حنفی فقہ کے تین مینار: علم، عدل، اور اجتہاد کے علمبردار
غیر مقلدین فرقہ اہل حدیث کے محدث فورم پر ایک تحریر ہے جس کا لنک یہ ہے۔ حنفی مذہب کے تین کذاب
اس میں فقہ حنفی اور اس کے مؤسسین—امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، اور امام محمدؒ—پر نہایت سطحی، غیر منصفانہ اور علمی بددیانتی پر مبنی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس مکر و فریب کی سیاہی سے لکھی گئی تحریر کا جواب ایک علمی، تحقیقی، اور وقار بھرے لہجے میں دینا ضروری ہے تاکہ حق کے متلاشی افراد گمراہ نہ ہوں، اور جھوٹ کی یہ کچی دیوار اپنے ہی وزن سے زمیں بوس ہو جائے۔
غیر مقلدین کی دجل پر مبنی تحریرسے اقتباس :
حنفی مذہب کی عمارت تین متنازعہ اشخاص کے ناقص اقوال کی بنیاد پر قائم ودائم ہے۔
جواب:
. فقہ حنفی کی بنیاد ناقص اقوال پر نہیں بلکہ اجتہاد، قیاس، اور اصولِ شریعت پر ہے . یہ دعویٰ کہ فقہ حنفی کی بنیاد "تین متنازع اشخاص" کے "ناقض اقوال" پر قائم ہے، علمی خیانت اور فکری بددیانتی کی انتہا ہے۔ امام اعظمؒ کے اقوال اور ان کے تلامذہ کے اجتہادات کوئی "بیمار خیالات" نہیں بلکہ وہ علمی موتی ہیں جنہیں وقت کی کسوٹی نے پرکھا، امت نے برتا، اور صدیوں سے اکابر علماء نے سند مانا۔
فقہ حنفی محض تین افراد کی رائے کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منظم فقہی مکتب ہے جس میں:
اصول الفقہ کی بنیادیں رکھی گئیں
قیاس، استحسان، عرف، مصالح مرسلہ جیسے اصولوں کو واضح کیا گیا
ہزاروں فقہی مسائل کی باقاعدہ تدوین کی گئی
اور چالیس سے زائد فقہاء کی آراء کو مجتمع کیا گیا، جن میں صرف امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نہیں، بلکہ امام زفرؒ، امام حسن بن زیادؒ، قاسم بن معن ، عافیہ بن یزید، وکیع بن جراح، حفص بن غیاث،داؤد طائی، اسد بن عمر، یوسف بن خالد سمتی، یحییٰ بن زکریا بن ابوزائدہ جیسے جلیل القدر فقہاء بھی شامل ہیں۔
. امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا اختلاف، فقہ کی ترقی کی دلیل ہے نہ کہ کمزوری
غیر مقلدین کی دجل پر مبنی تحریرسے اقتباس :
حنفی مذہب کی عمارت انہی تین حضرات کے بیمار خیالات کی بنیادوں پر قائم ہے۔کسی بھی عمارت کی مضبوطی اور درستگی کو صحیح طور پر اس کی بنیاد ہی سے جانچا جاسکتا ہے ۔اگر بنیاد مضبوط اور درست ہو تو اس پر قائم ہونے والی عمارت بھی صحیح اور دیرپا ہوتی ہے ۔اسکے برعکس کمزور بنیادوں پر اٹھائی اور قائم کی جانے والی عمارت ناپائیدار اور متزلزل ہوتی ہے جس کے کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کے قوی امکانات موجود رہتے ہیں۔ حنفی مذہب کی عمارت اندر سے کس قدر کھوکھلی اور بے جان ہے
جواب:
. "بنیاد اگر کمزور ہو تو عمارت ناپائیدار ہوگی" — یہ محاورہ خود ان پر صادق آتا ہے
یہ بات کہی گئی کہ فقہ حنفی کی عمارت اندر سے کھوکھلی ہے، حالانکہ:
فقہ حنفی نے ہزار سال تک مسلمانوں کے قاضیوں، خلفاء، اور قضاۃ کے فیصلوں کی بنیاد فراہم کی
دارالخلافہ بغداد، اموی و عباسی سلطنت، سلطنت عثمانیہ، مغلیہ ہند، اور موجودہ پاکستان و ہندوستان کے دارالقضا میں فقہ حنفی ہی نافذ رہی
برصغیر میں 90٪ سے زائد عوام و علماء آج بھی فقہ حنفی پر عمل پیرا ہیں
ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﺎﻣﻞ اﻟﻘﺎﺿﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ، ﻋﻦ ﺑﺸﺮ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ: ﻗﻮﻟﻮا ﻟﻬﺬا اﻟﻜﺬاﺏ، ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻋﻨﻰ ﺳﻤﻌﻪ ﻣﻨﻲ؟
ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻜﺎﺗﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺟﺪﺕ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺑﺨﻂ ﻳﺪﻩ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ، ﻳﻌﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺮﺃﻱ ﻭﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﻫﺬﻩ اﻟﻜﺘﺐ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻣﺎ ﺳﻤﻌﺘﻬﺎ ﻣﻨﻪ، ﻭﻟﻜﻨﻲ ﻣﻦ ﺃﻋﻠﻢ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﻬﺎ، ﻭﻣﺎ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﺇﻻ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﻐﻴﺮ
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ٢/١٧٦ )
ترجمہ :- ابویوسف نے کہا: اس جھوٹے یعنی محمد بن الحسن سے کہو کہ اس نے مجھ سے جو کچھ بیان کیا ہے اس نے مجھ سے سنا ہے؟
یحییٰ بن معین، کہتے ہیں: میں نے محمد بن الحسن کو کہتے ہوا سنا، جب ان سے پوچھا گیا: کیا تم نے یہ کتابیں ابو یوسف سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم، میں نے انہیں ان سے نہیں سنا، لیکن میں ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں، اور میں نے ابو یوسف سے سوائے جامع الصغیر کے کچھ نہیں سنا۔
جواب :- یہاں امام ابو یوسف نے غصہ میں کذب کی نسبت امام محمد بن الحسن کی طرف کی ہے لیکن یہاں کذاب سے مراد جھوٹا یا امام ابو یوسف پر جھوٹ باندھنا نہیں ہے بلکہ خطاء ہے یعنی غلطی کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے. کیونکہ اگر ہم دھیان سے امام ابو یوسف کا قول دیکھیں تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ( امام محمد ) مجھ پر جھوٹ بولتا ہے یا جو بات میں نے بیان نہیں کی یہ اس کی نسبت میری طرف کرتا ہے بلکہ امام ابو یوسف نے کہا کہ اس سے پوچھو جو یہ بات بیان کر رہا ہے وہ مجھ سے براہ راست سنی بھی ہے یا نہیں. کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ خود امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ کا قول نقل کرا ہے کہ راوی کے لئے جائز نہیں کہ وہ حدیث بیان کرے جو خود اس نے اپنے شیخ سے نہ سنی ہو.
أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه قال لا يحل للرجل أن يروي الحديث إلا إذا سمعه من فم المحدث فيحفظه ثم يحدث ( المدخل إلى كتاب الإكيل ص 48 )
اور چونکہ امام ابو یوسف اسے امام ابو حنیفہ سے نقل کرنے کے ساتھ اس اصول کے پابند بھی ہیں اس لئے امام ابو یوسف کو اعتراض ہوا یا یوں کہیں کہ انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا کہ جب یہ بات اس نے مجھ سے خود نہیں سنی تو اسے بیان بھی کیوں کیا. لیکن جیسا کہ اگلے قول میں خود امام محمد نے قسم کھاکر کہا کہ میں نے سوائے جامع الصغير کے امام ابو یوسف سے کچھ نہیں سنا لیکن ( دوسرے شاگردوں کی بنسبت ) میں امام ابو یوسف کی ( باتوں اور مسائل) کو سب سے زیادہ جاننے والا ( اور سمجھنے والا) ہوں. تو بات اب یہ آتی ہے جب امام محمد نے امام ابو یوسف سے وہ باتیں خود نہیں سنی تو وہ اس کے سب سے زیادہ جاننے والے کیسے ہوئے. تو ممکن ہے کہ امام محمد نے بازار سے امام ابو یوسف کی کتابیں خرید کر یا امام ابو یوسف کے دیگر شاگردوں سے سیکھ سیکھ کر امام ابو یوسف کی باتیں اور انکے مسائل اور استنباط کے طریقہ سے واقفیت حاصل کر لی ہو. اگر ایسا نہ ہوتا اور واقعی امام محمد جھوٹے ہوتے تو امام ابو یوسف انکو اپنی درس گاہ سے نہ صرف نکال دیتے بلکہ وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط کے مطابق کتابیں بھی تصنیف نہ کر پاتے. ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ یہاں امام ابو یوسف کا غصہ کرنا جھوٹ کی نسبت ان کی طرف کرنے سے متعلق نہ تھا بلکہ اعتراض اس بات پر تھا کہ جب براہ راست وہ باتیں امام ابو یوسف سے سنی نہیں گئیں تو بیان بھی کیوں کی گئیں. اور دھیان یہ بھی رکھنا چاہیے کہ امام ابو یوسف نے یہ نہیں کہا کہ میں نے تو بات اس طرح بیان کی تھی لیکن اس ( امام محمد بن الحسن ) نے اسے غلط طریقے سے بیان کرتے ہوئے مجھ پر جھوٹ بولا. جب جھوٹ بولا ہی نہیں گیا تو اسکا مطلب کذب کی تعبیر خطاء اور غلطی سے کی جائے گی کیونکہ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ کبھی کبھی خطاء یا غلطی کرنے والے کے لئے بھی کذاب کا لفظ بول دیتے ہیں.
جیسا کہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء 153/4 پر فرماتے ہیں کہ ﻓﻤﺤﻤﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻋﻨﻰ بالکذب الخطأ ترجمہ :- اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے 'جھوٹ' سے مراد 'غلطی' لی ہے. جیسا کہ امام ابن الوزير لکھتے ہیں کہ ﺃﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻥ ﻟﻔﻈﺔ / ((ﻛﺬاﺏ)) ﻗﺪ ﻳﻄﻠﻘﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﻌﻨﺘﻴﻦ في اﻟﺠﺮﺡ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﻳﻬﻢ ﻭﻳﺨﻄﻰء ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ, ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺘﺒﻴﻦ ﺃﻧﻪ ﺗﻌﻤﺪ ﺫﻟﻚ, ﻭﻻ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ ﺧﻄﺄﻩ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺻﻮاﺑﻪ ﻭﻻ ﻣﺜﻠﻪ ( روض الباسم 166/1 )
ترجمہ :- یہ بات جان لینی چاہیے کہ 'کذّاب' (یعنی جھوٹا) کا لفظ جرح (راوی پر تنقید) میں بہت سے سخت گیر ناقدین ایسے راویوں پر بھی استعمال کر دیتے ہیں جو صرف وہم یا غلطی کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس نے جان بوجھ کر (جھوٹ) کہا ہو، اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی غلطیاں اس کی درست باتوں سے زیادہ ہوں، یا ان کے برابر ہوں۔
اسی طرح خود غیر مقلد ارشاد الحق اثری اپنی کتاب ضوابط الجرح والتعديل کے صفحہ 58 پر لکھتے ہیں " یہاں کذب کا معنیٰ جھوٹ بولنا نہیں بلکہ خطا کے معنی پر بولا گیا ہے۔ اور یہ کذب کا لفظ نکالیں تاج العروس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ [أهل الحجاز، يقولون: كذبت بمعنى أخطأت] یعنی : اس کا اطلاق ائمہ کے نزدیک اہل حجاز کے نزدیک خطا اور وہم پر بھی ہوتا ہے "
معلوم ہوا امام ابو یوسف نے امام محمد بن الحسن کی طرف جو کذب کی نسبت کی وہ انکی غلطی کی طرف نشاندہی کرنا تھا کہ انہوں نے جو بات خود مجھ سے نہیں سنی اسے بیان کیوں کیا اور اس کی وضاحت بھی امام محمد نے خود کردی کہ وہ ( دیگر شاگردوں کے مقابلہ ) امام ابو یوسف کی باتوں ( اور مسائل ) کو زیادہ جاننے والے ہیں.
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
پہلی روایت کا جواب مکمل ہوا، اس کے بعد غیر مقلدین نے دو روایات پیش کی ہیں، ملاحظہ ہو۔
1. جوزجانی کی اہل کوفہ کے بارے میں متعصبانہ جرح
1۔ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی اہلِ کوفہ کے بارے میں شدید متشدد تھا، اور اس کی کوفی محدثین کے خلاف جرح کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا۔امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وممن ينبغي ان يتوقف في قبوله قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد، فإن الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب، وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع، فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة، حتى أنه اخذ يلين مثل الأعمش وأبى نعيم وعبيد الله بن موسى۔۔الخ" (لسان الميزان 1/16) یعنی ایسے شخص کی جرح سے احتراز کرنا چاہیے، جو عداوت کی بنیاد پر کسی کو جرح کرے۔ سمجھدار شخص جب جوزجانی کی اہلِ کوفہ کے متعلق جرح اور طعن دیکھے گا، تو تعجب کرے گا، کیونکہ اس کا جھکاؤ ناصبیت کی طرف تھا اور اہلِ کوفہ تشیع کے حوالے سے مشہور تھے۔ لہٰذا وہ تعصب کی بنا پر ان پر نکتہ چینی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اعمش، ابو نعیم، عبیداللہ بن موسیٰ ثقة محدثین کو بھی کمزور قرار دیا
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے امام ابو حنیفہؒ پر "چوری" کا جھوٹا الزام لگایا، جیسا کہ امام ابن ابی حاتم کی الجرح والتعديل میں جو جانی کے واسطہ سے منقول ہے کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں(الجرح والتعديل - الرازي - ج 8 - الصفحة 450) حالانکہ اسی قول کے فوراً بعد صحیح سند سے امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اس واقعے کی اصل حقیقت بیان کر دی ہے۔ امام ابن مبارکؒ فرماتے ہیں:" وذاك أنه أخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان، فروى عن حماد ولم يسمعه منه" (الجرح والتعديل، ج 8، ص 450) یعنی امام ابو حنیفہ نے محمد بن جابر کے پاس رکھی ہوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کیں ، اور پھر ان کتابوں سے حماد کی روایات بیان کرنے لگے، حالانکہ انہوں نے یہ روایات براہِ راست حماد سے نہیں سنیں۔
اس روایت میں "أخذ" (حاصل کرنا) کا لفظ ہے، جس کا مطلب کسی کی کتاب لینا، مانگنا، یا اس سے استفادہ کرنا ہے — نہ کہ چوری۔ لیکن جوزجانی نے اسی واقعے کو تعصب کی بنیاد پر توڑ مروڑ کر "سرق" یعنی چوری بنا کر پیش کیا.
معلوم ہوتا ہے کہ جوزجانی ناصبی کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف شدید تعصب تھا، اور اسی تعصب کی بنیاد پر اس نے کتابیں "اخذ" جیسے جائز عمل کو بھی "سرقہ" یعنی چوری کا رنگ دے کر امام ابو حنیفہؒ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ بعض ثقہ سمجھے جانے والے راویوں نے تعصب میں آ کر امام اعظمؒ کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون
اعتراض نمبر 20 : محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ:
وأما الجوزجاني، فقد قلنا غير مرة : إن جرحه لا يقبل فى أهل الكوفة، لشدة انحرافه، ونصبه. (فتح الباری : 1/446، دار المعرفہ بیروت)
یعنی: جہاں تک جوزجانی کا تعلق ہے، تو ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہِ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہلِ کوفہ کے بارے میں اس کی جرح قابلِ قبول نہیں۔
غیر مقلدین کی تصریحات
کچھ غیر مقلدین جوزجانی کو ناصبی نہیں مانتے، ان کے لیے انہی کے اکابرین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں:
▪︎ زبیر علی زئی (غیر مقلد): جوزجانی (ناصبی) (نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28)
▪︎ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری: جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے. (حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، 14 ستمبر 2017)
▪︎ مولانا اسماعیل سلفی (غیر مقلد): انہوں نے ابن حجر کے حوالہ سے جوزجانی کو ناصبی اور اہل کوفہ کا دشمن لکھا ہے۔ (مقالات حدیث، صفحہ 579)
زبیر علی زئی نے بھی جوزجانی کو متشدد لکھا ہے۔ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، صفحہ 577)
▪︎ ابویحییٰ نور پوری (غیر مقلد): "جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔ اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی." (حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ)
چونکہ ثقہ محدثین جیسے امام شعبہ اور یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہؒ کی توثیق کی ہے، اس لیے جوزجانی کی جرح — جو ناصبیت، تعصب اور اہلِ کوفہ سے دشمنی پر مبنی ہے — ردی کی ٹوکری کے لائق ہے۔
پس، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جوزجانی کی جرح ناقابلِ قبول ہے۔
وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل يقول: أبو حنيفة يكذب
«ضعفاء العقيلي» (١٨٧٦) .
احمد بن حسن ترمذی کہتے ہیں: "میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ کہتے سنا: 'ابو حنیفہ جھوٹ بولتے تھے۔'"
جواب 1 :
امام صاحب کے جھوٹ بولنے پر کوئی دلیل نہیں دی گئی۔ بلکہ اس کے بر عکس امام جرح و تعدیل یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ آپ بالکل جھوٹ نہ بولتے تھے ، آپ کی ذات اس سے بہت اعلی و ارفع ہیکہ آپ کذب بیانی کریں ۔
قال الخطيب (ج١٣ ص٤٤٩):أخبرنا عبيد الله بن عمر الواعظ حدثنا أبي حدثنا محمد بن يونس الأزرق حدثنا جعفر بن أبي عثمان قال سمعت يحيى وسألته عن أبي يوسف وأبي حنيفة فقال: أبو يوسف أوثق منه في الحديث، قلت: فكان أبو حنيفة يكذب؟ قال: كان أنبل في نفسه من أن يكذب.
حافظ ابن المحرزؒ کہتے ہیں کہ ’’وسمعت يحيى بن معين يقول كان ابو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب‘‘ (ابن محرزؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ ؒ ثقہ تھے ، اور آپ جھوٹ نہیں بولتے تھے)۔ (معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص٧٩) نوٹ : امام ابن معینؒ اگر ’لا باس بہ‘کہیں تو اس سے مراد" ثقہ" ہوتا ہے ،چنانچہ اہل حدیث علما ءکے" محدث العصر " ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں اور یحیی بن معین نے یہ بھی کہا ہے کہ جس کے بارے میں" لیس به باس "کہوں تو وہ آدمی ثقہ ہوتا ہے ۔ (ضوابط الجرح والتعدیل: صفحہ٩٦) اسی طرح ایک اور مقام پر امام ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ ’’ابو حَنيفَة عندنا مِن أَهل الصِّدقِ، ولم يتَّهَم بالكَذِب ‘‘(امام کی ابو حنیفہ ؒ سچوں میں سے تھے ، آپ پر جھوٹ بولنےکی تہمت نہیں لگائی گئی)۔ (معرفۃ الرجال لابن معین ،روایۃ ابن محرز: ج١:ص۲۳۰)
مزید تفصیل قارئین ان لنکس پر پڑھ سکتے ہیں۔
الزامی جواب: اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے "کذاب" کہنے سے امام ابو حنیفہؒ (نعوذ باللہ) کذاب ثابت ہو جاتے ہیں،تو پھر غیر مقلدین کو لازم ہے کہ امامِ علل، محدث علی بن مدینی کو بھی کذاب کہیں — کیونکہ امام احمد نے ان پر بھی کذب کی نسبت کی ہے۔
قال المروذي: وقلت لأبي عبد اللَّه: إن علي بن المديني حدث عن الوليد بن مسلم حديث عمر: كلوه إلى خالقه فقال: هذا كذب، ثم قال: هذا كتبناه عن الوليد؛ إنما هو: فكلوه إلى عالمه هذا كذب.
«العلل» رواية المروذي وغيره (٢٧٣)
جواب 2:
کذب کی جرح ، خطا پر بھی بولی جاتی یے یعنی فلاں نے غلطی کی (سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۵۳)
لہذا چونکہ امام احمد رائے کے قائل نہ تھے ، ممکن ہے انہوں نے اسی وجہ سے کذاب کی جرح کی ہو ۔ امام احمد کی مراد یہی ہو گی کہ ابو حنیفہ نے غلطی کی رائے پر ، نہ کہ آپ جھوٹے تھے کیونکہ خلق قرآن کے مسئلہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ بات صحیح نہیں ہیکہ امام ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا ہو۔( تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤ اسنادہ صحیح) ، یہ بات وہ تائید کے طور پر بیان کر رہے ہیں ، ان معتزلیوں کے خلاف جو فروع میں حنفی تھے ، لہذا امام احمد کا امام ابو حنیفہ کا تائیدی حوالہ دینا اس بات کی تائید ہیکہ یہاں اس روایت میں کذب بمعنی خطاء اور وہم ہے ۔
غیر مقلدین فرقہ اہل حدیث کے محدث فورم پر ایک تحریر میں امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، اور امام محمدؒ جیسے جلیل القدر، عادل، متقی اور فقہی آسمان کے آفتاب و ماہتاب کو "کذاب"، "دجال" اور "باطل مذہب" کا نمائندہ کہنا صرف علمی جہالت کا ثبوت ہی نہیں بلکہ کھلی گمراہی، تعصب اور امت کے علمی اثاثے سے بغضِ مرضی کا شاخسانہ ہے۔جس زبان نے ان ائمہ کے لیے جھوٹے، مردود اور دجال جیسے الفاظ استعمال کیے، وہ درحقیقت خود جھوٹ اور فساد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے کذب کی بات کرنا گویا تاریخ، حدیث، فقہ، اور امت کی سدا بہار گواہیوں کو جھٹلانا ہے۔کسی کا شاگرد ہونا کذب کی دلیل نہیں، اور اختلاف کرنا خیانت کی علامت نہیں، بلکہ اجتہاد کی پہچان ہے۔جس علم، جس فقہ، اور جن ائمہ نے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے سچے، صالح، اور بڑے دماغوں کو فیض پہنچایا، اسے "باطل"، "قاتلِ ایمان" اور "کذابوں کا مجموعہ" کہنا خود دین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ اگر امام ابو حنیفہؒ کو کذاب مان لیا جائے تو پھر امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام ذہبیؒ، امام ابن عبدالبرؒ، اور شاہ ولی اللہؒ جیسے ائمہ امت کا علم، ان کا اعتراف، ان کی تعریفیں بھی ساقط ہو جائیں گی—جو کہ ممکن نہیں، اس لیے کہ یہ امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی۔لہٰذا، یہ زہریلی تحریریں جن کا مقصد امت کے معتبر علماء و فقہاء کی توہین ہے، ان کا حال "کُتے کی بھونک سے چاند کو کوئی فرق نہیں پڑتا" کے مصداق ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کےاصحاب کا دامن علم، عدل، اور تقویٰ سے لبریز ہے؛ اور جو لوگ ان پر جھوٹ، کذب اور دجل کے فتوے لگاتے ہیں، وہ خود دین کے دشمن، فتنہ پرور، اور فکری فساد کے علمبردار ہیں۔
خلاصۂ کلام:
امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ علمِ فقہ کے وہ جبلِ استقامت ہیں جن کے اجتہاد کی گہرائیاں سمندر سے عمیق اور جن کے تقویٰ کی رفعتیں آسمان سے بلند تر ہیں۔ان کا علم تیشۂ فرہاد ہے جس نے پہاڑوں جیسے مسائل کو کاٹ کر امت کو آسانی دی۔ ان کی بصیرت اندھوں کو روشنی، اور ان کا اجتہاد پیاسوں کے لیے زمزم کی مثل ہے۔
. حنفی فقہ کے بانی: بحرِ علم، مینارِ عدل، اور مصلحِ امت
ابو حنیفہؒ وہ شجرِ ثمردار ہیں جن پر سنگ باری زمانے نے کی، مگر وہ نہ جھکے، نہ ٹوٹے، بلکہ علم کا سایہ دیتے رہے۔ امام ابو یوسفؒ فقہ و قضا کے تاجدار، اور امام محمدؒ کا قلم گویا دریائے علم کی موج ہے جو آج بھی مدارسِ اسلامیہ میں رواں دواں ہے۔یہ تینوں امام فقہ کے اس مثلث کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر آج بھی کروڑوں مسلمان اپنے دینی معاملات کو سنوار رہے ہیں۔
فقہِ حنفی ایک ایسا عظیم الشان قلعہ ہے جو عقل، تقویٰ، اور اجتہاد کی چٹانوں سے تراشا گیا ہے. امام اعظم ابو حنیفہؒ وہ معمارِ فقہ ہیں جنہوں نے شریعت کی بنیادوں کو قرآن کی آیات، حدیثِ رسول ﷺ کے موتیوں، اجماعِ امت کی اینٹوں اور قیاسِ عقلی کے ستونوں سے جوڑ کر ایسا قلعہ تعمیر کیا جس کی فصیل علم، دروازے بصیرت، اور برج تقویٰ سے مزین ہیں۔ یہ قلعہ نہ صرف عقل و نقل کا حسین امتزاج ہے بلکہ قیامت تک آنے والے اہلِ علم کے لیے دین کا پناہ گاہ اور قصرِ ہدایت ہے۔ امام ابو یوسفؒ اس قلعے کا ستونِ عدل ہیں، جو قاضی القضاة بن کر فقہ کو ریاستی سطح پر نافذ کر گئے۔ امام محمد بن حسنؒ اس قلعے کا وہ دروازہ ہیں جس سے اجتہاد کی تازہ ہوائیں آج بھی مدارسِ اسلامیہ میں داخل ہو رہی ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں