اعتراض نمبر ٩٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله: بیع عرایا (اندازہ کر کے بیع کرنا) کی رخصت ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن ابي هريرة ان رسول اللہ ﷺ رخص في بيع العرايا بخرصها من التمر في مادون خمسة أوسق او فى خمسة أوسق شك داؤد بن الحصين
(ترجمہ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے بارے میں بیع عرایا کی رخصت دی۔ جب وہ (کھجور ) پانچ وسق تک پہنچ جاۓ۔
(بخاري ج١كتاب البيوع باب بيع التمر علي رؤس النخل بالذهب والفضة ص ٢۹۲، رقم الحدیث ۲۱۹۰، بلفظ مختلفة)(مسلم کتاب البیوع باب تحريم بيع الرطب بالتمر الافي العراياصفحہ:۹، رقم الحدیث ۳۸۹۲) فقه حنفى
فلا يجوز بطريق الخرص .
(هدایه اخیر بن کتاب البیوع باب بيع الفاسد ج٣صفحه ۵۳)
(ترجمہ )اندازے(عرایا) کے طریق پر بیع کرنا جائز نہیں ہے۔
(فقہ وحدیث ۱۳۴)
جواب:
راشدی صاحب نے یہاں پر ہدایہ کی مکمل عبارت نقل نہیں کی اگر مکمل عبارت نقل کر دیتے تو مسئلہ خودہی صاف ہو جاتا تھا۔ ہدایہ میں اصل مسئلہ بیع مزابنہ اور بیع عرایا کا چل رہا ہے۔ کہ یہ جائز ہے یا نہیں۔ یہاں پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے ساتھ اندازہ کركے بیچنا درست ہے یانہیں ۔
احناف کہتے ہیں کہ درست نہیں کیونکہ یہ بیع مزابنہ ہے اور شریعت میں بیع مزابنہ منع ہے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مخابرہ ،محاقلہ اور مز اہتہ سے منع فرمایا۔ محاقلہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا کھیت سوفرق گندم کے عوض پہنچے اور مزاہتہ یہ ہے کہ درخت میں لگی کھجوروں کو وفرق کے عوض بیچنا اور ماہرہ زمین کوکرایہ پر دینا ہے تہائی یا چوتھائی پر مشکوۃ باب المنھی عنہا من البيوع ) اس حدیث کے علاوہ بھی اور بہت سی احادیث میں بیع مزابنہ سے آپ نے منع فرمایا ہے ۔اس لئے امام ابوحنیفہ بھی منع فرماتے ہیں ۔ قارئین آپ کے علم میں اب مسئلے کی صحیح صورت آ گئی ہوگی اس اجازت کا نام ہی بیع عرایا ہے۔
عرايا کا مطلب
عرایا عریة کی جمع ہے کسی شخص کو کھجور کے درخت کے پھلوں کا عطیہ دیا جاۓ نہ کہ اس کے درخت کا ۔ تو اس کو عریة کہتے ہیں عرب میں جب خشک سال ہوتا تو جن کے پاس کھجوروں کے درخت ہوتے تو وہ خوشی سے ان لوگوں کو عاریة کھجوریں دیتے جن کے پاس کھجوریں نہیں ہوتی تھیں ۔ اس جو کھجوریں ہیں وہ ان غریب لوگوں کو کھانے کے لیے کہا تھا کہ یہ دو یا تین درختوں کی کھجوریں کھا سکتے ہیں جن لوگوں کو یہ عاریة
اس تعریف سے معلوم ہوا کہ اصل درختوں کا مالک نہیں بنا یا گیا صرف لوگوں کو یہ عاریت
اب آئیے اصل مسئلے کی طرف:
ایک شخص نے اصحاب عرایا کو اجازت دے دی مگر بعد میں وہ شخص کسی وجہ سے تازہ کھجوریں خود رکھنا چاہتا ہے اور اسے خشک کھجوریں دینا چاہتا ہے ۔ تو اس کی آپ ﷺ نے صرف پانچ وسق سے کم میں اجازت دی ہے ۔ مسئلے کی اس شکل کو غیر مقلد بیع کہتے ہیں۔ جب کہ احناف اس کو بیع نہیں کہتے ۔ اگر اس کو بیع کہا جاۓ تو یہ مزابنہ کی صورت بنتی ہے جو منع ہے ۔ البتہ اس کو ہبہ کہنا درست ہے اور ایسی شکل میں فقہائے احناف بیع العرایا کے جواز کے قائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ عربیہ درحقیقت عطیہ ہے اور اس پر بیع کا اطلاق صورۃ کیا جا تا ہے۔
(عمدة القاری ج ۱١ص ۴۳۲) اس اعتراض کے جواب میں امام ابوحنیفہ اورعمل بالحدیث میں لکھا ہے ۔
البتہ اس معاملے میں خود حضور اکرم ﷺ نے ایک صورت یعنی ’’عرا یا‘‘ کومستثنی قرارد یا ہے جس کا ذکر اوپر اعتراض کے ضمن میں منقول حدیث میں ہے’عرایا‘‘ کا معنی ہے ۔’ہبہ کیئے ہوۓ درخت‘‘ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے باغ کے کچھ درخت کسی محتاج کو ہبہ کر دے ۔ پھر بعد میں وہ کسی وجہ سے اسے درخت پر لگے ہوۓ پھل دینے کے بجاۓ کٹے ہوۓ پھل اس آدمی کو دے دے۔ اس صورت میں اگرچہ بظاہر مزابنہ کی صورت پائی جاتی ہے لیکن اس کو اس لئے جائز قراردیا گیا ہے کہ درحقیقت اس میں وہ علت نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے مزابنہ کوممنوع قراردیا گیا ہے ۔مزاہنہ میں ممانعت کی علت یہ ہے کہ اس میں اندازے کے ساتھ ایک جنس کی اشیاء کا باہمی تبادلہ کیا جاتا ہے اور اس میں کمی بیشی کا احتمال پایا جا تا ہے جو کہ شریعت میں ممنوع ہے۔ جبکہ عرایا میں سرے سے تبادلہ ہی نہیں پایا جاتا یعنی یہاں صورت یہ نہیں ہے کہ موہوب لہ ( جس آدمی کو ہبہ کیا گیا ہے ) سے درخت پر لگے ہوۓ پھل لے کر ان کے بدلے میں اسے کٹے ہوۓ پھل دیئے جا رہے ہیں بلکہ صورت یہ ہے کہ ہبہ کرنے والے نے ایک چیز ہبہ کرنے کے بعد موہوب لہ کے قبضے میں جانے سے پہلے ہی واپس لے لی اور اس کی جگہ دوسری چیز ہبہ کر دی۔ چونکہ پہلی چیز موہوب لہ کے قبضے میں نہیں گئی اس لیے اس پر اس کی ملکیت ثابت نہ ہوسکی اس طرح ہبہ کرنے والے نے جب پہلی چیز واپس لی تو وہ اس کی اپنی ہی مملوکہ چیز تھی نہ کہ موہوب لہ کی ۔ پس جب اس نے اپنی ہی چیز ایک چیز کی جگہ دوسری چیز دی ہے تو تبادل نہیں پایا گیا۔ اس لیے کمی بیشی بھی نا جائز نہ رہی ۔ امام ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث ۲۰۰) ہمارے نزدیک یہ شکل جس کو غیر مقلدین نے بیع عرایا کا نام دیا ہے جائز ہے ۔ راشدی صاحب نے جوحدیث نقل کی ہے اس کی شرح میں نواب قطب الدین محدث دہلوی حنفی لکھتے ہیں ۔ پانچ وسق سے کم کی قید اس لئے ہے کہ اس اجازت کا تعلق احتیاج اور ضرورت سے ہے اور احتیاج و ضرورت پانچ وسق سے کم ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ عرایا کہ پھلوں کی مذکورہ بیع وتبادلہ پانچ وسق سے کم میں سب ہی علماء کے نزدیک جائز ہے۔ اس بات میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف محتاجوں ہی سے ہے یا اعدا بھی اس اجازت کے دائرہ میں آتے ہیں چنانچہ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ اجازت دونوں کے لیے ہے
( مظاہری ج ۳ ص ۹۵)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں