نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 75 : کہ سفیان ثوری نے جب ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سنی تو کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس سے آرام پہنچایا۔ اس نے اسلام کا کڑا ، ایک ایک حلقہ کر کے توڑا اور اس سے بڑھ کر کوئی منحوس اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔


 اعتراض نمبر  75 :
 کہ سفیان ثوری نے جب ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سنی تو کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس سے آرام پہنچایا۔  اس نے اسلام کا کڑا ، ایک ایک حلقہ کر کے توڑا اور اس سے بڑھ کر کوئی منحوس اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔


أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه، حدثنا يعقوب. وأخبرنا أبو سعيد بن حسنويه، أخبرنا عبد الله بن محمد بن عيسى الخشاب، حدثنا أحمد بن مهدي قالا: حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا إبراهيم بن محمد الفزاري قال: كنا - وفي حديث ابن مهدي كنت - عند سفيان الثوري إذ جاء نعي أبي حنيفة. فقال:

الحمد لله الذي أراح المسلمين منه. لقد كان ينقض عرى الإسلام عروة عروة، ما ولد في الإسلام مولود أشأم على أهل الإسلام منه



الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ اگر اس کی سند میں صرف نعیم بن حماد ہی ہوتا اور کوئی نہ ہوتا تو خبر کو رد کرنے کے لیے یہی کافی تھا۔ 

کیونکہ وہ ابو حنیفہ کے بارہ میں مطاعن گھڑنے والا تھا ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے[1]۔ اور دوسری سند [2] میں ثعلبہ بن سھیل القاضی ہے جو کہ ضعیف ہے جریر بن عبد الحمید مضطرب الحدیث ہے۔  اور وہ سلیمان بن حرب کے نزدیک سوائے بکریاں چرانے کے کسی اور کام کا نہیں۔ 

اور وہ کمزور حافظہ والا اور الاخرس والی موضوع روایت بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اور اس کے بارہ میں کلام طویل ہے۔

 اور وہ اس لائق نہیں کہ اس کی خبر کو ان روایات کے زمرہ میں نقل کیا جائے جو ناقلین کے ہاں محفوظ روایات ہیں سوائے خطیب کے مذہب کے کہ وہ اس کو محفوظ روایات میں شمار کرتا ہے۔

 اور سلیمان بن عبد اللہ جو ہے وہ ابو الولید الرقی ہے۔ 

ابن معین نے کہا کہ وہ لیس بشٸ ہے۔ 

اور ثوری کا مرتبہ بہت بلند ہے اس سے کہ وہ اس جیسی بے تکی بات کریں۔ 

اگرچہ ان کے اور ابوحنیفہ کے درمیان کچھ شکر رنجی تھی جو عموما ہم عصر لوگوں میں پائی جاتی ہے[3]۔ 

بلکہ ثوری تو اختلافی مسائل میں ابو حنیفہ کی آراء کی باقی لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اتباع کرنے والے تھے جیسا کہ اختلاف مذاہب پر لکھی جانے والی کتب سے ظاہر ہے۔

 یہاں تک کہ جب ابو یوسف کو خبر پہنچی کہ ثوری ابو حنیفہ کے بارہ میں کلام کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ تو مجھ سے زیادہ ابو حنیفہ کی اتباع کرنے والے ہیں۔ 

اور خطیب کی اپنی عبارت میں ص 341 کے حوالہ سے پہلے بیان ہو چکا کہ ثوری کس قدر ابوحنیفہ کی تعظیم کرتے تھے۔ او ابن عبدالبر نے الانتقاء ص 127 میں بہت سی خبر خبریں نقل کی ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ ثوری کے ہاں ابو حنیفہ کا مرتبہ کتنا بلند تھا۔  اور خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ثوری ان دونوں بے تکی باتوں سے بالکل بری الذمہ ہیں۔  اللہ تعالی اس شخص کی زبان کاٹے جو اس پر بہتان باندھتا ہے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔



[1]. نعیم بن حماد ضعیف ہیں ، ان پر محدثین نے  بہت سی جروحات کی ہیں ، جس پر ہماری تفصیلی پوسٹ النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود مضمون " امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 2 " میں دیکھ سکتے ہیں۔


[2]. وأخبرنا ابن حسنويه، أخبرنا الخشاب، حدثنا أحمد بن مهدي، حدثنا أحمد ابن إبراهيم، حدثني سليمان بن عبد الله، حدثنا جرير عن ثعلبة قال:

سمعت سفيان الثوري يقول: ما ولد في الإسلام مولود أشأم على أهل الإسلام منه.

[3].امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ :

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہم عصر تھے ، دونوں حضرات کوفہ کے رہنے والے تھے ، دونوں حضرات حدیث و فقہ میں امامت کے درجہ پر فائز تھے ، یہاں ایک دلچسپ بات اہلحدیث غیر مقلدین حضرات کے گوش گزار کر دی جاتی ہیکہ محدث  سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی ترک رفع الیدین پر عمل کرتے تھے ، فقہ ثوری اور فقہ حنفی میں مماثلت بہت زیادہ ہے ، جس کی تفصیل ہم نے اپنے رسالہ " امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت " میں بیان کی ہے ، قارئیں دفاع احناف لائبریری سے اسے پڑھ اور ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں ۔ 

یہاں صرف مختصرا ایک روایت ملاحظہ ہو ، جس سے اندازہ ہو گا کہ سینکڑوں فروعی مسائل میں سے صرف گنے چنے مسائل میں دونوں فقہاء میں اختلاف تھا۔

امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ " جامع سفیان " ( سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ) جس کی وجہ سے تم لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہو انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ صرف 15 مسئلوں میں اختلاف کیا ہے ۔

( طبقات المحدثين بأصبهان 218/2  : اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ، تفصیل کیلئے دیکھیں :

 امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت ص 39 )

بہرحال ، جیسا کہ بیان ہوا کہ دونوں حضرات ایک ہی زمانہ میں ایک ہی مقام پر اپنی اپنی جگہ امامت کے اعلی درجہ  پر فائز تھے اس لئے دونوں بزرگوں میں معاصرانہ چشمک تھی ۔ کتب تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی بھی قول نہیں ملتا جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو برا بھلا کہا ہو ، یہ امام اعظم رحمہ اللہ کے تقوی کا کمال ہے ، البتہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اکثر امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر بلا وجہ تنقید کرتے تھے ، جرح کے نشتر برساتے تھے (جرح غیر مفسر ، سادہ الفاظ میں ، امام سفیاں ثوری رحمہ اللہ نے کبھی وجہ بیان نہیں کی کہ ابو حنفیہ رحمہ اللہ نے کیسے اسلام میں شر پھیلایا ؟ وغیرہ وغیرہ ) ۔

امام سفیاں ثوری رحمہ اللہ ، بلا وجہ امام صاحب پر تنقید کرتے تھے ، جس کی چند مثالیں آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہیں۔


امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ

ائمہ کرام کے باہمی اختلافات اور جروحات کا موضوع ہمیشہ علمی دنیا میں دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ ان میں ایک مشہور معاملہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جانب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح ہے، جو اکثر اہلحدیث غیر مقلدین کے ہاں دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہاں ہم اس مسئلے کا علمی، تحقیقی اور منصفانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔

 حصہ اول

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات 

دونوں ائمہ کا علمی مقام و مرتبہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہم عصر تھے اور کوفہ کے رہنے والے تھے۔ دونوں علم حدیث اور فقہ میں امامت کے درجے پر فائز تھے۔ فقہ ثوری اور فقہ حنفی میں بھی کثیر مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ "امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" نامی رسالے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، دونوں فقہاء کے درمیان صرف چند فروعی مسائل میں اختلاف تھا۔ مثلاً، امام ابو سفیان صالح بن مہران فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے صرف 15 مسائل میں اختلاف کیا تھا۔حوالہ: طبقات المحدثين بأصبهان 218/2، تمام رواة ثقہ ہیں۔

معاصرانہ چشمک یا علمی اختلاف؟

کتب تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی قول نہیں ملتا جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہو۔ یہ امام اعظم رحمہ اللہ کے تقویٰ کا مظہر ہے۔ البتہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جانب سے امام صاحب پر سخت جملے اور جرح کی گئی، جو اکثر غیر مفسر ہوتی تھی۔

1. ادھوری روایتِ توبہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان کیا گیا۔(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) یہ بالکل اس آدھی آیت کو بیان کرنے کی طرح ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ" (اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ)  اگر اس آیت کا بقیہ حصہ نہ بتایا جائے: "وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی..." (جب تم نشے میں ہو)، تو یہ گمراہی پھیلانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح امام ثوری رحمہ اللہ کا ادھورا بیان بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنا۔

2. مخالفت برائے مخالفت

 محدث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ما أحب أن أوافقهم على الحق - يعني أبا حنيفة" ترجمہ: ’’میں نہیں چاہتا کہ حق بات میں بھی ابو حنیفہ کی موافقت کروں۔‘‘ «العلل» رواية المروزي وغيره (ص١٧٢):

یہ جملہ تعصب کی شدت کی واضح دلیل ہے۔ ایسے شخص کی جرح کو غیر جانبدار تصور کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، اسی لئے ائمہ جرح و تعدیل جیسے امام ذہبی، ابن حجر، امام مزی وغیرہ نے اس جرح کو اہمیت نہیں دی۔

3. کوئی معقول اعتراض نہ پیش کرنا

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔ سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے اور یہ الفاظ کہے: "نسلم ما سمعنا، ونكل ما لا نعلم إلى عالمه، ونتهم رأينا لرأيهم" (ہم جو سنیں اسے قبول کرتے ہیں، جو نہ جانیں اسے عالم کے سپرد کرتے ہیں، اور اپنی رائے کو ان کی رائے کے مقابلے میں کمتر سمجھتے ہیں) حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

نتیجہ:

  • امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درمیان اختلافات معاصرانہ تھے، جن کی بنیاد بعض اوقات ذاتی رجحانات اور تعصبات پر مبنی تھی۔

  • امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی اصول واضح، مبنی بر دلیل اور کتاب و سنت کے مطابق تھے جنہیں امام سفیان بھی رد نہ کر سکے۔

  • امام ثوری کی بعض جروحات، بالخصوص وہ جو تعصب پر مبنی تھیں، اہل علم کے ہاں ناقابل اعتبار قرار پائیں۔

  • امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے محدثین اور فقہاء نے کیا ہے، ان پر تنقید کرنے والے آج بھی ادھوری باتوں کو بنیاد بناتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ہمیں ان جیسے علم و عمل والے بنائے، اور فتنہ انگیز لوگوں سے امت کو محفوظ رکھے۔ آمین۔




                                                                                    حصہ دوم 

امامِ اعظمؒ کا اخلاقی وقار: ایک معاصر ناقد کے تناظر میں

دونوں جلیل القدر فقہاء ایک ہی دور کے عظیم علماء تھے، اور ان کی فقہی آراء میں بھی بہت سی مماثلتیں موجود تھیں۔ چونکہ وہ ایک ہی زمانے میں تھے، اس لیے معاصرانہ اختلافات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ مگر اس اختلاف میں بھی ہمیں دونوں کے مزاج اور کردار کا فرق نمایاں نظر آتا ہے۔
 امام سفیان ثوریؒ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں:
1. امام سفیان ثوریؒ کا ایک قول نقل ہوا ہے:
 "مجھے حق بات میں بھی ابو حنیفہ کا ساتھ دینا پسند نہیں۔" 
(العلل، روایت مروزی  ص: 172)
2. جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ   (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہادامام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔ سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔  
(تاریخ بغداد 15/504، الانتقاء، ص 144، مترجم ص 347)
3. امام سفیانؒ کبھی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کفر سے توبہ کی ادھوری روایت سناتے تھے۔ جب ان سے تحقیق کی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعہ ادھورا تھا، اور وضاحت کی کہ امام ابو حنیفہؒ کی توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔
4. امام سفیان ثوریؒ، امام ابو حنیفہؒ سے حدیث روایت بھی کرتے تھے، ان ہی احادیث پر اپنے فقہی نظریات بھی قائم کرتے، اور کبھی انہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض بھی کرتے۔

یہ سب اقوال اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام سفیانؒ کا اعتراض بسا اوقات ذاتی یا معاصرانہ اثر کا نتیجہ تھا، کیونکہ وہ علمی بنیاد پر اعتراضات سے اکثر قاصر نظر آتے ہیں۔

امام ابو حنیفہؒ کا رویہ امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں:
1. امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
 "اگر سفیان ثوری، امام ابراہیم  نخعی کے زمانے میں بھی ہوتے، تو لوگ سفیان کی بیان کردہ احادیث کی ضرورت محسوس کرتے۔" 
(تاریخ بغداد 9/169)
2. آپؒ مزید فرماتے ہیں:
> "اگر سفیان ثوری کا انتقال امام ابراہیم نخعی کے زمانے میں ہو جاتا تو لوگ ان کی وفات پر رنجیدہ ہوتے۔"  
(تاریخ بغداد 9/169)
یہ اقوال امام ابو حنیفہؒ کی عاجزی اور وسعتِ قلبی کی علامت ہیں۔ انہوں نے امام سفیان ثوریؒ کو عراق کے عظیم فقہاء میں شمار کیا، بلکہ ان کی علمی حیثیت کو ابراہیم نخعیؒ جیسے امام کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بلند قرار دیا۔
3. جب کسی نے امام ابو حنیفہؒ سے امام سفیانؒ سے روایت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
> "ان سے روایت لی جا سکتی ہے، سوائے ان احادیث کے جو ابو اسحاق عن حارث عن علی یا جابر جعفی کی سند سے ہوں۔"
(الکامل، ابن عدی، ج2، ص328)
4. عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:
> "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"  
(الکامل، ج8، ص236)

🌟 اختتامی نوٹ — امام ابو حنیفہؒ: علم و حلم کا آفتاب
ان روایات سے جو نکتہ چمکتا ہوا اُبھر کر سامنے آتا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ کی اخلاقی عظمت، علمی وقار اور قلبی وسعت ہے۔ جہاں امام سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر عالم، معاصرانہ رقابت یا جذباتی کیفیت میں امام ابو حنیفہؒ پر بلاوجہ کلام کر گئے، وہاں امام ابو حنیفہؒ نے خندہ پیشانی، بلند نظری، اور سچے اہلِ علم کی شان کے ساتھ ان کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھا۔
یہی وہ وصف ہے جو درختِ علم کو تناور اور سایہ دار بناتا ہے—کہ وہ صرف پھل دیتا ہے، کانٹے نہیں چبھوتا۔ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت ایک ایسے چاند کی مانند ہے، جس پر تیر برسے، تب بھی وہ اپنی روشنی دنیا کو دینا نہیں چھوڑتا۔
انہوں نے تنقید کا جواب تنقیص سے نہیں، بلکہ تعظیم و تحسین کے موتی نچھاور کر کے دیا۔ ایک ایسے امام کی یہ شان تھی، جو اگر چاہتا تو زبان سے طوفان برپا کر دیتا، مگر اُس نے صبر و حلم کی لہروں میں اپنے دل کی کشتی کو تھامے رکھا۔ امام سفیان ثوریؒ پر تنقید کے مواقع موجود تھے، مگر امام ابو حنیفہؒ نے اپنے لبوں کو محبت کی مہر سے بند رکھا—اور یہی بزرگی کی دلیل ہے۔
یہی وہ خوبی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کو "امامِ اعظم" بناتی ہے۔ وہ نہ صرف فقہ کے میدان کے شہسوار تھے، بلکہ اخلاق، بردباری، حسنِ نیت، اور حُسنِ ظن کے اعلیٰ ترین نمونہ بھی تھے۔
ان کی ذات ہمیں سکھاتی ہے کہ علم بغیر حلم، خالی ہتھیار ہے—مگر جب علم، حلم، تواضع، صبر، وسعتِ قلب اور اخلاق سے جُڑ جائے، تو وہ شخصیت "ابو حنیفہؒ" کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی امام ابو حنیفہؒ کی طرح نرم گفتار، عالی ظرف، اور اہلِ حق کی توقیر کرنے والا بنائے۔ آمین۔


حصہ سوم


امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت

اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ

تمہید

تاریخی روایات اور معتبر اسناد سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں عمومی رویہ بظاہر سخت اور معترضانہ تھا۔ مگر جب بھی ان سے کسی شاگرد نے براہِ راست سوال کیا — جیسے کہ عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن ضریس یا امام ابو قطن نے — تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ تو کسی علمی خطا یا شرعی غلطی کی طرف اشارہ کر سکے، اور نہ ہی امام ابو حنیفہ پر اپنے اعتراض کی کوئی معقول دلیل پیش کر سکے۔ بلکہ ہر موقع پر: وہ خاموش ہو جاتے، ندامت کا اظہار کرتے، سر جھکا لیتے، نظریں نیچی کر لیتے، اور آخرکار امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، تقویٰ، اور دیانت کا برملا اعتراف کرتے۔

1. عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری کا مکالمہ

عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.

(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ،  الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)


عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)


2. یحییٰ بن ضریس اور سفیان ثوری کا مکالمہ

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے 

حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

جب یحییٰ بن ضریس رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی وجہ دریافت کی، تو امام ثوری کوئی معقول جواب پیش نہ کر سکے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہ کے خلاف کوئی مضبوط علمی دلیل موجود نہ تھی۔


3. امام ابو قطن اور سفیان ثوری کا واقعہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان یعنی جب تک ان سے پوچھا نہ گیا تو وہ ادھوری روایت بیان کرتے تھے کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ کی جس کو بڑے بڑے محدثین جیسے ابن عیینہ ، احمد بن حنبل نے بھی جوں کا توں بیان کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ، بڑے بڑے محدثین نے پوری روایت جاننے کی کوشش تک نہ کی ، لیکن جب امام شعبہ کے شاگرد امام ابو قطن نے ہمت کر کے سفیان ثوری سے پورا واقعہ پوچھا تو سفیان ثوری پہلے نادم ہوئے ، جھوٹ تو بول نہ سکتے تھے اس لئے سچائی بتائی کہ وہ توبہ کفر سے تھی ہی نا۔ قارئین اگر امام ابو قطن یہ بات سفیان ثوری سے نہ پوچھتے تو شاید آج تک محدثین یہی ادھوری بات بتاتے اور لکھتے رہتے کہ ابو حنیفہ نے دو بار کفر سے توبہ کی ۔ الغرض محدثین نے ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں ان کےخلاف الزامات کی تحقیق نہیں کی ، جیسی ادھوری کچی پکی روایت سنی وہی آگے بیان کی ۔

 اللہ ان کی مغفرت فرمائے.

(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) 

خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تین مضبوط روایات اور واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:


اعتراضات کی کوئی مضبوط بنیاد نہ تھی: اگر امام ابو حنیفہ واقعی کسی علمی یا دینی خطا کے مرتکب ہوتے تو امام سفیان ثوری جیسے جلیل القدر محدث دلیل اور وضاحت کے ساتھ ان کی غلطی بیان کرتے۔ مگر خاموشی، سر جھکانا، اور استغفار کرنا  اس بات کی علامت ہے کہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کی گئی جروحات اور اعتراضات کی کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔

محض وقتی معاصرت اور دور کے اختلافات کا اثر تھا: امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ ایک ہی زمانے کے عظیم علماء تھے۔ علمی میدان میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاصرین کے درمیان سختی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات بھی زیادہ تر اسی وقتی معاصرت کا نتیجہ تھے، نہ کہ کسی اصولی نقص یا دینی خیانت پر مبنی۔

باطنی اعترافِ عظمت: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ظاہری طور پر کچھ سخت باتیں کہنے کے باوجود جب حقیقت سے سامنا ہوتا، تو امام ابو حنیفہ کی علم پرستی، دیانت، اور سنت کی پیروی کو تسلیم کرتے اور ان پر ہونے والے طعن پر اللہ سے استغفار کرتے۔

امام ابو حنیفہ کی حقانیت کا غیر شعوری اعتراف: انسان کا اصل کردار اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تنہائی یا غیر رسمی گفتگو میں دل کی بات کرتا ہے۔ امام سفیان ثوری کا شاگردوں کے سامنے بار بار امام ابو حنیفہ کی عظمت کا اعتراف اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں وہ امام ابو حنیفہ کو عظیم امام مانتے تھے۔




آخری نتیجہ:

 حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم و تقویٰ کا ایسا روشن مینار تھے کہ ان کے مخالفین بھی جب دیانت سے سوچتے، تو ان کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکتے۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...