محدث و فقیہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ پر جروحات اور اعتراضات کا جائزہ
محدث و فقیہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی توثیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون
اس پوسٹ میں ہم امام محمد رحمہ اللہ پر وارد جروحات اور اعتراضات کی سندوں اور متن کا مختصرا جائزہ لیں گے ۔
نکتہ : ضعیف ، ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ وغیرہ غیر مفسر جروحات ہیں ، جس کو خود غیر مقلد اہلحدیثوں نے بھی تسلیم کیا ہے ، تفصیل کیلئے دیکھیں مولانا ظہور الحسینی صاحب کی کتاب "تلامذہ امام اعظم کا محدثانہ مقام"۔
1:- ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ - ﻗﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﺿﻌﻴﻒ.
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢ ، الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ ، تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٢/١٧٧ )
ترجمہ :- امام یحیی بن معين نے کہا کہ محمد بن الحسن صاحب الرائے ( فقیہ) ضعیف تھے.
جواب - "ضعیف" یہ غیر مفسر جرح ہے. اس لئے حجت نہیں
2:- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ، يَعْنِي الْحَفَّافَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ خَالِدٍ قَالَ: انْطَلَقْتُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: لَا يَنْظُرُ أَحَدٌ فِي كَلَامِنَا يُرِيدُ بِهِ اللَّهَ، قَالَ: فَاكْتَفَيْتُ بِذَلِكَ مِنْهُ
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢ ، الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- کوئی شخص ہمارے کلام کو اس نیت سے نہ دیکھے کہ وہ اس کے ذریعے اللہ (تک پہنچنا) چاہتا ہے۔
جواب - سند کا راوی منصور بن خالد مجہول ہے. لحاظہ یہ سند ضعیف ہے.
3:- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْجُنَيْدِ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو رُسْتَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ الرَّأْي، فَرَأَيْتُ عِنْدَهُ كِتَابًا مَوْضُوعًا، فَأَخَذْتُهُ وَنَظَرْتُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ أَخْطَأَ، وَقَاسَ عَلَى الْخَطَأِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا حَدِيثُ أَبِي خَلْدَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ فِي الدُّودِ يَخْرُجُ مِنَ الدُّبُرِ، وَقَدْ تَأَوَّلَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ، وَقَاسَ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا لَيْسَ هَكَذَا، قَالَ: كَيْفَ هُوَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: صَدَقْتَ، ثُمَّ جَاءَ بِالْمِقْرَاضِ فَقَرَضَ مِنْ كِتَابِهِ كَثِيرًا وَكَذَا مِنْ وَرَقِهِ
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢ )
ترجمہ :- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ: میں محمد بن حسن (جو صاحبِ رائے ہیں) کے پاس گیا، تو میں نے ان کے پاس ایک کتاب دیکھی ۔ میں نے وہ کتاب لی اور اس کا مطالعہ کیا، تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس میں خطا کی ہے اور اس خطا پر قیاس کرتے ہوئے مزید غلطیاں کی ہیں۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ابوخلدہ کی حدیث ہے، جو انہوں نے ابو العالیہ سے نقل کی ہے، پاخانے سے نکلنے والے کیڑے کے بارے میں۔ لیکن انہوں نے اس حدیث کی غلط تاویل کی ہے اور اس پر قیاس کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ بات ایسے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیسی ہے؟ میں نے انہیں صحیح بات بتائی، تو وہ بولے: تم نے سچ کہا۔ پھر وہ قینچی لے کر آئے اور اپنی کتاب کے بہت سے حصے اور کئی صفحات کاٹ کر پھینک دیے۔"
جواب :- اس میں اعتراض کرنے لائق کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ امام محمد بن الحسن کے حق میں ہے کیونکہ اس سے ان کی احتیاط اور صحیح مسئلہ کی طرف بغیر کسی تردد کے رجوع کرنے کو دکھاتا ہے کہ جب عبد الرحمن بن مہدی نے غلطی کی نشاندہی کی تو بغیر دیر کئے اپنی غلطی سے رجوع کر لیا. ایک انسان کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جب کوئی غلطی بتائے تو صحیح بات کی طرف لوٹ آئے.
4:- ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ اﻟﻨﻴﻠﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﺮﻳﺢ اﻟﺮاﺯﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺣﻜﻴﻢ اﻟﻘﺮﺷﻲ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺠﺎﻟﺴﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﻭﻳﺤﻴﻰ , ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ: ﺃﺷﻬﺪ ﻋﻠﻰ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺃﻧﻪ ﺟﻬﻤﻲ
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢)
ترجمہ :- بقیہ ( بن ولید ) کا کہنا ہے کہ اہل علم میں سے ایک شخص نے کہا کہ محمد بن الحسن جہمی ہے.
جواب :- سند کے راوی عبد اللہ بن الحسين النیلی، الحسن بن الحکیم القرشی اور اہل علم میں سے وہ شخص تینوں ہی مجہول ہیں. اس لئے مجہولین کی بات مردود ہے.
5:- ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻘﻴﻞ اﻟﻔﺎﺭﻳﺎﺑﻲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻬﻤﺪاﻧﻲ ﻭﺫﻛﺮ ﻟﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺃﺱ اﻟﺠﻬﻤﻴﺔ
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢)
ترجمہ :- ہارون بن إسحاق الہمدانی نے کہا کہ محمد بن الحسن جمہیوں کا سردار تھا.
جواب :- ہمارے علم کے مطابق محمد بن عقیل الفریابی کو کسی محدث نے ثقہ نہیں کہا. اس کے علاوہ ہارون بن اسحاق کی بات بغیر کسی دلیل کے حجت نہیں.
6:- ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء، ﻭﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ
\ (الكامل ٧/ ٣٧٥ ، الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال ١٨/٥٦٨ )
ترجمہ :- احمد بن حنبل سے محمد بن الحسن کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: وہ کچھ نہیں ہے، اور اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔
جواب :- یہ جرح غیر مفسر ہے. یہاں حدیث نہ لکھنے کی وجہ بیان نہیں کی گئی اس لئے حجت نہیں.
7:- ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻔﺺ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ اﻷﻋﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻳﻘﻮﻝ ﻻ ﺗﻜﺘﺐ ﻋﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻨﻬﻢ، ﻭﻻ ﻛﺮاﻣﺔ ﻟﻬﻢ ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی سے نہ لکھو، اور ان کی کوئی تعظیم نہیں، یعنی ابو حنیفہ کے اصحاب۔
جواب :- یہ غیر مفسر جرح ہے. کسی سے حدیث روایت نہ کرنا اس سے راوی کی عدالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا. اس کے علاوہ یہاں سبب بھی بیان نہیں کیا گیا کہ کس وجہ سے اصحاب ابو حنیفہ سے روایت درست نہیں.
8:- ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﺻﺎﺣﺐ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺃﺭﻭﻱ ﻋﻨﻪ ﺷﻴﺌﺎ.
( الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- امام احمد سے امام محمد کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا میں ان سے کچھ بیان نہیں کرتا
جواب :- کسی راوی یا محدث سے اگر دوسرا کوئی راوی یا محدث روایت بیان نہ کرے تو اس سے راوی کی عدالت مجروح نہیں ہوتی. نہ ہی یہ اس کے ضعیف ہونے کی علامت ہے. اس لئے فضول اور غیر مفسر جرح سے امام محمد کی ہستی پر کوئی اثر نہیں پڑتا.
9:- ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺤﺴﻦ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺷﺎﺫاﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻳﻘﻮﻝ ﻛﺎﻥ ﺷﺮﻳﻚ ﻻ ﻳﺠﻴﺰ ﺷﻬﺎﺩﺓ اﻟﻤﺮﺟﺌﺔ ﻗﺎﻝ ﻓﺸﻬﺪ ﻋﻨﺪﻩ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻠﻢ ﻳﺠﺰ ﺷﻬﺎﺩﺗﻪ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻘﺎﻝ ﺃﻧﺎ ﺃﺟﻴﺰ ﺷﻬﺎﺩﺓ ﻣﻦ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻴﺴﺖ ﻣﻦ اﻹﻳﻤﺎﻥ.
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- شریک مرجئہ کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے جب امام محمد بن الحسن نے گواہی دی تو اسے رد کر دیا.
جواب :- سند کا راوی الحسن بن أبي الحسن ( البرزندي ) مجہول ہے. یعنی ضعیف سند ہونے کی وجہ سے حجت نہیں.
10:- ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﻏﻴﺮ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ اﺟﺘﻤﻊ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻠﻰ ﻃﺮﺡ ﻫﺆﻻء اﻟﻨﻔﺮ ﻟﻴﺲ ﻳﺬاﻛﺮ ﺑﺤﺪﻳﺜﻬﻢ، ﻭﻻ ﻳﻌﺘﺪ ﺑﻬﻢ ﻣﻨﻬﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- ابن ابی مریم نے کہا مجھ سے یحییٰ بن معین کے علاوہ کسی اور نے کہا کہ لوگ ان افراد کو ترک کرنے پر متفق ہو گئے تھے۔ ان کی حدیث کو نہ یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک محمد بن حسن ہے
جواب :- یہاں وہ شخص نا معلوم ہے جسکا اصل یہ قول ہے اور مجہول افراد کا کچھ بھی کہنا کسی شخص خاص کر امام محمد بن الحسن پر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا.
11:- ﺫﻛﺮ ﺣﻤﺰﺓ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ اﻟﻄﺒﺮﻱ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻧﻌﻴﻢ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻳﻜﺬﺏ ﻋﻠﻲ
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- امام ابو یوسف نے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کہا کہ وہ میرے بارے میں جھوٹ بولتا ہے۔
جواب :- حمزہ بن اسماعیل طبری خود کذاب ہے اور کذاب کی بات امام محمد کے بارے میں بالکل بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی.
12:- ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ اﻟﺨﺸﺎﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺮاﺯﻱ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻤﺎ ﺳﻤﻌﻨﺎ ﻛﺘﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﺎﻟﺮﻗﺔ ﻗﻠﻨﺎ ﻗﻮﻟﻚ ﺃﺭﺃﻳﺖ ﺇﻟﻰ ﻣﻦ ﻳﻨﺴﺐ ﻭﺳﺆاﻟﻚ ﻋﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﺳﻮاﺩ ﻓﻲ ﺑﻴﺎﺽ ﺇﻥ ﺷﺌﺘﻢ ﻓﺨﺬﻭﻩ، ﻭﺇﻥ ﺷﺌﺘﻢ ﻓﺪﻋﻮﻩ
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- ہشام بن عبیداللہ رازی کا کہنا ہے کہ جب ہم نے محمد بن حسن کی کتابیں رقہ میں سنی تو ہم نے کہا: تمہاری یہ بات کہ ‘کیا تم نے دیکھا اس شخص کی طرف جس کی نسبت کی جاتی ہے؟’ اور تمہارا سوال کہنے والے کے بارے میں، (تو حقیقت یہ ہے کہ) یہ تو محض سفید کاغذ پر سیاہی ہے، اگر تم چاہو تو لے لو، اور اگر چاہو تو چھوڑ دو۔
جواب :- سند کا پہلا راوی احمد بن محمد بن الحسن بن عمر مجہول ہے یعنی سند ضعیف ہے اور قول بھی ایسا منقول نہیں ہے جس سے تضعیف لازم آتی ہو.
13:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ اﻟﻤﺮﻭﺯﻱ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻨﻀﺮ ﺑﻦ ﻣﺴﺎﻭﺭ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﻛﻠﻤﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺃﻥ ﺃﻛﻠﻢ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﺃﻥ ﻳﻘﺮﺃ ﻟﻪ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻓﻜﻠﻤﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻻ ﺗﻌﺞﺑﻦﻳ ﺷﻤﺎﺋﻠﻪ ﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻨﻀﺮ ﻓﺠﺎءﻧﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻴﺲ ﺫا ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺤﺐ ﻋﻠﻴﻚ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﺃﻻ ﺗﺮﻭﻳﻪ ﻓﺄﺑﻴﺖ
( المجروحين - ابن حبان - ج ٢ - الصفحة ٢٧٦ )
ترجمہ :- نضر بن مساور کا کہنا ہے کہ محمد بن حسن نے مجھ سے کہا کہ میں عبداللہ بن مبارک سے کہوں کہ وہ اس کے لیے ایک کتاب پڑھ دے۔ تو میں نے عبداللہ بن مبارک سے بات کی، تو انہوں نے فرمایا: اس کی ظاہری خوبیوں سے متاثر نہ ہو۔
محمد بن نضر کہتے ہیں: پھر میرے پاس سعید بن معاذ آئے اور کہا: یہ ایسی حدیث نہیں ہے جس کا روایت کرنا تم پر لازم ہو، میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اسے روایت نہ کرو۔ لیکن میں نے انکار کر دیا (یعنی میں نے پھر بھی روایت کی)
جواب :- سند کے راوی الفضل بن عبد الرحیم اور نضر بن مساور دونوں مجہول ہیں اور سند ضعیف ہے.
14:- ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺴﻌﺪﻱ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺑﻦ ﻗﻬﺰاﺩ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ اﻷﺷﻌﺚ اﻟﻨﺠﺎﺭﻱ ﻳﻘﻮﻝ ﺩﺧﻞ ﻓﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺟﺎﻟﺲ ﻓﻘﺎﻝ ﻏﻴﺮ ﺛﻘﺔ ﻭاﻟﻠﻪ ﻭﻻ ﻣﺄﻣﻮﻥ
( المجروحين - ابن حبان - ج ٢ - الصفحة ٢٧٦ )
ترجمہ :- فضیل بن عیاض کا کہنا ہے کہ محمد بن الحسن نہ ثقہ ہے اور نہ مامون.
جواب :- سند کا راوی إبراهيم بن الأشعث ضعیف ہے، امام دارقطنی کے مطابق یہ ثقہ لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی، خود امام ابن حبان کے مطابق یہ غریب، منفرد اور ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس میں یہ ( ثقہ لوگوں کی ) مخالفت کرتا ہے. یعنی سند سخت ضعیف ہے.
15:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻤﺘﻮﺛﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻷﺩﻣﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻭﺫﻛﺮ اﺑﺘﺪاء ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﻳﺬﻫﺐ ﻣﺬﻫﺐ ﺟﻬﻢ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ ، موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله ٣/٢٥٣ )
ترجمہ :- امام احمد کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن شروع میں جہم کے مذہب ( اس جیسے خیالات ) پر تھے.
جواب :- پہلی بات تو انسان شروع میں کس عقیدہ پر تھا یہ معنی نہیں رکھاتا کیونکہ اگر وہ رجوع کرکے صحیح عقیدہ کا حامل ہو گیا ہو تو اب اعتراض کی کوئی بات ہی نہیں رہتی اس کے علاوہ اس کا بھی ثبوت ہونا ضروری ہے آیا کہ واقعی امام محمد بن الحسن جہم بن صفوان کے عقائد کے حامل تھے بھی یا نہیں. اور وہ ثبوت موجود نہیں اس لئے اعتراض ہی باطل ہے.
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 7 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید
16:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﻔﻘﻴﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ اﻟﺨﺰاﺯ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻃﺎﻟﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻨﻀﺮ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ اﻟﻌﺠﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻤﻰ ﻧﻮﺡ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ: ﺩﻋﺎﻧﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺇﻟﻰ ﺃﻥ ﺃﻗﻮﻝ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﺨﻠﻮﻕ، ﻓﺄﺑﻴﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﺯﻫﺪﺕ ﻓﻲ ﻧﺼﻔﻚ، ﻓﻘﻠﺖ ﻟﻪ: ﺑﻞ ﺯﻫﺪﺕ ﻓﻲ ﻛﻠﻚ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- نوح بن میمون کا کہنا ہے کہ محمد بن الحسن نے مجھے یہ کہنے کی دعوت دی کہ قرآن مخلوق ہے لیکن میں نے انکار کر دیا۔
جواب :- نوح بن میمون اگرچہ ثقہ ہے لیکن کبھی کبھی غلطی بھی کر جاتا ہے جیسا کہ امام ابن حبان نے ثقات میں انکے ترجمہ میں کہا ہے. اس کے علاوہ امام احمد کے مطابق بھی ان کے پاس امام سفیان ثوری کی کتاب تھی جس میں غریب روایات تھیں ( جو کوئی اور روایت نہیں کرتا ). اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی نوح بن میمون سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ اور انکے شیخین کے نزدیک قرآن غیر مخلوق ہے جیسا کہ انکے عقائد پر مشتمل کتاب " عقیدہ الطحاویہ" میں بھی منقول ہے.
یہاں نوح بن میمون، جو کہ ثقہ راوی شمار ہوتا ہے، ایک ایسا کلام امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر رہا ہے جو سراسر ان کی معلوم و ثابت العقیدہ مسلک کے خلاف ہے۔ یعنی اس روایت میں امام محمد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے نوح کو قرآنِ کریم کے مخلوق ہونے کے عقیدے کی دعوت دی، حالانکہ خود امام محمد کا موقف، جو ان کی اپنی کتابوں سے صراحتاً ثابت ہے، بالکل اس کے برعکس ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل نہ تھے، بلکہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیتے تھے جو اس باطل عقیدے کو اپنائے۔
امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) نےاپنی کتاب میں کہا :
قال أحمد بن القاسم بن عطية سمعت أبا سليمان الجوزجاني يقول سمعت محمد بن الحسن يقول والله لا أصلي خلف من يقول القرآن مخلوق ولا استفتاني ألا أمرت بالإعادة۔
امام محمدؒ فرماتے ہیں : کہ قسم بخدا، میں اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ، جو قرآن کو مخلوق کہے، اور اگر وہ مجھ سے فتویٰ پوچھے گا تو میں اسے نماز کے اعادہ کا حکم دوں گا۔(بحوالہ العلو للعلي الغفارللذہبی : ص ۱۵۲، ص۱۴۳،۱۷۴)
سند کی تحقیق :
i- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) کی توثیق گزرچکی۔
ii- حافظ احمد بن قاسم بن عطیہؒ بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۴۶۲)
iii- امام ابو سلیمان الجوزجانیؒ کی توثیق گزرچکی۔
iv- امام حافظ فقیہ محمد بن الحسن شیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) مشہور امام ربانی،اورثقہ مجتہد ہیں۔(تلامذہ امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام، از حافظ ظہور احمد الحسینی : ص ۳۲۳)
ملاحظہ فرمائیں !امام صاحب ؒ کے خاص شاگرد امام محمدؒ بھی نہ قرآن کو مخلوق مانتےہیں اور نہ ہی اس شخص کی اقتداء میں نماز پڑتے ہیں،جو قرآن کو مخلوق کہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام محمد جیسے اجلّ محدث و فقیہ پر ایسا بہتان لگانا نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہے بلکہ خود ان راویوں کی ثقاہت پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے جن سے یہ روایت منقول ہے، چاہے وہ سند کے اعتبار سے ظاہراً ثقہ ہی کیوں نہ ہوں۔
بعض اوقات، راوی اپنی شخصی رائے، تعصّب، یا فکری کجی کے باعث ایسی باتیں آئمہ اہل السنۃ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو خود ان ائمہ کی تصانیف اور مسلکی بنیادوں کے منافی ہوتی ہیں۔ یہ امر اہلِ تحقیق کے لیے موجبِ حیرت ہے کہ ثقہ راوی کی زبان سے جھوٹ صادر ہو جائے، اور وہ بھی ایسے مقام پر جہاں جس کی طرف بات منسوب کی جا رہی ہو، وہ خود اپنی تصانیف میں اس کی سراسر تردید فرما چکے ہوں۔
یہ واقعہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ محض "ثقاہت" کا دعویٰ راوی کو ہر قسم کی تنقید سے ماورا نہیں کر دیتا، خاص طور پر جب بات امام ابو حنیفہؒ یا ان کے تلامذہ جیسے جلیل القدر فقہاء کے حوالے سے ہو۔ نوح بن میمون ہو، یحییٰ بن حمزہ ، ابو اسحاق الفزاری ہو یا جوزجانی جیسے معروف متعصبین— یہ سب جب امام ابو حنیفہ یا ان کے اصحاب پر فکری یا عقائدی حملے کرتے نظر آئیں، تو ان کے اقوال کو محض ثقاہت کے لحاف میں لپیٹ کر قبول کر لینا علمی خیانت ہو گی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جن روایتوں کو طعن و تشنیع کے لیے پیش کیا جاتا ہے، انہی ائمہ کی کتب میں ان کا مدلل رد موجود ہوتا ہے، اور یہی خود ان روایتوں کے باطل ہونے کی قوی ترین دلیل بن جاتی ہے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 7 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید
اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔
17:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺒﺮﻗﺎﻧﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺮﺉ ﻋﻠﻰ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻨﻌﺎﻟﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺳﻤﻊ: ﺣﺪﺛﻜﻢ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻤﺪاﺋﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻨﺒﻞ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﻤﻰ ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﻣﺘﺼﻔﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻓﺄﻣﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻜﺎﻧﺎ ﻣﺨﺎﻟﻔﻴﻦ ﻟﻷﺛﺮ، ﻭﻫﺬاﻥ ﻟﻬﻤﺎ ﺭﺃﻯ ﺳﻮء، ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ
(تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- امام احمد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد احادیث کی مخالفت کرنے والے اور بری سوچ ( نظریہ ) رکھنے والے تھے.
جواب :-
امام ابو حنیفہ اور امام محمد پر امام احمد کی تنقید: انصاف یا غیر منصفانہ ؟
یہ تحریر انہی نکات پر روشنی ڈالے گی کہ:
امام احمد کی یہ رائے کیوں غیر منصفانہ ہے؟
یہ ان کے شیوخ کی گواہیوں کے خلاف کیسے ہے؟
کیا امام احمد کا فہم فقہ، امام ابو حنیفہ جیسے فقیہ کے رد کے قابل تھا؟
امام ابو حنیفہ کی فقہی و علمی خدمات کا علمی اعتراف کیوں ضروری ہے؟
1 :- "اثر" کیا ہے؟ کیا یہ صرف ظاہرِ حدیث ہے؟
لفظ "الأثر" کا استعمال محدثین کے یہاں عام طور پر حدیث یا سلف کی روایت کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ: اگر کسی فقیہ کا فہم، حدیث کے ظاہر سے مختلف ہو، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حدیث کا منکر ہے یا مخالف اثر ہے۔لہذا اگر وہ کسی ضعیف حدیث کو ترک کرتے، یا کسی صحیح حدیث کے مقابلے میں قرآن یا متواتر عمل کو ترجیح دیتے، تو وہ "مخالف اثر" نہیں بلکہ "مجتہد فقیہ" ہوتے۔
2 :- "رأي سوء" کہنا. ایک فقیہ پر غلط اعتراض -
جب امام احمد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد "رأي سوء" رکھتے تھے، تو یہ محض علمی اختلاف نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کے طریقہ استدلال کو غلط طریقے سے پیش کرنا ہے۔ سوال یہ ہے: اگر اختلاف ہے، تو کیا اسے "سوء الرأي" کہنا علمی معیار ہے؟ امام ابو حنیفہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے فقہی اصول وضع کئے، قیاس، استحسان، اور اجماع جیسے اصولوں کو باقاعدہ علمی بنیادوں پر مرتب کیا۔ امام محمد بن حسن وہ ہیں جنہوں نے ان اصولوں اور امام ابو حنیفہ کی فقہ کو دنیا میں پھیلانے کا کام کیا اور جن کی کتابوں کو امام شافعی اور امام احمد نے خود پڑھا اور ان سے علمی فائدہ لیا۔
3 :- اب بات یہ آتی ہے کہ کیا واقعی امام ابو حنیفہ اور امام محمد: مخالفِ حدیث یا مخالفِ فہمِ محدث یا فقیہ تھے؟ امام احمد کا اعتراض تھا کہ "ابو حنیفہ اور محمد بن حسن مخالفین للأثر تھے"۔
لیکن یہاں ایک اہم تفریق ضروری ہے: مخالفتِ حدیث اور مخالفتِ فہمِ محدّث دو مختلف باتیں ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ حدیث کو اصولی فقہی قواعد کے ساتھ جوڑ کر سمجھتے تھے۔ ان کا اختلاف اصل حدیث سے نہیں بلکہ اس کے فہم، درایت یا تطبیق میں ہوتا تھا۔ امام محمد بن حسن نے اپنی کتب میں اکثر مواقع پر احادیث کو تطبیقی طریقے سے پیش کیا ہے، جو ان کے گہرے فقہی شعور کا ثبوت ہے۔ اگر کسی کا فہم حدیث مختلف ہو، تو اسے "مخالف اثر" کہنا ایک سخت اور غیر منصفانہ تعبیر ہے۔
4 :- امام احمد کی رائے، ان کے شیوخ کے خلاف کیسے ہے؟
امام الشافعي (استادِ امام احمد) نے فرمایا: "ما رأيت أحداً أفقه من أبي حنيفة." (تاریخ بغداد) یعنی امام شافعی، جو امام احمد کے استاد تھے، خود اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کا کوئی ثانی نہیں۔
عبد اللہ بن المبارک (شیخ امام احمد) کا طرز عمل:
امام عبد اللہ بن المبارک امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے تھے، اور ان کے علم، زہد، تقویٰ اور فقاہت کے قائل تھے۔
پھر امام احمد کی بات انکے قابل قدر دونوں اساتذہ کے خلاف کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے؟
یہ واضح کرتا ہے کہ امام احمد کا یہ موقف ان کے علمی ورثے، شیوخ، اور سلف کی گواہیوں کے منافی ہے۔ یعنی امام ابو حنیفہ کی فقہی خدمت اور انکے اصولوں کی اہمیت کا جو اعتراف انکے شیوخ کو ہے شاید امام احمد اسے صحیح سے سمجھ نہیں پائے.
5 :- امام احمد، فقیہ نہ تھے – یہ امام طبری کا بیان ہے
جب امام احمد بن حنبل کو خود امام طبری رحمہ اللہ نے "غیر فقیہ" قرار دیا، تو ان کی فقہ پر تنقید کو اتنا وزن نہیں دیا جا سکتا کہ وہ فقہ کے امام ابو حنیفہ پر تبصرہ کریں۔ تو ایک محدث، جو فقہ کے میدان میں خود مجتہد نہیں، وہ کیسے ان عظیم فقہاء کی فقہ پر "رأي سوء" کا حکم لگائے؟
یہ بات خود ائمہ حضرات جانتے ہیں کہ: "محدث ہونا، فقیہ ہونے کی ضمانت نہیں۔"
امام احمد کا کمال علمِ حدیث میں تھا، لیکن فقہ میں وہ مستقل مجتہد نہیں تھے۔ ان کی آراء بہت محدود دائرے میں تھیں. اب چونکہ فقہ کا دائرہ محض روایت تک محدود نہیں، بلکہ اس میں:
نصوص کی تطبیق،
اجتہاد بالرأي،
قیاس اور استنباط، جیسے دقیق اصول شامل ہیں — اور ان تمام میں امام ابو حنیفہ و امام محمد سرفہرست تھے۔
امام احمد کا یہ الزام فقہی منہج کو نظرانداز کرتے ہوئے، محض روایت کے ظاہر پر مبنی ہے۔
امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا اختلاف اصل حدیث سے نہیں بلکہ اس کی تطبیق، تاویل، اور ترجیح کے باب میں ہوتا ہے۔
کیا امام احمد کی جرح انصاف پر مبنی ہے ؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو عام طور پر معتدل سمجھا جاتا ہے یعنی وہ تشدد اختیار کرے بغیر جرح کرتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے أصحاب کے تعلق سے امام احمد کا یہ طریقہ دیکھنے کو نہیں ملتا. امام احمد کا امام ابو حنیفہ اور امام محمد بن حسن کے بارے میں کہنا کہ وہ "مخالف اثر" تھے اور ان کی رائے "سوء" تھی، دراصل ایک فقہی اختلاف ہے، نہ کہ علمی و اصولی موقف۔ تو اس اختلاف میں بے وجہ کی سختی و تشدد نظر آتا ہے جو انصاف پسند محدث کے شایان شان نہیں. تو دراصل امام احمد کا انہیں "مخالف اثر" کہنا، دراصل اختلافِ فہم کو مخالفتِ دین کہنے کے مترادف ہے — اور یہ انصاف پر بالکل مبنی نہیں ہے۔ ❞
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
18:- ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﺒﺮﻗﺎﻧﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻷﺭﺩﺑﻴﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻃﺎﻫﺮ ﺑﻦ اﻟﻨﺠﻢ اﻟﻤﻴﺎﻧﺠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺒﺮﺫﻋﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺯﺭﻋﺔ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺮاﺯﻱ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺟﻬﻤﻴﺎ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺟﻬﻤﻴﺎ، ﻭﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﺳﻠﻴﻤﺎ ﻣﻦ اﻟﺘﻬﺠﻢ.
( بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- امام ابو زرعہ نے کہا کہ ابو حنیفہ جہمی تھے، محمد بن الحسن جہمی تھے اور ابو یوسف جہمیت سے دور ( محفوظ ) تھے۔
جواب :- امام ابوزرعہ کی یہ بات بغیر کسی دلیل کے ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں. کیونکہ ایک تو یہاں امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے جہمی ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی گئی. دوسرا امام ابو حنیفہ خود جہم بن صفوان کو کافر مانتے تھے تو وہ اس کے عقائد کیسے اپنا سکتے تھے. اس کے علاوہ عقائد کی سب سے جامع کتاب " عقیدہ الطحاویہ " موجود ہے جو امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کے عقائد کی ترجمانی کرتی ہے، کوئی ہے جو اس میں سے جہمی عقائد نکال کر دکھا سکے ؟
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 7 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید
19:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ اﻷﺩﻣﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻷﻳﺎﺩﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻛﺮﻳﺎ اﻟﺴﺎﺟﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﺑﻘﻮﻝ ﺟﻬﻢ ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﺟﺌﺎ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- زکریا الساجی کہتے ہیں: محمد بن الحسن وہی کہتے تھے جو جہم کہتا تھا اور وہ مرجئہ میں سے تھے۔
جواب :- سند کے راوی محمد بن أحمد بن محمد بن عبد الملك کے موجود ہے کہ " یہ آدمی حدیث کے معاملے میں سچا (قابلِ اعتماد) نہیں تھا، وہ اپنی طرف سے ان کتابوں میں سماعت (حدیث سننے) کا دعویٰ کرتا تھا جنہیں اس نے سنا ہی نہیں تھا." اب جو شخص روایت حدیث کے معاملہ میں قابل اعتماد نہ ہو تو حکایت میں اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے. اس کے علاوہ امام زکریا ساجی کو چاہیے تھا کہ وہ کچھ ایسے اقوال پیش کرتے جو جہم اور امام محمد کے ایک جیسے تھے لیکن افسوس ایسی کوئی دلیل نہیں دی گئی اس لئے یہ قول حجت نہیں.
20:- ﻛﺘﺐ ﺇﻟﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ ﻳﺬﻛﺮ ﺃﻥ ﺧﻴﺜﻤﺔ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﻘﺮﺷﻲ ﺃﺧﺒﺮﻫﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ اﻟﺒﻬﺮاﻧﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺴﻼﻡ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺑﻘﻴﺔ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﻴﻞ ﻹﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ: ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﻋﺘﺒﺔ ﻗﺪ ﺭاﻓﻖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﻦ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﺇﻟﻰ ﻣﻜﺔ. ﻗﺎﻝ: ﺃﻣﺎ ﺇﻧﻪ ﻟﻮ ﺭاﻓﻖ ﺧﻨﺰﻳﺮا ﻛﺎﻥ ﺧﻴﺮا ﻟﻪ ﻣﻨﻪ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ اسماعیل بن عیاش نے کہا اے ابو عتبہ، محمد بن الحسن یحییٰ بن صالح کے ساتھ کوفہ سے مکہ گئے۔ آپ نے فرمایا: اگر وہ سور کے ساتھ ہوتا تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہوتا۔
جواب :- سند کے راوی ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ اﻟﺒﻬﺮاﻧﻲ کو امام نسائی نے کذاب اور امام ذہبی نے ضعیف گردانا ہے. اس کے علاوہ بقیہ بن ولید پر خود کافی جرح ہے. اس لئے ضعیف ہونے کی وجہ سے یہ قول مردود ہے.
21:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ اﻟﻌﻼء ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺒﺎﺑﺴﻴﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﻣﻴﺔ اﻷﺣﻮﺹ ﺑﻦ اﻟﻤﻔﻀﻞ اﻟﻐﻼﺑﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ ﺣﺴﻦ اﻟﻠﺆﻟﺆﻱ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻛﻼﻫﻤﺎ ﺿﻌﻴﻔﺎﻥ.
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- احوص بن مفضل الغلابی نے ابو الحسن لؤلؤی اور امام محمد بن الحسن کو ضعیف کہا.
جواب :- سند کا پہلا راوی محمد بن علی الواسطی خود ضعیف ہے. یعنی سند ضعیف ہے.
22:- ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺴﻜﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻷﺯﻫﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ اﻟﻐﻼﺑﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء
( تاريخ يحيى بن معين - رواية المفضل بن غسان الغلابي 1/19 ، تاريخ ابن معين الدوري، تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ ، الجرح والتعديل )
ترجمہ :- امام یحیی بن معین نے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کہا " لیس بشيء"
جواب :- امام یحیی بن معين جب کسی راوی کے بارے میں " لیس بشيء" کہیں تو عام طور پر اس سے انکی مراد ہوتی ہے کہ یہ راوی زیادہ احادیث بیان کرنے والا نہیں ہے. یعنی یہاں یہ کوئی جرح نہیں ہے.
23:- ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻷﻧﻤﺎﻃﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻈﻔﺮ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﻤﺼﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ اﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺳﺄﻟﺘﻪ، ﻳﻌﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء ﻭﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ
(تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- امام ابن معین نے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کہا کہ " لیس بشيء" اور انکی حديث نہیں لکھی جائے.
جواب :- پہلی بات جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی کہ " لیس بشيء" سے مراد کم روایت بیان کرنا ہے اس کے علاوہ " لا یکتب حدیثہ " جرح غیر مفسر ہونے کی وجہ سے حجت نہیں.
24:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺪﻗﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺳﻬﻞ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﻮاﺳﻄﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﻔﺺ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﺼﻴﺮﻓﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﺿﻌﻴﻒ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- عمرو بن علی الصیرفی نے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کہا " صاحب الرائے ضعیف ".
جواب :- پہلے بھی کئی بار وضاحت کی جا چکی کہ ضعیف غیر مفسر جرح ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں.
25:- ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻠﻲ اﻷﺻﺒﻬﺎﻧﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺑﺎﻷﻫﻮاﺯ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ اﻵﺟﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺳﺄﻟﺘﻪ، ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﺩاﻭﺩ اﻟﺴﺠﺴﺘﺎﻧﻲ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺷﻲء ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- امام ابو داؤد نے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کہا کہ " لا شيء " اور انکی حديث نہیں لکھی جائے.
جواب :- پہلی بات جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی کہ " لا شيء " سے مراد کم روایت بیان کرنا ہے اس کے علاوہ " لا یکتب حدیثہ " جرح غیر مفسر ہونے کی وجہ سے حجت نہیں
26۔ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻀﺤﺎﻙ ﺑﻦ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻷﺻﻔﺮﻱ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻛﺬاﺏ ﺻﺎﺣﺐ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ
( المجروحين - ابن حبان - ج ٢ - الصفحة ٢٧٦ )
ترجمہ :- امام یحیی بن معين نے کہا کہ محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفہ کذاب ہے.
جواب - اس سند کے دونوں راوی ضحاک بن ہارون اور محمد بن احمد الاصفری مجہول ہیں یعنی یہ سند ضعیف ہے.
27۔ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ اﻟﻌﻮﻓﻲ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﻛﺬاﺏ.
(الكامل في ضعفاء الرجال ٧/٣٧٧ )
ترجمہ :- امام یحیی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب ہے.
جواب - سند کے پہلے راوی أحمد بن محمد بن سعید المعروف ابن عقدہ پر خود سخت قسم کی جرح منقول ہیں اور خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی ابن عقدہ مجروح ہے. معلوم ہوا یہ سند بھی ضعیف ہے.
28۔ أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، قال: حدثنا أحمد بن علي بن عمر بن حبيش الرازي ، قال : سمعت محمد بن أحمد بن عصام ، يقول: سمعت محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفي، يقول: سمعت يحيى بن معين، وسألته عن محمد بن الحسن، فقال: كذاب.
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
ترجمہ :- امام یحیی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب ہے.
جواب - اس سند کے راوی محمد بن احمد بن عصام کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ کسی نے اس ثقہ کہا ہو. اسکا مطلب یہ سند ضعیف ہے.
29۔ أخبرنا أحمد بن محمد بن غالب، قال: سألت أبا الحسن الدارقطني، عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قال يحيى بن معين كذاب
( تاريخ بغداد ت بشار ٢/٥٦١ )
جواب - امام ابن معین امام دارقطنی کے پیدا ہونے سے بہت پہلے انتقال فرما چکے تھے. امام دارقطنی تک امام ابن معین کی بات کس سند سے پہنچی اسکا علم نہیں. اس لئے سند میں انقطاع ہونے کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے.
30۔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺻﺪﻗﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺒﺼﺮﻱ، ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺟﻬﻤﻲ ﻛﺬاﺏ.
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢)
ترجمہ :- امام یحیی بن معین نے کہا کہ محمد جہمی کذاب ہے.
جواب 1 - پہلی بات تو یہاں یہ مذکور ہی نہیں کہ "محمد" سے کون مراد ہے. کیونکہ امام ابن معین نے عباس بن محمد الدوری سے مروی کتاب میں 5 "محمد" نام کے راویوں کو کذاب کہا ہے. اب یہاں کونسا مراد ہے علم نہیں.
جواب 2 - یہاں " محمد" سے مراد امام محمد بن حسن نہیں ہیں کیونکہ عباس دوری کی کتاب میں امام یحیی بن معين سے امام محمد بن حسن پر کذاب کی جرح موجود ہی نہیں ہے. بلکہ امام یحیی بن معين کے دوسرے شاگردوں کی کتاب میں بھی امام محمد بن حسن پر کذاب کی کوئی جرح منقول نہیں ہے. اس کے علاوہ امام ابن ابی حاتم کی کتاب الجرح والتعديل میں بھی عباس دوری کے واسطہ سے کذاب کی جرح منقول نہیں ہے. اگر یہاں "محمد" سے مراد محمد بن حسن ہوتا تو یہ جرح خود امام دوری کی کتاب میں موجود ہونی چاہئے تھی، اسکے علاوہ بھی امام ابن معین سے صحیح سند سے امام محمد بن الحسن پر کذاب کی کوئی جرح ثابت نہیں.
جواب 3 - یہاں سند میں مذکور عباس بن محمد بصری مجہول ہے. کیونکہ امام بن معين کے شاگرد عباس بن محمد " بغدادی" ہیں نہ کہ "بصری". اس کے علاوہ سند کا پہلا راوی احمد بن محمد بن صدقہ بھی "بغدادی" ہے. کیا انہیں معلوم نہیں کہ امام ابن معین کے شاگرد امام دوری انہیں کے شہر بغداد کے ہیں. لیکن انہوں نے یہاں عباس بن محمد "بغدادی" کہنے کے بجائے "بصری" کہا ہے اور یہ کون شخص ہے معلوم نہیں. اس لئے یہ سند ضعیف ہے.
31۔ أَخْبَرَنَا العتيقي، حَدَّثَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأذني- بدمشق- أَخْبَرَنَا أَبُو الميمون عَبْد الرَّحْمَنِ بْن عَبْدِ اللَّه البَجَلِيّ قَالَ: سَمِعْتُ نصر بن مُحَمَّد البَغْدَادِيّ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْن معين يَقُولُ: كَانَ مُحَمَّد بن الحَسَن كذابا وَكَانَ جهميا، وَكَانَ أَبُو حنيفة جهميا ولم يكن كذابا.
( تاريخ بغداد ت بشار 2/561 ، 15/573 )
جواب :- سند کا راوی نصر بن محمد بغدادی مجہول ہے. معلمی کے مطابق یہاں غلطی سے مضر بن محمد بغدادی کے بجائے نصر بن محمد بغدادی ہو گیا ہے تو جواب میں عرض ہے کہ خود غیر مقلدین کے پسندیدہ محقق شیخ دکتور بشار عواد نے 5 یا 6 مخطوطات سامنے رکھ کر جو تاریخ بغداد کی تحقیق کی ہے ، انہوں نے اس سند کی تحقیق میں یہ نہیں کہا کہ کسی نسخہ میں مضر بن محمد نام لکھا ملا ہے. اسکا مطلب تمام ہی نسخوں میں نصر بن محمد نام درج ہے. غلطی کا امکان ایک یا دو نسخوں میں ممکن ہے تمام ہی نسخوں میں نہیں. اس کے علاوہ مصطفی عبد القادر عطا کی تحقیق سے چھپی تاریخ بغداد میں بھی نصر بن محمد ہی نام لکھا ہے. معلوم ہوا سند میں اصل نام نصر بن محمد ہے اور یہ مجہول راوی ہے. اسکے علاوہ خود یحیی بن معین کے جو معروف شاگرد ہیں چاہے وہ امام دارمی ہوں یا امام دوری، ابن الجنید ہوں یا ابن محرز یا ابن ابی مریم کسی بھی معروف شاگرد نے امام ابن معین کی امام محمد پر کذاب کی جرح نقل نہیں کی. اس لئے معروف شاگردوں کے مقابلہ میں غیر معروف سند یا غیر معروف راوی کا اعتبار نہیں ہوگا. یہ سند بھی ضعیف ثابت ہوئی.
32۔حدثنا الهيثم بن خلف حدثنا محمد بن نعيم البلخي، حدثنا فتح بن نعيم البلخي قال: سمعت أسد بن عمرو، يقول: محمد بن الحسن كذاب
( الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٥٢)
ترجمہ :- أسد بن عمرو نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب ہے.
جواب - سند کے دونوں راوی محمد بن نعيم اور فتح بن نعيم بلخی مجہول ہیں یعنی یہ سند ضعیف ہے. معلوم ہوا امام محمد بن الحسن پر کذاب کی جرح ثابت نہیں
33۔ ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﺎﻣﻞ اﻟﻘﺎﺿﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ، ﻋﻦ ﺑﺸﺮ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ: ﻗﻮﻟﻮا ﻟﻬﺬا اﻟﻜﺬاﺏ، ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻋﻨﻰ ﺳﻤﻌﻪ ﻣﻨﻲ؟
ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻜﺎﺗﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺟﺪﺕ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺑﺨﻂ ﻳﺪﻩ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ، ﻳﻌﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﻭﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﻫﺬﻩ اﻟﻜﺘﺐ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻣﺎ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻨﻪ، ﻭﻟﻜﻨﻲ ﻣﻦ ﺃﻋﻠﻢ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﻬﺎ، ﻭﻣﺎ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﺇﻻ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﻐﻴﺮ
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٢/١٧٦ )
ترجمہ :- ابویوسف نے کہا: اس جھوٹے یعنی محمد بن الحسن سے کہو کہ اس نے مجھ سے جو کچھ بیان کیا ہے اس نے مجھ سے سنا ہے؟
یحییٰ بن معین، کہتے ہیں: میں نے محمد بن الحسن کو کہتے ہوا سنا، جب ان سے پوچھا گیا: کیا تم نے یہ کتابیں ابو یوسف سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم، میں نے انہیں ان سے نہیں سنا، لیکن میں ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں، اور میں نے ابو یوسف سے سوائے جامع الصغیر کے کچھ نہیں سنا۔
جواب :- یہاں امام ابو یوسف نے غصہ میں کذب کی نسبت امام محمد بن الحسن کی طرف کی ہے لیکن یہاں کذاب سے مراد جھوٹا یا امام ابو یوسف پر جھوٹ باندھنا نہیں ہے بلکہ خطاء ہے یعنی غلطی کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے. کیونکہ اگر ہم دھیان سے امام ابو یوسف کا قول دیکھیں تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ( امام محمد ) مجھ پر جھوٹ بولتا ہے یا جو بات میں نے بیان نہیں کی یہ اس کی نسبت میری طرف کرتا ہے بلکہ امام ابو یوسف نے کہا کہ اس سے پوچھو جو یہ بات بیان کر رہا ہے وہ مجھ سے براہ راست سنی بھی ہے یا نہیں. کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ خود امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ کا قول نقل کرا ہے کہ راوی کے لئے جائز نہیں کہ وہ حدیث بیان کرے جو خود اس نے اپنے شیخ سے نہ سنی ہو.
أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه قال لا يحل للرجل أن يروي الحديث إلا إذا سمعه من فم المحدث فيحفظه ثم يحدث ( المدخل إلى كتاب الإكيل ص 48 )
اور چونکہ امام ابو یوسف اسے امام ابو حنیفہ سے نقل کرنے کے ساتھ اس اصول کے پابند بھی ہیں اس لئے امام ابو یوسف کو اعتراض ہوا یا یوں کہیں کہ انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا کہ جب یہ بات اس نے مجھ سے خود نہیں سنی تو اسے بیان بھی کیوں کیا. لیکن جیسا کہ اگلے قول میں خود امام محمد نے قسم کھاکر کہا کہ میں نے سوائے جامع الصغير کے امام ابو یوسف سے کچھ نہیں سنا لیکن ( دوسرے شاگردوں کی بنسبت ) میں امام ابو یوسف کی ( باتوں اور مسائل) کو سب سے زیادہ جاننے والا ( اور سمجھنے والا) ہوں. تو بات اب یہ آتی ہے جب امام محمد نے امام ابو یوسف سے وہ باتیں خود نہیں سنی تو وہ اس کے سب سے زیادہ جاننے والے کیسے ہوئے. تو ممکن ہے کہ امام محمد نے بازار سے امام ابو یوسف کی کتابیں خرید کر یا امام ابو یوسف کے دیگر شاگردوں سے سیکھ سیکھ کر امام ابو یوسف کی باتیں اور انکے مسائل اور استنباط کے طریقہ سے واقفیت حاصل کر لی ہو. اگر ایسا نہ ہوتا اور واقعی امام محمد جھوٹے ہوتے تو امام ابو یوسف انکو اپنی درس گاہ سے نہ صرف نکال دیتے بلکہ وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط کے مطابق کتابیں بھی تصنیف نہ کر پاتے. ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ یہاں امام ابو یوسف کا غصہ کرنا جھوٹ کی نسبت ان کی طرف کرنے سے متعلق نہ تھا بلکہ اعتراض اس بات پر تھا کہ جب براہ راست وہ باتیں امام ابو یوسف سے سنی نہیں گئیں تو بیان بھی کیوں کی گئیں. اور دھیان یہ بھی رکھنا چاہیے کہ امام ابو یوسف نے یہ نہیں کہا کہ میں نے تو بات اس طرح بیان کی تھی لیکن اس ( امام محمد بن الحسن ) نے اسے غلط طریقے سے بیان کرتے ہوئے مجھ پر جھوٹ بولا. جب جھوٹ بولا ہی نہیں گیا تو اسکا مطلب کذب کی تعبیر خطاء اور غلطی سے کی جائے گی کیونکہ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ کبھی کبھی خطاء یا غلطی کرنے والے کے لئے بھی کذاب کا لفظ بول دیتے ہیں.
جیسا کہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء 153/4 پر فرماتے ہیں کہ ﻓﻤﺤﻤﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻋﻨﻰ بالکذب الخطأ ترجمہ :- اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے 'جھوٹ' سے مراد 'غلطی' لی ہے. جیسا کہ امام ابن الوزير لکھتے ہیں کہ ﺃﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻥ ﻟﻔﻈﺔ / ((ﻛﺬاﺏ)) ﻗﺪ ﻳﻄﻠﻘﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﻌﻨﺘﻴﻦ في اﻟﺠﺮﺡ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﻳﻬﻢ ﻭﻳﺨﻄﻰء ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ, ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺘﺒﻴﻦ ﺃﻧﻪ ﺗﻌﻤﺪ ﺫﻟﻚ, ﻭﻻ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ ﺧﻄﺄﻩ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺻﻮاﺑﻪ ﻭﻻ ﻣﺜﻠﻪ ( روض الباسم 166/1 )
ترجمہ :- یہ بات جان لینی چاہیے کہ 'کذّاب' (یعنی جھوٹا) کا لفظ جرح (راوی پر تنقید) میں بہت سے سخت گیر ناقدین ایسے راویوں پر بھی استعمال کر دیتے ہیں جو صرف وہم یا غلطی کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس نے جان بوجھ کر (جھوٹ) کہا ہو، اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی غلطیاں اس کی درست باتوں سے زیادہ ہوں، یا ان کے برابر ہوں۔
اسی طرح خود غیر مقلد ارشاد الحق اثری اپنی کتاب ضوابط الجرح والتعديل کے صفحہ 58 پر لکھتے ہیں " یہاں کذب کا معنیٰ جھوٹ بولنا نہیں بلکہ خطا کے معنی پر بولا گیا ہے۔ اور یہ کذب کا لفظ نکالیں تاج العروس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ [أهل الحجاز، يقولون: كذبت بمعنى أخطأت] یعنی : اس کا اطلاق ائمہ کے نزدیک اہل حجاز کے نزدیک خطا اور وہم پر بھی ہوتا ہے "
معلوم ہوا امام ابو یوسف نے امام محمد بن الحسن کی طرف جو کذب کی نسبت کی وہ انکی غلطی کی طرف نشاندہی کرنا تھا کہ انہوں نے جو بات خود مجھ سے نہیں سنی اسے بیان کیوں کیا اور اس کی وضاحت بھی امام محمد نے خود کردی کہ وہ ( دیگر شاگردوں کے مقابلہ ) امام ابو یوسف کی باتوں ( اور مسائل ) کو زیادہ جاننے والے ہیں.
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
33. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنا عَبد اللَّهِ بْنُ سَعِيد الأَشَج، حَدَّثَنا الحسن بْن الرَّبِيع قَالَ قيل لابن مبارك أَبُو يُوسُف أعلم أم مُحَمد؟ قَال: لاَ تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
ترجمہ :- حسن بن الربیع نے کہا کہ ابن مبارک سے پوچھا گیا: "ابو یوسف زیادہ علم رکھتے ہیں یا محمد بن حسن الشیبانی؟ " انہوں نے جواب دیا: "یوں نہ کہو کہ کون زیادہ علم والا ہے، بلکہ یوں کہو کہ کون زیادہ جھوٹا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال ٨/٤٦٦)
جواب :-اوّل تو یہاں "قِيل" مجہول کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جس سے یہ واضح نہیں کہ سوال کرنے والا کون تھا۔
مزید یہ کہ حسن بن الربیع نے اس روایت میں یہ تصریح نہیں کی کہ یہ بات انہوں نے خود امام ابن المبارکؒ سے براہِ راست سنی ہے یا کسی واسطے سے۔
نہ ہی یہ ذکر ہے کہ وہ اس مجلس میں موجود تھے یا نہیں۔
اس وجہ سے یہ روایت گو بظاہر سند صحیح دکھائی دیتی ہے، مگر اپنے اندر ایک مخفی علت رکھتی ہے جو اسے مشکوک بنا دیتی ہے۔
دوم، متن کے اعتبار سے بھی یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ امام محمد بن حسن الشیبانیؒ خود امام ابو یوسفؒ کے شاگرد ہیں۔ کوئی صاحبِ علم اس دور میں استاد اور شاگرد کے درمیان اس طرح کا موازنہ کیوں کرے گا؟ اس زمانے میں — یعنی امام ابن المبارکؒ کے دور میں — فقہِ حنفی کے اَئمہ کی باہمی درجہ بندی یا "اجتہاد" کے مراتب بعد میں مرتب ہوئے تھے۔ اس وقت نہ یہ تقسیم موجود تھی کہ کون "مجتہدِ مطلق" ہے اور کون "مجتہد فی المذہب"، اور نہ ہی علمی ماحول میں استاد اور شاگرد کے درمیان اس انداز کا تقابل رائج تھا۔ چنانچہ امام محمدؒ جو امام ابو حنیفہؒ کے بھی شاگرد ہیں اور امام ابو یوسفؒ کے بھی، ان کا اپنے استاد سے اس نوع کا مقابلہ کروانا اس وقت کے علمی مزاج اور حقیقت دونوں کے خلاف ہے۔
34. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيُّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: أَيُّ الرَّجُلَيْنِ أَفْقَهُ أَبُو يُوسُفَ أَوْ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ؟ فَقَالَ: لَا تَقُلْ كَانَ أَيُّهُمَا.
ترجمہ :- محمد بن زکریا البلخی بیان کرتے ہیں: ہم سے سعید بن یعقوب الطالقانی نے بیان کیا، انہوں نے ابن مبارک سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا: "ابو یوسف زیادہ فقیہ ہیں یا محمد بن حسن؟" انہوں نے کہا: "یوں مت کہو کہ کون زیادہ ہے۔"
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٤٣٨ )
جواب :- محمد بن زکریا البلخی کو کسی امام نے ثقہ نہیں یعنی یہ راوی مجہول ہے اور سند ضعیف ہے.
قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود امام ابو یوسفؒ پر امام عبد اللہ بن المبارکؒ سے منقول جروحات کا تفصیلی تحقیقی و اسنادی جائزہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں