اعتراض نمبر89 نماز میں شک میں مبتلا ہونے والا یقین پر بناء کرتے ہوئے نماز مکمل کر کے سجدہ سہو کر لے ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اعتراض نمبر (٨٩)
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : نماز میں شک میں مبتلا ہونے والا یقین پر بناء کرتے ہوئے نماز مکمل کر کے سجدہ سہو کر لے ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن ابي سعيد الخدري قال قال رسول اللہ ﷺ اذا شك احد كم في صلاته ولم يدركم صلی ثلاثا ام اربعا فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم ليسجد سجدتين قبل ان يسلم ۔
(ترجمہ ) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی ایک کو اپنی نماز کے بارے میں شک ہو اور اس کو پتہ نہ چلے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو اس کو چاہیے کہ شک کو دور کرے اور یقین پر بنا کر تے ہوۓ سلام سے قبل سجدہ سہو کرے ۔)
(مسلم ج١كتاب المساجد باب السهو في الصلوةصفحه۲۱۱، رقم الحدیث ۱۳۷۲)
فقه حنفی
و من شك في صلوته فلم يدر! ثلاثا صلى ام اربعا وذلك اول ماعرض استأنف
(هدایه اولین ج١کتاب الصلاة باب السجود صفحه ۱۶۰)
( ترجمہ ) یعنی جس کو اپنی نماز میں شک ہو اور اس کو پتہ نہ چل سکے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور یہ کیفیت نماز کے شروع میں ہو تو اس کو چاہیے کہ نماز توڑ دے اور نئے سرے سے نماز شروع کرے ۔
(فقہ وحدیت ۱۲۸)
جواب:
پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب غیر مقلد نے فقہ حنفی کا پورا مسئلہ نقل نہیں کیا آپ نے جو عبارت ہدایہ کی نقل کی ہے وہ بھی پوری نقل نہیں کی ۔ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا صحیح مسلک کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں ۔
نواب قطب الدین محدث دہلوی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مسلک کا ماحصیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اگر اس شخص کی عادت شک کرنے کی نہ ہو تو اس کو چاہیئے کہ پھر نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر اسکو شک ہونے کی عادت ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کر لے جتنی رکعتیں اس کو غالب گمان سے یاد پڑھیں تو اس قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہوتو کمتر عددکو اختیار کرے مثلا کسی کو ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے ۔ ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کر لے پھر سجدہ سہو کر لے۔ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چاہے جہاں اسے قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارہ میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہو جاۓ گی ۔
غالب گمان کو اختیار کر نے کے سلسلہ میں احادیث بھی ملتی ہیں چنانچہ صحیححین میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فر ما یا : جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ سہی رائے قائم کر کے ( یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے نماز پوری کر لے اس حدیث کو شمنی رحمۃاللہ علیہ نے بھی شرح نقایہ میں نقل کیا ہے۔ نیز جامع الاصول میں بھی نسائی رحمۃاللہ علیہ سے ایک حدیث تحری ( غالب گمان ) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارہ میں منقول ہے۔
امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادایت کے سلسلہ میں یہ کہتے ہوۓ کہ تحری کے سلسلہ میں بہت آ ثار وارد ہیں بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے : یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جاۓ تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑی مشکل ہوگی اور ہر شک وشبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانیوں کا باعث بن جاۓ گا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے اس موقع پر مسئلہ مذکور کا تجزیہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہو جاۓ تو وہ نماز کوازسرنو پڑھے۔ دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہو جاۓ تو اسے چاہئے کہ وہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لیے تحری کرے یعنی غالب گمان پر عمل کر لے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پرعمل کرنا چاہیے ۔ یعنی جس پہلو پر یقین ہواسی پر عمل کیا جائے‘‘۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کر دیا ہے اس طرح کہ انہوں نے پہلی حدیث کو تو پہلی مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے ۔ دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے مسلک کی کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔ ( مظاہرین شرح مشکوۃ جلد اول ص ۶۷۱ و ص ۶۷۲) قارئین کرام ہم نے مسئلہ کو واضح کرنے کے لیے مظاہر حق سے کافی لمبی عبارت نقل کر دی ہے ۔ اب زیادہ ضرورت تو نہیں کہ ہم کچھ مزید عرض کریں مگر ہمیں واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے جو ضدی قسم کے ہیں ۔ اس لیے ہم ایسی تینوں قسم کی روایات کا حوالہ ذکر بھی کر دیتے ہیں جن کا ذکر شیخ عبدالحق نے فرمایا ہے۔ اور وہ تینوں قسم کی روایات ہدایہ میں بھی موجود ہیں ۔
پہلی قسم کی حدیث :
اگر کسی شخص کو پہلی بار اپنی نماز میں شک ہوا ہو تو ایسا شخص نماز از سرنو پڑھے مولانا راشدی صاحب نے ہدایہ کی جو عبارت نقل کی ہے اس کے آگے صاحب ہدایہ نے حدیث سے اس مسئلہ کی دلیل بھی نقل کی تھی جو مولانا نے نقل نہیں کی ۔ اگر نقل کر دیتے تو اعتراض خود ہی ختم ہو جا تا ۔ ہم یہاں پر ہدایہ کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں جس سے مولانا راشدی صاحب کی خیانت کا علم بھی ہو جاۓ گا اور حدیث کا پتہ بھی چل جاۓ گاہدایہ کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
و من شك في صلاته فلم يدر اثلاثأصلي؟ ام اربعا وذلك اول ماعرض له، استأنف لقوله علیہ السلام إذا شك إحدكم في صلاته انه کم صلى فليستقبل الصلاة
( ترجمہ ) اور جس شخص کو اپنی نماز میں شک ہو گیا۔ چنانچہ اسے یہ نہیں معلوم کہ اس نے تین رکعات پڑھی یا چار اور یہ شک اسے پہلی مرتبہ عارض ہوا ہے تو وہ ۔ شخص از سرنو نماز پڑھے۔اس لیے کہ آپ سلام کا ارشادگرامی ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اس کی نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہے تو وہ از سر نو نماز پڑھے۔
(بدایہ باب بجو داسو )
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے درایہ میں اور ہدایہ کی دیگر شروحات میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ علاہ انورشاہ کشمیری نے العرف الشذی شرح ترمذی ج۲ ص۳۴۰ میں بھی نقل کی ہے ۔ اس حدیث کے علاوہ بھی متعدد روایات سے یہ مفہوم نکلتا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبرا:
ابن ابی شیبہ ﷺ نے مصنف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
عن ابن عمر في الذي لا يدري ثلاثا صعی او اربعا قال: بعيد حتى يحفظ (مصنف ابن ابی شیبۃ ۲۸ ج ۲ باب من قال اذا شک فلم ید کم صلی اعاد ) (ترجمہ ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص یہ نہ جانے کہ تین پڑھیں یا چار وہ اعادہ کرے یہاں تک کہ ٹھیک یادہو۔
حدیث نمبر ۲:
عن ابن سيرين عن ابن عمر قال: إما انا فإذا لم اور کم فلیت فانی اعید (مصنف ابن ابی شیبہ ص ج ۲۷۔ ۲۸ ج ۲ باب من قال اذا شک فلم ید کم صلی اعاد ) (ترجمہ ) ابن سیرین کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر لینڈ نے فرمایا کہ جب میں شک کرتا ہوں کہ میں نے کتنی رکعتیں پڑھی تو اعادہ کر لیتا ہوں۔ ابن ابی شیبہ بیان نے سعید بن جبیر،ابن الحنفیہ اور قاضی سریح بیان سے بھی یہی روایت کیا ہے۔ ( دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ باب من قال اذا شک فلم ید کلی اعاد )
علامہ کاسانی بدائع الصنائع میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص سے بھی یہی مروی ہے۔
امام شعبی یا اور امام طاوس رحمۃاللہ علیہ سے بھی یہی منقول ہے ۔ ان دلائل سے اتنی بات تو ثابت ہو گئی کہ امام صاحب کے حوالہ سے صاحب ہدایہ نے جو بات ذکر کی اس کی کچھ نہ کچھ اصل روایات میں موجود ہے ۔ اور امام صاحب بھی جس شخص کو زندگی میں صرف پہلی بارشک ہوا ہو اس کے متعلق یہ کہتے ہیں ہر شک والے کا یہ حکم نہیں ۔ دوسری بات احناف کے ہاں اس طرح کر نا یعنی از سر نو نماز پڑھنا کوئی ضروری نہیں نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت صرف جواز کی حد تک ہے اور وہ بھی اس مسئلہ میں وارد ان احادیث و آثار مذکورہ کی وجہ سے امام ترمذی نے بھی یہ بات نقل کی ہے آپ فرماتے ہیں اور کہا بعض علماء نے جب شک کرے نماز میں تو پھر دوبارہ پڑھے۔ ( ترمذی باب فیمن یشک فی الذیادة والنقصان )
دوسری قسم کی حدیث
صاحب ہدایہ اس عبارت کے آگے لکھتے ہیں ( ترجمہ ملاحظہ فرمائیں اور اگر مصلی کو زیادہ شک پیش آ تا ہو تو وہ اپنی اکبر رائے کے مطابق بناء کر لے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے جس شخص کو اس کی نماز میں شک ہو جاۓ وہ درستگی کی تحری کرے ( یعنی غالب گمان کرے ۔ پھر جس طرف اس کا غالب گمان ہواس پرعمل کرے ) یہ اس مسئلے کا دوسرا جزاء ہوا اور صاحب ہدایہ نے اس کی دلیل بھی ساتھ نقل کر دی ہے وہ مکمل
حدیث اس طرح ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھائی ابراہیم نے کہا مجھے پتانہیں اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زیادتی کی یا کمی کی پس جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے صحابہ نے کہا آپ نے اس طرح اور اس طرح نماز پڑھی ہے آپ نے اپنے پیرموڑے اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف منہ کر کے فرمایا اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں اس کی خبر دیتا لیکن میں صرف تمہاری مثل بشر ہوں میں اس طرح بھولتا ہوں میں جس طرح تم بھولتے ہو پس جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جاۓ تو اسے غور کر کے صحیح بات معلوم کرنی چاہیے (واذا شك احد كم في الصلوةفليتحرى الصواب) پھراپنی نماز پوری کرنی چاہیے پھر سلام پھیر کر دوسجدے کرنے چائیں ۔ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب التوجين والقبات حيث كان حدیث نمبر ۴۰۱ )
بخاری میں اس باب کے علاوہ بھی چار اور مقامات پر یہ حدیث امام بخاری نے نقل کی ہے - یہ حدیث مسلم، ابوداؤد ، نسائی ابن ماجہ، مصنف ابن ابی شیبہ،سنن الکبری بیہقی ، المنتقی ابن جارود ،صیح ابن خزیمہ، دار قطنی ، مسند احمد ، جامع المسانید ابن جوزی وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث سے احناف کا مذہب تحری کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ اس حدیث کے علاوہ بھی تحری کرنے کی احادیث مروی ہیں بعض کا ذکر مظاہر حق کی عبارت میں گذر چکا ہے۔ علامہ عینی نے لکھا ہے کہ امام قدوری فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب یعنی امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کا قول ہے کہ شک کرنے والا تحری کرے اور اس میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی اور یہی اصول کی روایت ہے۔ (عینی شرح ہدایہ ) تیسری قسم کی حدیث
اس مسئلہ کا تیرا جز یہ ہے کہ جس پر یقین ہواس پرعمل کرے یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب اس کی تحری کسی بات پر نہ جمے یعنی غلبہبظن حاصل نہ ہوا تو کیا کرے۔اس کے متعلق صاحب ہدایہ آ گے فرماتے ہیں ۔ اور اگر اس کی کوئی رائے نہ ہوتو یقین پر بناء کرے اس لیے کہ آپ نے فرمایا کہ جسے اپنی نماز میں شک ہو گیا اور وہ نہیں جانتا کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہے یا چار تو وہ شخص اقل پر بنا کرے۔ یہ حدیث ترمذی کتاب الصلاۃ باب فیمن شک فی الزيادة والنقصان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف سے اس طرح مروی ہے۔ - روایت ہے عبدالرحمن بن عوف سے کہا سنا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے جب بھول جاوے کوئی شخص نماز میں اور نہ جانے کہ دو پڑھیں یا ایک یعنی رکعتیں تو ایک قرار دے اور اگر نہ جانے کہ دو پڑھیں یا تین تو دو قرار دے اور اگر نجانے کہ تین پڑھیں یا چارتو تین قرار دے اور جو باقی ہوسو پڑھ کرآ خر میں دو سجدے کرے قبل السلام کے ۔
دوسری حدیث :
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جاۓ اور پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یا چارتو شک کو ساقط
کر دے اور جتنی رکعات کا یقین ہو اس کے مطابق نماز پڑھے اور سلام سے پہلے دو سجدے کر لے اور اگر اس نے ( واقع میں ) پانچ رکعت پڑھی ہیں تو ان دو سجدوں کے ساتھ چھ رکعات ہو جائیں گی ۔ اور اگر چار رکعات پڑھی ہیں تو یہ دوسجد سے شیطان کی ذلت کا سبب ہو جائیں گے ۔
(مسلم باب السہو فی الصلوة و السجود )
ہم نے تینوں قسم کی احادیث نقل کر دی ہیں ۔ اس لئے کہ کسی کے خیال میں آۓ کہ شیخ عبدالحق نے یہ کہا ہے مگر نقل نہیں کیں ۔ ویسے ہمیں تو اول قسم کی ضرورت تھی کیونکہ مولانا راشدی صاحب کو صرف اسی پر اعتراض تھا۔
رہی وہ روایت جورا شدی نے نقل کی ہے ہم اس کے مخالف نہیں ہم اس کا وہ مفہوم لیتے ہیں
جوشیخ عبدالحق محدث دہلوی حنفی نے بیان کیا ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں