المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 19 : محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے《البيعان بالخيار ما لم يتفرقا》 والى حديث کو رجز (یعنی شعر کی ایک قسم ہے) کہا۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 19 :
أخبرنا الساجي قال: حدثنا سعيد بن محمد قال: حدثنا عباس العنبري قال: حدثنا أبو بكر بن الأسود قال: سمعت بشر بن المفضل يقول: حدثنا عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر قال: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " وقال أبو حنيفة هذا رجز.
محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے《البيعان بالخيار ما لم يتفرقا》 والى حديث کو رجز (یعنی شعر کی ایک قسم ہے) کہا۔
(المجروحين لابن حبان ت زاید 3/70 )
جواب :
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ
1۔ سند میں سَعِيد بْنُ مُحَمد نا معلوم ہیں ۔
غالی سلفی مقبل ہادی کا ( نشر الصحيفة في ذكر الصحيح من أقوال أئمة الجرح والتعديل في أبي حنيفة ١/٣٧٧ ) میں تعین کردہ راوی سعید سے مراد سَعِيد بْنُ مُحَمد بْنِ الجرمي متوفی 230ھ ہرگز نہیں ہیں۔
کیونکہ زکریا الساجی (217ھ - 307ھ) کا 13 سال کی چھوٹی عمر میں سعید الجرمی متوفی 230ھ سے روایت لینا (بصرہ سے کوفہ جانا بھی مشکل ہے ، ان کے شیوخ میں اولین نام بصریوں کے ہیں جو 230ھ کے بعد وفات پائے ہیں ) بہت مشکل ہے ۔ جیسا کہ سعید الجرمی سے امام بخاری متوفی 256ھ ، امام مسلم متوفی 261ھ رحمھم اللہ وغیرہ کے طبقہ کے محدثین نے روایت لیں ہیں۔ جبکہ سعید الجرمی خود امام ابو یوسف اور قاضی شریک جیسے طبقہ کے محدثین سے روایت لیتے ہیں۔ اور عباس العظیم کی وفات 246ھ ہے۔
اس لحاظ سے
زکریا ساجی متوفی 307ھ
کا سعید الجرمی متوفی 230ھ
سے روایت لینا اور پھر ان کا عباس العنبری متوفی 246ھ سے روایت لینا ، صحیح نہیں لگتا ۔ سعید سے مراد سعید الجرمی نہیں ہیں بلکہ یہ نامعلوم ہیں۔
بالفرض اگر کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ سعید سے مراد سعید الجرمی ہیں ، تب بھی ہم کہیں گے کہ سعید الجرمی شیعیت کی طرف مائل تھے ، وہ اہل السنت کے امام کے خلاف حجت نہیں ہو سکتے ۔
نکتہ :
رجز کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ کے قول میں ہے۔
مَن قرَأ القُرْآنَ في أقلَّ مِن ثلاثٍ، فهو راجِزٌ.
( المصدر: الأحكام الكبير 3/200
المحدث: ابن كثير
خلاصة حكمه: إسناد صحيح)
کہ جس نے تین دن سے اسے کم مدت میں قرآن پڑھا تو ایسا شخص راجز ہے
یعنی معنی کو سمجھے بغیر ہی الفاظ کو زبان پر جاری کرنے والا ہے جیسا کہ راجز کرتا ہے ( تو اس لحاظ سے ابوحنیفہ کے قول کا معنی یہ ہوگا کہ
البَيِّعانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
کے قول کو جس طرح تو بیان کر رہا ہے یہ رجز ہے یعنی معنی کو سمجھے بغیر زبان پر الفاظ جاری کر رہا ہے)
تو رجز کا لفظ استعمال کرنے میں ان کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نمونہ ہے اور اس حدیث کی وجہ سے خیار مجلس کا قول حدیث کے معنی کو سمجھے بغیر زبان پر الفاظ کو جاری کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس خیار کو جب خیار مجلس پر محمول کیا جائے تو یہ کتاب اللہ کی نص کے مخالف ہے۔
حاصل کلام :
اول تو یہ روایت ہی ضعیف ہے ، بالفرض کسی طرح صحیح ثابت بھی ہو جائے تو رجز کا وہی معنی ہو گا جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا تھا ۔
لہذا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا صحیح نہیں۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں
"النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎(سلسلہ ) المجروحین لابن حبان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات ۔
تاریخ بغداد میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر 52 ، 54
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں