نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 86 : صدقۂ فطر کی ادائیگی صرف مسلمان پر ہے۔


 اعتراض نمبر (٨٦)
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : 
مسئله : صدقۂ فطر کی ادائیگی صرف مسلمان پر ہے۔ 

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بعث مناديا في فجاج مكة الا ان صدقة الفطر واجبة على كل مسلم ذكر او انثى حر او عبد صغير او كبير ( ترجمہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کی گلیوں میں ندا کروائی کے صدقہ فطر ہر مسلمان مردوعورت ، آزاد و غلام چھوٹے اور بڑے پر واجب ہے۔

(ترمذي ج١باب ماجاء في صدقة الفطر صفحه : ۱۴٦، رقم الحدیث ۲۷۴) عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ قال فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زكوة الفطر صاعان تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين (ترجمہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا جو کا مقرر کیا ہر مسلمان پر وہ غلام ہو یا آزاد،مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔

(بخاري كتاب الزكاة باب فرض صدقة الفطر صفحه ۲۰۴واللفظ له، رقم الحدیث ۱۵۰۳) (مسلم ج١کتاب الزكاة باب صلوۃ الفطر صفحه۳۱۷، رقم الحدیث۲۲۷۸)

فقه حنفى

يؤدى المسلم الفطرة عن عبده الكافر (هدایه اولین ج١کتاب الزكاة باب صدقة الفطر صفحه ۲۰۹)

(ترجمہ) مسلمان صدقہ فطر ادا کرے گا اپنے کافر غلام کی طرف سے بھی ۔۔۔

(فقه و حدیث ۱۲۵)

جواب:

راشدی صاحب نے جن دوحديثوں کا حوالہ دیا ہے ان میں یہ خاص بات کہیں نہیں کہ مسلمان آقا اپنے کافر غلام کی طرف سے صدقہ الفطر نہ دے ۔ جس سے ثابت ہوا کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ ان احادیث کے خلاف نہیں ہے ۔فقہ حنفی میں اس مسئلہ کی بنیاد کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں ۔ 

فقہ حنفی کے دلائل

حدیث نمبر١:

امام بخاری نے ج۱ ص ۲۰۵ کتاب الزکوۃ میں ایک باب یوں قائم کیا۔ باب صدقۃ الفطر على الحر والمملوك باب آ زاد اور غلام پر صدقہ فطر کا واجب ہونا امام بخاری کے اس باب سے پتہ چلتا ہے کہ غلام مسلمان ہو یا کافر اس پر صدقہ فطر واجب ہے۔ اس باب کے تحت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جو روایت امام بخاری نے درج کی ہے اس میں بھی مسلمان اور کافر کا فرق موجود نہیں ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ آنحضرت سلام نے فطر کا صدقہ یا یوں فرمایا رمضان کا صدقہ مردعورت اور آزاد اور غلام ہر ایک پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کافرض کیا۔ الحدیث 

حدیث نمبر ۲:

اس باب کے بعد پھر ایک نیا باب امام بخاری نے قائم فرمایا ہے باب صدقۃ الفطر على الصغير والكبيری باب چھوٹے اور بڑے سب پر صدقہ فطر واجب ہے اس کے تحت بھی ابن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور چھوٹے بڑے آزادغلام سب پر فرض کیا۔ اس میں بھی سب غلام آ گئے چائیں وہ کافر ہو یا مسلمان کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق والحر والمملوك فرمایا ہے-

(بخاری کتاب الزکوة)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلام اور باندیاں تو کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے ان پر صدقہ فطر کیسے واجب کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے گا۔

حدیث نمبر ۳:

مسلم شریف ج ١ص ۳۱۶ کتاب الزکوۃ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں۔ قال ليس في العبد صدقة الاصدقة الفطر

نبی کریم ﷺ نے فرمایا غلام پر زکوۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ مگر صدقہ فطر (ادا کرناواجب ) ہے ۔ اس حدیث میں بھی مسلمان کی قید موجود نہیں ۔

حدیث نمبر ۴:

جعفر بن محمد ( یعنی امام جعفر صادق بن امام محمد باقر ) اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے اور بڑے اور آزاد اور غلام غرض ہر اس شخص سے جوتمہاری عیال داری میں ہوں صدقہ فطر ادا کر نے کا حکم کیا ہے ۔ (تلخیص الحبیر ) ( مسند امام شافعی متر جم جلد ۲ ص ۴۰۷ ) احناف کے نزدیک ہرقسم کے مملوک کی طرف سے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافرصدقہ فطر ادا کرنا

مالک کے ذمے ضروری ہے جس پر وہ روایات دال ہیں جن میں عن المسلمین کا لفظ نہیں ) 

حدیث نمبر ۵:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے مذکر اور مؤنث یہودی اور عیسائی ( غلام ) آزاداور غلام کی طرف سے ادا کیا جاۓ گا جو گندم کا نصف صاع ہوگا یا کھجور کا ایک صاع ہوگا یا جو کا ایک صالح ہوگا۔

(سن دارقطنی مترجم جلد ۵ ص ۳۵۴ کتاب زکوة الفطر ) اگر چہ اس حدیث کے ایک راوی سلام طویل پر کچھ جرح بھی موجود ہے۔ مگر اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ کافر غلام کی طرف سے صدقہ الفطرادا کرنا چاہئے ۔ 

حدیث نمبر ٦ :

مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۴۹۹ میں ایک حدیث ہے جس میں آتا ہے ۔ ماقلوافی العبدالنصراني يعطى عنہ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی ہو یا نصرانی ہو اس مملوک کاصدقۃ الفطر واجب ہے۔ 

حدیث نمبر ٧:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض کیا ایک صاع جو سے یا ایک صاع کھجور سے چھوٹے اور بڑے پراورآزاداور غلام پر۔ 

( بخاری کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر على الصغير والكبير ج ١ص ۲۰۵)

اس حدیث میں والمملوک مطلق ہے۔ یعنی کافر اور مسلمان دونوں قسم کے غلاموں پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے جواب کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی راشدی صاحب کا استدلال مسلمین کے لفظ سے ہے ۔ مگر ایسی بہت سی روایات بھی مروی ہیں جن میں مسلمین وغیرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ جب احناف کے پاس مستقل دلائل موجود ہیں تو پھر یہ کہنا کہ احناف کا مذہب حدیث کے خلاف ہے غلط ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے ۔ درس تر مذی ج ۲ ص ۵۰۴ تا۵۰۹)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...