نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اعتراض نمبر 95: کہ ابو عاصم نے کہا کہ ابو حنیفہ کی فقہ سے توبہ کرنی چاہیے۔

 اعتراض نمبر 95:  کہ ابو عاصم نے کہا کہ ابو حنیفہ کی فقہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ أخبرنا البرقاني، حدثني محمد بن أحمد بن محمد الأدمي ، حدثنا محمد بن علي الإيادي وقال زكريا : سمعت محمد بن الوليد البسري قال: كنت قد تحفظت قول أبي حنيفة، فبينا أنا يوما عند أبي عاصم، فدرست عليه شيئا من مسائل أبي حنيفة، فقال ما أحسن حفظك، ولكن ما دعاك أن تحفظ شيئا تحتاج أن تتوب إلى الله منه الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں الادمی[1] اور زکریا الساجی ہیں[2] اور پہلے خطیب نے ہی ص 342 میں خود ابو عاصم سے عمدہ سند کے ساتھ ایسا واقعہ نقل کیا ہے جو اس کے منافی ہے[3]۔ اور ابو عاصم النبیل تو بصرہ میں امام زفر کے اصحاب میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو ابو حنیفہ کی فقہ کو بہت ہی زیادہ پسند کرتے تھے مگر کذاب لوگ (جھوٹی روایات کر کے) اسی طرح اپنے آپ کو رسوا کرتے ہیں امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔  [1]۔ مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن جعفر بْن مُحَمَّد بْن عَبْد الملك، أَبُو الْحَسَن الأدمي لم يكن هذا صدوقا في الحديث كان يسمع لنفسه في كتب لم يسمعها. (تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١/‏٣٦٦ ، ميز...

اعتراض نمبر 94 : کہ ابن ادریس نے کہا کہ دنیا کے اندر میری خواہش یہ ہے کہ کوفہ سے ابو حنیفہ کی فقہ اور نشہ آور چیزوں کا پینا اور حمزہ قاری کی قراءت نکال دی جائے۔

اعتراض نمبر   94:       کہ ابن ادریس نے کہا کہ دنیا کے اندر میری خواہش یہ ہے کہ کوفہ سے ابو حنیفہ کی فقہ اور نشہ آور چیزوں کا پینا اور حمزہ قاری کی قراءت نکال دی جائے۔  أخبرنا البرقاني، حدثني محمد بن أحمد بن محمد الأدمي ، حدثنا محمد بن علي الإيادي، حدثنا زكريا بن يحيى الساجي، حدثنا بعض أصحابنا قال:  قال أبن إدريس: إني لأشتهي من الدنيا أن يخرج من الكوفة قول أبي حنيفة، وشرب المسكر، وقراءة حمزة. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ آپ دیکھیں گے کہ البرقانی نے اپنے آپ کو کیسے لوگوں کی صف میں بیان کیا ہے۔ پھر محمد بن احمد بن محمد الادمی جیسے آدمی سے روایت کرتا ہے جو کہ العلل الساجی کا راوی ہے۔ اور وہ صدوق نہ تھا۔ کتابوں میں اپنے لیے ان چیزوں کی سماعت کا دعوی بھی کرتا تھا جو اس نے نہ سنی ہوتی تھیں اور وہ بے ہودہ گو تھا جیسا کہ خطیب نے خود اس کا بیان کیا ہے[1]۔  اور بہر حال الساجی تو اس کی حالت کا بیان پہلے ہو چکا ہے[2]۔ اور اس کا شیخ مجہول ہے اس کے اور عبد اللہ بن ادریس الاودی کے درمیان تو جنگلات ہیں (یعنی درمیان میں بہت سے نامعلوم راوی ہیں) اور اس حکایت کو ...

اعتراض نمبر 93: کہ قیس بن ربیع نے کہا کہ ابو حنیفہ گزری ہوئی باتوں میں اجہل الناس تھے اور جو باتیں نہ ہوئی ہوں ان کے زیادہ عالم تھے۔

 اعتراض نمبر 93:  کہ قیس بن ربیع نے کہا کہ ابو حنیفہ گزری ہوئی باتوں میں اجہل الناس تھے اور جو باتیں نہ ہوئی ہوں ان کے زیادہ عالم تھے۔ وقال: حَدَّثَنَا الأبار، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن سعيد، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عَبْد الرَّحْمَن، قال: سئل قيس بن الربيع عن أبي حنيفة، فقال: من أجهل الناس بما كان، وأعلمه بما لم يكن الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ابن رزق اور ابن سلم اور الآبار کے علاوہ ابراہیم بن سعید بھی ہے جو کہ نیند کی حالت میں علم حاصل کرتا تھا۔ اور قیس بن الربیع تو ایسا آدمی ہے جس کو بہت سے حضرات نے چھوڑ دیا تھا[1]۔  اور اس کا بیٹا لوگوں کی احادیث لیتا پھر ان کو اپنے باپ کی کتاب میں داخل کر دیتا تھا تو اس کا باپ قیس باطنی سلامتی کی وجہ سے ان کو روایت کر دیتا تھا۔  اور اس جیسی نکتہ چینی اس کی کاروائی نہیں ہو سکتی۔  اور ابن عبدالبر نے اس جیسا قول رقبہ بن مصقلہ کی طرف منسوب کیا ہے اور وہی اس کے لائق ہے . اور ہر حالت میں کوئی طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اس جیسی گواہی دے سوائے اس ذات کے جس کا علم گزری ہوئی باتوں اور نہ گزری ہوئی باتوں کو محیط ہے...

اعتراض نمبر 92: کہ محمد بن عبد الوهاب نے کہا کہ ابو حنیفہ کی مجلس لغو اور بے وقار ہوتی تھی اور سفیان ثوری کی مجلس میں وقار، سکون اور علم ہوتا تھا تو میں نے اسی کو اختیار کر لیا۔

 اعتراض نمبر 92:  کہ محمد بن عبد الوهاب نے کہا کہ ابو حنیفہ کی مجلس لغو اور بے وقار ہوتی تھی اور سفیان ثوری کی مجلس میں وقار، سکون اور علم ہوتا تھا تو میں نے اسی کو اختیار کر لیا۔ أخبرني أبو نصر أحمد بن الحسين القاضي - بالدينور - أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن إسحاق السني الحافظ قال: حدثني عبد الله بن محمد بن جعفر ، حدثنا هارون بن إسحاق سمعت محمد بن عبد الوهاب القناد يقول:  حضرت مجلس أبي حنيفة، فرأيت مجلس لغو، ولا وقار فيه، وحضرت مجلي سفيان الثوري، فكان الوقار والسكينة والعلم فيه، فلزمته. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ القناد تو ان لوگوں میں سے ہے جو مسانید میں ابو حنیفہ سے بکثرت روایت کرنے والے ہیں[1]۔ اور خطیب کی روایت کے جھوٹا ہونا پر یہی دلیل کافی ہے۔  اور عبد اللہ بن محمد بن جعفر وہ نہیں ہے جو الشیخ بن حیان کا باپ ہے اس لیے کہ اس نے ھارون بن اسحاق الحمدانی کو نہیں پایا جس کی وفات 258ھ میں ہوئی۔  بلکہ یہ عبد اللہ بن محمد القاضی القزوینی ہے جو کہ کذاب مشہور ہے جس نے امام شافعی کی جانب منسوب کر کے دو سو کے قریب ایسی حدیثیں وضع کیں جن میں سے کسی کو امام شافعی...

اعتراض نمبر 91: کہ عبد الله بن المبارک نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے جو چیز بھی روایت کی ہر چیز کو چھوڑ دیا۔ پھر اللہ سے بخشش مانگی اور توبہ کی

 اعتراض نمبر 91:  کہ عبد الله بن المبارک نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے جو چیز بھی روایت کی ہر چیز کو چھوڑ دیا۔ پھر اللہ سے بخشش مانگی اور توبہ کی الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس روایت کا راوی زکریا جو ہے وہ ابن سھل المروزی ہے اور اس تک سند وہی ہے جو پہلی روایت کی سند ہے تو اس میں عمر بن محمد الجوھری ہے اور وہ السذابی ہے جو الحسن بن عرفہ - یزید بن ہارون ز حماد بن سلمہ ۔ قتادہ - عکرمہ - ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن اللہ کی سند سے روایت نقل کرنے میں منفرد ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ”میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جس نے میرا کلمہ پڑھا میں اس کو اپنی جنت میں داخل کروں گا اور جس کو میں اپنی جنت میں داخل کروں گا تو وہ میرے عذاب سے امن پائے گا اور قرآن میرا کلام ہے اور مجھ سے نکلا ہے۔" اور امام ذہبی نے خطیب کی سند سے اس کو نقل کرنے کے بعد کہا کہ یہ موضوع روایت ہے اور جو موضوع روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس سے بہت ممکن ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے بارہ میں ابن المبارک کی زبان سے جو چاہے کرتا پھرے۔  اور سند میں کتنے بڑے بڑے حنابلہ ہیں۔ اور ابو بکر المروزی نے کتاب ا...

اعتراض نمبر 90: کہ حفص بن غیاث نے کہا کہ ایک ہی دن میں ایک ہی مسئلہ میں ابوحنیفہ نے پانچ قول کیے تو میں نے اس کو چھوڑ دیا

 اعتراض نمبر 90:  کہ حفص بن غیاث نے کہا کہ ایک ہی دن میں ایک ہی مسئلہ میں ابوحنیفہ نے پانچ قول کیے تو میں نے اس کو چھوڑ دیا الجواب :  میں کہتا ہوں کہ حدیث پر متوجہ ہونے کی وجہ سے اس (حفص) پر کوئی علامت نہیں ہے۔  اور بہرحال اس کا ابوحنیفہ کو چھوڑ دینا تو یہ اس پر جھوٹ ہے کیونکہ وہ تو اس کی زندگی اور مرنے کے بعد اس کے تلامذہ میں سے بہت ہی زیادہ اس سے سلوک کرنے والا تھا۔  اور اس واقعہ کی سند میں ابن رزق الابار اور ابراہیم بن سعید ہیں اور مطبوعہ نسخوں میں ابن سلم اور ابراہیم بن سعید کے درمیان سے الابار چھوٹ گیا ہے اور یہ چولہے کا تیسرا پتھر ہے۔ امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ امام حفص بن غیاث کے تعلق سے دیکھیں  ▪︎ "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 85

امام عبداللہ بن مبارک اور امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ : متعصبیں کی جانب سے پیش کردہ امام اعظم پر چند متفرق اعتراضات

  ا مام عبداللہ بن مبارک اور    امام ابو حنیفہ  رحمھم اللہ : متعصبیں کی جانب سے پیش کردہ امام اعظم پر چند متفرق اعتراضات : 1.اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔ 2. ابو حنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔  3. امام عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کر دیا تھا 4. ابن المبارک نے ایک شاگرد نے پوچھا کیا ابو حنیفہ میں کوئی بدعت تھی، تو جواب دیا ہاں وہ مرجئی تھا۔ 5. ابو حنیفہ عالم نہیں تھا 6. " عبداللہ بن المبارک اور رفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر " ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اعتراض : کتاب الحیل ، امام ابو حنیفہ کی تصنیف ہے ۔  01:-امام اہلسنت عبداللہ ابن المبارک(متوفی 181ھ) نے فرمایا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبيد الله الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشافعي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو توبة الربيع بن نافع، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله ابن المبارك، قال:  من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أح...