اعتراض نمبر 2 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں کہ رؤبہ نے ابو حنیفہؒ کی رائے پر طنز کرتے ہوئے کہا: "لوگ اُن سے بے وزن رائے لے کر واپس جاتے ہیں جس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔"
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 2 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں کہ رؤبہ نے ابو حنیفہؒ کی رائے پر طنز کرتے ہوئے کہا: "لوگ اُن سے بے وزن رائے لے کر واپس جاتے ہیں جس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔"
ثنا أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ ثنا سُفْيَانُ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رُؤْبَةَ ، فَأَبْصَرَ النَّاسَ وَقَدِ انجفلوا فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ؟ فَقَالَ: مِنْ عِنْدِ أَبِي حَنِيفَةَ. قَالَ: هِيهْ يُمْكِنُهُمْ مِنْ رَأْيِ مَا مَضَغُوا وَيَنْقَلِبُوا إِلَى أَهَالِيهِمْ بِغَيْرِ ثِقَةٍ
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/779 )
جواب : رؤبہ بن عجاج خود مجروح راوی ہے۔
چنانچہ مشہور غیر مقلد محقق ناصرالدین البانی، جب ایک ضعیف روایت کے راوی کے طور پر رؤبہ کا ذکر کرتے ہیں، تو لکھتے ہیں : دوسرا (راوی): رؤبہ بن عجاج ہے۔ اگرچہ وہ اپنے والد سے زیادہ مشہور ہے، اور اس سے متعدد ثقہ راویوں نے روایت بھی کی ہے، لیکن اس کی تفصیلی سوانح عمری سے—جیسا کہ کامل ابن عدی (ج 3، ص 179-182) اور تاریخ ابن عساکر (ج 6، ص 284-292) میں آئی ہے—یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شہرت اصل میں شعر گوئی اور شعر کی روایت میں ہے، نہ کہ حدیث میں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ محدثین نے اس سے صرف یہی ایک حدیث نقل کی ہے، بلکہ ابن عدی نے تو صراحت کی ہے کہ اس کے پاس اس ایک حدیث کے سوا کچھ نہیں، اور عقیلی نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے؛ چنانچہ اس حدیث کو ایک اور سند سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "یہ ایک شاعر تھا، اس سے کوئی ایسی روایت نہیں جو پرکھی جا سکے۔"اسی وجہ سے حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا: "یہ حدیث میں کمزور ہے۔" البتہ ابن حبان نے اسے اپنی کتاب الثقات (ج 6، ص 310) میں ذکر کیا ہے۔
( سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة ١٤/٣٥)
بالفرض ہم اس روایت کو صحیح مان بھی لیں تب بھی اس سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات پر کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ
1.رؤبہ محض ایک شاعر اور لغوی تھا۔ لغت میں اس کی بات کسی حد تک معتبر ہو سکتی ہے، لیکن فقہ اسلامی کے باب میں، خصوصاً ایسے جلیل القدر امام کے مقابلے میں، اس کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔
2. خود رؤبہ کو حدیث میں کمزور قرار دیا گیا ہے (تقريب التهذيب ١/٢١١ )، جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ میں ایسے محدثین شامل ہیں جو ثقہ و ثبت ہیں اور بعض بخاری و مسلم کے راوی بھی ہیں، مثلاً:
امام ابو نعیم فضل بن دکین
امام ابو عاصم النبیل
امام وکیع بن الجراح
امام زہیر بن معاویہ
امام عبد اللہ بن مبارک
امام حفص بن غیاث
امام قاسم بن معن
امام مکی بن ابراہیم رحمہم اللہ
امام اعظم کے ایسے عظیم تلامذہ کے ہوتے ہوئے رؤبہ کا امام اعظم کے بعض شاگردوں پر طنز کرنا یا امام اعظم کے درس کو ہدفِ تنقید بنانا نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ خود اس کی علمی حیثیت سے بھی گری ہوئی بات ہے۔
3.روبہ نہ تو علمِ حدیث کے ماہر تھے اور نہ ہی فقہ میں ان کا کوئی مضبوط مقام تھا۔ اگر وہ ان دونوں علوم میں تخصص رکھتے تو ان کی بات کو کسی حد تک علمی وزن حاصل ہو سکتا تھا۔ لیکن چونکہ ان کی اصل پہچان لغت، شاعری اور ادب میں تھی، اس لیے ان کا فقہی یا حدیثی مسائل پر کلام علمی اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ایسے شخص کی رائے فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، وہی امام اعظم جن سے امام مالک جیسے جلیل القدر محدث و فقیہ استفادہ کریں، اور جن کے بارے میں امام شافعی جیسے مجتہد فرما دیں کہ "لوگ فقہ میں ان کے محتاج ہیں۔"
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
4. حقائق کو دیکھا جائے تو رؤبہ کی بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ امام صاحب کے درس میں شریک اصحاب نے خوب شہرت اور نیک نامی کمائی ہے ، چاہے اس میں صاحبین جیسے ماہر فقیہ ہوں ، عبداللہ بن مبارک ، وکیع بن جراح جیسے محدثین ہوں یا داود طائی جیسے زاہد ہوں ، ہر ایک اپنے دینی شعبے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ اصحاب ابو حنیفہ نے جو علم آپ سے اخذ کیا ، وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے ، عقائد کا باب ہو یا فروعی مسائل ، امام صاحب سے شاگرد ، ہمیں اصحاب الحدیث کے اساتذہ کی فہرست میں نظر آتے ہیں ، ثلاثیات بخاری جیسی عظمتیں اصحاب ابو حنیفہ ہی کے حصے میں آئی ہیں ، اسی طرح آپ کی فقاہت بقول ابن عیینہ آفاق پر پھیلی ہے ۔ لہذا رؤبہ اپنی بات میں غلط ثابت ہوئے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
نتیجہ:
یہ روایت نہ صرف سنداً کمزور ہے بلکہ اس کا مضمون بھی غیر معتبر ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت، ان کے تلامذہ کی ثقاہت، اور ان کے فقہی مقام کے سامنے رؤبہ (ایک لغوی و شاعر) کی بے بنیاد تنقید کی کوئی حیثیت نہیں۔

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں