نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 16: جلسہ استراحت کا حکم


 اعتراض نمبر 16

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله : 16 

جلسہ استراحت کا حکم

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن مالك بن الحويرث الليثى انه رأى النبي صلی اللہ عليہ وسلم يصلى فاذا كان في وتر من صلوته لم ينهض حتى يستوى قاعدا

ترجمہ: سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت رکعت میں ہوتے تو سیدھے بیٹھ جانے کے بعد کھڑے ہوتے۔

(یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے بعد سیدھے ہو کر بیٹھتے پھر دوسری اور چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ) .

بخاريج اكتاب الاذان باب من استوي قاعدا في وتر من صلوة ثم نهض صفحه 113 رقم الحديث 823۔

فقه حنفی

و استوى قائما على صدور قدميه ولا يقعد ولا يعتمد بيديه على الارض (هداية اولين ج1 كتاب الصلوة باب صفة الصلوة صفحه 110)

 اور اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا ہو جائے نہ بیٹھے اور نہ اپنے ہاتھ زمین پر ٹیکے۔ (فته حدیث اصل 55)

جواب:

اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں احناف کا مسلک یہ ہے کہ جلسہ استراحت کرنا سنت نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے۔ احناف ان روایات کو ترجیح دیتے ہیں جس میں عدم جلسہ استراحت کا ذکر ہوا ہے۔ اور دوسری روایات کی توجیہ کرتے ہیں۔ راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت کو نا مکمل نقل کیا ہے۔ ہدایہ کی پوری عبارت۔

 سجدہ ثانیہ کے بعد سیدھا اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے نہ بیٹھے اور نہ زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگائے امام شافعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تھوڑا سا بیٹھ کر اٹھے اور زمین پر ہاتھ کا سہارا لے کر اٹھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ(جلسہ استراحت) کیا ہے اور ہماری دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نماز میں اپنے پاؤں پر سیدھے کھڑے ہوتے تھے (یعنی یہ آپ کی مبارک عادت تھی ) اور جس حدیث میں جلسہ استراحت کا فعل مذکور ہے وہ بڑھاپے پر محمول ہے

 یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک بڑہاپے کی وجہ سے بوجھل ہو گیا تھا ( ابو داؤد ) اس وقت آپ نے یہ فعل فرمایا اور یہ آرام کا قعدہ ہے اور نماز آرام کے لئے نہیں بنائی گئی۔

(ہدایہ ج 1 ص 10 باب صفۃ الصلوۃ) دیکھو صاحب ہدایہ نے نہ تو جلسہ استراحت والی حدیث کا انکار کیا کہ ان پر انکار حدیث کی تہمت لگائی جائے اور نہ فقہ کے مسئلہ کو بے دلیل لکھا بلکہ با قاعدہ حدیث پاک سے اسے ثابت فرمایا راشدی صاحب نے ہدایہ میں اس حدیث کو پڑھنے کے باوجود حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کر دیا بلکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ہدایہ کا بے دلیل حکم قرار دیا۔ اور اس سنت پر عمل کرنے کو حدیث کے چھوڑنے سے تعبیر کیا۔ مثال

اس کو مثال سے سمجھیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی عادت مبارک یہ تھی کہ آپ بیٹھ کر پیشاب فرمایا کرتے تھے مگر آپ سے کھڑے ہو کر پیشاب فرمانا بھی بخاری شریف کی صحیح ترین حدیث سے ثابت ہے اب ایک عالم ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق بیان کر دے کہ اصل سنت تو بیٹھ کر پیشاب کرنا ہی ہے اور جو حدیث بظاہر اس کے مخالف ہے وہ عذر پر محمول ہے کہ کوئی عذر ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بھی جائز ہے لیکن بلا عذر طریق سنت کو نہ چھوڑنا چاہئے۔ اب کوئی اس عالم کو منکر حدیث کہنا شروع کر دے تو در اصل وہ خود منکر سنت ہے احناف نے کسی کتاب میں یہ دعوی نہیں کیا کہ ہمارا یہ مسئلہ محض قیاسی ہے۔

احناف کے دلائل کہ نماز میں جلسہ استراحت نہیں کرنا چاہئے

 عن عباس او عیاش بن سهل الساعدي انه كان في مجلس فيه ابوها و كان من اصحاب النبي صلی اللہ عليہ وسلم و في المجلسس ابو هريرة و ابو حميد الساعدی و ابو اسید فذكر الحديث و فيه ثم كبر فسجد ثم كبر فقام ولم يتورك . 

(ابو داؤدج 1 ص 107) 

1۔ عباس یا عیاش بن سہل ساعدی رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ وہ ایک ایسی مجلس میں تھے جس میں ان کے والد بھی تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تھے اور اسی مجلس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے حدیث ذکر کی جس میں یہ بیان کیا کہ پھر آپ نے تکبیر کہی پھر سجدہ کیا پھر تکبیر کہی تو آپ سیدھے کھڑے ہو گئے بیٹھے نہیں۔

 2۔ عن ابي هريرة قال كان النبي لم ينهض في الصلوة على صدور قدميه قال ابو عیسی حدیث ابي هريرة عليه العمل عند اهل العلم يختارون ينهض الرجل على صدور قدميه الخ.

( ترمذی ج 1 ص 65)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پاؤں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے تھے امام ترمزی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہی پر عمل ہے اور وہ اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ آدمی ( نماز میں دوسری، تیسری رکعت کے لئے ) پاؤں کے پنجوں کے بل کھڑا ہو۔ 3۔ عن عبد الرحمن بن غنم ان ابا مالك الاشعرى جمع قومه فقال يا معشر الاشعريين اجتمعوا و اجمعوا نسائكم و ابنائكم اعلمكم صلاة النبي صلی اللہ عليہ وسلم صلى لنا بالمدينة ( فذكر الحديث يطول وفيه) ثم قال سمع اللہ لمن حمده و استو قائما ثم كبر و خر ساجدا ثم كبر فرفع راسه ثم كبر فسجد ثم كبر فانتبض قائم. الحديث

( مسند احمد ج 5 ص 343)

حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو جمع کر کے فرمایا اے اشعرین کی جماعت خود بھی جمع ہو جاؤ اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی جمع کر لو تا کہ میں تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سکھلا دوں جو آپ ہمیں مدینہ منورہ میں پڑھایا کرتے تھے آپ نے پوری حدیث ذکر کی جس میں یہ بھی ہے کہ پھر آپ سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سیدھے کھڑے ہو گئے پھر تکبیر کہہ کر سجدے میں چلے گئے پھر تکبیر کہہ کر سجدے سے سر اٹھایا پھر تکبیر کہہ کر سجدہ کیا پھر تکبیر کہہ کر سیدھے کھڑے ہو گئے۔

4۔ عن ابي هريرة أن رجلا دخل المسجد يصلى و رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في ناحية المسجد فجاء فسلم عليه فقال له ارجع فصل فانك لم تصل فرجع فصل ثم سلم فقال و عليك ارجع فصل فائك لم تصل قال في الثانية فاعلمني قال اذا قمت الى الصلوة فاسبغ الوضوء ثم استقبل القلبة فكبر واقرا بما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن را كعا ثم ارفع راسك حتى تعدل قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تستوي و تطمئن جالسا ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تستوى قائما ثم افعل ذالك في صلوتك كلها .

 ( بخاری ج 2 ص 986) 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے۔ وہ شخص نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی وہ واپس گیا اور (دوبارہ) نماز پڑھ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی تیسری مرتبہ اس شخص نے عرض کیا کہ مجھے ( نماز کا طریقہ ) بتلا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکو پڑھو اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اسی طرح ساری نماز میں کرو۔

خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

 عن الشعبي ان عمر و عليا و اصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كانوا ينهضون في الصلوة على صدور اقدامهم

( مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 394) حضرت امام شبعی رحمۃاللہ علیہ سےروایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز میں اپنے قدموں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوا کرتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

عن عبدة بن ابى لبابة قال سمعت عبد الله بن يزيد يقول رمقت عبد الله بن مسعود فی الصلوة فرايته ينهض ولا يجلس قال ينهض

على صدور قدميه في الركعة الأول والثالثة.

( معجم طبرانی کبیر ج 9 ص 266 و سنن کبری بیہقی ج 2 ص 125) عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز میں بغور دیکھا، میں نے دیکھا کہ آپ (پہلی اور تیسری رکعت کے بعد سیدھے ) کھڑے ہو جاتے ہیں بیٹھتے نہیں عبدالرحمن بن یزید رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے قدموں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے تھے پہلی اور تیسری رکعت کے بعد ۔ 

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

عن وهب بن كيسان قال رايت ابن الزبير اذا سجد السجدة الثانية قام كما هو على صدور قدميه.

(مصنف ابی شیبہ ج 1 ص 394) حضرت وہب بن کیسان رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ جب دوسرا سجدہ کر لیتے تو اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل جسے ہوتے ویسے ہی کھڑے ہو جاتے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

عن نافع عن ابن عمر انه كان ينهض في الصلوة على صدور قدميه. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 394)

حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نماز میں اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

ثنا سليمان الاعمش قال رايت عمارة بن عمير يصلى من قبل ابواب كندة قال فرايته ركع ثم سجد فلما قام من السجدة الاخيرة قام كما هو فلما انصرف ذكرت ذالك له فقال حدثنى

عبد الرحمن بن یزید انه رای عبدالله بن مسعود يقوم على صدور قدميه في الصلوة قال الاعمش فحدثت بهذا الحديث ابراهيم النخعي فقال ابراهيم حدثني عبدالرحمن بن يزيد انه رای عبدالله بن مسعود يفعل ذالك فحدثت به خيثمة بن عبد الحمن فقال رایت عبد الله بن عمر يقوم على صدور قدمیه فحدثت به محمد بن عبدالله الثقفی فقال رایت عبدالرحمن بن ابى ليلى يقوم على صدور قدميه فحدثت به عطية العوفي فقال رایت ابن عمرو ابن عباس و ابن الزبير و ابا سعيد الخدري رضی اللہ عنہ يا يقومون على صدور اقدامهم في الصلوة. 

(سنن الکبری بیہقی ج 2 ص 125) امام اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمارة بن عمیر رحمۃاللہ علیہ کو ابواب کنندہ کی جانب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا جب آپ دوسرے سجدے میں اٹھے تو جیسے تھے ویسے ہی کھڑے ہوئے ، آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا مجھے عبد الرحمن بن یزید رحمۃاللہ علیہ نے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے کہ وہ نماز میں اپنے قدموں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوئے تھے۔ امام اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ سے بیان کی کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے بھی عبدالرحمن بن یزید رحمۃاللہ علیہ نے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے امام اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہ حدیث خیثمہ رحمۃاللہ علیہ بن عبد الرحمن سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے قدموں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوئے تھے امام اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث محمد بن عبداللہ ثقفی رحمۃاللہ علیہ کو بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمۃاللہ علیہ کو دیکھا ہے کہ وہ بھی اپنے قدموں کے بل ہی کھڑے ہوتے تھے امام اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عطیہ عوفی رحمۃاللہ علیہ سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ نماز میں اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل ہی کھڑے ہوتے تھے۔ عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

عن النعمان بن ابی عیاش قال ادركت غير واحد من اصحاب النبي علي فكان اذا رفع راسه من السجدة في اول ركعة والثالثة قام كما هو ولم يجلس . 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 395) حضرت نعمان بن ابی عیاش رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پایا ہے کہ وہ جب پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تھے تو ویسے ہی سیدھے کھڑے ہو جاتے تھے بیٹھتے نہیں تھے۔ 

حضرت ابن ابی لیلی رحمۃاللہ علیہ یہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے

عن محمد بن عبد الله قال كان ابن ابى ليلى ينهض في الصلوة على صدور قدمیہ

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 394)


محمد بن عبد اللہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمۃاللہ علیہ نماز میں اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے تھے۔

حضرت ابراہیم تھی رحمۃاللہ علیہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے عن ابراهيم انه كان يسرع فى القيام في الركعة الأولى من اخر سجدہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 395) حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ وہ پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ کر کے قیام سجدة

میں جلدی کرتے تھے۔

 عام مشائخ کا معمول تھا کہ وہ جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے ۔

عن الزهري قال كان اشيا خنا لا يما يلون یعنی اذا رفع احدهم راسه من السجدة الثالثة في الركعة الأولى والثالثة ينهض كما هو ولم يجلس (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 394 )

امام زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ مائل نہیں ہوتے تھے یعنی جب کوئی ان میں سے پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھاتا توویسے ہی سیدھا کھڑا ہو جاتا تھا بیٹھتا نہ تھا۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں

.. في التمهيد اختلف الفقهاء فى النهوض من السجود الى القيام فقال مالك والا وزاعي والثوري و ابو حنيفة و اصحابه ينهض على صدور قدمیه و لا يجلس وروى ذالك عن ابن مسعود و ابن عمر و ابن عباس و قال النعمان بن ابي عياش ادركت غير واحد من اصحاب النبي م يفعل ذالك و قال ابو الزناد ذالك السنة وبه قال

ابن حنبل و بن را هویه و قال احمد و اكثر الاحاديث على هذا ...

(الجوہر النقی ج 2 ص 125)

تمہید میں ہے کہ سجدہ سے قیام کے لئے اُٹھنے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام مالک، امام اوزاعی، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ نمازی اپنے قدموں کے بل کھڑا ہو اور جلسہ استراحت نہ کرے اور یہی مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد الله بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حضرت نعمان بن ابی عیاشی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ ابوالزناد رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ جلسہ استراحت نہ کرنا ہی سنت ہے، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ اور اسحق بن راھویہ رحمۃاللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ حضرت

امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث اسی پر ہیں ( کہ جلسہ استراحت نہ کیا جائے )

مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر بغیر بیٹھے سیدھے کھڑے ہو جانا مسنون ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر سیدھے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کا یہی معمول نقل فرماتے ہیں اور حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ اسی طریقہ سے قیام کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بتلاتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو جو صحیح طرح نماز نہیں پڑھ رہا تھا صحیح طریقہ نماز پڑھنے کا طریقہ بتلایا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تم اطمینان سے سجدہ کر چکو تو سجدے سے اٹھو اور سیدھے

کھڑے ہو جاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے صاف طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جلسہ استراحت مسنون نہیں کیونکہ اگر جلسہ استراحت مسنون ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس شخص کو اس کے کرنے کا حکم دیتے۔

خلفاء راشدین اور عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ بھی جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ بھی جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے یہ مختصر ہے بخاری میں۔ اس سے قبل یہ روایت مفصل نقل کی گئی ہے وہ ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔ 

عن ابوب عن ابي قلابة انه مالك بن الحويرث قال لا صاحبه الا انبئكم صلوة رسول الله ﷺ قال وذاك في غير حين صلوة فقام ثم ركع فكبر ثم رفع راسه فقام هنية ثم سجد ثم رفع راسه هنية ثم سجد ثم رفع راسه هنية فصلى صلوة عمرو بن سلمة شيخنا هذا ايوب كان يفعل شيئا لم ارهم يفعلونه كان يقعد فى الثالثة والرابعة الحديث 

(بخاری ج 1 ص 113)

حضرت ایوب سختیانی رحمۃاللہ علیہ حضرت ابو قلابتہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتلاؤں ؟ حضرت ابو قلابتہ رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی فرض نماز کا وقت نہ تھا، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے پھر رکوع کیا اور تکبیر کہی پھر رکوع سے سر اٹھایا اور تھوڑی دیر ٹھہرے رہے پھر سجدہ کیا پھر سجدہ سے سر اٹھا کر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے پھر آپ نے سجدہ کیا پھر سجدہ سے سراٹھا کر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے غرض انہوں نے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی حضرت ایوب سختیانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن سلمہ نماز میں ایک ایسا کام کیا کرتے تھے جو میں نے اور لوگوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ یہ کہ وہ تیسری رکعت کے بعد یا چوتھی رکعت کے شروع میں بیٹھتے تھے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خیر القرون میں جلسہ استراحت کا رواج نہیں تھا۔ کیونکہ حضرت ایوب سختیانی رحمۃاللہ علیہ مرد متوفی 131ھ جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ تعالٰی کو دیکھا ہے انہوں نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بیان کی تو فرمایا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ جیسی نماز پڑھی، عمرو بن سلمہ نماز میں ایک ایسا کام کرتے تھے جو میں نے لوگوں (صحابہ وتابعین ) کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ یہ کہ عمرو بن سلمہ تیسری رکعت کے بعد یا چوتھی رکعت کے شروع میں بیٹھتے تھے۔ ( جلسہ استراحت کرتے تھے ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں جلسہ استراحت کا بالکل رواج نہیں تھا ورنہ اس کے بارے میں حضرت ایوب سختیانی رحمۃاللہ علیہ یہ نہ فرماتے کہ میں نے یہ صحابہ و تابعین کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا آج بھی حرمین شریفین کے امام جلسہ استراحت نہیں کرتے، ہاں اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر بیٹھ جائے اور پھر اٹھے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اعذار کی وجہ سے بہت سے اعمال میں شریعت کی طرف سے رخصت ہے چنانچہ قعدہ میں عذر کی وجہ سے دو زانو بیٹھنے کی بجائے چوکڑی مار کر بیٹھنا بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ ( دیکھئے بخاری ج 1 ص 114)

راشدی صاحب تو وفات پاگئے ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ حدیث مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ میں جلسہ استراحت کرنے کا ذکر ہے اور دوسری احادیث میں نہ کرنے کا اب اس ظاہری تعارض کو کیسے رفع کیا جائے۔ آپ کے نزدیک دلیل شرعی صرف قرآن و حدیث ہے آپ اس تعارض کا حل قرآن و حدیث سے پیش کریں گے اگر آپ کے نزدیک ایک صحیح باقی ضعیف ہیں تو یہ بھی حدیث سے ثابت کریں کسی امتی کا قول پیش نہ کریں اگر ایک ناسخ اور باقی منسوخ ہیں تو بھی صحیح حدیث سے ثابت کریں ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی صحیح حدیث میں اس بارہ میں کوئی فیصلہ موجود نہیں نہ کسی ضعیف کا نہ ناسخ منسوخ کا نہ باری باری دونوں پر عمل کرنے کا۔ اب جو فیصلہ کتاب وسنت سے نہ ملے ہمارے نزدیک حدیث معاذ رضی اللہ عنہ کے موافق اجتہاد کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ مجتہدین نے خیر القرون کے تعامل کے پیش نظر اس مسئلہ کو اس طرح حل کیا کہ قدرت طاقت والے جلسہ استراحت نہیں کرتے اور بوڑھے معذور جیسے حضرت عمرو بن سلمہ کرتے ہیں دونوں قسم کی احادیث پر عمل کا طریقہ سکھا دیا کہ حالت قدرت میں جلسہ استراحت نہ کرنے والی حدیث پر عمل کرو اور عذر میں جلسہ استراحت والی حدیث پر۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...