المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 4 :سفیاں ثوری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کو دو دفعہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ :
المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 4 :
النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي ۔۔۔ قد ذكرنا ما روى فيه من ذلك في كتاب " التنبيه على التمويه " فأغنى ذلك عن تكرارها في هذا الكتاب غير أنى أذكر منها جملا يستدل بها على ما وراءها.
ابن حبان لکھتے ہیں کہ ابو حنیفہ پر محدثین نے جرحیں کی ہیں جس کو میں نے " التنبيه على التمويه " نامی کتاب میں جمع کیا ہے اور ان میں سے چند کو یہاں ذکر کر رہا ہوں
جواب 1 :
جب کوئی مصنف اپنی کسی دوسری کتاب سے ایک کتاب میں چند مخصوص باتیں / عبارتیں / حوالہ جات نقل کرتا ہے تو اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہیکہ صرف مضبوط ، صحیح ترین اور دلائل والی باتیں ہی نقل کروں ، لیکن متشدد متعصب محدث ابن حبان کا معاملہ اس میں بالکل الٹ رہا ہے ، انہوں نے المجروحین میں اپنی دوسری تصنیف سے جو جروحات نقل کیں ہیں ان سب کی تعداد 33 ہے جن میں سے 27 ضعیف ہیں ، بقیہ ماندہ کی حالت یہ ہیکہ ان سے امام صاحب کی عدالت پر ذرہ برابر فرق نہیں آتا ۔
اپنے تئیں ابن حبان نے کوشش کی کہ کسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مجروح کر سکوں (جیسا کہ برصغیری غیر مقلدوں کا مقصد حیات ہے ) لیکن خدا کی قدرت کہ حنفیہ کے دشمن فرقہ غیر مقلد اہلحدیث نے خود ابن حبان کے تضادات و تناقضات کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کا نام ہے " البرہان فی تناقضات ابن حبان " ہے۔
(غیر مقلد ابراہیم بن بشری الحسینوی کی جرح تعدیل ص 116 )
جب محدث ابن حبان کی اپنی مشہور ترین کتاب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف پیش کردہ مضبوط ترین جروحات کی حالت مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے تو ان کی بقیہ 3 کتب جو انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف تحریر کیں ، ان کی حالت قارئین خوب سمجھ چکے ہوں گے ۔
من ذلك ما حدثنا زكريا بن يحيى الساجي بالبصرة قال: حدثنا بندار ومحمد بن علي المقدمي قال: حدثنا معاذ بن معاذ العنبري قال: سمعت سفيان الثوري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين
سفیاں ثوری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کو دو دفعہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔
جواب :
یہ روایت ادھوری ہے ، مکمل روایت یہ ہے :
امام ابو قطن رحمہ اللہ نے کہا کہ "میں نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو شعبہ رحمہ اللہ سے کہا آپ کوفہ میں کسی کی طرف رقعہ لکھنا چاہتے ہیں ؟
تو انہوں نے کہا ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوریؒ کی طرف لکھنا چاہتا ہوں ۔
تو میں نے کہا آپ مجھے ان دونوں کی طرف لکھ دیں،
تو انہوں نے لکھ دیا اور میں کوفہ چلا گیا اور میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ سے زیادہ عمر والے کون ہیں تاکہ میں انکو رقعہ پہلے پہنچاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒ عمر رسیدہ ہیں تو میں اں کو رقعہ دیا انہوں نے کہا میرا بھائی ابو بسطام کیسا تھا؟
تو میں نے کہا :وہ خیریت سے تھے پس جب انہوں نے رقعہ پڑھا تو کہا: کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تجھے بخش دی اور جو ہمارے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہے تو اس کے لیے ہم مدد کریں گے۔
اور پھر میں سفیان ثوری رحمہ کی جانب گیا تو ان کو وہ رقعہ پہنچایا تو انہوں نے بھی مجھے وہی کہا جو ابوحنیفہ نے کہا تھا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی طرف سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں بیشک ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئ تھی؟
کیا وہ ایسا کفر تھا جو ایمان کی ضد ہے ؟
تو انہوں نے کہا :جب سے میں نے یہ بیان کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک اس مسئلے کے بارے میں تمہارے سوا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا اور اپنا سر جھکا لیا پھر کہا: کہ نہیں ایسا نہیں تھا۔
لیکن واصل البخاری کوفہ میں داخل ہوا تو اس کے پاس ایک جماعت آئی تو انہوں نے اس سے کہا بیشک یہاں ایک ایسا آدمی جو گنہگاروں کو کافر نہیں کہتا اور ان کی مراد اس شخص سے ابو حنیفہ تھے ۔ تو اس نے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے اور اس کی کہا: اے شخص مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اہل معاصی(گناہ گار) کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مذہب ہے تو اس نے کہا یقیناً کفر ہے پس اگر تو نے توبہ کرلی تو ہم تیری توبہ قبول کرلیں گے۔ اور اگر تو نے انکار کیا توہم تجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا: کس بات سے توبہ کروں؟ تو اس نے کہا: اسی سے، تو انہوں نے کہا: میں کفر سے توبہ کرتا ہوں پھر وہ چلے گئے تو منصور کے ساتھیوں کی جماعت آئی تو انہوں نے واصل کو کوفہ سے نکال دیا پھر کچھ مدت کے بعد منصور نے موقع پایا تو وہ کوفہ میں داخل ہوا تو وہی جماعت اس کے پاس آکر کہنے لگی بیشک وہ آدمی جس نے توبہ کی تھی اپنے سابقہ نظریے کا پرچار کرتا ہے تو اس نے بلانے کے لیے پیغام بھیجا تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو اس نے کہا :اے شیخ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک آپ اپنے اسی نظریہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو پہلے تھا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا بے شک آپ گناہ گاروں کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا: وہ تو میرا مذہب ہے، تو انہوں نے کہا :بے ہمارے نزدیک کفر ہے پس اگر آپ نے توبہ کرلی تو ہم تمھاری قبول کرلیں گے اگر آپ آنے انکار کیا تو ہم تجھے قتل کردیں گے۔ تو انہوں نے کہا :چست و چالاک لوگ قتل نہیں کیے جاتے ، یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ توبہ طلب کی تو انہوں نے کہا: میں کس چیز سے توبہ کروں تو اس نے کہا: کفر سے تو انہوں نے کہا کہ بیشک کفر سے توبہ کرتا ہوں پس یہی وہ کفر ہے جس سے ابو حنیفہؒ سے توبہ طلب کی گئ تھی۔"
( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی صفحہ 74 ، 75 : اسناده صحيح)
اس سند کے تمام راہ ثقہ و صدوق ہیں ۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام سے جس کفر کی توبہ کرائی گئی تھی دراصل وہ قابلِ اعتراض بات ہی نا تھی جسے صرف تعصب کی بنا پر پھیلایا گیا۔
مکمل روایت سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے کسی کفر سے اسلام کی طرف توبہ نہیں کہ بلکہ خوارج کے خود ساختہ کفر سے کمال دانشمندی کیساتھ توبہ کی(جو کہ اصل میں کفر تھا ہی نہیں) اور اپنی جان بھی بچا لی۔ جن بدبخت خوارج نے صحابہ کرامؓ کو نہ بخشا انہوں نے صحابہؓ کے شاگرد تابعی جلیل ابو حنیفہ ؒ پر کفر کا گھٹیا الزام بھی لگایا۔
لیکن اگر کوئی ابھی بھی مصر ہیں کہ امام صاحب نے کفر سے توبہ کی تو ہمارا سوال ہیکہ کیا تمہارا عقیدہ بھی خوارج جیسا ہے جو تمہارے ہاں بھی ابو حنیفہ نے اصلی کفر سے توبہ کی ؟ اگر ہاں تو تم حدیث رسول ﷺ کے مطابق جہنم کے کتے ہو (ابن ماجہ 173، 176)،اگر نہیں تو امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض باطل ہے
مزید تفصیل اس لنک پر دیکھیں :
اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں