اعتراض نمبر ٣٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : درندوں کے چمڑے کا استعمال ممنوع ہے
حدیث نبوی ﷺ
عن ابى المليح بن اسامة عن ابيه عن النبي ﷺ نهى عن جلود السباع ترجمه: سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے
درندوں کے چمڑے استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(ابو داود كتاب اللباس باب في جلود النمور والسباء رقم الحديث 4132) (نسائي ج 2 كتاب الفرءوالعتيرة باب النهي عن الانتفاء بجلود السباء ص 191 . رقم الحديث 4258) (مسند احمد ج 5 ص 74,75
رقم الحدیث 20731-20725
فقه حنفی
كل اهاب دبغت فقد طهر و جازت الصلوة فيه والوضوء منه الا
جلد الخنزير والادمى
(هداية اولين كتاب الطهارة باب الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز به ص 4)
ہر چمڑا دباغت کے بعد پاک ہو جاتا ہے اس میں نماز پڑھنا یا اس سے وضو کرناجائز ہے۔ مگر خنزیر اور انسان کا چمڑا پاک نہیں ہوتا۔
(فقہ وحدیث میں 77)
جواب:
فقہ حنفی کے دلائل
اس مسئلہ میں احناف کے پاس کافی احادیث موجود ہیں جن میں آتا ہے کہ چمڑا دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر :1
عن سودة زوج النبي ﷺ قالت ماتت لنا شاة فدبغنا مسكها ثم ما زلنا ننبذ فيه حتى صار شنا . (بخاری)
ام المومنین حضرت سوده رضی اللہ عنہما ز وجه رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی تو ہم نے اس کے چمڑے کو دباغت دی پھر ہم نبیذ ( جو کھجور اور پانی سے تیار ہوتی ہے ) اس میں ڈالتے تھے یہاں تک وہ پرانی مشک بن گیا۔
حدیث نمبر :2
عن عبد الله بن عباس قال سمعت رسول الله ﷺ يقول اذا ذبح الاهاب فقد طهر . (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ جب چمڑے کو دباغت دی جاتی ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر :3
عن عائشة رضى الله عنها ان رسول الله ﷺ امر ان يستمع بجلود الميته اذا دبغت. (موطا امام مالک)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جب مردار جانور کے چمڑے کو دباغت دی جائے تو اس
کے استعمال سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ف: کیوں کہ چمڑا دباغت ( رنگنے ) سے پاک ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر :4
عن سلمة بن المحبق قال ان رسول الله ﷺ جاء في غزوة تبوك على اهل بيت فأذا قرية معلقة فسأل الماء فقالوا له يا رسول اللهﷺانما میته فقال دباغها ظهورها . (مسند احمد ) حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول الله ﷺ غزوہ تبوک میں ایک گھر پر تشریف فرما ہوئے تو اس میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا آپ ﷺ نے پانی مانگا۔ گھر والوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ مشکیزہ مردہ جانور کے چمڑے کا ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دباغت اس کوپاک کرنے والی ہے۔
حدیث نمبر :5
عن ابن عباس ان رسول الله ﷺ قال ايما اهاب دبغ فقد طهر . (ترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر :6
عن جابر بن عبدالله قال كنا نصيب مع رسول الله ﷺ في مغانمنامن المشركين الاسقية فنقتسمها وكلها ميته فننتفع بذلك .
(طحاوی)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات کے مال غنیمت میں مشرکین کے مشکیزے ملا کرکرتے تھے تو ہم ان کو تقسیم کر لیتے تھے حالانکہ یہ مشکیزے مردار جانوروں کےہوتے تھے اور ان کے استعمال سے نفع حاصل کرتے تھے۔
حدیث نمبر :7
عن عبد الله بن عباس قال تصدق على مولاة لميمونة بشأة فماتت
فمر بها رسول الله ﷺ فقال هلا اخذتم اهابها فدبغتموه فانتفعتم به فقالوا انها میته فقال انما حرم اكلها . (طحاوی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت یہ کہ انہوں نے کہا کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما نے ایک باندی کو ایک بکری خیرات میں دی تھی اور وہ مرگئی تو رسول اللہ ﷺ کا گزر اس پر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ کیوں تم نے اس کے چمڑے کو نہیں لیا کہ اس کو دباغت دے کر اس سے نفع حاصل کرتے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ وہ مردار ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔
حدیث نمبر :8
قال ماتت شأة السودة بنت زمعة فقالت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلانه يغنى الشاة قال فلولا اخذتم مسكها فقالت تأخذ مسك شأة قد ماتت فقال النبي صلى الله عليه وسلم انما قال الله ( قل لا اجد فيما اوحى الى محرماً على طاعم يطعمه الآية فانه لا باس بان تتبعوه فتنتفعوا به قالت فارسلت اليها فسلخت مسكها فلبغته فاتخذت منه قربة حتى تخرفت
( طحاوی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ کی ایک بکری مرگئی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ مرگئی ہے یعنی بکری آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیوں تم نے اس کے چمڑے کو نہیں لیا ؟ سودہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ہم کیسے بکری کے چمڑے کو لے سکتے تھے؟ جو مردار ہو گئی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انعام کی آیت ( پ 8 رکوع 18) میں یہی فرمایا ہے : قل لا اجد فی او لحم خنزیر فانہ رجس (اے پیغمبر ﷺ یہ ان لوگوں سے ) تم فرماؤ ( ان چیزوں میں سے جن کو تم حرام کہتے ہو ) میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کھانا حرام مگر یہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے۔ اس لئے اگر تم اس کو (یعنی مری ہوئی بکری کے چمڑے کو ) دباغت دے دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے تو کوئی حرج نہیں تھا حضرت سودہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے آدمی روانہ کر دیا اور کھال کھنچوا کر منگوالی اور اس کو دباغت دلوا کر اس سے مشکیزہ بنوایا۔ وہ استعمال میں رہا یہاں تک کہ وہ پھٹ گیا۔
حدیث نمبر :9
عن ميمونه قالت مر على النبيﷺ رجال من قريش يجرون شأة لهم مثال الحمار فقال لهم رسول اللهﷺ لو اخذتم اها بها قالوا انها ميتته فقال رسول الله يطهرها الماء والقرط . (ابوداؤد )
ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کے پاس چند قریش کے لوگ اپنی ایک مری ہوئی بکری کو جو گدھے کی طرح پھول گئی تھی کھینچتے ہوئے لے جارہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کاش تم نے اس کے چڑے کو لے لیا ہوتا تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ وہ مردار ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو پانی اور کیکر پاک کر دیتےہیں۔ (اور یہ بھی دباغت کی ایک قسم ہے )
حدیث نمبر :10
عن عائشة قالت قال رسول الله ﷺ استمتعوا بجلود الميتة
اذا هي دبغت ترا با كان او رمادا او ملحا او ما كان بعد ان يظهرصلاحه.
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردار جانور کے چمڑے کے استعمال سے جب اسےدباغت دی جائے تو فائدہ اٹھاؤ خواہ دباغت مٹی سے دی گئی ہو یا راکھ سے یا
نمک سے یا ایسی چیز سے دباغت دی گئی ہو کہ جس سے چمڑے میں صلاحیت پیدا ہو جائے۔
ناظرین ہم نے دس احادیث نقل کر دی ہیں جن میں صاف مذکور ہے کہ دباغت دینے سےچمڑا پاک ہو جاتا ہے اب رہی یہ بات کہ دباغت کسے کہتے ہیں تو عرض ہے:
چمڑے سے اس کی بدبو اور نا پاک رطوبتوں کے دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں۔ واضح رہے
کہ دباغت کی دو قسمیں ہیں۔
1 - حقیقی
2 - حکمی
دباغت حقیقی یہ ہے کہ چمڑے کو داوؤں کے ذریعہ مثلاً نمک ، انار کے چھلکے ، مازو اور کیکر یعنی بول کے پتوں سے پاک کیا جائے اور دباغت حکمی یہ ہے کہ چمڑے کو دھوپ میں اس طرح طرح تپایاجائے یا مٹی اور راکھ میں اس طرح روندا جائے کہ اس کی بدبو اور رطوبت دور ہو جائے۔ دباغت حقیقی سے چمڑا ہمیشہ کے لئے پاک ہو جاتا ہے اور اس کی نجاست پھر عود نہیں کرتی البتہ دباغت حکمی میں اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے دو روایتیں منقول ہیں ایک یہ کہ نجس رطوبت پانی کی تری کی وجہ سے عود کر جائے گی تو چمڑا پھر نجس ہو جاتا ہے دوسری روایت میں ہے کہ دباغت حکمی کے بعد چھڑا دوبارہ پانی میں تر ہو جائے اور رطوبت ظاہر ہو جائے تو یہ رطوبت جو ظاہر ہوتی ہے اصلی پہلے کی رطوبت نہیں ہے کیونکہ چمڑے کی اصلی رطوبت دھوپ یا مٹی یا راکھ سے جا چکی تھی اس وجہ سے چمڑے کو نجس نہیں قرار دیا جا سکتا اور اسی دوسرے قول پر ( جس سے چمڑے کا پاک رہنا ثابت ہوتا ہے ) فتوی ہے ( شرح وقایہ، عمدة الراية، غیاث اللغات ) البتہ مختارات النوازل میں یہ صراحت ہے کہ دباغت حکمی میں اگر چمڑے کو دباغت سے پہلے پانی سے دھولیا جائے اور دھوپ یا مٹی یا راکھ کے ذریعہ دباغت دی جائے۔ تو چھڑے کی نجاست بالاتفاق عود نہیں کرے گی اور یہ دباغت حکمی دباغت حقیقی کے مثل ہو جائے گی۔
و عن ابراهيم قال كل شيء يمنع الجلد من الفساد هو دباغ.
(رواہ محمد في الآثار )
حضرت ابراہیم سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہر ایسی چیز جو چمڑے کو خراب ہونےسے روک دے تو یہی اس کے لئے دباغت ہے۔ (کتاب الاثار )
رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں اور اس مضمون کی دوسری روایات میں ۔
رسول الله ﷺ نے درندوں کے چمڑے کے پہنے اور ان پر سوار ہونے سے جو ممانعت فرمائی ہے اس کے متعلق تفصیل یہ ہے۔ کہ اس حدیث میں جو نہی وارد ہے اس سے نہی تنزیہی مراد ہے اور یہ مسلک امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا ہے اور حدیث میں نہی اس لئے آئی ہے کہ درندوں کے چمڑوں کو پہننا اور ان کےچمڑوں پر سوار ہونا سرکش لوگوں اور عجمی کفار اور عیش پرستوں کا عام دستور ہے لہذا نیک لوگوں کے لئے ان کا استعمال مناسب نہیں اس لئے مکروہ تنزیہی ہے۔
منع کی بعض روایات میں اہاب کے لفظ بھی آئے ہیں۔ اہاب کہتے ہیں کچی کھال کو اور پکی کھال کو جلد کہتے ہیں فقہ حنفی میں بھی دباغت سے قبل مردار جانور کی کچی کھال اور پیٹھے نجس ہیں ان سے نفع لینا جائز نہیں اور نہ ہی ان کی تجارت جائز ہے مردار جانور کی کچی کھال کو پکانے اور خشک کرنے کے بعد اس سے نفع لینا اور تجارت کرنا جائز ہے اسی طرح مردار جانور کے سینگ اور ناخن وغیرہ جن پر زندگی کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کو کاٹنے سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے ان سے نفع اٹھانا مطلقاً جائز ہے اور یہی تمام ائمہ کا مذہب ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
ایک روایت میں حضرت ابو الملیح رضی اللہ عنہ ہی نے درندوں کے چمڑوں کی قیمت کے استعمال کو مکروہ کہا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ قیمت لینا اس وقت مکروہ ہو گا کہ چمڑے کی دباغت نہ ہوئی ہو اس لئے کہ قبل دباغت چمڑانجس رہتا ہے لیکن دباغت کے بعد اس کو فروخت کر کے قیمت کا حاصل کرنا مکروہ نہیں ہے اور فتاوی قاضی خاں میں صراحت ہے کہ مردہ جانوروں کے چھڑوں کا فروخت کرنا باطل اور نا جائز ہے بشرطیکہ وہ جانور ذبح کئے ہوئے نہ ہوں، یا ان کو دباغت نہ ہوئی ہو۔ (مرقات)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں