اعتراض نمبر٦٤
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : نماز جنازہ میں پانچ تکبیرات کہنا بھی ثابت ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
جس طرح نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہنے کا ذکر ہے اس طرح پانچ تکبیرات کا بھی ذکر ہے: عن عن عبد الرحمن بن ابى ليلى قال كان زيد يكبر على جنائزنا اربعاوانه كبر على جنازة خمسا فسألناه فقال كان رسول الله صلى ال يكبرها .
( ترجمہ ) عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ سیدنازید وہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیرات کہتے تھے اور ایک جنازے پر انہوں نے پانچ تکبیرات کہ دیں نے وجہ پوچھی، کہنے لگے رسول اللہﷺ نے پانچ تکبیرات بھی کہیں ہیں۔
فقه حنفی
لو كبر الامام خمسالم يتابعه المؤتم
هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب الجنائز فصل الصلوة علي الميت ص۱۸۰)
اگر امام پانچ تکبیرات کہے تو مقتدی اس کی اتباع نہ کریں۔
( فقه و حدیث ص ۱۰۳)
جواب
اس مسئلہ میں احادیث و آثار مختلف ہیں کسی حدیث میں تین کسی میں چار۔ چارسے لیکر نوتک کی روایات کتب حدیث میں ملتی ہیں دیکھتے تلخیص الجبیر ج ۲ ص ۱۱۹ تا۱۲۲ کتاب الجنائز مصنف ابن ابی شیبة ج ۳ ص ۳۰۴ تمام روایات کو دیکھ کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس مسئلہ پر اتفاق نہیں ہوا تھا یہ اختلاف اس وقت سے پہلے کا ہے بعد میں صحابہ کا چار تکبیروں پر اتفاق ہو گیا تھا صحابہ کے اتفاق سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا آخری عمل بھی یہ ہی ہو گا۔ اور یہ ہی عام طریقہ رائج تھا۔ اس عام طریقہ سے ہٹ کر اگر کسی روایت میں چار سے زائد تکبیروں کا ذکر ماتا ہے تو وہ کسی آدمی کی خصوصیت کی وجہ سے ہے یا پھر پہلے دور سے اس کا تعلق ہے۔
دلائل احناف
پہلی حدیث :
حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ اسلام نے حضرت آدم علیہ اسلام کی نماز جنازہ ادا کی تھی انہوں نے حضرت آدم پر چار تکبیریں پڑھی تھیں۔
دوسری حدیث:
(سنن دارقطنی کتاب الجنائز باب مکان قبر ادم و اتکبیر علیه اربعا)
دوسری حدیث:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے فرشتوں نے حضرت آدم علیہ اسلام کی نماز جنازہ ادا کی تھی انہوں نے ان پر چار تکبیر پڑھی تھیں اور انہوں
نے یہ کہا تھا۔ اے اولاد آدم تمہارا ( نماز جنازہ ادا کرنے کا یہ طریقہ ہے۔
تیسری حدیث:
(سنن دار قطنی کتاب الجنائز باب مکان قبر آدم)
چوتھی حدیث:
حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے آخری مرتبہ نماز جنازہ میں چار تکبیر کہی تھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نماز جنازہ میں چار تکبیر کہی تھیں حضرت حسن بن علی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہی تھیں حضرت حسین بن علی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چارتکبیریں کہی تھی اور فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہی تھیں۔ (سنن دارقطنی کتاب الجنائز باب مکان قبر آدم)
پانچویں حدیث :
عبداللہ بن عامر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: مجھے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں یہ بات اچھی طرح یاد ہے جب آپ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دفن کروایا ( تو اس سے پہلے ) آپﷺ نے ان کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے ان پر چار مرتبہ تکبیر کہی (دفن کے بعد ) آپﷺنے دونوں مٹھیوں میں تین مرتبہ مٹی لے کر ان کو قبر پر ڈالی آپ ﷺان کے سرہانے کی طرف کھڑے تھے۔
چھٹی حدیث:
مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی اکرم ﷺکی ایک زوجہ محترمہ کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا میں اس خاتون کی نماز جنازہ اس طرح پڑھاؤں گا جس طرح نبی اکرم ﷺ نے آخری مرتبہ نماز جنازہ پڑھائی تھی ، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چار مرتبہ تکبیر کہیں۔
(دارقطنی کتاب الجنائز باب معنی التراب علی المیت )
ساتویں حدیث :
امام شعبی بیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس صاحب قبر کو کچھ عرصہ پہلے دفن کیا گیا تھا نبی اکرم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور آپ نے نماز جنازہ میں چار مرتبہ تکبیر کہی۔
(دار قطنی کتاب الجنائز باب الصلاة على القبر )
آٹھویں حدیث :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ ایک قبر کے پاس سےگزرے جو الگ تھلگ تھی آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے چار مرتبہ تکبیر کہیں۔ امام دار قطنی یہ روایت نقل کرنے کے بعد نقل کرتے ہیں :
وكذالك رواه مسلم بن ابراهيم عن شعبة وابو حذيفة عن زائدة
وعبدالله بن جعفر عن ابى معاوية عن الشيبانى وتابعهم منصور بن ابی
الاسود وعبد الواحد بن زياد عن الشيباني كلهم ، قال فكبر اربعا
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان سب حضرات نے یہی بات نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے چار مرتبہ تکبیر کہی تھی۔
(دارقطنی کتاب الجنائز باب الصلاة على القبر )
نویں حدیث :
ابو وائل کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کبھی سات کبھی چھ کبھی پانچ اور کبھی چار تکبیریں کہتے تھے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو چار تکبیروں پر جمع کر دیا جیسے کہ سب سے لمبی نماز ہوتی ہے۔ (لمبی نماز سے مراد چار رکعتوں والی نماز ہے)
(بیہقی ج ۲ ص ۳۷ کتاب الجنائز باب ما یستدل به علی ان اکثر الصحابة اجتمعوا على أربع ورأى بعضهم الزيادة منسوخة )
(فتح الباری ج ۳ ص ۱۶۲)
دسویں حدیث :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس روز نجاشی کا انتقال ہوا رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اسی روز بتا دیا تھا اور لوگوں کے ساتھ نماز جنازہ کے لیے نکلے تو انہوں نے صفیں بنالیں اور آپ نے چار تکبیریں کہیں۔
(موطا امام مالک التکبیر علی علی الجنائز )
گیارہویں حدیث :
حضرت ابراہیم نخعی ( تابعی کبیر ) نے فرمایا پہلی تکبیر کے بعد اللہ جل شانہ کی حمد و ثناء بیان کی جائے گی دوسری کے بعد نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھا جائے گا۔ تیسری کے بعد میت کے لیے دعا ہوگی اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے گا۔ امام محمد فرماتے ہیں ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں یہی امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے۔
(کتاب الاثار باب الصلاة على الجنازة )
بارہویں حدیث :
حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ لوگ جنازوں پر پانچ چھ اور چار تکبیرات کہا کرتے تھے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ وفات فرما گئے پھر حضرت ابو بکر انہی کے دور خلافت میں لوگ اسی طرح تکبیر کہتے رہے حتی کہ وہ بھی وفات پاگئے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گے اور ان کے دور خلافت میں بھی لوگوں نے یہی کہا۔ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یہ اختلاف دیکھا تو فرمایا آپ حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کی جماعت ہیں جب خود آپ لوگوں ہی میں اختلاف ہوگا تو آپ کے بعد آنے والوں میں اس سے زیادہ اختلاف ہوگا، لوگ ابھی ابھی دور جاہلیت سے نکلے ہیں اس لیے آپ لوگ کسی ایک ایسی بات پر اتفاق کر لیں جس پر آپ کے بعد آنے والے سب متفق ہو جا ئیں چنانچہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی متفقہ رائے یہ ہوئی کہ دنیا سے تشریف لیجانے سے پہلے آپﷺ کے پڑھائے ہوئے آخری جنازے کی تکبیرات کو دیکھا جائے اس پر آپﷺ نے جتنی تکبیرات کہی ہوں انہیں اختیار کر لیا جائے اور اس کے علاوہ دوسری اور کو چھوڑ دیا جائے چنانچہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری جنازہ پر چار تکبیرات کہی تھیں امام محمد نے فرمایا ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔ یہی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے۔
( کتاب الانار باب الصلاة على الجنازه )
تیرھویں حدیث :
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یزید بن المکقف پر نماز جنازہ پڑھی تو چار تکبیرات کہیں اور یہ آپ کی آخری نماز جنازہ تھی جس پر چار تکبیرات تھیں۔
( كتاب الاثار باب الصلاة الجنازه )
چودویں حدیث :
حضرت سعید بن المرزبان حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے جنازہ پر چار تکبیرات کہیں ۔
(کتاب الاثار الصلات على الجنازہ۔)
پندرویں حدیث :
سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنازہ پر کبھی چار تکبیریں کہتے اور کبھی پانچ کبھی چھ بھی سات کبھی آٹھ ، یہاں تک کہ ان کو نجاشی کے انتقال کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ عید گاہ تشریف لے گئے اور لوگ ان کے پیچھے صف بستہ ہوئے ۔ اور اس پر چار تکبیریں کہیں اس کے بعد آپ ﷺ آخر وقت تک چار تکبیروں پر قائم رہے۔
الاستندکار حافظ ابن عبد البر بحوالہ تلخيص الحبير ج ۲ ص ۱۲۱، ۱۲۲ کتاب الجنائز )
( نصب الرایہ ج ١ ص ۳۴۸ ابو داود کتاب الجنائز باب الصلوة علی المسلم)
سولویں حدیث :
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ پہلے تکبیریں چار بھی تھیں اور پانچ بھی اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو چار تکبیروں پر متفق کر دیا۔
(ابن المنذر حوالہ فتح الباری ج ۳ ص ۱۶۲)
سترویں حدیث :
اس حدیث کا خلاصہ اور مفہوم اس طرح ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ ( یعنی اپنی چچی ) فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہیں اس اجتماع میں حضرات شیخین اور حضرت علی کے علاوہ حضرت عباس ، حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت اسامہ بن زید جیسے جلیل القدر حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی موجود تھے۔
( دیکھئے مجمع الزوائد ج ۱ ص ۲۵۶ و ص ۲۵۷ باب مناقب فاطمه بنت اسد )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن نجاشی فوت ہوئے اس دن رسول اللہ ﷺ
نے ان کی موت کی خبر دی آپ عیدگاہ کی طرف نکلے آپ نے مسلمانوں کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں پڑھیں۔
(بخاری کتاب الجنائز باب التكبير على الجناز واربعاً)
انسویں حدیث :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اصحمہ النجاشی کی نماز جنازہ
پڑھائی پس چار تکبیرات پڑھیں۔
(بخاری کتاب الجنائز باب التكبير على الجنازداربعا)
بیسویں حدیث :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت کا چار تکبیرات جنازہ پر اتفاق ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۳۰۱ . ج ۳ ص ۳۰۲، ج ۳ ص ۳۰۰ تا ۳۰۲)
علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں صدر اول میں تکبیر کی تعداد میں بڑا اختلاف تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تین سے سات تکبیروں کی روایت موجود ہے مگر فقہا کہتے ہیں کہ جنازہ کی تکبیریں چار ہیں ابن ابی لیلی اور جابر بن زید پانچ تکبیروں کے قائل ہیں۔ اختلاف کا سبب احادیث کا اختلاف ہے۔ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺکو نجاشی کی وفات کی اطلاع اسی دن مل گئی تھی جس دن اس کا انتقال ہوا چنانچہ آپ لوگوں کے ساتھ عید گاہ نکل گئے ۔ ان کی صف بندی کی اور چار تکبیریں کہیں یہ حدیث متفق علیہ ہے اس لیے جمہور فقہاء نے اس پر عمل کیا ہے۔
بداية المجتهد ونهاية المقتصد اردو باب نمبر ۵ نماز جنازه کابیان ص ۳۲۶)
امام ترمذی لکھتے ہیں :
اور عمل اسی پر ہے اکثر اہل علم کا آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات (تابعین وغیرہ) کا جنازہ پر چار ہی تکبیرات ہیں اور یہی قول ہے حضرت امام سفیان ثوری اور امام مالک اور حضرت عبداللہ بن مبارک امام شافعی امام احمد اور اسحق کا۔
(ترمذی ص ۱۶۶)
امام شافعی فرماتے ہیں:
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ چار تکبیرات پرمشتمل ہے۔
(نیل الاوطار اردو باب غائبانہ نماز جنازہ)
رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے متعلق امام نووی شافعی فرماتے ہیں۔ یہ حدیث علماء کے نزدیک منسوخ ہے اور ابن عبدالبر وغیرہ نے اس کے منسوخ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اب کوئی شخص چار تکبیروں سے زیادہ نہ کہے اور یہ دلیل ہے اس پر کہ ان لوگوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے بعد چار پر اجماع کر لیا ہے اور فقہاء کا صحیح قول یہ ہے کہ اجماع بعداختلاف کے صحیح ہے۔
( شرح مسلم نووی کتاب الجنائز تحت حدیث حضرت زید بن ارقم )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں