نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 21 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے لوگوں کے لیے حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز قرار دیا ہے ۔

 


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 21 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے لوگوں کے لیے حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز قرار دیا ہے ۔


حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ الدِّمَشْقِيُّ ثنا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْفَزَارِيَّ يُحَدِّثُ الْأَوْزَاعِيَّ قَالَ: قُتِلَ أَخِي مَعَ إِبْرَاهِيمَ الْفَاطِمِيِّ بِالْبَصْرَةِ، فَرَكِبْتُ لِأَتَعَدّ فِي تِرْكَتِهِ، فَلَقِيتُ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ لِي: مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ؟ وَأَيْنَ أَرَدْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَقْبَلْتُ مِنَ الْمَصِّيصَةِ وَأَرَدْتُ أَخًا لِي قُتِلَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّكَ قُتِلْتَ مَعَ أَخِيكَ كَانَ خَيْرًا لَكَ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي جِئْتَ مِنْهُ. قُلْتُ: فَمَا مَنَعَكَ أَنْتَ مِنْ ذَاكَ؟ قَالَ: لَوْلَا وَدَائِعُ كَانَتْ عِنْدِي وَأَشْيَاءُ للناس ما تلثت  فِي ذَلِكَ.


«حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ قَالَ: سَمِعْتُ الْأَوْزَاعِيَّ يَقُولُ: أَتَانِي شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ وَابْنُ أَبِي مَالِكٍ وَابْنُ عَلَّاقٍ وَابْنُ نَاصِحٍ فَقَالُوا: قَدْ أَخَذْنَا عَنْ أَبِي حنيفة شيئا  فانظر فيه. فلم يبرح بي وبهم حتى أريتهم فيما جاءوني به عنه أَنَّهُ قَدْ أُحِلَّ لَهُمُ  الْخُرُوجُ عَلَى الْأَئِمَّةِ»


مجھے صفوان بن صالح دمشقی نے بیان کیا، کہا: ہمیں عمر بن عبدالواحد سلمی نے بیان کیا، کہا: میں نے ابراہیم بن محمد فزاری کو اوزاعی سے بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: میرے بھائی کو بصرہ میں ابراہیم فاطمی کے ساتھ قتل کر دیا گیا، تو میں اس کے ترکہ میں اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں میری ملاقات امام ابو حنیفہ سے ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: کہاں سے آ رہے ہو اور کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے بتایا کہ میں مصیصہ سے آیا ہوں اور اپنے اس بھائی کے پاس جا رہا ہوں جو ابراہیم کے ساتھ قتل ہوا۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ قتل ہو جاتے تو یہ تمہارے لیے اس جگہ سے بہتر ہوتا جہاں سے تم آئے ہو۔میں نے کہا: تو آپ کو کس چیز نے اس میں شریک ہونے سے روکا؟ انہوں نے فرمایا: اگر میرے پاس لوگوں کی امانتیں اور ان کے کچھ حقوق نہ ہوتے تو میں اس میں تاخیر نہ کرتا۔


 امام اوزاعی کہتے ہیں میرے پاس شعیب بن اسحاق، ابن ابی مالک، ابن علاق اور ابن ناصح آئے اور کہا: ہم نے ابو حنیفہ سے ایک بات لی ہے، آپ اس پر نظر ڈالیں۔ وہ میرے ساتھ اور ان کے ساتھ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ میں نے انہیں اس بات میں واضح کر دیا جو وہ ان کے پاس سے لائے تھے کہ اس نے ان کے لیے ائمہ (حاکموں) کے خلاف خروج کو حلال کر دیا ہے۔

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/787 )


جواب :  یہ سب علماء و محدثین ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل تھے، اور ان کے حوالے درج ذیل ہیں:

  • حضرت سعید بن جبیرؒ – حجاج بن یوسف کے خلاف (شہید ہوئے)

  • حضرت عکرمہؒ (موالی حضرت ابن عباسؓ) – الکاشف 33/2 

  • حضرت اعمشؒ – الانتقاء

  • حضرت اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاصؒ – تاریخ الاسلام 616/3

  • حضرت حسن بن صالح ہمدانیؒ – میزان الاعتدال ، تہذیب التہذیب 288/2

  • حضرت علی بن ابی طلحہؒ – تحریر تقریب التہذیب 46/3 

  • حضرت ابراہیم بن عبداللہ بن حسنؒ – خروج میں شریک اور شہید

  • امام مسعر بن کدامؒ – مقاتل الطالبین

  • امام ابو خالد الاحمرؒ – مقاتل الطالبین 306، 310

  • امام عیسیٰ بن یونس بن ابی اسحاقؒ – مقاتل الطالبین 306، 310

  • حضرت یونس بن ابی اسحاقؒ – مقاتل الطالبین 306، 310

  • امام شعبہ بن الحجاجؒ – مقاتل الطالبین 313، 314

لہٰذا اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ ان تمام علماء پر بھی اعتراض کریں، بہرحال امام ابو 

حنیفہؒ پر خروج کے اعتراض کے جواب کے لیے یہ مضمون ملاحظہ کریں.


اعتراض نمبر 44 : کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟



ابو اسحاق فزاری نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کے سخت مخالف اور متعصب تھے، بلکہ کثرتِ خطا کے بھی مرتکب تھے۔ اسی وجہ سے ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جرح یا روایت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے


اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے


اعتراض نمبر 17: امام اوزاعی رحمہ اللہ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...