اعتراض نمبر ٣٦
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : نا بینا امامت کرا سکتا ہے
جواب:
حدیث نبوی ﷺ
عن انس قال استخلف رسول الله ﷺ ابن ام مکتوم يوم الناس وهوا عمى
ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے( اپنی عدم موجودگی میں ) ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور وہ نا بینا تھے۔
(ابوداودج1 كتاب الصلوة باب امامة الاعمي ص 95 رقم الحديث 595)
فقه حنفي
فیكره تقديم العبد والاعرابي والفاسق والاعمى وولد الزنا
( هداية اولين ج1كتاب الصلاة باب الامامة ص 122)
غلام ، اعرابی ، فاسق ، نابینے اور ولد الزنا کو امامت کے لئے آگے کرنا مکروہ ہے۔
(فقہ وحدیث ص 75)
جواب:
راشدی صاحب نے فقہ حنفی کا مسئلہ پورا نہیں بتایا پورا مسئلہ اس طرح ہے۔
1 - مسئلہ اندھے کے پیچھے بھی نماز مکروہ ہوتی ہے اگر استقبال قبلہ نہ کر سکتا ہو اور نجاست سے نہ بچ سکتا ہواگر سمجھ دار اور متقی ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز مکروہ نہیں
(ہدایہ ج 1 ص 77 شرح نقایہ ج 1 ص 86 کبیری ص 514 خلاصہ )
2 - قدوری اردوص 41 میں ہے۔
غلام، گنوار، فاسق، نابینا، حرامی بچہ کوامام بنانا مکروہ ہے اور اگر یہ امام ہو جا ئیں تو نماز ہو جائے گی۔
3 - حضرت عطاء تابعی کا فتوى : " عن ابي جريج قال سئل عطاء عن الاعمى ايوم القوم فقال ماله اذا كان افقههم .
( مصنف عبد الرزاق ج 2 ص 395)
ابن جریج سے روایت ہے حضرت عطاء سے پوچھا گیا نابینا کے بارے میں کیا وہ امامت کرا سکتا ہے لوگوں کو تو انہوں نے کہا کیا حرج ہے اگر وہ ان میں سے زیادہ فقیہ ہو۔ 4 - حضرت ابراہیم نخعی تابعی کا فتوی: " عن حماد قال سالت ابرهيم عن الاعمى هل يوم فقال نعم اذا قام الصلوة -
(مصنف عبد الرزاق ج 2 ص 395) حضرت حماد نے کہا میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے دریافت کیا نابینا شخص کے بارہ میں کہ آیاوہ امامت کر اسکتا ہے تو انہوں نے کہا ہاں کر سکتا ہے بشرطیکہ نماز اچھی طرح ادا کرتا ہو۔
5 - حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا نابینا کی امامت سے احتراز فرمانا: مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 119 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان میں ہے۔
حدثنا وكيع عن سفيان عن عبد الا على عن سعيد بن جبير عن ابن
عباس قال کیف او مهم و هم يعدلوني الى القبلة.
6 - مصنف ابن ابی شیبہ ص 114 جلد 2 میں ہے
حدثنا الفضل بن دكين عن ابي الحسناء عن زيادة النمري قال
سألت انسا عن الائمى يوم فقال ما افقر كم إلى ذالك.
7 - مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 119 میں ہے۔
حدثنا وكيع قال حدثنا سفيان عن وصل الاحدب عن قبيصه بن
برمة الائسدى قال قال عبد الله ما احب ان يكون موزنو كم عميانكم قال احسبه قال ولا قراء كم .
8 - مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 119 میں ہے۔
حدثنا زيد بن حباب عن اسرائيل عن مرزوق عن سعيد بن جبير انه قال الاعمى لا يوم .
تفصیلی جواب: مولانا منصور علی خان مراد آبادی لکھتے ہیں۔
اقول : حنفیہ کے نزدیک اس اندھے کی امامت مکروہ ہے جو احتیاط نہ کرتا ہو اور کوچہ گرو ہو اور اگر عالم اور محتاط ہو یا سب میں افضل ہو اس وقت حنفیہ ہرگز مکروہ نہیں کہتے بلکہ حجت میں یہی حدیث
عبد اللہ بن ام مکتوم کی لکھتے ہیں کتاب الاشباہ والنظائر احکام الاعمی میں ہے دو تکر و امامتہ الا ان یکون اعلم قوم یعنی مکروہ ہے امامت اندھے کی مگر جب کہ مقتدیوں سے زیادہ جاننے والا ہو۔ اور بحر الرائق کتاب الامامة میں ہے: فان کان افضلهم فأولى وعلى هذا حمل تقديم ابن ام مکتوم لانه لم يبق من الرجال الصالحين للامامة فى المدينه احد افضل منه حينئذ . یعنی اگر نا بینا افضل قوم ہو تو واسطے امامت کے وہی بہتر ہے اور اس پر محمول ہے امام کرنا ابن ام مکتوم کا اس لیے کہ مدینے میں کوئی شخص قابل امامت کے ان سے بہتر نہیں رہا تھا اور فتح المنان فی تائید مذہب نعمان باب الامامة تالیف شیخ عبد الحق محدث دہلوی میں ہے ان كان مقتدى القوم وعالما وقارئا لا يكره وقد كان شيخنا الاجل الاكرم عبد الوهاب المتقى يوم اصحاب مع عمیه “ یعنی اگر ہو اندھا مقتدی قوم کا اور عالم اور قاری تو نہیں مکروہ ہے اور تحقیق استاد ہمارے عبدالوہاب متقی امام ہوتے تھے اپنے یاروں کے باوجود نا بینائی کے۔ اور محیط میں ہے اذا لم یکن غيره من البصير افضل فهو اولی " یعنی جب کہ نابینا سے بصیر افضل ہو تو نابینا بہتر ہے۔ اور بدائع باب الامامت میں ہے " اذا كان لا يوزيه غيره في الفضل في مسجده فهو اولى " یعنی جس وقت فضیلت میں اور کوئی نابینا کے برابر نہ ہو تو وہی بہتر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ حنفیہ کے نزدیک نابینا کی مامت مکروہ نہیں مگر اس وقت مکروہ ہے جب احتیاط نہ کرتا ہو یا علم نہ رکھتا ہو عبد اللہ بن ام مکتوم ان باتوں سے بری تھے بلکہ اس وقت تو آنحضرت صلی اللہ تبوک کی لڑائی میں تشریف لے گئے ہیں ان سے بہتر کوئی نہ تھا علی دری کو مکان کے اہتمام میں چھوڑ گئے تھے اگر اس کا بھی اہتمام ان کے سپرد ہوتا تو اس اہتمام میں کوتاہی ہو جاتی بلکہ صاحب ہدایہ کی خود وجہ کراہیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقا نابینا کی امامت مکروہ نہیں بلکہ وجہ عدم احتیاط کے مکروہ ہے پس اس مسئلے کو ابن مکتوم کی حدیث کے مخالف کہنا کمال درجے کی نادانی ہے قیاس مع الفارق اس کو کہتے ہیں ہاں خواب یاد آیا اگر رطب و یابس نہ بھرتے تو سو مسئلوں کا التزام کیونکر ہوسکتا تھا کچھ معترض صاحب کو خیال نہیں کہ کیا لکھتا ہوں بے دیکھے انکل سے کام لیتے ہیں۔
سمجھ ہی نہیں آتی ہے کوئی بات ذوق اس کی
کوئی جانے تو کیا جانے کوئی سمجھے تو کیا سمجھ
(ماخوذ فتح البین ص 101 - 110 ترمیم اور اضافہ کے ساتھ )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں