نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 148: کہ سفیان ثوری نے ابوحنیفہ کی وفات کی خبر سن کر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔

 

 اعتراض نمبر 148: 

کہ سفیان ثوری نے ابوحنیفہ کی وفات کی خبر سن کر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔


أخبرنا القاضي أبو بكر أحمد بن الحسن الخرشي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا أبو قلابة الرقاشي، حدثنا أبو عاصم قال: سمعت سفيان الثوري - بمكة - وقيل له: مات أبو حنيفة فقال: الحمد لله الذي عافانا مما ابتلى به كثيرا من الناس.


أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى الصيرفي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا محمد بن علي الوراق، حدثنا مسدد قال: سمعت أبا عاصم يقول:ذكر عند سفيان موت أبي حنيفة فما سمعته يقول رحمه الله ولا شيئا. قال: الحمد لله الذي عافانا مما ابتلاه به.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ابوقلابہ الرقاشی ہے جو سندوں اور متن میں بہت زیادہ غلطی کرنے والا تھا۔ جیسا کہ خود خطیب نے دار قطنی سے نقل کیا ہے[1] اور اس کے بعد والی خبر کے الفاظ یہ ہیں۔ 《الحمد لله الذی عاقنا مما ابتلاء به》کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں وہ مبتلا ہوا یعنی ایسی قید جس نے موت تک پہنچا دیا[2]۔

 اس لیے کہ بے شک اس سے ثوری کے لیے بھاگنا آسان تھا جبکہ ابوحنیفہ کے لیے آسان نہ تھا۔

 اور علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ان دونوں کے درمیان کچھ شکر رنجی بھی تھی جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ابن عدی فقہ اور نظر اور علوم عربیہ سے دور ہونے کی وجہ سے ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں طویل اللسان تھا۔ پھر جب وہ ابو جعفر الطحاوی کو ملا اور اس سے علم حاصل کیا تو اس کی حالت کچھ اچھی ہو گئی یہاں تک کہ اس نے ابو حنیفہ کی احادیث میں مسند لکھی اور اس نے اپنی سند کی ابتداء میں لکھا ہے کہ ہے شک ابوحنیفہ اور ثوری کے درمیان کچھ رنجش تھی اور ان دونوں میں سے ابوحنیفہ اپنی زیادہ کنٹرول کرنے والے تھے[3]۔ اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ابن عدی جیسے آدمی سے ابوحنیفہ کی احادیث نقل کریں۔ اور بعض دفعہ دونوں سندوں میں ابو عاصم آتا ہے اور وہ العبادانی ہے اور اس کا حال معلوم ہے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ عبد الملك بن محمد أبو قِلابة الرقاشي

وقال الدارقطني: صدوق كثير الخطأ من الأسانيد والمتون، كان يحدث من حفظه فكثرت الأوهام منه. [تهذيب الكمال (18/ 401)]


[2]۔ یا پھر یہ معنی بھی ہو سکتا ہیکہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس فتنے سے بچایا جس کو ابو حنیفہ نے برداشت کیا مثلا امام ابو حنیفہ کو ظالم  حاکم نے جیل میں ڈالا ، ابن ہبیرہ نے کوڑے لگوائے ، حتی کہ زہر تک دیا گیا جبکہ یہ سب کچھ سفیان ثوری کے ساتھ نہیں ہوا ، ممکن ہے وہ اسی پر شکریہ کہہ رہے ہوں ۔ 

بالفرض اگر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مراد یہ تھی کہ شکر ہے ابو حنیفہ فوت ہوا ، یہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تنگ نظری ، تعصب کو واضح کرتا ہے ، کیونکہ سفیان ثوری امام ابو حنیفہ کے خلاف انتہائی متعصب تھے ، تفصیل کیلئے دیکھیں


اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر24 : امام ابو حنیفہؒ کا کمالِ اخلاق: ناقد کو بھی معزز جانا - امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمھم اللہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 25 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ


اس کے برعکس کبار آئمہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اچھے الفاظ سے یاد کیا

الإمام ، العلامة ، الحافظ شيخ الحرم ، صاحب التصانيف ابن جريج رحمہ اللہ کا قول ہے، جو اس وقت ارشاد فرمایا گیا جب امام ابو حنیفہؒ کے وصال کی خبر پہنچی۔حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن احمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري قال : ثنا روح بن عبادة قال : كنت عند ابن جريج سنة خمسين ومائة فقيل له : مات أبو حنيفة ، فقال : رحمه الله لقد ذهب معه علم كثير 

روح بن عبادہ بیان کرتے ہیں:میں سنہ 150 ہجری میں امام ابن جریج کے پاس موجود تھا، کسی نے آ کر کہا: ابو حنیفہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ ان پر رحم کرے، ان کے ساتھ بہت سا علم بھی چلا گیا۔(فضائل أبي حنيفة، ص 82، سند حسن) مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود 

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر44 : الإمام ، العلامة ، الحافظ شيخ الحرم ، صاحب التصانيف ابن جريج رحمہ اللہ کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہ

 امام علی بن صالح بن حييؒ ہیں، جنہیں محدثین کے ہاں "الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ " جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے۔ ان کی ثقاہت پر امام احمد بن حنبلؒ، امام نسائیؒ، امام ذہبیؒ، ابن حجر عسقلانیؒ، یحییٰ بن معینؒ، محمد بن سعد اور دیگر محدثین کا اجماع ہے۔یہی امام علی بن صالح بن حييؒ جب امام ابو حنیفہؒ کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو گہرے دکھ اور عظیم اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں: حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : وحدثني محمد بن أحمد قال : حدثني محمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد قال : سمعت أبا نعيم يقول : سمعت علي بن صالح بن حيي . لما مات أبو حنيفة يقول : ذهب مفتي العراق ، ذهب فقيه أهل العراق  یعنی "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا۔" ( فضائل أبي حنيفة ص 81 ، سند حسن ) مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 42 : الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ علی بن صالح بن حييؒ کی نظر میں امام ابو حنیفہ کا مقام 



امام ابو حنیفہؒ پر تعصب اور غیر مقلدین کا دوہرا معیار
 امام سفیان ثوری کا امام ابو حنیفہ کی وفات پر اللہ کا شکر ادا کرنا :  غیر مقلدین اکثر یہ بات اچھالتے ہیں کہ امام سفیان ثوریؒ نے امام ابو حنیفہؒ کی وفات پر اللہ کا شکر ادا کیا. یعنی وہ کہتے ہیں کہ دیکھو! اتنے بڑے امام و محدث نے ابو حنیفہؒ کی موت پر خوشی کا اظہار کیا۔
یہاں قطع نظر اس بات کے کہ یہ قول سفیان ثوریؒ سے صحیح سند سے ثابت ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو کس پس منظر میں کہا گیا، ہم مخالفین کے سامنے ایک الزامی استدلال رکھتے ہیں تاکہ ان کے دوہرے معیار کو واضح کیا جا سکے۔ 
 اور یہ استدلال بھی ہم ان ہی ابن عبد الحکم سے نقل کر رہے ہیں، جن کی روایت کو غیر مقلد اہل حدیث فرقہ بارہا پیش کرتا ہے، جب وہ امام شافعیؒ اور امام محمد بن حسنؒ کے مناظرے کا قصہ سناتے ہیں ۔ یہ روایت صحیح سند سے امام شافعی کے دوسرے مشہور شاگرد امام ربیع بن سلیمان سے بھی ثابت ہے۔
اشہب کی بد دعا امام شافعی کے حق میں :
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: وقال الحسين بن محمد الماسرجسي، حدثنا أبو الحسين: محمد بن عبد الله بن جعفر الرازي، حدثنا إبراهيم بن يوسف الهِسِنْجَاني (٤)، قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: رأيت أشهب بن عبد العزيز للهم أمت الشافعي وإلا ذهب علم مالك بن أنس فبلغ الشافعي ذلك فتبسم وأنشأ يقول. فذكر البيتين وزاد بيتا ثالثًا:
وقد علموا لو ينفع العلمُ عندهم ... لئن مِتُّ ما الداعي عليَّ بمُخْلَد

 ربیع بن سلیمان نے کہا: میں نے اشہب بن عبدالعزیز کو یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ "اے اللہ! شافعی کو موت دے دے، ورنہ مالک بن انس کا علم ضائع ہوجائے گا۔" پھر یہ بات امام شافعی تک پہنچی تو وہ مسکرائے اور یہ اشعار پڑھنے لگے، اور دو اشعار پر مزید ایک تیسرا شعر بھی کہا: "اور وہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر ان کے پاس علم فائدہ مند ہوتا،

تو اگر میں مر بھی جاؤں تو بھی میرا دشمن ہمیشہ کے لیے باقی نہ رہتا۔" (مناقب الشافعي للبيهقي ٢/‏٧٤ ، اسنادہ صحیح)

یہ روایت دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔  المناقب للرازي (ص 115)، الوافي بالوفيات (9/165)، تهذيب الكمال (3/298)، بهجة المجالس (1/159)، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي (1/303)، ترتيب المدارك (3/270)، اور تهذيب التهذيب (1/360) 
ابن عبدالحکم سے روایت :
وروينا عن محمد بن عبد الله بن عبد الحكم أنه قال: سمعت أشهب في سجوده يدعو على الشافعي بالموت. 
ابن عبد الحکم فرماتے ہیں: "میں نے أشهب کو سجدے میں امام شافعیؒ کی موت کی دعا کرتے سنا۔  ابن عبدالحکم کہتے ہیں میں نے اس کا ذکر امام شافعیؒ سے کیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے (مفہوم): ’لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مر جاؤں، اگر میں مر بھی گیا تو یہ راستہ ایسا ہے جس پر چلنے والا صرف میں نہیں، اور جو باقی رہے وہ بھی اسی انجام کو پہنچے گا، گویا یہ طے شدہ بات ہے۔‘"
پھر ابن عبد الحکم مزید کہتے ہیں کہ امام شافعیؒ کا انتقال رجب 204ھ میں ہوا، اور ان کے 18 دن بعد أشهب کی وفات ہو گئی۔ ایک قول کے مطابق ایک ماہ بعد فوت ہوئے۔ (یعنی اشہب رحمہ اللہ نے سجدوں میں جو گڑ گڑا کر دعا کی وہ قبول ہی ہوئی)
امام ذہبی کا تبصرہ:
امام ذہبیؒ نے فرمایا: «وَدُعَاءُ أَشْهَبَ عَلَى الشَّافِعِيِّ مِنْ بَابِ كَلاَمِ المُتَعَاصِرِيْنَ بَعْضِهِم فِي بَعْضٍ لاَ يُعْبَأُ بِهِ، بَلْ يُتَرَحَّمُ عَلَى هَذَا وَعَلَى هَذَا وَيُستَغْفَرُ لَهُمَا».  "اشہب کی امام شافعی پر بد دعا دراصل معاصرین کے اختلافات میں سے ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ دونوں پر رحمت و مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔" (سير أعلام النبلاء ٨/١٨٦)
اہم نکتہ اور اہلِ تعصب کا دوہرا معیار
اب سوال یہ ہے: اشہب کون تھے؟
کیا کوئی عام آدمی؟ نہیں، بلکہ یہی أشهب بن عبد العزيز مالکیہ کے بڑے امام اور ثقہ ہیں۔ امام ذہبی نے انہیں الإمام العلّامة، مفتي مصر کے القاب سے یاد کیا ہے۔
تو یہ معمولی آدمی نہیں، بلکہ مالکیہ کے بڑے مفتی ہیں، اور وہی أشهب سجدوں میں گڑگراتے ہوئے امام شافعی کی موت کی دعائیں کرتے ہیں
اب اے متعب فرقہ غیر مقلد جدید اہلحدیثو !
سفیان ثوریؒ کا قول آپ کے لیے خوشی اور جشن کا باعث کیسے بن گیا؟ لیکن جب ایک بڑے امام اشہب نے سجدے میں امام شافعیؒ کے لیے موت کی دعا کی تو آپ کی زبانیں کیوں بند ہو گئیں؟
یا پھر تعصب کی عینک نے آپ کو اندھا کر دیا ہے کہ ابو حنیفہؒ کے خلاف بات ملے تو ڈھول پیٹتے ہیں اور شافعی یا کسی اور امام کے خلاف ملے تو "خاموشی" اختیار کر لیتے ہیں؟
تو پھر کیا آپ ان کی اس حرکت کو بھی اچھالیں گے جیسے آپ سفیان ثوری کے حوالے سے کرتے ہیں؟ یقیناً نہیں، کیونکہ آپ کا معیار دوہرا ہے۔
حنفیوں کا موقف
ہم حنفی منصفانہ بات کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ امام سفیان ثوریؒ اور أشهب بن عبد العزيزؒ دونوں کی مغفرت عطا فرمائے۔ ان دونوں حضرات کے اقوال سے نہ امام ابو حنیفہؒ کی شان کم ہوتی ہے نہ امام شافعیؒ کی۔ہم سب ائمہ کا احترام کرتے ہیں، سب کو دین کے امام اور راہنما مانتے ہیں۔
ائمہ کرام میں سے بعض اوقات معاصرت (ایک ہی زمانہ) کی وجہ سے ایک دوسرے پر سخت کلام بھی ملتا ہے۔ کبھی حسد، کبھی تعصب، کبھی علمی غیرت اور کبھی طلبہ و تلامذہ کے اختلافات کی وجہ سے یہ جملے کہے جاتے تھے۔ لیکن اصولِ محدثین کے نزدیک ایسے کلام کو مردود سمجھا جاتا ہے اور اس پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔
اسی لیے امام ذہبیؒ نے بھی واضح فرمایا: «وَدُعَاءُ أَشْهَبَ عَلَى الشَّافِعِيِّ مِنْ بَابِ كَلاَمِ المُتَعَاصِرِيْنَ بَعْضِهِم فِي بَعْضٍ لاَ يُعْبَأُ بِهِ». "اشہب کی امام شافعی پر بد دعا معاصرین کے باہمی کلام میں سے ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔"
لہٰذا امام ابو حنیفہؒ کے خلاف سفیان ثوریؒ کی سخت بات ہو یا امام شافعیؒ کے خلاف اشہب کی بد دعا، دونوں ہی اعتبار کے لائق نہیں۔

[3]۔  عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:

 "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضگی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"  (الکامل، ج8، ص236)

نکتہ: بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جب امام ابو حنیفہؒ کا انتقال ہوا، تو اس وقت سفیان ثوری نے جو کچھ کہا تب عبدالصمد بن حسان ان کے پاس موجود تھے، جیسا کہ ابن حبان نے "المجروحین" میں نقل کیا ہے۔ یہی عبدالصمد بن حسان بعد میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ اپنی زبان کو قابو میں رکھنے والے، محتاط اور باوقار شخصیت تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کی معاصرانہ رقابت میں امیر المومنین فی الحدیث سفیان ثوری رحمہ اللہ  زبان درازی کر جاتے تھے، لیکن امام ابو حنیفہؒ نے ہمیشہ تقویٰ، حلم اور ضبط نفس کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔افسوس کہ بعض حسد رکھنے والے محدثین نے امام صاحب کی وفات کے موقع پر سفیان ثوری پر تنقید کرنے کے بجائے، امام ابو حنیفہؒ ہی پر جرح نقل کر کے زیادتی کی۔مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود

 

اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی






تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...