اعتراض نمبر ٣٧
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : ہر نشہ آور چیز حرام ہے
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن عمر قال قال رسول الله ﷺ كل مسكر خمر و كل مسكر حرام ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ دینے والی چیز شراب ہے اور ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔
(مسلم ج 2 كتاب الاشر به باب بیان ان كل مسكر خمر الخاص 162 . رقم الحديث 5219 )
ایک حدیث میں ہے۔
قال رسول الله ﷺ ان من الحنطة خمرا او من الشعير خمرا و من التمر خمرا و من الزبيب خمرا و من العسل خمرا
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گندم، جو، کھجور، انگور اور شہد سے شراب بنتی ہے۔
(ترمذي 2 كتاب الاشربة باب ماجاء في الحبوب التي يتخذ منها الخمر ص 9. رقم الحديث 1872. واللفظ له) (ابو داود : 2 کتاب الاشربة باب الخمر من ما هي ص 161 . رقم الحديث 3676)
فقه حنفی
ان ما يتخذ من الحنطة والشعير والعسل والذره حلال عند ابي
حنيفة ولا يحد شاربه و ان سكر منه
(هداية آخرين : ج4 كتاب الاشربة ص 496)
یعنی گندم، جو، شہد اور جوار سے شراب بنانا ابوحنیفہ کے نزدیک حلال
ہے اس کے پینے والے پر اگرچہ اس کو نشہ ہی کیوں نہ ہو کوئی حد نہیں۔
(فقہ وحدیث ص (76)
جواب:
علامہ ابوالحسن مرغیانی رحمۃاللہ علیہ حنفی صاحب ہدایہ کو اس مقام پر امام محمد کی جامع صغیر کی عبارت سے وہم ہو گیا ہے۔ راشدی صاحب نے ہدایہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی اگر پوری عبارت نقل کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ اصل یہ بات جامع صغیر کی ہے۔ ہدایہ کے بعد اکثر مصنفین نے صاحب ہدایہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی اپنی تصانیف میں یہ مسئلہ بیان کر دیا ہے۔ ہدایہ کی پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ ابو الحسن مرغیانی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں۔
وقال فى الجامع الصغير ماسوى ذلك من الاشر به فلا بأس به قالوا هذا الجواب على هذا العموم والبيان لا يوجد في غيرة و هو نص على ان ما يتخذ من الحنطة والشعير والعسل والذرة حلال عند ابي حنفة ولا يحد شاربه عنده و ان سكرمنه و لا يقطع طلاق السكران منه بمنزلة النائم . ( ہدايه اولین ص 495-496 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ )
امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے جامع الصغیر میں کہا ہے کہ ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور مشروبات کےپینے میں کوئی حرج نہیں ہے ( اس قول کی تفصیل کرتے ہوئے ) فقہاء نے کہا جس طرح اس کتاب میں عموم ہے وہ امام محمد رحمۃاللہ علیہ کی ) اور کسی کتاب میں نہیں ہے اور عبارت میں اس کی تصریح ہے کہ جو شراب گندم،جو ، شہد اور جوار سے بنائی جائے وہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک حلال ہے اور اس کے پینے والے پر حدجاری نہیں ہو گی خواہ اس کو نشہ ہو جائے اور اس نشہ میں اس کی طلاق بھی واقع ہیں ہو گی جیسا کہ سونےوالے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ہماری تحقیق یہ ہے کہ امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے جامع الصغیر میں جو یہ لکھا ” و ماسوی ذلک من الاشربۃ فلاباس به ان چار شرابوں کے ماسوا سے اس قسم کا عموم مراد نہیں ہے جو اس عبارت کی تخریج کرنے والوں نے سمجھا ہے حتی کہ جو شراب بھی نشہ آور ہو اور وہ حلال ہو جائے ، بلکہ ماسوا اسے مراد وہ مشروبات ہیں جونشہ آور نہ ہوں کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک نبیذ اور ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، اس کے پینےسے حد لازم آتی ہے اگر وہ نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے طلاق ہو جاتی ہے خود امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے یہ لکھا ہے کہ امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کا یہی قول ہے جیسا کہ ہم ان شاء اللہ عنقریب کتاب آلاثار کے حوالے سے نقل کریں گے اس
لئے جامع الصغیر کی اس عبارت میں ایسا عموم مراد نہیں ہے جو اس عبارت کی تخریج اور تفصیل کرنے
والوں نے بیان کیا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ اس بات سے بری ہیں کہ وہ ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور شرابوں کو حلال قرار دیں اس پر حد لازم نہ کریں اور اس کی طلاق واقع نہ کریں اب ہم ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ اس سلسلہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا موقف بیان کرتے ہیں:
علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں :
فالنبيذ هو ما التمر اذا طبخ ادنى طبخة يحل شربه في قولهم مادام حلوا و اذا غلا و اشتد و قذف بالزيد. عن ابي حنيفة وابي يوسف يحل شربه للتداوى و التقوى الا المحدى المسكر .
(بنایہ شرح ہدایہ ج 2 ص 705-704 مطبوعہ ملک سنز فیصل آباد ) کھجور کے پانی کو معمولی جوش دیا جائے تو یہ نبیذ ہے فقہاء احناف کے قول کے مطابق اس کا پینا جائز ہے بشرطیکہ یہ میٹھا ہو جائے اور جب یہ گاڑھا ہو جائے اور جھاگ چھوڑ دے۔ تو امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ دوا اور طاقت حاصل کرنے کے لئے اس کا پینا جائز ہے البتہ اگر یہ نشہ آور ہو تو اس کا پینا جائز نہیں ہے۔
نبیذ ان چار شرابوں کے علاوہ ہے اور اس عبارت میں تصریح ہے کہ جب وہ نشہ آور ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا پینا جائز نہیں ہے۔
2 - علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں :
ورواية عبد العزيز عن ابي حنيفة وسفيان انهما سئلا فيمن شرب البنج فارتفع الى راسه وطلق امراته هل يقع قالا ان كان يعمله حين شربه ما هو يقع . (فتح القدیر شرح ہدای ج 5 ص 82 مطبور مکتب نوریہ رضوی سکھر)
عبد العزیز نے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور سفیان سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بھنگ کے نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا اس کی طلاق واقع ہو جائے گی ؟ امام ابو حنیفہ اور سفیان نے کہا
اگر بھنگ پیتے وقت اس کو بھنگ کا علم تھا اس کی طلاق ہو جائے گی۔
بھنگ بھی ان چار شرابوں کے علاوہ ہے اور اس عبارت میں تصریح ہے کہ امام ابو حنیفہ کےنزدیک بھنگ کے نشہ سے طلاق ہو جاتی ہے۔
3 - امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں۔
ترى الحد على السكران من نبيذ كان او غيره ثمانين جلدة بالسوط الى
قوله و هو قول ابي حنيفه رحمة الله تعالى .
( كتاب الآثارص 137 مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)
جس شخص کو نبیذ یا کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو ہماری رائے میں اس کو اسی کوڑے حد لگائی جائے گی۔ اور یہی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے۔ اس عبارت میں امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے صاف تصریح کی ہے کہ جس مشروب سے بھی نشہ ہو امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک نشہ والے شخص پر اسی کوڑے حد لگائی جائے گی۔
4 - شمس الائمہ سرخسی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں۔
ان السكر من النبيذ موجب للحد كشرب الخمر .
(المبسوط سرخسی جلد 24 ص 29 مطبوعہ دار المعرفة بیروت)
نبیذ سے نشہ ہو تو اس سے حد لگانا اس طرح واجب ہے جس طرح خمر پینے سے حد لگانا واجب ہے۔
5 - علامہ ابوالحسن مرغینانی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں:
و من سكر من النبيذ حد .
(هدایه اولین ص 506 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ )
جس شخص کو نبیذ سے نشہ ہو گیا اس کو حد لگائی جائے گی۔
6 - علامہ ابن عابدین رحمۃاللہ علیہ شامی حنفی لکھتے ہیں۔
اى شراب كان غير الخمر اذا شربه لا يحد الا اذا سكر به .
(رد المحتار ج 3 ص 225 مطبوعہ عثمانیہ استنبول ) .
خمر کے علاوہ کسی شراب کو بھی پیا جائے اس سے حد لازم نہیں ہوگی البتہ اگر اس سے نشہ ہوجائے تو حد لازم ہوگی ۔
7 - علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں۔
او سكر من نبيذ حد.
( رد المختار ج 3 ص 225)
نبیذ سے نشہ ہو جائے تو حد لگائی جائے گی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
من سكر من النبيذ حد .
جس شخص کو نبیذ سے نشہ ہو جائے اس کو حد لگائی جائے گی۔
مبسوط سرخسی ، ہدایہ، درمختار، ردالمختار اور عالمگیری سے ہم نے اس پر حوالہ جات پیش کئےہیں کہ نبیذ یا خمر کے علاوہ کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو اس پر حد ہے ہر چند کہ ان عبارات میں امام
ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے قول کی تصریح نہیں کی گئی لیکن اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ فقہاء احناف کی کتابوں میں جب مطلقاً کسی مسئلہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا ہی قول ہوتا ہے اور جہاں امام محمد رحمۃاللہ علیہ یا امام یوسف رحمۃاللہ علیہ کےقول پر فتوی ہوتا ہے یہ تصریح کر دی جاتی ہے کہ یہاں امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کا یہ موقف ہے اور فتوئی امام محمد رحمۃاللہ علیہ امام ابویوسف رحمۃاللہ علیہ کے قول پر ہے۔ لہذا ان تمام حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ہر وہ مشروب حرام ہے جس سے نشہ ہو اور اس کے پینے پر حد لازم ہے اور اگر اس کے نشہ میں بیوی کوطلاق دے دی تو وہ طلاق واقع ہو جائے گی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے مذہب اور ان کے اقوال کو بیان کرنےوالے امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃاللہ علیہ ہیں اور انہوں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ان چارشرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور شرابیں حلال ہیں اور ان کے پینے پر حد نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس کتاب آلاثار میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص کو نبیذ یا کسی اور چیز سے نشہ ہو جائے اس پر حد ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے، اور جامع الصغیر کی عبارت کی جو اس کے خلاف تخریج اور تفصیل کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور اس کی تخریج کی بنیاد پر ہدایہ تبیین الحقائق یا بعض دوسری کتابوں میں جو صرف چار شرابوں کوحرام کہا گیا ہے اور باقی نشہ آور شرابوں کو حلال کہا گیا ہے یا ان پر حد لازم نہیں کی وہ سب صحیح نہیں ہے۔
8 - مفسر قرآن حضرت مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ حنفی لکھتے ہیں۔
احناف نے خمر کے موضوع پر طول طویل بحثین کی ہیں لیکن ہمیں امام محمد رحمۃاللہ علیہ کایہ فیصلہ پسند ہے۔
