اعتراض نمبر ٩٤پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : مسئله: تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے ساتھ برابری پر بھی جائز نہیں
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن سعد بن أبي وقاص قال سألت رسول اللهﷺ عن شرى التمر بالزطب فقال اینقص الرطب اذا يبس قال نعم فنهى عن ذلك
(ترجمہ ) سیدنا سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
ﷺ سے سوال کیا سوکھی کجھور کو تازہ کھجور کے بدلے خریدنے کے بارے میں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تازہ کھجور جب خشک ہو جاۓ تو کم ہو جاتی ہے؟ کہا ہاں ، تو آپ نے اس سے منع فرمادیا۔
(نسائي ج ٢ كتاب البيوع باب اشتراء التمر بالرطب صفحه ۲۱۸، رقم الحدیث ۴۵۵۰)(ابوداؤد ج ۲ کتاب البيوء باب في التمر بالتمرصفحه ۱۲۱، رقم الحدیث ۳۳۵۹)( ترمذي ج١ابواب البيوع باب ما جاء عن النهي عن الماحاقلة والمزابنة صفحه: ۲۳۲، رقم الحدیث ۱۲۲۵)( ابن ماجہ ج١ ابواب التجارات باب بیع الرطب بالتمر صفحه: ۱۶۴، رقم الحدیث ۲۲٦۴ )
فقه حنفی
يجوز بيع الرطب بالتمر مثلا بمثل
(هدایه اخيرين ج٣کتاب البيوع باب الربواصفحه ۸۳)
(ترجمہ ) تازہ کھجور کی بیع خشک کھجور کے ساتھ ، بطور برابری کے جائز ہے ۔
( فقه وحدیث ۱۳۳)
جواب:
ابوحنیفہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ خشک کھجوروں اور تر کھجوروں کی بیع آپس میں جائز ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے کھجور میں بالکل برابر ہوں اور سودا نقد ہو کسی طرف سے بھی ادا ئیگی ادھار نہ ہو۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس معاملے میں دو ہی باتیں کہنا ممکن ہے یا تو خشک کھجور اور تر کھجور کی جنس الگ الگ ہے یا پھر ایک ہی جنس ہے اگر دونوں ایک ہی جنس ہوں تو حدیث میں بصراحت مذکور ہے کہ کھجور کے بدلے کھجور کو برابری اور نقد سودا ہونے کی شرط پر بیچنا جائز ہے۔
(صحیح مسلم ج ۲ ص ۲۵)
اور اگر دونوں ایک جنس نہیں بلکہ الگ الگ اجناس ہیں تو بھی حدیث ہی میں آیا ہے کہ جب تم مختلف اجناس کی آپس میں بیع کرو تو کمی بیشی کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ سودانقد ہو۔ (صحیح مسلم ج ۲ص ۲۵) گو یا جو بھی صورت اختیار کی جاۓ خشک کھجور اور تر کھجور کی آپس میں بیع کوممنوع نہیں قراردیا جا سکتا۔ تاہم چونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ خشک کھجور اور کھجور کی جنس ایک ہی ہے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی آپس میں بیع ان دو شرطوں کے مطابق ہی درست ہوگی جواحادیث میں صراحتا مذکور ہیں یعنی یہ کہ کھجور میں دونوں طرف سے برابر ہوں اور سودانقذ ہو۔
رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں
(۱) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی خود اسی روایت کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے یہ نہی ادھار بیچنے سے کی تھی۔ چنانچہ سنن کبری بہیقی ج ۵ ص ۲۹۴ اور طحاوی ج ۲ ص ۱۲۱ میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی جو روایت آئی ہے اس میں حضرت سعد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے میں تر کھجوروں کو ادھار کر کے بیچنے سے منع فرمایا۔ اور اس صورت میں جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ بھی اس بیع کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی روایت کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایات میں بھی نہی وارد ہے۔ ان روایات میں جو نہی مذکور ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ در حقیقت بیع مزابنہ کے بارے میں وارد ہوئی ہے ۔ ( مزابنہ کا مطلب ہے درختوں پر لگی کھجوروں کا اندازہ کر کے انہیں کئی ہوئی معلوم المقدار کھجوروں کے بدلے بیچنا ) اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت مسلم میں مکمل آ ئی ہے اور اس میں صراحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مزابنہ سے منع فرمایا اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی کھجوروں کو کٹی ہوئی کھجوروں کے ساتھ ماپ کر اور میوے کو( درخت پر لگے ) انگوروں کے ساتھ ماپ کر بیچا جاۓ ۔ ( مسلم ج ۲ص۹) _
مزابنہ سے نہی کی علت یہ ہے کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال قوی موجود ہے جبکہ زیر بحث مسئلہ میں کھجوروں کی مقدار دونوں طرف سے مساوی ہے اس لیے مزابنہ کا حکم اس پر جاری نہیں ہوسکتا۔ ( امام ابوحنفیہ اور عمل بالحد یث ۱۸۱ تا ۱۸۳)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں