اعتراض نمبر ٩١
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله: کھجور کی بیع کھجور کے ساتھ کمی بیشی کے ساتھ سود ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن عبادة بن الصامت قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ثم الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبربالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید۔
(ترجمه) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونا ، چاندی ، گندم ، جو کھجور ، نمک ، ان سب کا لین دین جنس کے بدلے جنس کیساتھ نیز برابری کیساتھ اور ہاتھوں ہاتھ کیا جائے ۔
(مسلمج ٢ کتاب المساقاة والمزارعة باب الصرف وبيع الورق نقدآً صفحه۲۵، رقم الحدیث ۴۰٦٣)
فقه حنفی
ويجوز بيع البيضة بالبيضتين والتمرة بالتمرتين
(هدایه اخیر ین ج ٣کتاب البیوع باب الربواصفحه ۸۱)
( ترجمہ ) ایک انڈے کی دوانڈوں کے ساتھ اور ایک کھجور کی دو کھجور کے ساتھ
(فقہ وحدیث ۱۳۰)
جواب:
فقہ حنفی میں سود قطعی طور پر حرام ہے علمائے احناف کی تمام قرآن کی تفاسیریں ، احادیث کی شروحات کتب فقہ کی تشریحات پرمشتمل کتابیں اس کی شاہد ہیں نیز تقریبا تمام فتاوی حات اور اس کے علاوہ علماۓ احناف نے حرمت سود پر مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اگر کوئی شخص صرف مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ حنفی دیوبندی کی کتاب مسئلہ سود پڑھ لے تو اس کی تسلی ہو جاۓ گی ۔اس کتاب میں ایسی تمام آیات جن کا تعلق مسئلہ سود سے ہے سب کا ترجمہ وتفسیر بیان کی گئی ہے۔ پھر حرمت سود پر مکمل چالیس احادیث ترجمہ وتشریح کے ساتھ لکھی ہیں۔ پھر ان کے بیٹے شیخ الاسلام حضرت مولا نا مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی نے تجارتی سود پر بہترین کتاب تالیف فرمائی ۔مفتی تقی عثمانی نے حرمت سود ایک فیصلہ بھی لکھا ہے ۔ اس کے علاوہ آپ کی کئی کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں سودکوحرام کہا گیا ہے۔ علماۓ احناف سود قطعی طور پر حرام کہتے ہیں مندرجہ ذیل دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ سورۃ بقرہ آیت نمبر ۲۷۵ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ بیع اور ربو میں بڑا فرق ہے کہ بیع کوحق تعالی نے حلال کیا ہے اور سود کر حرام ۔
( تفسیر عثمانی ص ۵۹ )
(۲) علامہ شبیر احمد عثانی سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۳۰ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ اول تو سود مطلقاً حرام وقبیح اور یہ صورت تو بہت ہی زیاد شنیع وقبیح ہے۔ ( تفسیر عثمانی ص ٨٦ )
(۳) هدایہ شریف میں بھی سودکوحرام لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
قال الربا محرم في كل مكيل اوموزون اذا بيع بجنسہ متعاضلا
فالعلة عندنا الكيل مع الجنس او الوزن مع الجنس قال رحمة الله - عليه ويقال القدر مع الجنس وهو اشمل والاصل فيه الحديث المشهور وهو قوله علي لا وعد الاشياء الستة الحنطة والشعير عای اسلام والتمر والملح والذهب والفضة الخ
(ترجمہ) فرماتے ہیں کہ ہراس چیز میں ربوا( سود ) حرام ہے جومکیلی یاوزونی ہے بشرطیکہ اسے اس کی ہم جنس کے عوض زیادتی کے ساتھ بیچا جاۓ چنانچہ ہمارے ۔ یہاں ربوا ( سود ) کی علت کیل مع لجنس یاوزن مع الجنس ہے۔ (صاحب ہدایہ فرماتے ہیں) کہ قدرمع جنس کو بھی علت قرار دیا جا تا ہے اور یہ زیادہ شامل ہے۔ اور اس سلسلے میں اصل وہ حدیث مشہور ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحنطة بالحنطة الخ کا مضمون بیان فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزیں شمار فرمائیں ہیں (۱) گیہوں (۲) جو (۳) کھجور (۴) نمک (۵)سونا (۲ ) چاندی
اور حدیث دوطرح سے مروی ہے ایک رفع کیساتھ یعنی مثل اور ایک نصب کیساتھ یعنی مثلا۔ اول کے معنی یہ ہیں کہ کھجور کی بیچ برابر ہے اور ثانی کے معنی یہ ہیں کہ کھجور کو کھجور کے عوض برابر سرابر بیچو، اور حکم با جماع مجتہدین علت کیساتھ ہے لیکن ہمارے نزدیک علت وہ ہے جو ہم نے بیان کی ۔ ہدایہ کی اس عبارت سے سود کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور جن چھ چیزوں کا ذکر را شدی صاحب نے کیا ہے ان ہی کا صاحب ہدایہ نے بھی کیا ہے ۔
(۴) مفتی عبدالحلیم قاسمی حنفی نے ہدایہ کا ترجمہ وشرح احسن الہدایہ کے نام سے کیا ہے وہ ہدایہ کی اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں ۔
علت ربوا کے سلسلے میں معتمد اور بنیاد وہ حدیث شریف ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزوں کو شمارفرما کر انہیں برابر برابر اور ہاتھ پر ہاتھ بیچنے کو جائز قراردیا ہے۔اور کمی اور زیادتی کو آپ نے ربوا سے تعبیر کیا ہے۔ لہذا ان چھے چیزوں کی علت جہاں بھی موجود ہوگی وہاں کمی بیشی ربوا ہوگی اور حرام و ناجائز ہوگی۔
کتاب میں تو حدیث پاک کا ایک ٹکڑا موجود ہے لیکن کتب حدیث میں تقریبا ١٦ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اس مضمون کی حدیث وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الشام الذهب بالذهب مثلا بمثل والفضة بالفضة مثلا بمثل والتمر بالتمر مثلا بمثل و ابر بالبر مثلا بمثل، والملح بالملح مثلا بمثل والشيعر بالشعير ثلا بمثل فمن راداؤ استزاد فقد اربي وبيعوا البر بالشعير كيف شئتم يدا بيدا۔
(احسن الہدایہ جلد ۸ ص ۳۰۴)
(۵) مظاہر حق شرح مشکوۃ جو حنفیوں کی مشہور اردو شرح ہے۔ اس میں بڑی تفصیل سے سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ جوحدیث تعارض کے طور پر راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کی شرح میں سود کی حرمت پر کافی بحث موجود ہے۔ (دیکھئے : جلدنمبر٣ ص ۶۸ تا۷۰) ۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ حنفی اس حدیث کو مانتے ہیں راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ
حنفی مذہب اس حدیث کے خلاف ہے بالکل جھوٹ ہے۔ اب اس عبارت کا جواب ملاحظہ فرمائیں جوراشدی صاحب نے پیش کی ہے۔ ہدایہ کی مکمل عبارت اس طرح ہے ۔
اور جائز ہے ایک انڈے کی بیع دوانڈوں کے عوض اور ایک کھجور کی بیع دو کھجوروں کے عوض اور ایک آخروٹ کی بیع دوآ خروٹ کے عوض ۔ کیونکہ معیار مفقود ہے تو ربوا متحقق نہ ہوگا ۔
اس کی شرح میں مولانا محمد حنیف گنگوہی لکھتے ہیں:
ایک انڈے کی بیع دوانڈوں کے عوض جائز ہے۔ کیونکہ معیار شرعی مفقود ہے یعنی اشیاء مذکورہ نہ کیلی ہیں نہ وزنی لہذاربوا محتقق نہ ہوگا۔ ۔ ( طلوع النیرین ج ١ ص ۳۲۶)
کیلی کا مطلب ہے ناپنے والی اشیاء اور وزنی کا مطلب ہے تو لنے والی اشیاء شریعت میں ناپنے والا پیمانہ یعنی برتن سب سے کم درجے کا جو ہوتا ہے وہ مد ہوتا ہے مد سے کم کوئی پیانہ نہیں ۔ جب آپ کسی سے ناپ کا معاملہ کریں گے تو کم از کم ایک مد کے کیل کا اعتبار کر لیں گے۔ اگر اس کا اعتبار
نہ کیا جاۓ تو حدیث میں مدا بمدا کی جوصراحت ہے وہ بے فائدہ ہو جاتی ہے جب ان کیلی اشیاء میں جنس کے ساتھ کم از کم ایک مدکیل کا اعتبار ہے تو جو اسرا اس معیار سے کم ہے یعنی ایک مد سے کم ہے یا جو جنس ہونے کے باوجود کیلی یاوزنی نہیں تو ان میں سود کی علت نہیں پائی جاتی اس لیے ان میں سود کا حکم نہیں پایا جاتا اس بات کو صاحب ہدایہ نے یہاں بیان کیا ہے ۔ راشدی کو یا تو ہمارے مسلک کی واقعی خبر نہیں یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے میرے خیال میں تو جان بوجھ کر وہ ایسا کرتے ہیں حنفی مذہب میں فتوی امام محمد کے قول پر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ معلی نے امام محمد سے بھی یہ ہی روایت کیا ہے کہ ان کے نزدیک بیع تمر بالتمرین مکروہ ہے۔ نیز امام محمد کا قول ہے کہ جوشئی کثیر میں حرام ہے وہ اس کے قلیل میں بھی حرام ہے شیخ کمال الدین نے فتح القدیر میں امام محمد کے قول کی تصحیح نقل کی ہے۔
( طلوع النیریں شرح ہدایہ آخرین ج ١ص ۳۲۶)
مولانا ظفر احمد عثمانی حنفی لکھتے ہیں ۔
ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک لپ ( گندم وغیرہ ) دولپ کے بدلہ میں اور ایک کھجور کی دو کھجوروں کے بدلہ میں بیع سے بچنا بہتر ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا نظریہ دلیل کے لحاظ سے کمزور ہے۔ بلکہ خلاف سے نکلنے کے لیے ہے۔
(اعلاء السنن جلد ۱۴ ص ۲۶۴ بحوالہ انکشاف حقیقت ص ۳۳۵) ( تفصیل کے لیے دیکھئے الشرح ثمیر ی علی المختصر للقدوری ج ۲ ص ۷۲ تا ۸۳ باب الربو)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں