اعتراض نمبر 148: کہ سفیان ثوری نے ابوحنیفہ کی وفات کی خبر سن کر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔
اعتراض نمبر 148:
کہ سفیان ثوری نے ابوحنیفہ کی وفات کی خبر سن کر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔
أخبرنا القاضي أبو بكر أحمد بن الحسن الخرشي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا أبو قلابة الرقاشي، حدثنا أبو عاصم قال: سمعت سفيان الثوري - بمكة - وقيل له: مات أبو حنيفة فقال: الحمد لله الذي عافانا مما ابتلى به كثيرا من الناس.
أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى الصيرفي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا محمد بن علي الوراق، حدثنا مسدد قال: سمعت أبا عاصم يقول:ذكر عند سفيان موت أبي حنيفة فما سمعته يقول رحمه الله ولا شيئا. قال: الحمد لله الذي عافانا مما ابتلاه به.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ابوقلابہ الرقاشی ہے جو سندوں اور متن میں بہت زیادہ غلطی کرنے والا تھا۔ جیسا کہ خود خطیب نے دار قطنی سے نقل کیا ہے[1] اور اس کے بعد والی خبر کے الفاظ یہ ہیں۔ 《الحمد لله الذی عاقنا مما ابتلاء به》کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا جس میں وہ مبتلا ہوا یعنی ایسی قید جس نے موت تک پہنچا دیا[2]۔
اس لیے کہ بے شک اس سے ثوری کے لیے بھاگنا آسان تھا جبکہ ابوحنیفہ کے لیے آسان نہ تھا۔
اور علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ان دونوں کے درمیان کچھ شکر رنجی بھی تھی جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ابن عدی فقہ اور نظر اور علوم عربیہ سے دور ہونے کی وجہ سے ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں طویل اللسان تھا۔ پھر جب وہ ابو جعفر الطحاوی کو ملا اور اس سے علم حاصل کیا تو اس کی حالت کچھ اچھی ہو گئی یہاں تک کہ اس نے ابو حنیفہ کی احادیث میں مسند لکھی اور اس نے اپنی سند کی ابتداء میں لکھا ہے کہ ہے شک ابوحنیفہ اور ثوری کے درمیان کچھ رنجش تھی اور ان دونوں میں سے ابوحنیفہ اپنی زیادہ کنٹرول کرنے والے تھے[3]۔ اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ابن عدی جیسے آدمی سے ابوحنیفہ کی احادیث نقل کریں۔ اور بعض دفعہ دونوں سندوں میں ابو عاصم آتا ہے اور وہ العبادانی ہے اور اس کا حال معلوم ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ عبد الملك بن محمد أبو قِلابة الرقاشي
وقال الدارقطني: صدوق كثير الخطأ من الأسانيد والمتون، كان يحدث من حفظه فكثرت الأوهام منه. [تهذيب الكمال (18/ 401)]
[2]۔ یا پھر یہ معنی بھی ہو سکتا ہیکہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس فتنے سے بچایا جس کو ابو حنیفہ نے برداشت کیا مثلا امام ابو حنیفہ کو ظالم حاکم نے جیل میں ڈالا ، ابن ہبیرہ نے کوڑے لگوائے ، حتی کہ زہر تک دیا گیا جبکہ یہ سب کچھ سفیان ثوری کے ساتھ نہیں ہوا ، ممکن ہے وہ اسی پر شکریہ کہہ رہے ہوں ۔
بالفرض اگر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مراد یہ تھی کہ شکر ہے ابو حنیفہ فوت ہوا ، یہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تنگ نظری ، تعصب کو واضح کرتا ہے ، کیونکہ سفیان ثوری امام ابو حنیفہ کے خلاف انتہائی متعصب تھے ، تفصیل کیلئے دیکھیں
اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ
اس کے برعکس کبار آئمہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اچھے الفاظ سے یاد کیا
الإمام ، العلامة ، الحافظ شيخ الحرم ، صاحب التصانيف ابن جريج رحمہ اللہ کا قول ہے، جو اس وقت ارشاد فرمایا گیا جب امام ابو حنیفہؒ کے وصال کی خبر پہنچی۔حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن احمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري قال : ثنا روح بن عبادة قال : كنت عند ابن جريج سنة خمسين ومائة فقيل له : مات أبو حنيفة ، فقال : رحمه الله لقد ذهب معه علم كثير
روح بن عبادہ بیان کرتے ہیں:میں سنہ 150 ہجری میں امام ابن جریج کے پاس موجود تھا، کسی نے آ کر کہا: ابو حنیفہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو امام ابن جریج رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ ان پر رحم کرے، ان کے ساتھ بہت سا علم بھی چلا گیا۔(فضائل أبي حنيفة، ص 82، سند حسن) مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
امام علی بن صالح بن حييؒ ہیں، جنہیں محدثین کے ہاں "الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ " جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے۔ ان کی ثقاہت پر امام احمد بن حنبلؒ، امام نسائیؒ، امام ذہبیؒ، ابن حجر عسقلانیؒ، یحییٰ بن معینؒ، محمد بن سعد اور دیگر محدثین کا اجماع ہے۔یہی امام علی بن صالح بن حييؒ جب امام ابو حنیفہؒ کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو گہرے دکھ اور عظیم اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں: حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : وحدثني محمد بن أحمد قال : حدثني محمد بن حماد قال : ثنا إبراهيم بن سعيد قال : سمعت أبا نعيم يقول : سمعت علي بن صالح بن حيي . لما مات أبو حنيفة يقول : ذهب مفتي العراق ، ذهب فقيه أهل العراق یعنی "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا۔" ( فضائل أبي حنيفة ص 81 ، سند حسن ) مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
[3]۔ عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:
"اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضگی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔" (الکامل، ج8، ص236)
نکتہ: بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جب امام ابو حنیفہؒ کا انتقال ہوا، تو اس وقت سفیان ثوری نے جو کچھ کہا تب عبدالصمد بن حسان ان کے پاس موجود تھے، جیسا کہ ابن حبان نے "المجروحین" میں نقل کیا ہے۔ یہی عبدالصمد بن حسان بعد میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ اپنی زبان کو قابو میں رکھنے والے، محتاط اور باوقار شخصیت تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کی معاصرانہ رقابت میں امیر المومنین فی الحدیث سفیان ثوری رحمہ اللہ زبان درازی کر جاتے تھے، لیکن امام ابو حنیفہؒ نے ہمیشہ تقویٰ، حلم اور ضبط نفس کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔افسوس کہ بعض حسد رکھنے والے محدثین نے امام صاحب کی وفات کے موقع پر سفیان ثوری پر تنقید کرنے کے بجائے، امام ابو حنیفہؒ ہی پر جرح نقل کر کے زیادتی کی۔مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں