اعتراض نمبر 27 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ یونس بن یزید نے کہا: "میں نے امام ابو حنیفہ کو ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس دیکھا، اور امام ابو حنیفہ کی ساری کوشش یہی تھی کہ وہ ربیعہ کی بات کو سمجھ سکیں۔"
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 27 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ یونس بن یزید نے کہا: "میں نے امام ابو حنیفہ کو ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس دیکھا، اور امام ابو حنیفہ کی ساری کوشش یہی تھی کہ وہ ربیعہ کی بات کو سمجھ سکیں۔"
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الأَشْعَثِ، حَدَّثَنا أَحْمَدُ بْنُ صالح، حَدَّثَنا عنبسة بن خالد، حَدَّثَنا يُونُس بْن يَزِيد، قَالَ: رأيتُ أَبَا حنيفة عند رَبِيعَة بْن أبي عَبد الرَّحْمَن وكان مجهود أبي حنيفة أن يفهم ما يَقُول رَبِيعَة.
یونس بن یزید نے کہا: "میں نے امام ابو حنیفہ کو ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس دیکھا، اور امام ابو حنیفہ کی ساری کوشش یہی تھی کہ وہ ربیعہ کی بات کو سمجھ سکیں۔"
(الكامل في ضعفاء الرجال ت السرساوي ، 10/126)
الجواب : یہ روایت سند کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد ہے، کیونکہ اس میں متعدد سخت علل موجود ہیں:
ابن أبي داود (عبد الله بن سليمان بن الأشعث) یہ سب سے پہلے راوی ہیں۔ ان پر کذاب (جھوٹا) ہونے کی جرح موجودہے۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
پس روایت کی بنیاد ہی غیر معتبر ہو گئی۔
اس کے بعد عنبسة بن خالد بن يزيد بن أبي النجاد القرشي ہیں جن پر محدثین نے کلام کیا ہے۔ وقال الساجي: روى عن يونس أحاديث انفرد بها عنه انہوں نے یونس (بن یزید) سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں وہ منفرد ہیں (یعنی ان کے علاوہ کسی نے وہ احادیث یونس سے روایت نہیں کیں) [تهذيب التهذيب (3/ 330)]
وقال أبو عوانة الإسفراييني عن يعقوب بن سفيان: سمعت ابن بكير يقول: إنما يحدث عن عنبسة مجنون أحمق. قال: كان يجيئني، ولم يكن موضعا للكتابة أن يكتب عنه میں نے ابن بکیر کو یہ کہتے ہوئے سنا: عنبسة سے تو صرف کوئی پاگل احمق ہی روایت کرتا ہے۔" ابن بکیر نے کہا: "وہ میرے پاس آتا تھا، اور وہ ایسا شخص نہیں تھا کہ اس سے روایت لکھنے کے قابل ہو۔" [تهذيب الكمال (22/ 404)]
سألت أبي عن عنبسة بن خالد، فقال: كان على خراج مصر وكان يعلق النساء بالثدي میں نے اپنے والد (ابو حاتم) سے عنبسة بن خالد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ مصر کے خراج (ٹیکس) پر مقرر تھا، اور وہ عورتوں کو ان کے سینے (یعنی پستانوں) سے لٹکایا کرتا تھا (بطور سزا)۔ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (6/ 402)]
قال أحمد بن حنبل: وما لنا ولعنبسة! أي شيء خرج علينا من عنبسة ؟ من روى عنه غير أحمد بن صالح ؟ امام احمد نے کہا "ہمیں عنبسة سے کیا لینا دینا! عنبسة سے ہمارے پاس کیا آیا ہے؟ اس سے احمد بن صالح کے علاوہ اور کس نے روایت کی ہے؟"[تهذيب التهذيب (3/ 330)]
پھر تیسرے مقام پر یونس بن یزید ہیں، اگرچہ وہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظے پر کلام پایا جاتا ہے جیسا کہ امام وکیع نے ان کے حفظ پر تنقید کی ہے(تهذيب التهذيب ١١/٤٥٠ )۔
يونس بن يزيد الأيلي، صاحب الزهري. قال أحمد: إذا حدث من حفظه يخطىء. وقال أبو عثمان الرذعي: سألت أبا زرعة عن يونس في غير الزهري، فقال: ليس بالحافظ. قال: وقال لي أبو حاتم، وكان شاهدًا: سمعت علي بن محمد الطنافسي يذكر عن وكيع، قال: لقيت يونس بن يزيد بمكة، فجهدت به الجهد على أن يقيم حديثًا، فلم يقدر عليه. قال أبو زرعة: كان صاحب كتاب، فإذا حدث من حفظه لم يكن عنده شيء. وكذا قال ابن المبارك، وابن مهدي في يونس: إن كتابه صحيح وقال ابن مهدي: لم أكتب حديث يونس بن يزيد إلا عن ابن المبارك، فإنه أخبرني أنه كتبها عنه من كتابه.
امام احمد بن حنبل نے فرمایا: "اگر یہ اپنے حافظے سے روایت کرے تو خطا کرتا ہے۔" ابو عثمان الرذعی کہتے ہیں: میں نے ابو زرعہ سے یونس کے بارے میں پوچھا (زہری کے علاوہ روایتوں میں)، تو انہوں نے کہا: "یہ حافظہ کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے۔" ابو حاتم نے بھی گواہی دی کہ انہوں نے علی بن محمد الطنافسی سے سنا، اور وہ وکیع سے نقل کرتے تھے: "میں مکہ میں یونس بن یزید سے ملا اور پوری کوشش کی کہ وہ ایک حدیث صحیح طور پر بیان کر دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔" ابو زرعہ نے مزید کہا: "وہ کتاب کا صاحب تھا، جب کتاب سے روایت کرتا تو درست ہوتا لیکن جب حافظے سے بیان کرتا تو اس کے پاس کچھ نہ ہوتا۔" اسی طرح عبد اللہ بن مبارک اور عبد الرحمن بن مہدی دونوں نے کہا کہ یونس کی کتاب درست ہے، اور ابن مہدی کا کہنا ہے: "میں نے یونس کی کوئی حدیث نہیں لکھی مگر صرف اس وقت جب ابن مبارک نے مجھے خبر دی کہ اس نے وہ حدیث یونس سے براہِ راست اس کی کتاب سے لکھی ہے۔"
(شرح علل الترمذي ٢/٧٦٥ )
پس جب ایسی روایت آئے جس میں یونس سے روایت کرنے والا صرف عنبسة ہو تو وہ مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے نہ صرف ضعیف بلکہ ناقابلِ قبول ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام کے خلاف اس کو دلیل بنانا علمی اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں