نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اعتراض نمبر 15: امام ابو حنیفہ کے ہاں جوتے کی عبادت جائز ہے۔

  اعتراض نمبر   15:  کہ امام ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی ایک جوتے کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں تو سعید نے کہا کہ یہ تو کھلا کفر ہے۔ أخبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه ، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثني علي بن عثمان بن نفيل، حدثنا أبو مسهر، حدثنا يحيى بن حمزة - وسعيد يسمع - أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله، لم أر بذلك بأسا. فقال سعيد: هذا الكفر صراحا. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اب ہمیں ایسے مخالفین کا سامنا ہے جن کا صواب (درست بات کہنے کی توفیق) ضائع ہو چکا ہے اس جھوٹ کو گھڑنے کی وجہ سے جو انہوں نے امام ابو حنیفہ پر باندھا ہے۔ کیا کسی نے جہان میں کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جو جوتے کی عبادت کرے یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں ابو حنیفہ سے پوچھے تو وہ اس کو درست قرار دیں؟ اور کیا ابو حنیفہ جوتے کی عبادت کی طرف دعوت دینے والے تھے حالانکہ امت محمدیہ کے اکثر طبقہ نے زمانہ یکے بعد دیگرے گزرنے کے باوجود ان کو دین میں اپنے لیے امام بنالیا...

اعتراض نمبر 14:جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا وہ مومن ہے

 اعتراض نمبر 14: کہ امام ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کعبہ حق ہے اور وہ اللہ کا گھر ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مکہ میں ہے یا خراسان میں تو کیا ایسا شخص مومن ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ مومن ہے۔  اسی طرح پوچھا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ وہی تھے جو قریش خاندان سے تعلق رکھنے والے مدینہ میں گزرے ہیں یا کوئی اور محمد ہے۔ کیا ایسا شخص مومن ہے ؟ تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہاں وہ مومن ہے۔ سفیان نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ ایسا شخص شک میں مبتلا ہے، اس لیے وہ کافر ہے۔ أخبرنا ابن رزق ، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخلدي، حدثنا أبو جعفر محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي - في صفر سنة سبع وتسعين ومائتين - حدثنا عامر بن إسماعيل ، حدثنا مؤمل عن سفيان الثوري قال: حدثنا عباد بن كثير قال: قلت لأبي حنيفة: رجل قال أنا أعلم أن الكعبة حق، وأنها بيت الله، ولكن لا أدري هي التي بمكة، أو هي بخراسان، أمؤمن هو؟ قال: نعم مؤمن. قلت له: فما تقول في رجل قال: أنا أعلم أن محمدا ...

اعتراض نمبر 13: امام ابو حنیفہ اور جھوٹی گواہی

 اعتراض نمبر 13: کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر گواہ جھوٹی گواہی دے کر قاضی سے میاں بیوی کے درمیان تفریق ڈلواتے ہیں اور پھر گواہوں میں سے کوئی اس عورت سے نکاح کر لیتا ہے تو امام ابو حنیفہ نے کہا کہ یہ نکاح جائز ہے اور اگر قاضی کو اس واقعہ کی حقیقت حال معلوم بھی ہو جائے تو ان میں تفریق نہ ڈالے۔ أخبرني الحسن بن محمد الخلال، حدثنا محمد بن العباس الخزاز . وأخبرنا محمد بن أحمد بن محمد بن حسنون النرسي، أخبرنا موسى بن عيسى بن عبد الله السراج قالا: حدثنا محمد بن محمد الباغندي ، حدثنا أبي قال: كنت عند عبد الله بن الزبير، فأتاه كتاب أحمد بن حنبل: اكتب إلى بأشنع مسألة عن أبي حنيفة. فكتب إليه: حدثني الحارث بن عمير ۔۔۔۔ قال الحارث بن عمير ، وسمعته يقول: لو أن شاهدين شهدا عند قاض أن فلان بن فلان طلق امرأته، وعلما جميعا أنهما شهدا بالزور، ففرق القاضي بينهما، ثم لقيها أحد الشاهدين فله أن يتزوج بها؟ قال: نعم! قال: ثم علم القاضي بعد، أله أن يفرق بينهما؟ قال: لا. الجواب:  میں کہتا ہوں کہ الحمیدی کا انتہائی متعصبانہ حال پہلے بیان ہو چکا ہے [اعتراض نمبر 12] جو اس کی اس خبر کے رد کرنے تک پہنچات...

 اعتراض نمبر 11.  امام ابو حنیفہ نے کہا کہ ہم یہاں بھی مومن ہیں اور اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں اور وکیع نے اس قول کو پسند نہیں کیا۔

 امام ابو حنیفہ نے کہا کہ ہم یہاں بھی مومن ہیں اور اللہ کے ہاں بھی مومن ہیں اور وکیع نے اس قول کو پسند نہیں کیا۔ أخبرنا الحسين بن محمد بن الحسن أخو الخلال، أخبرنا جبريل بن محمد المعدل - بهمذان - حدثنا محمد بن حيويه النخاس ، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع قال: سمعت الثوري يقول: نحن المؤمنون، وأهل القبلة عندنا مؤمنون، في المناكحة، والمواريث، والصلاة، والإقرار، ولنا ذنوب ولا ندري ما حالنا عند الله؟ قال وكيع، وقال أبو حنيفة: من قال بقول سفيان هذا فهو عندنا شاك، نحن المؤمنون هنا وعند الله حقا، قال وكيع: ونحن نقول بقول سفيان، وقول أبي حنيفة عندنا جرأة. الجواب نمبر 1: امام محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:  میں کہتا ہوں کہ مطبوعہ تینوں نسخوں میں راوی کا نام حیویہ لکھا ہوا ہے اور یہ تصحیف ہے کیونکہ صحیح نام جبویہ جیم کے فتحہ کے ساتھ اور باء کی تشدید کےساتھ اور محمد بن العباس الخزاز جو ابن حیویہ کے ساتھ مشہور ہے وہ تو بہت بعد زمانہ کا ہے اس نے بالکل محمود بن غیلان کو نہیں پایا پس دوسری طبع کے حاشیہ میں جو یہ تعلیل کی گئی ہے کہ خبر اس کے ذریعہ سے ہے تو یہ محض وہم ہے اور درست بات ک...

 اعتراض نمبر  7 :  امام ابو حنیفہ نے تُرزقَانِهٖ کی بجائے ترزقَانَهٗ کی قراءة کو صحیح کہا ہے۔

 اعتراض نمبر  7 :  امام ابو حنیفہ نے تُرزقَانِهٖ کی بجائے ترزقَانَهٗ کی قراءة کو صحیح کہا ہے۔ أخبرني البرقاني، أخبرنا محمد بن العباس الخزاز ، حدثنا عمر بن سعد، حدثنا عبد الله بن محمد، حدثني مالك بن أبي بهز البجلي عن عبد الله بن صالح عن أبي يوسف قال: قال لي أبو حنيفة: إنهم يقرؤن حرفا في يوسف يلحنون فيه؟ قلت: ما هو؟ قال: قوله: 《 (لا يأتيكما طعام ترزقانه) 》 يوسف [37] فقلت فكيف هو؟ قال: ترزقانه. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ عام قراءة میں ترزقانہ ہاء کے کسرہ کے ساتھ ہے اور امام ابو حنیفہ نے جو قراءة بتائ اس میں ہاء کے ضمہ کے ساتھ ہے اور   اس روایت کی سند میں (محمد بن العباس ) الخزاز ہے   اور اس کا حال پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور اس میں جو عمر ابن سعد ہے، وہ القراطیسی ہے اور عبد اللہ بن محمد وہ ہے جو ابن ابی الدنیا کے نام سے مشہور ہے اور ابو مالک جو ہے وہ محمد بن الصقر بن عبد الرحمن بن بنت مالک بن مغول ہے جو ابن مالک بن مغول کے ساتھ مشہور ہے۔ پس الصقر اور عبد الرحمن دونوں کذاب مشہور ہیں اور عبداللہ بن صالح یہ لیث کا کاتب تھا اور اختلاط کے عارضہ میں مبتلا تھا۔  ا...

اعتراض نمبر10: بڑے بڑے محدثین نے امام ابو حنیفہ کی تردید کی ہے۔

اعتراض نمبر10:   بڑے بڑے محدثین نے امام ابو حنیفہ کی تردید کی ہے۔ أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق ، أخبرنا أبو بكر أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي قال: أملى علينا أبو العباس أحمد بن علي بن مسلم الأبار - في شهر جمادى الآخرة من سنة ثمان وثمانين ومائتين - قال: ذكر القوم الذين ردوا على أبي حنيفة: أيوب السختياني، وجرير بن حازم، وهمام بن يحيى، وحماد بن سلمة، وحماد بن زيد، وأبو عوانة، وعبد الوارث، وسوار العنبري القاضي، ويزيد بن زريع، وعلي بن عاصم، ومالك بن أنس، وجعفر بن محمد، وعمر بن قيس، وأبو عبد الرحمن المقرئ، وسعيد بن عبد العزيز، والأوزاعي، وعبد الله بن المبارك، وأبو إسحاق الفزاري، ويوسف بن أسباط، ومحمد بن جابر، وسفيان الثوري، وسفيان ابن عيينة، وحماد بن أبي سليمان، وابن أبي ليلى، وحفص بن غياث، وأبو بكر بن عياش، وشريك بن عبد الله، ووكيع بن الجراح، ورقبة بن مصقلة، والفضل بن موسى، وعيسى بن يونس، والحجاج بن أرطاة، ومالك بن مغول، والقاسم بن حبيب، وابن شبرمة. الجواب :  میں (محمد زاہد کوثری) کہتا ہوں کہ اگر مقصد یہ ہے کہ دلیل کو دلیل کے مقابلہ میں پیش کرنا تو اس بارہ میں ہر جگہ اور ہر زم...

اعتراض نمبر 12: جو آدمی کعبہ کونہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے...امام ابو حنیفہ نے کہا وہ مومن ہے

 اعتراض نمبر 12:  کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ جو آدمی کعبہ کو حق مانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مدینہ میں مدفون ہیں یا نہیں تو وہ مومن ہے اور امام حمیدی نے کہا کہ ایسا قول کرنے والا کافر ہے أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله المعدل، أخبرنا محمد بن عمرو بن البختري الرزاز، حدثنا حنبل بن إسحاق ، حدثنا الحميدي ، حدثنا حمزة بن الحارث ابن عمير عن أبيه قال: سمعت رجلا يسأل أبا حنيفة في المسجد الحرام عن رجل قال: أشهد أن الكعبة حق، ولكن لا أدري: هي هذه التي بمكة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. وسأله عن رجل. قال: أشهد أن محمد بن عبد الله نبي ولكن لا أدري: هو الذي قبره بالمدينة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. قال الحميدي : ومن قال هذا فقد كفر. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں راوی "حنبل بن اسحاق" ایسا ہے جس پر اس کے ہم مذہب لوگوں نے بھی جرح کی ہے۔ اور ابن شاقلہ نے اپنی روایت میں اس کو غلط بیانی کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ اس کا ذکر ابن تیمیہ نے سورۃ القلم کی تفسیر میں کیا ہے لیکن ہم اس کے بارہ میں ان کی ک...

اعتراض نمبر 6 : امام ابو حنیفہؒ علم نحو میں کمزور تھے۔

 اعتراض 6 :  امام ابو حنیفہؒ علم نحو میں کمزور تھے ۔ أخبرنا العتيقي، حدثنا محمد بن العباس ، حدثنا أبو أيوب سليمان بن إسحاق الجلاب قال: سمعت إبراهيم الحربي يقول: كان أبو حنيفة طلب النحو في أول أمره، فذهب يقيس فلم يجئ، وأراد أن يكون فيه أستاذا، فقال: قلب وقلوب، وكلب وكلوب. فقيل له: كلب وكلاب. فتركه ووقع في الفقه فكان يقيس، ولم يكن له علم بالنحو. فسأله رجل بمكة فقال له رجل شج رجلا بحجر، فقال هذا خطأ ليس عليه شئ، لو أنه حتى يرميه بأبا قبيس لم يكن عليه شئ. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس روایت کے مرکزی راوی ابراہیم بن اسحاق کی وفات 285ھ ہے تو اس کے اور امام ابو حنیفہؒ کے درمیان تو بیابان ہیں (یعنی ایسے راوی ہیں جن کا سر پاؤں معلوم نہیں تو یہ خبر مقطوع ہے اور خبر مقطوع تو ان (خطیب کے ہم مذہب شوافع حضرات کے نزدیک مردود ہے (تو خطیب کیسے اس کو پیش کر رہا ہے) پھر اس کی سند میں جو محمد بن العباس ہے، وہ ابن حیویہ الحزاز ہے اور خود ج 3 ص 22 میں خطیب نے ازہری سے اس کا یہ ترجمہ ذکر کیا ہے کہ اس میں تسامح تھا۔ بعض دفعہ کچھ پڑھنے کا ارادہ کرتا تو اس کلام کا اصل اس کے پڑھے ہوئے کلام کے قریب...