نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 99 مسئلہ : نماز میں تکبیر (اللہ اکبر ) کہنا ہے نہ کہ کوئی اور جملہ



 اعتراض نمبر ٩٩

مسئلہ : نماز میں تکبیر (اللہ اکبر ) کہنا ہے نہ کہ کوئی اور جملہ

حدیث نبوی ﷺ

مسئلہ ۸۲ میں حدیث گذری ، جس کے الفاظ ہیں :

تحريمها التكبير 

(ترجمہ ) نماز میں داخل ہونے کے لیے صرف تکبیر ہے۔

(جامع ترمذي كتاب الصلاة باب ماجاء في تحريم الصلاة وتحليلها رقم الحدیث ج١ ۲۳۸ص۳۲) (ابن ماجہ کتاب الطهارة وسننهاباب مفتاح الصلاة الطهور رقم الحدیث ۱ج ۲۸۶ص ۲۴) نیز ایک اور حدیث میں ہے:

كان إذا دخل في الصلوة كبر

( ترجمہ ) رسول اللہ ﷺ نماز میں داخل ہوتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے۔

(بخاري ج١كتاب الصلوة باب رفع اليدين اذا قام من الركعتين صفحه ۱۰۲، رقم الحدیث۷۳۹)

فقه حنفى 

فإن قال بدل التكبير الله أجل أو الله أعظم أو الرحمن اكبر أولا اله الا الله أو غيره من أسماء الله تعالى أجزءا عند أبي حنيفة

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوۃ باب صفة الصلوةص١٠٠)

(ترجمہ ) اگر نماز پڑھنے والا اللہ اکبر کے بجاۓ اللہ اجل ، اللہ اعظم

الرحمان اکبر، لا اله الا الله يا الله تبارك و تعالی کے دوسرے اسماء میں سے کوئی اور نام کہتا ہے تو ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے۔ 

فأن افتتح الصلوة بالفارسي اوقرابالفارسية اوذبح وسمى بالفارسية وهو يحسن العربية اجزاه عند ابي حنيفة 

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوۃ باب صفة الصلوة ص۱۰۱)

(ترجمہ) اگر نماز کو فارسی سے شروع کیا یا قرأت فارسی میں کی یا جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ فارسی میں پڑھی اور وہ عربی زبان سے اچھی زبان سے اچهی طرح واقف بھی ہے تب بھی ابوحنیفہ کے نزدیک ( اس طرح کرنا جائز ہے۔

(فقہ وحدیث ۱۳۸)

جواب:

راشدی صاحب نے بالکل جھوٹ بولا ہے کہ حنفی ان حدیثوں کو نہیں مانتے ہم ان دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہیں جن کا حوالہ راشدی صاحب نے دیا ہے۔ ہماری ہر فقہ کی کتاب میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ نماز تکبیر سے شروع کرے یعنی لفظ اللہ اکبر سے نماز شروع کرے اور السلام علیکم رحمۃ اللہ پرختم کرے۔ ملاحظہ فرمائیں علمائے احناف کے حوالہ جات

(۱) - حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں ۔

مسئله:

تکبیر تحریمہ کے لیے سب سے بہتر الفاظ اللہ اکبر ہیں جن پرآنحضرت ﷺ کاعمل رہا ہے۔ 

(نمازمسنونص ۳۱٢) 

(۲) مفتی کفایت اللہ رحمۃاللہ علیہ حنفی دہلوی لکھتے ہیں:

نماز کی نیت کر کے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاؤ اور اللہ اکبر کہ کر ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھ لو۔ ( تعلیم الاسلام حصہ اول ص ۲۶ و ٢٧ تاج کمپنی )

(۳) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں ۔ 

مسئلہ نمبر١: نماز کی نیت کر کے اللہ اکبر کہے۔ 

(بہشتی زیورحصہ دوم فرض نماز پڑھنے کاطریقہ کا بیان ص ۱۱۶) 

(۴) مولانافیض احمد صاحب حنفی نے ’’نماز مدل‘‘ ص ۲۸ پر دو حدیثیں نقل کی ہیں یستفتح الصلوة بالتكبير ( مسلم ج ۱ص ۹۴ ) والی اور تحریمها التكبير (ابو داؤد،ترمذی ج ۱ص ۳ ) والی پھر مسئلہ لکھا ہے۔نمازی رو بقبلہ ہوکر نماز کی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہے۔

 راشدی صاحب کہتے ہیں حنفی ان حدیثوں کو نہیں مانتے اور ہم نے ثابت کر دیا کہ حنفی ان حدیثوں کو مانتے ہیں اور اپنی کتابوں میں نقل بھی کرتے ہیں ۔

(۵) مولانامفتی جمیل احمد نذیری حنفی رسول اکرم ﷺ کا طریقہ نمازص۹۰ پر لکھتے ہیں ۔ تکبیرتحریمہ کا مطلب ہے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھنا۔

(٦) مولانا محمد الیاس فیصل نماز پیمبرﷺ کے ص ۱۰۰ و ١٠١ پر لکھتے ہیں انگھوٹے کانوں کی لو کے بالمقابل ہوں ۔ اس وقت اللہ اكبر کہہ کر دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لو ۔ لو۔ 

(۷) مفتی محمد ارشاد صاحب قاسمی ،سنت کے مطابق نماز پڑھیئے صفحہ ۱۴ پر لکھتے ہیں فائدہ:خواہ کوئی بھی نماز ہو شروع کرنے کے لیے تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہنا شرط اور فرض ہے علامہ طلبی نے شرح منیہ میں اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ (السعایہ شرح وقایہ ۱۰۶) 

(۸) حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب نے نماز اہل السنۃ والجماعت کے صفحہ ۴٦ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ابوداؤد ج١ ص ۹۸ سے نقل فرمائی ہے۔ اس میں ہے و تحریمها التكبير و تحلیہلا التیم اس سے معلوم ہوا کہ حنفی اس حدیث کو مانتے ہیں اور حنفیوں کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے۔ 

(۹) ڈاکٹر محمودالحسن عارف نماز حبیب سلام ص ۸۴ میں ارکان وفرائض نماز کے تحت نمبر پر لکھتے ہیں تکبیر تحریمہ کا مطلب ہے ایسی تکبیر جو حلال کاموں کو بھی حرام کر دے اس سے مرادنماز شروع کرتے وقت کہی جانے والی تکبیر (اللہ اکبر ) ہے۔ پھر مشکوۃ کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت و تحريهما التکبیر اور ابن ماجہ، ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت جس کے الفاظ ہیں کان یستفتح الصلوة بالتكبيرنقل فرماتے ہیں ۔ 

(۱۰) مولانا امداداللہ انورمستند نمازجنفی ص ۱۱۸ پر لکھتے ہیں ۔ امام ہو یا مقتدی ،اللہ اکبر کہ کر ناف کے نیچے ہاتھ باندھے۔ 

(۱۱) مولانامحمد امان الله الدلائل السنية في اثبات الصلوۃ السنیۃ کے ص ۵۴ پر لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نماز پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ تکبیر تحریمہ سے نماز شروع فرماتے 

(۱۲) مولانا ارشاداحمد فاروقی احکام و آداب طہارت وضوادرنماز‘‘ کے ص ۸۸ پر لکھتے ہیں۔ نمبر ۲۱اللہ اکبر کہنا واجب ہے اور اللہ اکبر کے علاوہ سے افتتاح کرنا مکروہ ہے۔ یااصح ہے۔ ( شامی ص ۴۸۰ ج ۱، ہندیہ فتاوی عالمگیری ص ٦۸ ج ۱ بحرالرائق شرح کنز الدقائق ص۳۰۶ج۱) 

(۱۳) مولاناحکیمحموداحد ظفر سیالکوٹی الکتاب المقبول فی صلاۃ الرسول ﷺ کے ص۲۴۵ میں لکھتے ہیں۔ تکبیر تحریمہ کا مطلب ہے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھنا۔ قرآن حکیم میں ہے وربك فكبر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر ( مدثر : ۳)

(۱۴) مولانا ابوضیاء عبداللہ ہزاروی صفۃ صلاۃ النبی ﷺ کے ص۱۲۶ پر لکھتے ہی ۔ یعنی اللہ اکبر کہ کرنمازی نماز میں دخل ہو جا تا ہے اور آخر میں السلام علیکم کہہ کر نماز سے نقل جاتا ہے۔ 

(۱۵) - علامہ ظہیر احسن شوق نیموی حنفی ، آثاراستن باب افتتاح الصلاة بالتکبیر میں حضرت ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرتے ہیں جس کے الفاظ اس طرح ہیں ۔ حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ کی طرف منہ کرتےہاتھوں کو اٹھاتے اور فرماتے اللہ اکبر یہ روایت ابن ماجہ باب افتتاح الصلوۃ میں موجود ہے۔ ہم نے پندرہ حوالے حنفی علماء کے پیش کر دیئے جن سے خوب واضح ہو جا تا ہے کہ ہمارے نزد یک تکبیر تحریمہ اللہ اکبر سے کہنا چاہیے۔ اور فتاوی شامی فتاوی عالمگیری ۔ بحرالرائق کے حوالہ سے بھی ثابت کر دیا ہے کہ اللہ اکبر کے علاوہ اور کسی لفظ سے تکبیر کہنا مکروہ ہے۔ راشدی صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت سے یہ سمجھا کہ امام صاحب کے نزدیک علی الاطلاق اللہ اکبر کی جگہ دوسرے ناموں سے نماز شروع کرنا جائز ہے حالانکہ امام صاحب تو اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور نام سے نماز شروع کر نے کو مکروہ قرار دیتے ہیں حوالہ ملاحظہ فرمائیں ۔ مولانا ظفر احمد عثمانی حنفی لکھتے ہیں :

فقد ذكر القدوري عن ابي حنيفة رحمة الله نصا انه كرة الافتتاح الابقوله الله اكبر قلت لانه يخالف السنة (اعلاء السنن جلد دوم ص ۱۵۹) (ترجمہ ) امام قدوری نے امام ابوحنیفہ سے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور کلمہ سے نماز شروع کرنے کو مکروہ کہتے ہیں میں کہتا ہوں مگر وہ اس لیے ہے کہ سنت کے خلاف ہے

فتاوی عالمگیری جلد اول ص ۶۸ میں ہے : وهل يكره الشروع بغيره اختلف المشائخ بعفهم قالوا يكره وهو الاصح هكذا في الذخيرة والمحيط والظهيرية 

( ترجمہ ) نماز بغیر تکبیر کے شروع کرنے میں مشائخ کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا ہے کہ مکروہ ہے اور یہی اصح ہے یہ ذخیرہ اور محیط اور ظہیریہ میں لکھا ہے۔ 

( فتاوی عالمگیری مترجم اردو ج ۱۰۶۱)

فقہ حنفی میں اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور کلمہ سے نماز شروع کر نے کومکر وہ لکھا ہے تو لازمی بات ہے کہ ہدایہ کی عبارت میں جو ( اجزاہ ) ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی ۔ یا پھر اس کو عذر کی حالت پر محمول کر لیں گے۔ یا اس کو شاذ کہ کر ترک کر دیں گے۔ باقی رہا اعتراض کا دوسرا جز یعنی فارسی میں قراۃ کرنا تو یہ بھی حنفی مسلک میں درست نہیں ۔ رہی و ہ عبارت جوراشدی صاحب نے ہدایہ سے تعارض کے طور پر پیش کی ہے اس کا جواب خود ہدا یہ ہی میں موجود تھا۔ جوراشدی صاحب نے نقل نہیں کیا۔ اس عبارت کے آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں ۔

ویروی رجوعه في اصل المسائة الى قولهما وعليه الاعتماد

 (ترجمہ ) اصل مسئلہ میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع منقول ہے اور اس پر

 ( ہدایہ باب صفۃ الصلوة ج ١ ص ۸۷ )

(۱) نوح ابن مریم رحمۃاللہ علیہ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ) سے منقول ہے کہ حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃاللہ علیہ نے آخیر وقت میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع کیا کہ دوسری زبان میں قرآت کرے گا تو کافی نہیں ہوگا۔ اور اس پرفتوی ہے۔(اثمارالہدایہ) 

(۲) در مختار میں اس پرفتوی لکھا ہوا ہے۔ ( ج اول ص ٦٩ کتاب الصلوۃ) (۳) فتاوی عالمگیری عربی جلد اول ص ۲۹ ، اردو جلد اول ص ۱۰۸ میں لکھا ہے۔ اور روایت ہے کہ انہوں نے (امام ابوحنیفہ نے ) صاحبین کے قول کی طرف رجوع کیا ہے اور اسی پر اعتماد ہے یہ ہدیہ میں لکھا ہے اور اسرار میں ہے کہ یہی اختیار کیا گیا ہے اورتحقیق میں ہے کہ عامہ مشائقین کا یہی مختار ہے اور اسی پر فتوی ہے یہ شرح نقای میں لکھا ہے جوشیخ ابوالمکارم کی تصنیف ہے اور یہی اصح ہے یہ مجمع البحرین میں لکھا ہے۔

 کیا اور درمختار اور عالمگیری کے علاوہ امام انصام صاحب رحمۃاللہ علیہ کے رجوع کا ذکر اصول فقہ کی مشہور کتاب نورالانوار میں ہے اور اس کی شرح قمرالاقمار حاشیہ نورالانوارنمبر ۱۰ ص ۹ میں بھی موجود ہے، اس طرح اصول فقہ کی مشہور کتاب حسامی کے شروع میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے دیکھئے ، اور اس کے حاشیہ پر بھی اس مسئلہ کی عمدہ تحقیق کی گئی ہے ۔ اصول کی ایک اور مشہور کتاب توضیح تلویح ص ۷۹ میں بھی امام صاحب کے رجوع کا ذکر موجود ہے پس جس مسئلہ میں امام صاحب کا رجوع ثابت ہے اور بعد کے فقہاۓ احناف نے تصریح بھی کر دی اور فقہاء کا فتوی بھی اس پر نہیں ۔ پھر حنفی مذہب پر یا امام صاحب

طعن کر نا تعصب نہیں تو اور کیا ہے ۔ 

ایک شبہ کا ازالہ:

غیر مقلدین جب جواب سے عاجز آ جاتے ہیں تو عوام کے سامنے ایک شبہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایسے مسائل پھر فقہ کی کتابوں میں کیوں لکھتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ۔ کہ قرآن پاک کی منسوخ آیات بھی تو قرآن میں موجود ہیں ۔اور قرآن پاک کی تفاسیر میں بھی ہر قسم کے اقوال پاۓ جاتے ہیں یہی حال کتب حدیث اور ان کی شروحات کا ہے ۔

حدیث کی کتاب کی کوئی شرح لے لیں مثلاً بخاری کی شرح فتح الباری ابن حجر عسقلانی شافعی کی ہی دیکھ لیں ۔ اس میں ہر قسم کی روایات آپ کومل جائیں گی ۔ یہی حال سیرت النبی ﷺ کی کتب کا ہے ، تاریخ کی کتابوں کا تو حال زیادہ ہی خراب ہوتا ہے۔ مگر آج تک کسی نے نہیں کہا کہ ان کتابوں کو چھوڑ دو یا ان سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ یا ان کے مصنفین کو کچھ کہا ہو ۔ جو بات قرآن وسنت کے خلاف ہواس پر عمل مت کرو اور فقہ حنفی کی کتب کے لیے بھی ہم اس اصول پر عمل کرتے ہیں ۔ جو بات زیادہ قرآن وسنت کے مطابق ہواس پر مل کر یں گے اور جو قرآن وسنت کے صریح خلاف ہوگی اس کو چھوڑ دیں گے ۔ مگر غیر مقلدین کی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ یا دیگر فقہائے احناف کو برا بھلا نہیں کہیں گے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...