں کو اور ماہ رجب کے تمام روزے رکھنے کو ،حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا آپ نے جو رجب کے متعلق ذکر کیا ہے تو جوشخص دائی روزے رکھتا ہو ( وہ رجب کے روزوں کو حرام کیسے کہہ سکتا ہے باقی رہا کپڑں کے نقش و نگار کا مسئلہ تو بات یہ ہے کہ میں نے حضرت عمر نے سے یہ سنا ہے کہ رسول اللہ صلی ام نے فرمایا ریشم کو صرف و شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور مجھے یہ خدشہ تھا ک نقش و نگار بھی شاید ریشم سے بناۓ جاتے ہیں ۔ رہا سرخ گدا تو عبداللہ بن عمر کا گدا بھی سرخ رنگ کا ہے۔ راوی کہتے ہیں میں یہ جوابات لے کر حضرت اسماء ان کے پاس گیا اور ان کو وہ جوابات بتلاۓ ، حضرت اسماء نے کہا میں رسول اللہ صلی علم کا جبہ ہے انہوں نے ایک طیاسی کسروانی جہ نکالا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے نقش و نگار ہے ہوۓ تھے حضرت اسماء نے کہا یہ جبہ حضرت عائشہ کی وفات تک ان کے پاس تھا اور جب
هدایه پر اعتراضات کا علمی جائزہ )
ان کی وفات ہوئی تو پھر میں نے اس پر قبضہ کر لیا نبی صلی ام اس جبہ کو پہنتے تھے ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیاروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا ءطلب کر تے ہیں ۔ ( مسلم شریف کتاب اللباس والز بینۃ باب تحریم استعمال )
430
اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوتیں ۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ سلام کا ایک کسروانی جبہ تھا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے۔اس حدیث سے فقہاء نے می استدلال کیا ہے کہ کپڑے پر چارانگل ریشم کا کام بنوانا جائز ہے۔ (۲) سرخ رنگ کے گدے کا استعمال جائز ہے۔ ہمارا استدلال اصل میں اس بات سے ہے کہ پہلے جو حدیث نقل کی اس میں سرخ رنگ کے کپڑے مردوں کو پہنا درست نہیں تھا مگر اس مسلم کی حدیث سے سرخ رنگ کے گدے کا استعمال کرنا جائز ثابت ہورہا ہے ۔ اسی طرح ریشم کے کپڑے حرام اور تکیہ کا استعمال مباح ہوسکتا ہے۔
(۳) اس حدیث سے بزرگوں کے تبرکات کا ثبوت بھی ہو رہا ہے۔اور ان سے بیماروں کو شفاء بھی ہوتی ہے یہ شرک نہیں ۔
(1)
(۴) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی کپڑے پر اگر تھوڑی مقدار میں ریشم لگا ہو تو جائز ہے شریعت میں صرف خالص ریشم کا کپڑا بنا ہوا پہنا حرام ہے۔ ہاں اگر کسی کپڑا پر ریشم لگا ہو۔ اور ہو بھی تھوڑی مقدار میں تو وہ کپڑا استعمال کرنا جائز ہے۔ کیونکہ وہ بالتبع ہوا۔
حدیث نمبر ۳:
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام کو ایک سفر میں ریشم پہننے کی اجازت دی کیونکہ ان کو خارش یا کوئی اور
( مسلم کتاب اللباس والزمبينة )
تکالیف لاحق ہوگئی تھی ۔ حدیث نمبر ۴:
حضرت انس دانہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام ان نے تی صلی نام سے جوؤں کی شکایت کی تو آپ نے ان کو جنگ کے دنوں میں ریشم پہننے کی اجازت دے دی۔
( مسلم کتاب اللباس والزينة )
431)
هدایه بر اعتراضات کا علمی جائزہ
حدیث نمبر ۵:
حضرت عقبہ بن عامر نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ملی کوریشم کی ایک قبا ہدیہ میں دی گئی آپ نے اس کو پہن کر نماز پڑھی پھر کر اہت کے ساتھ اس کو زور سے کھینچ کر اتارا پھر فرمایا کہ یہ ( مسلم کتاب اللباس والزينة )
متقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ حدیث نمبر ۲:
ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ جس وقت ہم آزر بایجان میں تھے حضرت عمر نے ہمیں لکھا اے عتبہ بن فرقد تمہارے پاس جو مال ہے اس میں تمہاری کوشش کا دخل ہے نہ تمہارے باپ کی کوشش کا دخل ہے نہ تمہاری ماں کی کوشش کا دخل ہے سومسلمانوں کو ان کے گھروں پر ان چیزوں ہے پیٹ بھر کر کھلاؤ جن سے تم اپنے گھر پر پیٹ بھر کر کھاتے ہو اور تم عیش وعشرت مشرکین کے لباس ، اور ریشم پہننے سے بچتے رہنا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے۔ مگر ریشم کی اتنی مقدار جائز ہے میفرما کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی دو انگلیاں درمیانی انگلی اور انگشت شہادت ملاکر بلند فرمائیں زہیر نے بھی اپنی انگلیاں بلند کیں ۔ ( مسلم ) حدیث نمبرے:
ابوعثمان کہتے ہیں ہم عتبہ بن فرقد کے ساتھ تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر ان کا میکتوب آ یا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ریشم کوصرف وہی شخص پہنے گا جس کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ البتہ ریشم کی اتنی مقدار جائز ہے۔
ابوعثمان نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا پھر جب میں نے طیالسہ کی چادر کو دیکھا تو ان انگلیوں کو طیالسی کی چادر میں دیکھا۔ ( مسلم ) حدیث نمبر 9:
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر کا مکتوب آ یا دراں حالیکہ اس وقت ہم آزربائیجان میں عتبہ بن فرقد کے پاس تھے یا شام میں تھے ۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ رسول اللہ نے ریشم پہننے سے منع یا ہے لیکن دو انگلیوں کی مقدا کا استثناء کیا ہے ابوعثمان نے کہا ہم نے اس سے نقش و
نگار سمجھے۔
( مسلم کتاب الالباس والزينة )
هدایه پر اعتراضات کا علمی جائزہ ۔ حدیث نمبر 9:
حضرت سوید بن غفلہ نے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے جابیہ میں خطبہ دیتے ہوۓ فرما یا نبی ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے البتہ دو یا تین یا چارانگلیوں کا استثناءفرمایا ہے۔
( مسلم کتاب اللباس والزينة )
432
ان روایات میں نقش و نگار کے لیے چار انگلیوں تک ریشم لگانے کی مردکو اجازت مل گئی ہے۔ اور آپ ﷺ کے جبہ کو بھی لگا ہوا تھا۔ حرام اور نا جائز ہونے کے باوجود چارانگلیوں کی مقدار کپڑے پر لگا کپڑا استعمال کرنے کی اجازت شریعت میں موجود ہے ۔ امام صاحب کے خیال میں یہ چار انگلیاں کی اجازت بھی بالتیع ہوئی ہے ویسے نہیں آپ کے نزدیک کسی نہ کسی صورت میں ریشم بالتبع کا استعمال کرنے کا جواز ان روایات سے ثابت ہوتا ہے م اور کی اور گدا بھی بالتبع ہی میں شامل ہے کیونکہ یہ شخص ریشم کو براہ راست پہن نہیں رہا۔ جب کے اس کی تجارت جائز ہے ۔ اگر دوسرے کو تحفہ اور ہدیہ دینا جائز ہے مشرک کو دینا جائز ہے۔ بیماری میں بطور علاج اس کا استعمال کرنے کی اجازت ہے۔جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے که یہ خنزیر یا شراب کی طرح کا حرام نہیں ہے ان دلائل کی وجہ سے امام صاحب نے یہ کہ دیا کہ اگر کوئی استعمال کر لے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہاں یہ یادرہے کہ عام حالات میں امام صاحب ریشم استعمال کرنے کا حکم نہیں دے رہے۔ صرف ان دو چیزوں میں تھوڑی نرمی کی ہے اور ہماری سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے۔ کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہماتابعین عظام کے متعلق بعض روایات میں جو آ تا ہے کہ انہوں نے کسی نہ کسی شکل میں ریشم کا استعمال فرمایا ہے۔ روایات کی پوزیشن کیسی بھی ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے بطور احتیاط ان شخصیات کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ باقی آپ کے فرمان کی صحیح توجهه قاضی خاں نے فرما دی ہے جس سے تمام اشکالات ختم ہو جاتے ہیں اگر پھر بھی کسی کی تسلی نہیں ہوتی تو اس کی مرضی ۔ ہم تو ایسے مقام پر یہ کہیں گے کہ آپ مجتہد ہیں اگر واقعی آپ سے کہیں غلطی ہو ہی گئی تو پھر بھی آپ کو ایک اجر تو ملتا ہی ہے۔ اسی لیے علمائے احناف نے بطور احتیاط فتوی امام محمد اور امام یوسف کے قول پر ہی دیا ہے۔ باقی یہ سوچنے کی بات ہے کہ امام صاحب نے بھی صرف تکیہ اور
گدے کے استعمال کے متعلق کہہ دیا کہ کوئی مضائقہ نہیں اور کسی چیز کے متعلق کیوں نہیں کہا۔ جب ہم ہدایہ کی شروحات کو دیکھتے ہیں تو ان میں ایسی حدیث موجود ہیں جن سے ان دو چیزوں کا کچھ نہ کچھ جواز نکلتا ہے ۔
(دیکھیےطوع النیرین شرح ہدایہ آخرین ج ۔ ۳۲ ۲۸)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں