اعتراض نمبر 144:
کہ یحیی بن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں ضعیف تھے۔
أَخْبَرَنَا ابن رزق، أَخْبَرَنَا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء، حدّثنا محمّد ابن عثمان بن أبي شيبة قَالَ: سمعت يحيى بن معين- وسئل عن أَبِي حنيفة- فَقَالَ: كَانَ يضعف في الحديث.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت خطیب کے ہاں بھی اس روایت کے خلاف ہے جو کئی سندوں کے ساتھ ابن معین سے صحیح طور پر ثابت ہے اور اس کے باوجود وہ اس روایت کو نقل کرتا ہے اور اس پر خاموشی اختیار کرتا ہے حالانکہ اس کی سند میں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ہے اور وہ کذاب ہے اور اس کا معاملہ بالکل واضح ہے[1]۔ اور خود خطیب نے ایک جماعت سے اس کی تکذیب ص 43 ج 3 میں نقل کی ہے اور خطیب کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ احمد بن الصلت پر تو کلام کرتا ہے اس روایت میں جو پہلے گزری اور یہاں محمد بن ابی شیبہ کذاب کے بارہ میں خاموشی اختیار کر لی ہے۔اسی طرح خواہش آدمی کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ محمد بن عثمان متکلم فیہ راوی ہے ، کئی ایک حفاظ نے اس پر سخت جروحات کیں ہیں ۔
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر جروحات:
1۔ أبو الحسين بن المنادي:
قَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ عَنْهُ عَلَى اضْطِرَابٍ فِيهِ
ترجمہ: لوگوں نے اس سے بہت روایتیں نقل کی ہیں، مگر اس کی روایتوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
2۔ أبو بكر البرقاني:
لَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُمْ يَذْكُرُونَ أَنَّهُ مَقْدُوحٌ فِيهِ
ترجمہ: میں ہمیشہ اہلِ علم کو یہ کہتے سنتا رہا کہ اس راوی پر قدح (عیب) کیا گیا ہے۔
3۔ الحاكم عن الدارقطني:
ضَعِيفٌ
4۔ الدارقطني:
يُقَالُ: إِنَّهُ أَخَذَ كِتَابَ غَيْرِ مُحَدِّثٍ
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسی کتاب روایت کی جو کسی محدث کی نہ تھی۔
5۔ مطين الحضرمي:
كَانَ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِيهِ
محدث مطین رحمہ اللہ محمد بن عثمان کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔
6۔ الخَليلي:
ضَعَّفُوهُ
جبکہ درج ذیل آئمہ نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کو جھوٹا کذاب یا وضاع کہا ہے۔
7۔ إبراهيم بن إسحاق الصواف
8۔ جعفر بن محمد الطيالسي
9۔ جعفر بن هذيل الكوفي
10۔ داود بن يحيى
11۔ عبد الرحمن بن يوسف بن خراش
12۔ عبد الله بن أحمد بن حنبل
13۔ عبد الله بن أسامة الكلبي
14۔ عبد الله بن إبراهيم بن قتيبة 15۔ محمد بن أحمد العدوي
مذکورہ بالا 8 حفاظ نے محمد بن عثمان پر کذب کی جرح کی ہے جس کو ابن عقدہ نقل کرتے ہیں ، بعض کے مطابق ابن عقدہ پر خود کلام ہے لیکن صحیح بات یہ ہیکہ ابن عقدہ پر نہ حدیث کے متن گھڑنے کا الزام صحیح ہے اور نہیں سند گھڑنے کا ۔ ان پر کلام وجادات [نسخوں] کی وجہ سے ہوا ہے۔کیوں کہ وہ وجادات کو مجہول شیوخ سے بیان کرتے تھے، جن کی وجہ سے ان کی روایات کو مناکیر میں شمار کیا جانے لگا۔ بعض ائمہ نے ان کے بارے میں جرح بلکہ ان پر جھوٹ اور حدیث گھڑنے کی تہمت لگائی ہے۔ لیکن کئی ائمہ ان پر کئے گئے جروحات کے جوابات دئے ہیں ۔چنانچہ :حافظ حمزہ سہمی ؒ (م ۴۲۷ھ) کہتے ہیں کہ :’’ ما یتھم مثل أبی العباس بالوضع إلا طبل ‘‘ابو العباس جیسے شخص پر وہی حدیث گھڑنے کا الزام لگاسکتا ہے ، جس کو کچھ آتا جاتا نہ ہو ، امام دارقطنی ؒ (م ۳۸۵ھ) نے یہاں تک کہدیا کہ : ’’ أشھد أن من اتھمہ بالوضع فقد کذب ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ جو کوئی ابو العباس ابن عقدہ ؒ پر وضع حدیث کی تہمت لگائے، وہ جھوٹا ہے۔اسی طرح ، حافظ ذہبیؒ نے کہا :’’ ما علمت ابن عقدۃ اتھم بوضع حدیث أما الإسناد فلا أدری ‘‘میں نہیں جانتا کہ ابن عقدۃ ؒ پر حدیث کا متن گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے، جہاں تک سند کی بات ہے ، تو میں نہیں جانتا ۔ تقریباً یہی بات حافظ ابن عبد الہادی ؒ ( م ۷۴۴ھ) نے بھی کہی ہے ۔ (طبقات علماء حدیث : جلد۳: صفحہ ۳۱)حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ) ایک اور کتاب میں کہتے ہیں کہ :أبو العباس الهمداني هو ابن عقدة حافظ كبير، إنما تكلموا فيه بسبب المذهب، ولأمور أخرى ولم يُضَعَّف بسبب المتون أصلا. فالإسناد حسن۔ابو العباس الہمدانی ؒ ، وہ ابن عقدہ ؒ ہیں ، بڑے حافظ الحدیث ہیں ، ان پر (ان کے) مذہب اور دیگر امور کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے ، جبکہ متون حدیث کی وجہ سے ان کی تضعیف ہر گز نہیں کی گئی ، پس یہ سند حسن ہے۔ (التلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۲۳۹)ایک جگہ مزید وضاحت سے فرماتے ہیں کہ :’’ وأما أبو العباس بن عقدة فكان من كبار الحفاظ، حتى قال الدارقطني: أجمع أهل الكوفة أنه لم يكن بها من زمن ابن مسعود أحفظ منه، ولم يتهم بالكذب، وإنما كان يعاب بالتشيع، وكثرة رواية المناكير، لكن الذنب فيها لغيره. ‘‘جہاں تک ابو العباس ابن عقدہؒ کی بات ہے ، تو وہ بڑے حفاظ حدیث میں ہیں ، یہاں تک کہ امام دارقطنیؒ نے کہا کہ : اہل کوفہ کا اجماع ہے کہ ابن مسعود ؓ کے زمانہ سے (ان کے زمانہ تک) ابن عقدہ ؒ سے زیادہ حافظہ والا کوئی نہیں ہوا ، ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی گئی ، البتہ ان کے شیعہ ہونے اور کثرت سے منکر روایتیں بیان کرنے کا عیب ان پر لگایا گیا ، لیکن اس میں خطا اور غلطی دوسرے کی وجہ سے ہے۔ (موافقۃ الخبر الخبر : جلد۲: صفحہ ۱۱۱)حافظ ؒ کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ ان کی روایات میں مناکیر کا ذمہ دار اوپر کا راوی ہے ، نہ کہ ابن عقدہؒ۔
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر جرحِ کذب اور سلفی محققین کی آراء "
بعض سلفی محققین نے محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر وارد کذب کی جرح کو معتبر تسلیم کیا ہے۔ ان محققین نے اپنے سے پہلے تمام ائمہ و ناقدین (ابن عدی ، خطیب بغدادی ، ذہبی ، ابن حجر) کی آراء کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے قائم کی۔ ذیل میں چند سلفی محدثین کے اقوال نقل کیے جا رہے ہیں:
16۔ السلفی المحقق عبد الله بن حمد اللحيدان:
قلت: الذي يظهر مما تقدم أن محمد بن عثمان بن أبي شيبة كذاب (مختصر تلخيص الذهبي ٢/٦٦٥)
ترجمہ: میں کہتا ہوں: سابقہ تمام بیانات سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن عثمان بن أبي شيبة جھوٹا ہے۔
17.سلفی محققین کی عمومی رائے:
محمد بن عثمان مختلف فيه، مشاه بعضهم، وكذبه آخرون. (تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن، ط دار التفسير ١٩/٣٦٨)
محمد بن عثمان کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے ان کی توثیق کی جبکہ دوسروں نے انہیں جھوٹا قرار دیا۔
18.الدكتور وسيم عصام شبلي:
محمد بن عثمان بن أبي شيبة، حافظ متهم بالكذب ووضع الحديث. (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس ٧/٢٧٣)
ترجمہ:محمد بن عثمان بن أبي شيبة، اگرچہ حافظِ حدیث تھے، لیکن ان پر جھوٹ بولنے اور حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔
19.الشيخ عبد الله بن صالح الفوزان:
وهذا فيه نظر، لأمرين: الأول: محمَّد بن عثمان بن أبي شيبة مختلف فيه ، وقد ذكره الذهبي نفسه في كتابه «الضعفاء» وقال: (كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جَزَرة) ، فكيف يصحح حديثه هنا؟! (منحة العلام في شرح بلوغ المرام ٧/٥١٠)
ترجمہ: اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، کیونکہ محمد بن عثمان مختلف فیہ راوی ہیں، امام ذہبی نے خود انہیں اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور کہا: "انہیں عبد الله بن أحمد نے جھوٹا قرار دیا، جبکہ صالح جزرة نے توثیق کی"، تو ایسی صورت میں ان کی روایت کو صحیح کیسے کہا جا سکتا ہے؟
20 : غیر مقلد سلفی محقق محمد ضیاء الرحمن اعظمی :
قلت: لا يحتمل تفرّد محمد بن عثمان بن أبي شيبة؛ لأنه مختلف فيه، فكذبه عبد الله بن أحمد ابن حنبل، وقال ابن خراش: كان يضع الحديث۔۔۔ والخلاصة أنه إذا توبع فلا بأس به، أما إذا تفرّد فلا يحتمل تفرده.(الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه ٤/٥٦٢ )
چنانچہ یحیی بن معین سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہنے والی روایت میں بھی محمد بن عثمان بن ابی شیبہ منفرد ہیں لہذا وہ غیر مقبول ہیں۔
21۔ غیر مقلد ناصر الدین البانی :
قلت: وهذا إسناد واهٍ، محمد بن عثمان هذا: مختلف فيه،
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
ومحمد بن عثمان بن أبى شيبة فيه اختلاف كثير، تراه فى «الميزان» للذهبى، وفى غيره. وحسبك هنا أن الذهبى نفسه قد أورده فى «الضعفاء» وقال: «كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جزرة». قلت: فمثله كيف يصحح حديثه؟ ! لاسيما وقد خالف فى وصله أبا داود صاحب «السنن» كما رأيت، وظنى أن الذهبى لم ينتبه لهذه المخالفة، وإلا لما صححه. والله أعلم.
حالانکہ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کے بارے میں کافی اختلاف ہے، جیسا کہ تم اسے امام ذہبی کی "الميزان" اور دیگر کتب میں دیکھ سکتے ہو۔ یہی کافی ہے کہ خود امام ذہبی نے بھی اسے اپنی کتاب "الضعفاء" میں ذکر کیا ہے اور کہا: "عبد اللہ بن احمد نے اسے جھوٹا کہا، اور صالح جزرہ نے اس کی توثیق کی۔" میں (البانی) کہتا ہوں:ایسے راوی کی حدیث کیسے صحیح مانی جا سکتی ہے؟!خاص طور پر جب اس نے حدیث کو متصل طور پر بیان کیا ہو، جبکہ امام ابو داود نے اسی حدیث کو منقطع روایت کیا ہے، میرا گمان ہے کہ امام ذہبی اس مخالفت پر متوجہ نہیں ہوئے، ورنہ وہ اس حدیث کو درست قرار نہ دیتے۔ ( إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ٧/١٠٧ )
22۔ غیر مقلد غالی سلفی مقبل بن هادی الوادعی :
قلت: فالذي يظهر لي أنه ضعيف
میں کہتا ہوں: میرے نزدیک جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ یہ راوی ضعیف ہے۔ (رجال الحاكم في المستدرك ٢/٢٥٤)
آئمہ حدیث کی جروحات :
محدثین نے واضح طور پر محمد بن عثمان پر کذب اور حدیث گھڑنے کا الزام لگایا، بعض محدثین نے ابن عقدہ سے منقول جروحات کو معتبر جانا ہے اور ان جروحات کو محمد بن عثمان کے خلاف پیش کیا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ابن عقدہ کی محمد بن عثمان پر نقل کی گئی جروحات لائق اعتماد ہیں ، اگر وہ لائق اعتماد نہ ہوتی تو محدثین کبھی بھی ان کو وقعت نہ دیتے
23۔ (٢٠٦) مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أبي شيبَة أَبُو جَعْفَر الْعَبْسِي الْكُوفِي الْحَافِظ، قَالَ ابْن خرَاش كَانَ يضع الحَدِيث. (تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة ١/١١٠ — ابن عراق)
24۔ ٥٨١٣ - مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أبي شيبَة الْعَبْسِي حَافظ وَثَّقَهُ جزرة وَكذبه عبد الله بن أَحْمد (المغني في الضعفاء)
22۔ ٣٨٧٣ - محمد بن عثمان بن أبي شيبة: كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جزرة. (ديوان الضعفاء ١/٣٦٥)
25 ۔ ثمَّ قَالَ: وَهَذَا لَا يَصح، فِي إِسْنَاده مُحَمَّد بن عُثْمَان (بن أبي شيبَة) كذبه عبد الله بن أَحْمد بن حَنْبَل، (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير ٨/٣٥١)
26۔ ٣١١٩ - مُحَمَّد بن عُثْمَان بن مُحَمَّد بن أبي شيبَة أَبُو جَعْفَر روى عَن أَبِيه وَيحيى بن معِين وَغَيرهمَا كذبه عبد الله بن [أَحْمد] بن حَنْبَل وَغَيره (الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ٣/٨٤)
27۔ أَمَّا حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ فَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَقَدْ كَذَّبَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرُهُ (العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ١/١١٩)
28.حافظ ابن حجرؒ کے الفاظ یہ ہیں :
قلت محمد بن عثمان ضعيف (تلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۴۴۳)
محمد بن عثمان ضعیف ہے
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر کذب اور وضع حدیث کی جروحات محض انفرادی یا سطحی نوعیت کی نہیں، بلکہ یہ بات متعدد جلیل القدر ائمہ حدیث نے صراحت کے ساتھ بیان کی ہے، جن کو کبار آئمہ مثلا امام ذہبی ، ابن حجر ، ابن عراق ، ابن کثیر رحمھم اللہ نے ثابت مانا ہے۔ ان ہی بنیادوں پر بعد کے سلفی محققین نے بھی محمد بن عثمان پر وارد ان جروحات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی ضعیف اور غیر قابل اعتماد حیثیت کی تائید کی، اور بعض نے تو صراحت کے ساتھ انہیں کذاب تک قرار دیا، جیسا کہ عبد الله بن حمد اللحيدان، وسیم عصام شبلی، اور دیگر کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب ائمہ حدیث کی نظر میں محمد بن عثمان جیسے راوی کو حدیثِ نبوی جیسی حساس و مقدس روایت میں قابل اعتماد نہیں سمجھا گیا، تو محض حکایات، آثار یا تاریخ میں اُن پر اعتماد کرنا بدرجۂ اولیٰ زیادہ مشکوک اور ناقابل حجت ہے۔
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کی واضح توثیق منقول ہے ، جس میں وہ امام صاحب کی حدیث میں تعریف کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی شان بہت اعلی ہیکہ وہ کذب بیان کریں ، کسی روایت میں فرماتے ہیں کہ محدثین نے امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر بہت تشدد کیا اور اسی طرح امام شعبہ سے بھی وہ امام ابو حنیفہ کی تعریف نقل کرتے ہیں ( تاریخ ابن معین :روایۃ الدوری :جلد ۴:صفحہ ۴۷۴:رقم ٥٣٥٣ ، تاریخ بغداد وذیولہ:جلد ۱۳: صفحہ۴۲۱۔ وسندہ صحیح، الانتقاء لابن عبدالبر: صفحہ ۱۲۷ ، وسندہ حسن ، أخبار ابی حنیفه: صفحہ ٨٦ :واسنادہ حسن ، سوالات الجنید: ج١ :ص٢٩٥ ، معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص٧٩ ، ج١:ص۲۳۰ ،تاریخ بغداد : ج ۱۵ : ص۵۸۰-۵۸۱)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں