امام اوزاعی رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات:
ایک تحقیقی جائزہ
ائمہ حدیث و فقہ کی تاریخ میں بعض اوقات ایسی روایات نقل ہوئیں جن میں ایک امام پر دوسرے امام کے بارے میں تنقید یا جرح ملتی ہے۔ لیکن اصولِ جرح و تعدیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان میں سے بہت سی باتیں ناقابلِ اعتبار ثابت ہوتی ہیں۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ کی طرف بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف جروحات منسوب کی جاتی ہیں، مگر تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان جروحات کی بنیاد سنی سنائی باتوں اور متعصب رواۃ کی نقل کردہ حکایات پر تھی، نہ کہ براہِ راست علمی تعامل یا ذاتی تجربے پر۔
ملاقات کا عدم ثبوت اور سنی سنائی باتوں پر اعتماد
اصل حقیقت یہ ہے کہ امام اوزاعی کو جو کچھ امام ابو حنیفہ کے بارے میں منفی باتیں معلوم ہوئیں وہ سنی سنائی اور دوسروں کی بیان کردہ تھیں، نہ کہ براہِ راست مشاہدہ یا تحقیق کا نتیجہ۔ ان باتوں کو ان تک زیادہ تر ایسے لوگ پہنچاتے تھے جو خود امام ابو حنیفہ کے بارے میں تعصب رکھتے تھے۔ ان میں سرفہرست ابو اسحاق الفزاری ہیں جن کے بغضِ ابو حنیفہ کا اعتراف خود غیر مقلد اہلِ حدیث علماء نے بھی کیا ہے (التنكيل للمعلمي، ص288)۔چونکہ امام اوزاعی نے خود کبھی امام ابو حنیفہ سے نہ ملاقات کی اور نہ براہِ راست علمی گفتگو یا مناظرہ کیا، اس لیے یہ بالکل واضح ہے کہ ان کا منفی تاثر دراصل دوسروں کی بیان کردہ باتوں پر مبنی تھا، اپنی تحقیق پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی رائے کو معتبر اور قابلِ حجت نہیں سمجھا جا سکتا۔
اسلامی اصول بھی یہی سکھاتے ہیں کہ کسی شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے یا الزام لگانے سے پہلے براہِ راست تحقیق، تعامل اور شہادت ضروری ہے۔ چنانچہ امام اوزاعی کی وہ رائے جو دوسروں کی باتوں پر مبنی ہو، اور جس کی بنیاد تحقیق نہ ہو، اسے امام ابو حنیفہ جیسے جلیل القدر امام کے خلاف دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟
امام اوزاعیؒ کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ امام ابو حنیفہؒ امت پر تلوار چلانے کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ محض ایک فہمی یا غیر درست تاثر تھا، جس کی بنیاد پر کسی جلیل القدر امام پر جرح کرنا جرح و تعدیل کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
وفات پر شکر ادا کرنے والی روایات کا بطلان
بعض روایات میں آتا ہے کہ امام اوزاعی نے امام ابو حنیفہ کی وفات پر شکر ادا کیا۔ یہ روایات سند کے اعتبار سے باطل ہیں۔
-
سلمہ بن کلثوم کی روایت اور اس کا ضعف
مثال کے طور پر ایک روایت میں سلمہ بن کلثوم راوی ہیں۔ اگرچہ ان کی ثقاہت کے قائل ہیں، لیکن امام دارقطنی رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ انہیں کثرت سے وہم لاحق ہوتا تھا۔ لہٰذا ایسی روایات جن میں ان کا وہم شامل ہو، خصوصاً امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذمتی اقوال کے حوالے سے، کسی صورت حجت نہیں بن سکتیں۔مزید یہ کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے جب امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ملاقات کی اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں براہِ راست حقیقت جانی، تو انہوں نے اپنے سابقہ اقوال سے رجوع کر لیا۔ اس تناظر میں سلمہ بن کلثوم کی روایت اور بھی ناقابلِ اعتبار ہو جاتی ہے۔٢٠٨٤ - حدثنا أبو الفضل جعفر بن محمد بن أحمد بن محمود ببغداد في جامع المدينة، قال: حدثنا عبد الكريم بن الهيثم العاقولي، قال: حدثنا حيي بن حاتم الجرجرائي، قال: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: كنت إذا جلست عند الأوزاعي فسمعته أحياناً يعرض بأبي حنيفة فيما يجري من المسائل، وربما لامني وينهاني عن مجالسته، والأخذ عنه، فقلت: هذا رجل أعجبته نفسه، ولم يفض في بحور (1) أبي حنيفة، فجمعت مسائل معدودة في رقعة في كمي فيها سؤالات أبي حنيفة وجواباته وحضرت مجلسه، والرقعة في كمي، فألقيت عليه مسألة، وأنا أنظر في الرقعة، فأجاب بجواب مخرس، ثم سألت عن أخرى، فسكت ثم سألته عن أخرى فسكت، ثم سألته عن أخرى، فقال: أرني الرقعة فناولته، فجعل ينظر فيها، حتى أتى على آخرها، فرأيت فيه التغير فقال مالي يا أبا عبد الرحمن مسائل من ذا وجوابات من ذا؟ فقلت: مسائل الرجل الذي [۱۷۳ / ب تنهاني عن مجالسته فقال: من هو؟ قلت: أبا حنيفة، فقال: أستغفر الله لقد كنت في غلط ظاهر، الزم الرجل، فإنه بخلاف ما بلغني عنه، قال ابن المبارك ثم التقى أبو حنيفة والأوزاعي بمكة، وكان بينهما اجتماع فرأيته يجاري أبا حنيفة في بعض المسائل التي كانت في الرقعة التي سألته عنها، فرأيت أبا حنيفة يكشف له تلك المسائل بأكثر مما كنت كتبت عنه فلما افترقا لقيت الأوزاعي بعد ذلك، فقال: غبطت الرجل بكثرة علمه ووفور عقله
روایت کا خلاصہ یہ ہیکہ ابتدا میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کچھ منفی باتیں سننے کو ملیں، اس لیے وہ ابن المبارکؒ کو بھی ابو حنیفہؒ کی مجلس سے منع کرتے تھے۔ ابن المبارکؒ نے امتحاناً اوزاعیؒ کے سامنے ابو حنیفہؒ کے مسائل پیش کیے، تو اوزاعی تنقید نہ کر سکے اور جب معلوم ہوا کہ یہ سب ابو حنیفہ کے ہیں تو انہوں نے توبہ و استغفار کیا اور ابو حنیفہ کی علمی عظمت کا اعتراف کیا۔ بعد میں جب اوزاعی اور ابو حنیفہ مکّہ میں ملے تو اوزاعیؒ نے براہِ راست ان کا علم دیکھ کر کہا: میں نے ان کے علم کی کثرت اور عقل کی پختگی پر رشک کیا۔ کشف الآثار الشریفة للحارثي ٢/٢٢ ، اسنادہ صحیح ، دیکھیں مجلہ الاجماع، شمارہ 26، ص24
اب بالفرض اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی طرف سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع ثابت نہیں ہے، تو ہم جواب میں یہی کہیں گے کہ پھر آپ کے نزدیک امام اوزاعی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات بھی ثابت نہیں ہے۔اگر ملاقات ہی ثابت نہیں تو امام اوزاعی رحمہ اللہ کے سخت اقوال محض سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوئے۔ یہاں نتیجہ بالکل واضح ہے:-
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقام و مرتبہ پر ان بے بنیاد الزامات سے کوئی حرف نہیں آتا۔
-
بلکہ اگر غیر مقلدین کے اصول کو سامنے رکھا جائے، تو سنی سنائی باتوں پر کسی پر طعن کرنا امام اوزاعی رحمہ اللہ کے لیے گناہ کا باعث قرار پاتا ہے، نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لیے کسی طرح کی تنقیص۔
-
-
دوسری روایت میں ابو اسحاق الفزاری موجود ہیں جو امام ابو حنیفہ کے سخت مخالف تھے، اس لیے ان کی خبر کسی صورت معتبر نہیں۔ ابو اسحاق فزاری نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کے سخت مخالف اور متعصب تھے، بلکہ کثرتِ خطا کے بھی مرتکب تھے۔ اسی وجہ سے ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جرح یا روایت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے
فنِ سیر اور علمی اختلاف کی حقیقت
امام اوزاعی اور اہلِ عراق کے درمیان اختلاف کا ایک پہلو "فنِ سیر" (فقہ السیرۃ و مغازی) کا بھی تھا۔ امام اوزاعی نے کہا کہ اہلِ عراق اس فن میں زیادہ ماہر نہیں کیونکہ صحابہ زیادہ تر حجاز و شام میں رہے۔ اس پر امام محمد اور امام ابو یوسف (امام ابو حنیفہ کے شاگرد) نے علمی رد کیا۔
-
امام محمد نے اپنی کتاب السیر الکبیر میں امام اوزاعی کی کتاب کے بعض پہلوؤں پر علمی جواب دیا۔
-
امام ابو یوسف نے تو ایک مستقل کتاب الرد علی سیر الاوزاعی تصنیف کی۔
یہ علمی مناقشہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اختلاف فقہی و اصولی تھا، نہ کہ ذاتی عداوت یا دین دشمنی کا الزام۔ اگر امام اوزاعی واقعی امام ابو حنیفہ کو "اسلام کے لیے نقصان دہ" سمجھتے تو امام ابو یوسف جیسے شاگرد اس کا بھرپور رد ضرور کرتے۔ لیکن چونکہ یہ بات حقیقتاً امام اوزاعی کی طرف ثابت ہی نہیں، اس لیے آئمہ کے علمی اختلاف کو بے جا ذاتی حملوں کی صورت میں پیش کرنا انصاف کے خلاف ہے۔
امام عبداللہ بن مبارک کے ذریعے حقیقت واضح ہونا
یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہ کے جلیل القدر شاگرد اور محدثِ کبیر امام عبداللہ بن مبارک جب امام اوزاعی کے پاس پہنچے تو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے بارے میں حقائق واضح کیے۔ اس کے بعد امام اوزاعی اپنی سابقہ رائے سے رجوع کر گئے اور نادم ہوئے۔ (کشف الآثار الشریفة للحارثي ٢/٢٢ ، اسنادہ صحیح مجلہ الاجماع، شمارہ 26، ص24)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اوزاعی کی ابتدائی رائے دراصل غلط معلومات پر مبنی تھی، اور جب حقیقت ان تک پہنچی تو وہ اپنے کلام سے رجوع کر گئے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب منفی اقوال اور ان کی حقیقت
بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کہیں سے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے کچھ مذمتی الفاظ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہیں، تب بھی وہ کسی صورت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت نہیں بن سکتے۔ مثال کے طور پر غیر مقلدین اکثر ہمارے خلاف یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
تو ہمارا جواب بھی بالکل یہی ہے: اگر عراقی امام احمد کی جرح شامی امام اوزاعی کے بارے میں محض تعصب کی بنیاد پر مردود ہے، تو شامی امام اوزاعی کی جرح عراقی امام ابو حنیفہ کے خلاف کس طرح قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟
محدثین کا اہل الرائے کے خلاف سخت رویہ اور افراط و تعصب — امام یحییٰ بن معین، امام شافعی اور امام ابن عبدالبر کی شہادتیں
امام اوزاعی رحمہ اللہ بلاشبہ ائمہ محدثین کے امام اور حدیث کی خدمت میں ایک عظیم ستون ہیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی تاریخِ حدیث کے اوراق پر ثبت ہے کہ بعض اوقات بڑے سے بڑا محدث بھی اپنے ماحول اور اپنے اساتذہ کی فکری فضا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی سبب ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کے پس منظر کو محض اصولی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے اس کے زمانے کے فکری رجحانات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدث کا یہ فرمان آج بھی گواہ ہے: "أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأصحابه "ہمارے ساتھی ( محدثین ) امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔"جامع بیان العلم و فضله لابن عبد البر،2/1081 یعنی محدثین کے طبقے میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ امام اعظم اور ان کے تلامذہ پر ضرورت سے زیادہ سختی کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس افسوس ناک رویے کی نشاندہی نہایت درد مندی کے ساتھ فرمائی: "ہمارے یہ اصحاب (اہلِ حدیث) بس اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کریں اور ان کے اقوال پر طعن کریں، حالانکہ اگر وہ ان کے حقیقی مقام اور مرتبے کو سمجھ لیتے تو یہ طعن و تشنیع خود بخود ختم ہو جاتی۔" (آداب الشافعی ومناقبه، ص 162، سند صحیح) اسی طرح امام ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے اہلِ حدیث کے اس رویے کو افراط و تفریط کا شاخسانہ قرار دیا اور فرمایا: "أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك" (بعض اہلِ حدیث نے امام ابو حنیفہ کی مذمت میں بے جا سختی کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔) (جامع بیان العلم و فضله، 2/1080) ان ائمہ کی یہ گواہیاں اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ پر کی جانے والی جرح ہمیشہ تحقیقی اصولوں کے تابع نہیں رہی بلکہ اکثر یہ تعصب، سخت مزاجی اور ماحول کے دباؤ کا نتیجہ تھی۔
لہٰذا جب خود محدثینِ کرام کے امام—یحییٰ بن معین، امام شافعی اور امام ابن عبدالبر—اس بے اعتدالی کو تسلیم کرتے ہیں، تو منطقی طور پر یہ کہنا درست ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ پر جرح بھی اسی پس منظر سے متاثر تھی۔ اصولی معیار پر پرکھا جائے تو یہ سختی کسی طرح بھی حجت نہیں بنتی۔
-
امام اوزاعی رحمہ اللہ کو ابتدا میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلط اور منفی معلومات فراہم کی گئیں۔
-
انہی سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کچھ سخت اقوال کہے۔
-
لیکن جب حقیقت ان پر منکشف ہوئی، تو انہوں نے ان اقوال سے رجوع کر لیا۔
-
لہٰذا امام اوزاعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب وہ روایات، جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات پر خوشی یا مذمت کا ذکر ہے، اصولِ جرح و تعدیل کے مطابق ناقابلِ اعتبار اور مردود ہیں۔


تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں