نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 33 پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔ مسئلہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا بےحد ضروری ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

اعتراض نمبر 33
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔ مسئلہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا بےحد ضروری ہے

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عامة عذاب القبر من البول

 ترجمه: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے تعلیم نے فرمایا عام طور پر قبر کا عذاب پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے

 ( رواه الحاكم في مستدركه عن ابن عباس رفعه الي النبي الله قال عامة عذاب القبر من البول رقم الحديث 654 جلد اص 293 طبع دار الكتب العلمية بيروت) (سنن الدار قطني عن أبي هريرة ج1ص 128، رقم 7 طبع دار المعرفة بيروت)

📝فقه حنفی

فان انتضح عليه البول مثل روس الابر فذالك ليس بشيء و قدر الدرهم و ما دونه من النجس المغلظ كالدم والبول والخمر وخر الدجاج وبول الحمار جازت الصلوة معه

هداية اولين اكتاب الطهارات باب الانجاس و تطهيرها صفحه (74-77)

ترجمہ: سوئی کے سر کے برابر اگر پیشاب کے قطرے لگے ہوئے ہیں تو کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔ اگر درہم کے برابر سخت نجاست مثلاً : پیشاب ، شراب، مرغ کی بیٹھ یا گدھے کا پیشاب لگا ہوا ہو تو نماز درست ہے۔ 

(فقہ وحدیث س (72)

🪞جواب:~~

جو حدیث راشدی صاحب نے نقل کی ہے اسے احناف مانتے ہیں اور احناب پیشاب کو ناپاک کہتے ہیں لیکن یہ حدیث تو غیر مقلدین کے خلاف ہے۔ کیونکہ غیر مقلدین کا مذہب ہے کہ 

حلال جانور ہوں یا حرام سب کا پیشاب پاک ہے 

حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ نواب علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں۔ والمنى طاهر وكذالك الدم غير دم الحيضة و كذالك رطوبة الفرج وكذالك الخمر وبول ما يوكل لحمه و ما لا يوكل لحمه من الحیوانات (نزل الابرارج 1ص 49

ترجمہ یعنی منی پاک ہے ایسے ہی حیض کا خون ، شرمگاہ کی رطوبت شراب اور 

حلال و حرام جانوروں کا پیشاب سب پاک ہیں۔

🤔ناظرین حدیث کی مخالفت احناف نے کی یا خود غیر مقلدین نے ؟

🪞حنفی مسلک میں پیشاب ناپاک ہے


حنفی مسلک کی اصول فقہ کی مشہور کتاب نور الانوار ص 68 میں ہے۔

 روى انه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابی صالح ابتلي بعذاب القبر جاء الى امرة فسألها عن اعماله فقالت يرعى الغنم ولا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام استنزهوا من البول فأن عامة عذاب القبر منه ".

ترجمہ ۔۔مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایک نیک صالح صحابی کی تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ کو احساس ہوا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہوے ہیں آپ ان کی اہلیہ کے پاس تشریف لائے اور ان صحابی کے اعمال کے متعلق دریافت فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ یہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے پیشاب سے نہیں بچتے تھے اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پیشاب سے بچو کیونکہ قبر کا عذاب عام طور پر اس کی وجہ سے ہوتا ہے۔

راشدی صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ حنفی مسلک میں ناپاک بدن اور ناپاک کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ حالانکہ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے ہم یہاں پر دونوں چیزوں کا حکم فقہ حنفی سے بیان کرتے ہیں۔

🪄🪄فقہ حنفی میں بدن اور کپڑوں کا پاک ہونا🪄🪄

1.نمازی کے بدن کا نجاست حقیقی سے پاک ہونا ضروری ہے ۔ یعنی بول و براز خون ، پیپ ، شراب وغیرہ

۔ (ہدایہ ج 1 ص 58 شرح نقایہ ج 1 ص 63 کبیری ص 177خلاصه )

(شرح وقایہ ج ا ص 63 کبیری ص 58)

2. نمازی کے کپڑوں کا بھی نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے

شرح وقایہ ج1 ص63 کبیری ص58

3. فقہ حنفی کی مشہور کتاب قدوری میں ہے

نمازی پر واجب ہے کہ ناپاکیوں اور پلیدیوں سے اول اپنے بدن وغیرہ کو پاک کرے۔ قدوری مترجم اردو ص 34 مجموعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

4.فقہ حنفی کی مشہور کتاب شرح وقایہ میں ہے۔

" يطهر بدن المصلى و ثوبه و مكانه عن نجس و مرئی بزوال پاک کیا جائے نمازی کا بدن اور کپڑا اور پڑھنے کی جگہ ایسی نجاست سے جو دیکھائی دے۔ شرح وقایہ مترجم ص 123-122 مطبوعہ میر محمد کراچی)

5مفتی کفایت اللہ دہلوی حنفی لکھتے ہیں۔

  (نماز کی پہلی شرط کا بیان)

سوال بدن پاک ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب. بدن پاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ بدن پر کسی قسم کی نجاست پلیدی نہ ہو ۔

تعلیم الاسلام حصہ دوم ص 22 مطبوعہ تاج اپنی کراچی )

مفتی کفایت اللہ دہلوی حنفی مزید لکھتے ہیں :

  (نماز کی دوسری شرط (کپڑے پاک ہونے) کا بیان۔)

سوال: کپڑوں کے پاک ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب: جو کپڑے نماز پڑھنے والے کے بدن پر ہوں جیسے کرتہ، پائجامہ، ٹوپی ، عمامہ ، اچکن وغیرہ ان سب کا پاک ہونا ضروری ہے۔

تعلیم السلام حصہ سوم ص (71)

ناظرین آپ نے دیکھ لیا کہ فقہ حنفی میں نماز پڑھنے کے لئے بدن اور کپڑوں کا پاک ہونا

شرائط نماز میں ہے۔ غیر مقلدین اس مسئلہ پر اکثر اعتراض کرتے ہیں اس لئے ہم یہاں پر اس مسئلہ کو تفصیل سے لکھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

مولا نا محمد شریف صاحب اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : 

بے شک فقہاء علیہم الرحمہ نے ایسا لکھا ہے لیکن یہ معافی بہ نسبت صحت نماز ہے نہ یہ بہ نسبت گناہ کے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنے والے کو گناہ بھی نہیں۔ جو فقہاء علیہم الرحمہ نے تصریح

فرمائی ہے کہ ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

در مختار میں ہے۔

عفا الشارع عن قدر در هم و ان کرہ تحريما فيجب غسله (در مختار)

شارع نے قدر درہم معاف کیا ہے اگرچہ مکروہ تحریمی ہے پس اس کا دھونا واجب ہے۔ معلوم ہوا کہ جس کپڑے کو بقدر در ہم نجاست لگی ہوگی اس میں نماز پڑھنا ہمارے نزدیک مکروہ تحریمہ ہے۔ اس کا دھونا واجب اور نماز کا اعادہ واجب ہے۔

کما قال الشيخ عبد الحی لکھنوی فی عمدة الرعاية ص 50 ج 1

اشار الى العفو عنه بالنسبة الى صحة الصلوة به فلا ينافي الاثم"

کہ یہ معافی به نسبت صحت نماز ہے نہ یہ کہ اس کو گناہ نہیں۔

اور یہ اجازت ہی اس صورت میں ہے کہ دھونے کے لئے پانی یا دوسرا پاک کپڑا نہ ملے۔

اگر پانی میسر ہے اور وقت کی گنجائش بھی ہے تو اسے دھو لینا چاہئے۔

چنانچہ فتاوی غیاثیہ ص 13 میں ہے۔

دخل في الصلوة فرى فى ثوبه نجاسة اقل من قدر الدرهم وكان في الوقت سعة فالافضل ان يقطع او يغسل الثوب ويستقبلها في جماعة اخرى و ان فاتته هذا ليكون موريا فرضه على الجواز بيقين فان كان عادما للماء أولم يكن في الوقت سمة اولابرج اخرى جماعة اخرى مضى عليها وهو الصحيح.

یعنی نماز شروع کی تو دیکھا کہ کپڑے میں قدرے درہم سے کم نجاست ہے اور وقت میں فراخی ہے تو افضل یہ ہے کہ نماز قطع کر کے کپڑا دھو ڈالے اور دوسری جماعت میں نئے سرے سے شروع کرے اگرچہ یہ جماعت اس کی فوت بھی کیوں نہ ہو جائے تاکہ اس کے فرض یقیناً ادا ہو جائیں اور اگر پانی نہیں یا وقت میں وسعت نہیں یا دوسری جماعت ملنے کی امید نہیں تو اس کے ساتھ نماز پڑھ لے۔

 طحطاوی فرماتے ہیں۔

المراد عفا عن الفساد به والا نكراة التحريم باقية اجماعا ان

بلغت الدرهم و تنزيها ان لم تبلغ - (المحطاوی علی مراقی الفلاح ص 90)

یعنی عفو سے مراد ہے کہ نماز فاسد نہیں ورنہ کراہت تحریمی اجماعا باقی رہتی ہے اگر درہم کو نجاست پہنچے

 اگر درہم سے کم ہو تو کراہت تنزیہی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر بقدر در ہم نجاست کے ساتھ نماز پڑھے گا تو نماز مکروہ تحریمی ہو گی جس کا اعادہ واجب اور کپڑے کا دھونا واجب ہے۔

پس دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ معترض ان تمام باتوں کو بھی لکھتا پھر اعتراض کرتا تا کہ ناظرین کو اصل مذہب کا پتہ لگ جاتا۔ مگر یہاں تو عوام کو صرف مغالطہ میں ڈال کر مذہب حنفی سے بیگانہ کرنا مقصود تھا دیانت سے کیا کام؟ 

جب اصل مسئلہ معلوم کر چکے تو اس معافی کا ماخذ بھی معلوم کر لینا چاہئے ۔ یہ معانی فقہاء نے استنجاء بالاحجار سے اخذ کی ہے کیونکہ ظاہر ہے پتھر ڈھیلے مزیل نجاست نہیں ہیں بلکہ مجفف اور منشف ہیں تو موضع غائط کا نجس ہونا شریعت نے نماز کے لئے معاف کیا ہے اور وہ قدر درہم ہوتا ہے اس لئے فقہاء نے نماز کے لئے بقدر درہم معاف لکھا ہے۔ 

نووی شرح صحیح مسلم میں حدیث اذا استيقظ احدكم من منامہ کے بعض فوائد بھی لکھتے ہیں: 

منها ان موضع الاستنجاء لا يطهر بالاحجار بل يبقى نجسا معفواعنه في حق الصلوة 

(نووی ص 136)

یعنی بعض فوائد میں سے یہ ہے کہ استنجاء کی جگہ پتھروں سے پاک نہیں ہوتی بلکہ

نجاست رہتی ہے جو نماز کے حق میں معاف ہے۔

اسی طرح حافظ ابن حجر فتح الباری پ 1 میں لکھتے ہیں :

قدرناه بقدر الدرهم اخذا عن موضع الاستنجاء - (ص 58) کہ وہ قلیل نجاست جو کہ عفو ہے ہم نے اس کا اندازہ بقدر درہم رکھا اور اس کا

ماخذ استنجاء کی جگہ ( کا معاف ہونا ہے )

علامہ شامی فرماتے ہیں۔

" قال في شرح المنية ان القليل عفو اجماعا اذا الاستنجاء بالحجر كان بالاجماع و هو لا يستأمل النجاسة والتقدير بالدرهم مروى عن عمر و على و ابن مسعود و هو مما لا يعرف بالرائي فيحمل على السماع اه. و في الحلية القدير بالدرهم وقع على سبيل الكناية عن موضع خروج الحدث من الدبر كما افاده ابراهيم النخعي بقوله انهم استنكرهوا المقاعد فى مجالسهم فكنوا بالدرهم و يعضده ما ذكره المشائخ عن عمر انه سئل عن القليل من النجاسة في الثوب فقال اذ كان مثل ظفرى هذا يمنع جواز الصلوة قالوا وظفر وكان قريباً من كفنا اہ“ ۔ (شامی ص 231 ج اول ) شرح منیہ میں کہا ہے کہ نجاست قلیل اجماعاً معاف ہے کیوں کہ پتھروں سے استنجاء کرنا بالا جماع کافی ہے اور وہ نجاست کو بالکل ختم نہیں کرتا اور درہم کا اندازہ حضرت عمرو علی و ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے چونکہ اس میں رائے کا دخل نہیں اس لئے سماع پر محمول ہوگا اور حلیہ میں ہے کہ درہم کا اندازہ بطور کنایہ ہے دبر سے جیسے کہ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اپنی مجالس میں مقاعد کا ذکر برا سمجھا تو کنایہ درہم سے تعبیر کیا اور اس کی تائید کرتا ہے جو مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب قلیل نجاست کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا جب میرے ناخن کے مثل ہو تو نماز کے جواز کو منع نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا ناخن ہماری ہتھیلی ( کے مقر) کے برابر تھا۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ قدر درہم بھی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ ولله الحمد

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...