ما اسكر كثيرة فقليلة حرام ہر وہ شراب جس کا کثیر مسکر ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔ انگور، گیہوں، کھجور، انجیر، شہد سے تیار شدہ مشروب امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک قطعاً حرام ہیں۔ صاحب در مختار کا یہ کہنا یہ یفتی که قانون حنفی میں اسی پر فتوی ہے اور صرف یہی نہیں کہ شراب جسے قرآن نے خمر کہا ہے وہ حرام ہے بلکہ احناف نے اس معاملہ میں کچھ دوسروں سے زیادہ تشدد آمیز پالیسی اختیار کی ہے وہ اسے صرف حرام نہیں کہتے بلکہ ناپاک اور نجس العین بھی بتاتے ہیں اسے حلال بتانے والے کو دائرہ اسلام میں داخل نہیں سمجھتے ۔ مسلمان کے حق میں اسے مالیت والی چیز نہیں مانتے۔ ہر طرح سے اس سے انتفاع پر قدغن قائم کرتے ہیں۔ دواء بھی اس کے استعمال کو نا جائز کہتے ہیں۔ یادر ہے فقہ حنفی میں قانون وہ ہے جس پر ان کے ہاں فتوی ہو۔ اقوال منتشرہ کا نام حنفی نہیں ہے بلکہ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ شراب پینےوالے کا پسینہ بھی ناپاک ہوتا ہے اور پسینہ آنے سے اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ بہر حال ہمیں احناف کی تفصیلی قانونی بحثوں سے ایک طرف ہو کر شیخ الحدیث مولانا زکریاصاحب کا یہ فیصلہ ہی مناسب معلوم ہوتا ۔ ہے کہ نشہ آور ساری شرابیں ائمہ ثلاثہ اور امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک حرام ہیں وہ سب کو خمر ہی قرار دیتے ہیں اور بغیر کسی تفصیل کے سب کو حرام قرار دیتے ہیں اور ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی ، اور امام احمد رحمہم اللہ نے شراب کی ساری قسموں کو حرام قرار دیا ہے اور بلا شبہ اس دور کے مطابق اس رائے کو اپنانا ہی احتیاط کا تقاضا ہے اوجز المسالک شرح موطا امام مالک (تفسیر معالم القرآن پارہ نمبر 7 جلد نمبر 7 سورۃ المائدہ آیت نمبر 90 مطبوعہ ادارہ تعلیمات القرآن سیالکوٹ پاکستان )
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حنفی لکھتے ہیں۔
اشربہ شراب کی جمع ہے شراب ہر بہتی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جسے پیا جا سکے، خواہ حلال ہو یاحرام لیکن شریعت کی اصطلاح میں ان مشروبات کو کہتے ہیں جو نشہ پیدا کرنے والی ہوں۔ والشراب لعنة كل مائع يشرب و اصطلاحا ما يسكر .
(در مختار ج 5 ص 288)
وہ مشروبات جو شرعا حرام ہیں چار طرح کے ہیں۔
1 - خمر
خمر سے مراد انگور کا کچا رس ہے جس میں جوش پیدا ہو جائے اور جھاگ اٹھنے لگے امام ابویوسف رحمۃاللہ علیہ اور امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک تمام حرام مشروبات میں جوش اور شدت کی کیفیت کا پیدا ہونا کافی ہے
جھاگ کا اٹھنا ضروری نہیں امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک جھاگ کا اٹھنا بھی ضروری ہے حرمت شراب کےمعاملہ میں بعض فقہاء احناف نے احتیاطا صاحبین کی رائے پر فتوی دیا ہے۔ وقیل یو خذ في حرمةالشراب بمجرد الاشتداد احتياطاً.
(ہدایہ جلد چہارم ص 477)
اس کے علاوہ جن مشروبات پر خمر کا اطلاق کر دیا جاتا ہے وہ ازراہ مجاز ہے۔
( در المختار ج 5 ص 288)
خمر کے احکام
خمر سے درج ذیل احکام متعلق ہیں :
1 - حرام مشروبات میں سے اس کو خمر سے موسوم کیا جائے گا پھر چوں کہ خمر کی حرمت قرآن
مجید میں مصرح ہے اس لئے اگر کوئی شخص اس کی حرمت کا منکر ہو اور اس کو حلال سمجھتا ہو تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔ یکفر مستحلها لا نكارة الدليل القطعي
2 - خمر بذاتہ حرام ہو گا چاہے اس کی وجہ سے نشہ پیدا ہو یا نہ ہو۔ اس لئے اس کی زیادہ اور کم مقدار میں کوئی فرق نہیں ہوگا ۔ ان عينها حرام غیر معلول بالكسر ولا موقوف عليه.
3 - پیشاب کی طرح نجاست غلیظہ ہو گا۔
انها نجسة نجاستة غليظه كالبول.
4 - مسلمان کے حق میں یہ بے قیمت ہو جائے گا اس کی خرید و فروخت جائز نہ ہوگی اگر کوئی شخص اس کو ضائع کر دے یا غصب کرلے تو اس پر تاوان واجب نہ ہوگا۔ حتى لا يضمن متلفها و غاصبها ولا يجوز بيعها
5 - اس سے کسی بھی طرح کا نافع اٹھانا مثلاً جانوروں کو پلانا، زمین کو اس کے ذریعہ تر کرنا جسم کے خارجی استعمال اور امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک دوائی علاج وغیرہ جائز نہیں
وحرم الانتفاع بها ولو يسقى دواب او الطين او نظر للتلهى ادنى دواء او دهن او طعام او غير ذلك.
6 - اس کے پینے پر بہر حال حد جاری ہو گی چاہے نشہ کی کیفیت پیدا ہوئی ہو یا نہیں ہو۔
يحد شاربها وان يسكر منها
7 - خمر بننے کے بعد اگر اس کو پکایا جائے یہاں تک کہ نشہ کی کیفیت ختم ہو جائے تب بھی اس کی حرمت باقی رہے گی البتہ اب جب تک نشہ پیدا نہ ہو جائے اس پر حد جاری نہ ہوگی ۔
8 - امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک اس کا سرکہ بنانا درست ہو گا۔
(ہدایہ چہارم ص 478-477 شامی ج 5 ص89۔288)
منصف و بازق:
انگور کے رس کو اس قدر پکایا جائے کہ اس کا نصف حصہ یا نصف سے زیادہ اور دو تہائی سے کم حصہ جل جائے اور نصف یا ایک تہائی سے زیادہ بیچ رہے تو یہ بھی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک شدت پیدا ہوجانے اور جھاگ پھینکنے کی صورت میں اور صاحبین کے نزدیک محض شدت پیدا ہو جانے کی وجہ سے حرام ہو جائے گی۔ اگر پکانے کے بعد نصف مقدار باقی رہ جائے تو منصف اور تہائی سے زیادہ تو بازق کہلاتا ہے۔ امام اوزاعی رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک یہ دونوں مشروب حلال ہیں۔
3 - سكر
کھجور سے حاصل کیا جانے والا کچا مشروب سکر اور نقیح التمر “ کہلاتا ہے یہ بھی حرام ہے فھو حرام مکروہ ۔۔۔۔
شریک بن عبد اللہ کے نزدیک یہ حلال ہے۔
4- نقيع زبيب کشمش سے حاصل کیا جانے والا کچا مشروب جس میں شدت اور جھاگ پیدا ہو جائے امام اوزاعی رحمۃاللہ علیہ اس کو حلال قرار دیتے ہیں۔
حکم
ان تینوں مشروبات اور خمر کے احکام میں فقہاء نے فرق کیا ہے۔ اس لئے کہ احناف کے نزدیک ان کی حرمت خمر سے کم تر ہے جن احکام میں فرق کیا گیا وہ حسب ذیل ہیں۔
1 - ان مشروبات کی حرمت سے انکار کی وجہ سے تکفیر نہیں کی جائے گی اس لئے جیسا کہ اوپر ذکرہوا ان کی حرمت پر اتفاق نہیں ہے اس طرح ان کی حرمت قطعی باقی نہیں رہی بلکہ اس کی حیثیت ایک اجتہادی مسئلہ کی ہے۔
لان حرمتها اجتهادية وحرمة الخمر قطعيه
2 - ان مشروبات کے نجس ہونے پر فقہاء احناف متفق ہیں تاہم بعض حضرات کے نزدیک یہ بھی نجاست غلیظہ ہیں اور بعض کے نزدیک نجاست خفیفہ، سرخی اور صاحب نہر نے ان کےنجاست خفیفہ ہونے کو ترجیح دی ہے۔
3 - امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف کے نزدیک یہ اس مقدار میں حرام ہوں گے جس سے نشہ پیدا ہو جائے چنانچہ اگر اتنی مقدار میں پی گئی کہ نشہ پیدا نہ ہونے پائے تو شراب کی سزا ( حد )جاری نہیں ہوگی ۔
لا يجب الحد بشر بها حتى يسكر ويجب يشرب قطرة من الخمر
4 - امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک یہ مشروبات ذی قیمت (متقوم ) ہوں گے چنانچہ ان کو فروخت کرنا امام صاحب کے نزدیک درست ہو گا اور اس کو ضائع کرنے والے کو تاوان ادا کرنا ہو گا البتہ یه تاوان خودان مشروبات کی شکل میں ادا نہیں کیا جاسکے گا بلکہ قیمت ادا کرنی ہو گی قاضی ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ اور امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک یہ مشروبات بھی بے قیمت ہیں۔ ان سے کسی طرح کا نفع اٹھانا جائز نہ ہوگا۔
(الہدایہ چہارم ص 78-477 . شامی ج 5 ص 89-288)
حلال مشروبات
اسی طرح جو مشروبات حلال ہیں وہ چار ہیں چاہے ان میں شدت پیدا ہو جائے :
1 - کھجور اور کشمش کی نبیذ جس کو تھوڑا سا پکایا جائے ۔ ان طبخ ادنی طبخة۔
2 - کھجور اور کشمش کی مخلوط نبیذ جس کو تھوڑا سا پکا دیا جائے۔
3 - شہد، گیہوں وغیرہ کی نبیذ چاہے پکائی گئی ہو یا نہیں۔
4 - مثلث غبی ۔۔۔ یعنی انگور کے رس کو اس قدر پکایا جائے کہ دو تہائی جل جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
لیکن اس کے حلال ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں:
اول یہ کہ ان مشروبات کے پینے کا مقصود لہو و لعب کا نہ ہو بلکہ قوت حاصل کرنا مقصود ہو، تا کہ نماز ، روزہ، جہاد میں سہولت ہو، یا کسی بیماری میں اس سے فائدہ پہنچنے کا امکان ہو۔
التقوى في الليالى على القيام فى الايام على الصيام والقتال لاعداء الاسلام اولتداوى لدفع الالام
اگر لہو لعب مقصود ہو تو بالا تفاق حرام ہے۔ دوم یہ کہ اتنی مقدار نہ ہو کہ اس سے نشہ پیدا ہو۔ مالم یسکر ۔۔۔۔ اگر غالب گمان ہو کہ اس کے پینے سے نشہ آجائے گا۔
تو پھر اس کا پینا درست نہیں۔
لیکن امام محمد رحمۃاللہ علیہ کو اس مسئلہ میں شیخین سے اختلاف ہے ان کے نزدیک ان مشروبات میں اگرشدت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ بھی حرام ہو جاتے ہیں چاہے مقدار کم ہو یا زیادہ، بہر حال وہ حرام ہوگی۔ ان کے پینے پر شراب کی سزا نافذ کی جائے گی۔ اگر پی کر کوئی بحالت نشہ طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ نیز وہ نجس شمار ہو گا یہی رائے ائمہ ثلاثہ کی ہے اور اس پر متاخرین احناف نے فتوی دیا ہے۔
دیکھئے رد المختار ج 5 ص 93-292) (ماخوذ قاموس الفقہ ص 339 تا 343 مطبوعہ میر محمد کراچی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں