اعتراض نمبر ٩٧
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئلہ : شراب کی بیع ہر صورت میں حرام ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن جابر انه سمع رسول اللہ ﷺ یقول عام الفتح وهو بمكة ان اللہ ورسولہ حرم بيع الخر والميتة والخنزير والاصنام
( ترجمہ ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ میں فرما رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب ، مردارخنزیر اور بتوں کی بیچ کو حرام قرار دیا ہے۔
جواب:
(بخاري ج١كتاب البيوع باب بيع الميتة والاصنام صفحه : ۲۹۸، رقم الحدیث ۲۲۳۶) (مسلم کتاب المساقات والمزارعة باب تحريم بيع الخمر والميتة الخ صفحه : ۲۳، رقم الحدیث۴۰۴۸)
فقه حنفى
واذا امر المسلم نصرانيابيع خمرا وبشراء هاففعل ذلك جاز عندابي حنيفة -
(هدایه آخرین ج٣کتاب البیوع باب بیع الفاسدصفحه۵۸)
( ترجمہ ) اگر مسلمان عیسائی کو شراب کی خرید وفروخت کا حکم دے تو ابوحنیفہ کےنزدیک جائز ہے۔
(فقه وحدیث ۱۲۶)
جواب:
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ اس حدیث کے مطابق ہے جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ چنانچہ مشکوةکی شروحات میں لکھا ہے ۔
پتلی نشہ آور چیز خواہ شراب انگوری ہو یا کھجور وغیرہ کی یا تاڑی یا کوئی اور چیز مطلقاً حرام ہے نشہ دے یا نہ دے اس پرفتوی ہے ۔ ان سب کی تجارت بھی حرام ہے ۔خشک نشہ آور چیز میں جیسے بھنگ افیون وغیرہ کا استعمال نشہ کے لیے حرام ہے اور دواؤں میں جبکہ یہ نشہ نہ دیں تو حلال ، لہذا ان کی بیع حلال ہے کہ ان سے انتفاع حلال بھی ہے۔مردار وہ مرا ہوا جانور ہے جو بغیر ذبح کھایا نہیں جاتا لہذا مری مچھلی کی تجارت درست ہے۔ بتوں کی تجارت خواہ فوٹو کی شکل میں ہوں یا مجسم حرام جیسے ہنو مان ۔ بھوانی رام چندر وغیرہ کے مجسمے یا فوٹو ان کی تجارت حرام ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں :
مردار کی چربی کا استعمال حرام ہے احناف کے ہاں مردار کی چربی صابن ۔ چراغ یا چمڑوں میں استعمال کرنا حرام ہے نیز لکھتے ہیں نجس تیل کا چراغ مسجد میں جلانامنع ہے۔ (علامہ لمعات التنقح شرح مشکوۃ المصابیح واشعۃ اللمعات شرح مشکوةیہ دونوں کتابیں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی ہیں ) نواب قطب الدین حنفی لکھتے ہیں :
عطاء نے لکھا ہے کہ شراب وغیرہ کے مذکورہ بالا حکم میں باجا بھی داخل ہے کہ اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں ہے
( مظاہرحق ج ۳ ص ۳۹)
راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت پوری نقل نہیں کی کیونکہ پتہ چل جانا تھا کہ صاحبین منع کرتے ہیں اور فقہ حنفی میں فتوی بھی صاحبین کے قول پر ہی ہے۔ اور امام صاحب کی اجازت بھی سخت تر کراہت یعنی مکروہ تحریمی کے ساتھ گویا ان کے نزدیک بھی ناجائز ہی ہوا۔ ہدایہ کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ امام محمد نے ذکر فرمایا کہ اگر مسلمان نے کسی نصرانی کو شراب بیچنے یا شراب خریدنے کا وکیل کیا اور وکیل نے یہ کام کیا تو امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے اور صاحبین نے فرمایا کہ مسلمان پر نہیں جائز ہے۔ اور سور کی خرید فروخت کی وکالت میں بھی ایسا ہی اختلاف ہے اور صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ موکل خود یہ کام نہیں کر سکتا ہے تو بجاۓ اپنے دوسرے کو وکیل بھی نہیں کر سکتا ہے اور اس لیے کہ جو کام وکیل کے وسطے ثابت ہوتا ہے وہ موکل کے طرف منتقل ہوتا ہے تو ایسا ہوا کہ گویامؤکل نے خود یہ کام کیا جائز نہ ہوگا اور ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ وکیل اپنی لیاقت ولایت سے خودعقد کرنے والا ہے اور موکل کی طرف ملکیت کا منتقل ہونا ایک امرحکمی ہے تو اسلام لانے سے یہ ممتع نہ ہوگا جیسے مسلمان نے شراب یاسور کو میراث پایا پس اگر شراب ہو تو اس کو سرکہ کر لے اور اگر سور ہو تو اس کو زبح کر دے۔ (عین الہدایہ جلد سوم ص ۱۰۱ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
قارئین کرام آپ نے ہدایہ کی پوری عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیا اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ایسا کرنا درست نہیں ہے اور حنفی مذہب میں فتوی صاحبین نے قول پر ہے توحنفی مذہب میں ایسا کرنامنع ہوا۔ امام ابوحنفیہ رحمۃاللہ علیہ کے ہاں بھی ایسا کر نے کا حکم نہیں امام صاحب نے تو مسئلہ کا حل بتایا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے ایسا کام کر لیا تو وہ اب کیا کرے ۔ اس کے متعلق امام صاحب نے وہ بات فرمائی جوراشدی صاحب نے نقل کی مگر آگے کی عبارت چھوڑ دی۔
(غایۃ الاوطاراردوترجمہ در مختار جلد نمبر ۳ص ۹۵ ناشر ایچ ۔ایم سعید کمپنی کراچی میں ہے)
۔ یا جسے امر کیا مسلم نے یعنی وکیل کیا مسلم نے زمی کو شراب یا سور کے بیچنے یا خرید کر نے کے واسطے یا محرم نے غیرمحرم سے کہا اپنے شکار کے بیچنے کے واسطے یعنی یہ توکیل اور بیع اور شراء امام کے نزدیک صحیح ہے نہایت کراہت کے ساتھ ( عند الامام مع اشراء کراہت ) جیسے ضمانت سابقہ صحیح ہے اس واسطے کہ عاقد یعنی زمی وکیل پہلی صورت میں اور غیر محرم وکیل دوسری صورت میں تصرف کرتا ہے بیع اور شراء میں اپنی اہلیت سے نہ موکل کی اہلیت سے اور انتقال ملک کا موکل کی طرف امرحکمی ہے ۔ اس عبادات کے آگے لکھا ہے ۔
اور صاحبین نے کہا کہ بیچ مذکور صحیح نہیں ۔
یعنی باطل ہے اور یہی قول ظاہرتر ہے ۔ کذا في البشرنبلاليه عن عن البرهان۔ آگے مترجم کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ۔
جب امام کے نزدیک جواز بیع اشد کراہت کے ساتھ ہوا تو مسلم کو واجب ہے کہ درصورت خرید شراب کو سرکہ بنادے یا اس کوزمین پر بہادے اور سور کو چھوڑ دے۔اور درصورت بیع اس کے ثمن کو تصدق کرے (یعنی اس کی رقم صدقہ کر دے ) کذافی الطحاوی عن الحموی ۔( غایۃ الاوطارج ۳ ۔ ۹۵) ان عبارات سے معلوم ہوا کہ حنفی مذہب کیا ہے راشدی نے حنفی مذہب صحیح نقل نہیں کیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں