نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

محدث الشام أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي (م:281ھ) کی كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ


محدث الشام أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي (م:281ھ)  کی  كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي  میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی   جائزہ


اس پوسٹ میں ہم فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں محدث الشام أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي (م:281ھ) کی کتاب  تاريخ أبي زرعة الدمشقي میں موجود  تنقیدات و اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ البتہ وہ اعتراضات و تنقیدات جن کا تفصیلی جواب ہم پہلے کسی اور پوسٹ میں دے چکے ہیں، اُنہیں یہاں دوبارہ ذکر نہیں کریں گے، بلکہ ان کا لنک فراہم کریں گے جو ہماری "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔ اس طرح قارئین وہاں جا کر ان کے جوابات تفصیل سے مطالعہ کر سکیں گے۔


اعتراض نمبر 1: 

قال أبو زرعة: قَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبُّوَيْهِ: لَيْسَ فِيهِمْ شَيْءٌ مِنَ الإِرْجَاءِ، ولا رأي أبي حنيفة.

احمد بن شبویہ نے کہا: ہم  میں سے کسی میں ارجاء (مرجیہ عقیدہ) نہیں تھا، اور نہ ہی ابو حنیفہ کی رائے تھی۔

(كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص 208)

جواب : اس روایت سے امام ابو حنیفہؒ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا، کیونکہ امام ابو حنیفہؒ اور دیگر اکابر علماء جس عقیدۂ ارجاء کو مانتے تھے وہ خالص اہلِ سنت والا عقیدہ تھا۔ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ مضامین دیکھیں۔

لنک نمبر 1 :

اعتراض نمبر 40 : مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ

لنک نمبر 2 :

امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!

لنک نمبر 3 :

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے 

مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله 

( میزان 4/99 )

یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے۔

 دوسری بات یہ ہے کہ امام صاحب کی فقاہت، یعنی ان کی رائے اور اجتہاد تو ان کی زندگی ہی میں پوری دنیا میں پھیل چکے تھے، جیسا کہ امام سفیانؒ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں: "دو چیزوں کے بارے میں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے آگے نہیں بڑھیں گی، لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل گئیں؛ ایک حمزہ کی قراءت اور دوسرے امام ابو حنیفہؒ کے اجتہادات۔" (تاریخ بغداد، ج 15، ص 475 شیخ بشار عواد معروف نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔)

 اور آج تک لوگ امام ابو حنیفہؒ کی رائے پر عمل کر رہے ہیں، جبکہ ان پر اعتراض کرنے والے صرف کتابوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔

قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود




اعتراض نمبر 2: 

حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا قَالَ لِأَبِي نُعَيْمٍ: كَانَ سُفْيَانُ يُكَلِّمُ أَبَا حَنِيفَةَ؟ فَأَوْمَأَ بِرَأْسِهِ أَيْ: لَا.

قَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ: وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يبتدىء سفيان.

ابو زرعہ کہتے ہیں:  میں نے ایک شخص کو سنا، وہ ابو نعیم سے پوچھ رہا تھا: کیا سفیان (ثوری) ابو حنیفہ سے بات کرتے تھے؟ تو انہوں نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ ابو نعیم نے ہم سے کہا: اور ابو حنیفہ ہی سفیان سے بات کی ابتداء کرتے تھے۔

(كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص 505 )

جواب :

یہ روایت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت اور حسنِ اخلاق کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی منفی پہلو نہیں بلکہ تعریف ہی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ چونکہ عمر میں بڑے تھے، اس لیے وہی بات کا آغاز کرتے تھے، اور یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ ایک عام رواج ہے کہ مجلس میں عمر اور مرتبے میں بڑے لوگ ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ اس سے ان کے ظرف اور شائستگی کا پتا چلتا ہے۔ مزید یہ کہ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے کبھی بھی سفیان ثوریؒ کی برائی نہیں کی، نہ ہی ان کے خلاف زبان کھولی، حالانکہ سفیانؒ کبھی کبھار تعصب یا معاصرت کے باعث کچھ سخت کلمات کہہ دیتے تھے جیسا کہ عبدالصمد بن حسان بیان کرتے ہیں:  "اگرچہ امام سفیان اور امام ابو حنیفہ کے درمیان ناراضی تھی، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان پر زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔"   (الکامل، ج8، ص236)

 اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام اعظمؒ نے اپنے بڑے پن اور اخلاقی عظمت کا عملی مظاہرہ کیا، وہ ہمیشہ اختلاف کے باوجود تعلقات میں شائستگی اور عزت قائم رکھتے تھے۔ پس اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا علمی وقار، اخلاقی بلندی اور بڑوں جیسا اندازِ گفتگو نمایاں ہے اور یہی ان کی حقیقی تعریف ہے۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود 


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر24 : امام ابو حنیفہؒ کا کمالِ اخلاق: ناقد کو بھی معزز جانا - امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمھم اللہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 25 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ


اعتراض نمبر 75 : کہ سفیان ثوری نے جب ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سنی تو کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس سے آرام پہنچایا۔ اس نے اسلام کا کڑا ، ایک ایک حلقہ کر کے توڑا اور اس سے بڑھ کر کوئی منحوس اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔


اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں



اعتراض نمبر 3: 

حدثنا أبو زرعة قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ عَنْ شَرِيكٍ قال: استتب أبو حنيفة مرتين.

جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض 41 کہ قاضی شریک نے کہا کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ طلب کی گئی تھی۔


اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔


اعتراض نمبر 4: 

حدثنا أبو زرعة قَالَ: فَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُسْهِرٍ يَقُولُ: قَالَ سَلَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الْقَاضِيُّ عَلَى الْمِنْبَرِ: لَا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ زعم أن القرآن مخلوق.

جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 28 : کہ قاضی سلمہ بن عمرو نے منبر پر کہا کہ اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ پر رحم نہ کرے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا ہے۔



اعتراض نمبر 5: 

حدثنا أبو زرعة قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ شَبُّوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ الْأَوْزَاعِيِّ، فَأَطْرَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَسَكَتَ عَنِّي، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْوَدَاعِ قُلْتُ لَهُ: أَوْصِنِي قَالَ: أَمَّا إِنِّي أَرَدْتُ ذَاكَ، وَلَوْ لَمْ تَسْأَلْنِي، سَمِعْتُكَ تُطْرِي رَجُلًا كَانَ يَرَى السَّيْفَ فِي الْأُمَّةِ، قُلْتُ لَهُ: أَفَلَا أَعْلَمْتَنِي؟ قَالَ: لَا أدع ذاك.

جواب : پہلی بات یہ ہے کہ ابنِ رِزْمہ نے اس روایت میں یہ صراحت نہیں کی کہ انہوں نے یہ بات براہِ راست امام ابن المبارک سے سنی ہے یا کسی واسطے سے۔ جب سماع کی وضاحت موجود نہ ہو تو روایت کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے اور یہ اتصالِ سند پر سوال اٹھاتا ہے۔ دوسری بات، متن کے اعتبار سے بھی یہ روایت منکر دکھائی دیتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بات کوفہ میں نہ جانی جائے، جہاں امام ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ خود موجود تھے، لیکن وہی بات دمشق میں امام اوزاعیؒ کو معلوم ہو جائے! یہ بات عقل اور روایت کے اصولوں کے لحاظ سے محلِ نظر ہے۔ پھر یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ امام ابن المبارک، جو خود کوفہ کے اکابر سے براہِ راست وابستہ رہے اور امام ابو حنیفہؒ کے قریب سمجھے جاتے تھے، انہیں یہ بات معلوم نہ ہو لیکن کوفہ سے باہر رہنے والوں کو ہو جائے۔ ان تمام پہلوؤں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً بھی محلِ اشکال ہے اور متناً بھی۔ لہٰذا امام اعظمؒ کے خلاف اسے حجت نہیں بنایا جا سکتا۔  تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے


اعتراض نمبر32 : امام عبداللہ بن مبارک اور امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ : متعصبیں کی جانب سے پیش کردہ امام اعظم پر چند متفرق اعتراضات


اعتراض نمبر 44 : کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟


اعتراض نمبر 6: 

حدثنا أبو زرعة قال: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ عَنْ سُفَيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قال: قَالَ رَقَبَةُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مَعْنٍ: أَيْنَ تَذْهَبُ؟ قَالَ: إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ. قَالَ: يُمَكِّنُكَ مِنْ رَأْيٍ مَا مَضَغْتَ وَتَرْجِعُ إِلَى أهلك بغير ثقة.

(كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص 506)

جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 28 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں رقبہ بن مصقلہ نے قاسم بن معن سے پوچھا: "کہاں سے آئے ہو؟" اس نے کہا: "ابو حنیفہ کے پاس سے۔" رقبہ نے کہا: "وہاں سے تم صرف رائے چبا کر لوٹو گے، فقہ حاصل نہ کر سکو گے۔



اعتراض نمبر 7: 

حدثنا أبو زرعة قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ تَوْبَةَ قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ أَيُّوبَ بِمَكَّةَ، فَأَقْبَلَ أَبُو حَنِيفَةَ - قَالَ: فَقَالَ أَيُّوبُ: قُومُوا لَا يُعْدِنَا بِجَرَبِهِ.

جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 29 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ ایوب السختیانی نے ابو حنیفہ کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تتر بتر ہو جاؤ تا کہ وہ اپنی بیماری ہمیں نہ لگا دے۔



اعتراض نمبر 8: 

حدثنا أبو زرعة قال: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ: مَا وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ مَوْلُودٌ، أَضَرُّ عَلَى الإسلام من أبي حنيفة.


جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 7 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں سفیان نے کہا: "اسلام میں ابو حنیفہ سے بڑھ کر اسلام کے ماننے والوں کے لیے کوئی زیادہ نقصان دہ شخص پیدا نہیں ہوا۔



اعتراض نمبر 9: 

حدثنا أبو زرعة قَالَ: وَحَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَاحِ قال: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: أَبُو حَنِيفَةَ غَيْرُ ثِقَةٍ، وَلَا مَأْمُونٍ، اسْتُتِيبَ مرتين.

جواب : اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 135: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ نہ ثقہ ہیں اور نہ مامون ہیں۔


اعتراض نمبر 10: 

حدثنا أبو زرعة قال: حدثنا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ قال: سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ الْجَرَّاحِ يَقُولُ لِيَحْيَى بْنِ صَالِحٍ الْوُحَاظِيِّ: يَا أَبَا زَكَرِيَّا احْذَرِ الرَّأْيِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: لَلْبَوْلُ فِي الْمَسْجِدِ أَحْسَنُ من بعض قياسهم.

میں نے وکیع بن جراح کو یحییٰ بن صالح الوحاظی سے یہ کہتے سنا: اے ابو زکریا! رائے (یعنی ناقص قیاس) سے بچو، کیونکہ میں نے ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بعض لوگوں کے کچھ قیاسوں سے تو مسجد میں پیشاب کرنا بھی بہتر ہے۔

(كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص 507)

جواب : یہاں امام ابو حنیفہ کے شاگردِ خاص، امام وکیع بن جراحؒ، اپنے شیخ کا ایک نہایت نایاب قول نقل کرتے ہیں، جس میں ناقص اور غیر اصولی قیاس کی تردید کی گئی ہے۔ اس روایت سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قیاس بذاتِ خود بری چیز ہے، بلکہ جیسا کہ روایت کے الفاظ سے ظاہر ہے: بعض قیاس یعنی صرف کچھ غلط قیاسات۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے ہمیشہ "صحیح قیاس" کیا، "غلط قیاس" نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے باطل یا بے اصول قیاس کرنے والوں کو دیکھا تو ان کے باطل طرزِ فکر کو مسجد میں گندگی سے بھی بدتر قرار دے کر سختی سے رد کیا۔

مزید یہ کہ امام وکیعؒ خود امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے اور اپنے شیخ کے اقوال کو نہ صرف نقل کرتے بلکہ ان پر فخر بھی محسوس کرتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس قول کو منفی رنگ میں نہیں لیتے تھے، بلکہ امام صاحب کی علمی بصیرت اور دینی غیرت کو اجاگر کرنے کے لئے بیان کرتے تھے۔ گویا امام ابو حنیفہؒ نے اپنے دور کے غلط اور بے اصول "رائے بازوں" کے مقابلے میں صحیح اور اصولی اجتہاد کی بنیاد رکھی، جس پر بعد کے تمام ائمہ نے بھی اعتماد کیا۔

 امام وکیعؒ  کی حنفیت پر مکمل تحقیق مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب کی تصنیف کردہ کتاب "امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" میں موجود ہے۔ مکمل پی ڈی ایف دفاع احناف لائبریری میں دستیاب ہے۔


اعتراض نمبر 11: 

حدثنا أبو زرعة قال: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ: لَمْ يَزَلْ أَمْرُ النَّاسِ مُعْتَدِلًا حَتَّى ظَهَرَ أَبَو حَنِيَفَةَ بِالْكُوفَةِ، وَالْبَتِّيُّ بِالْبَصْرَةِ، وَرَبِيعَةُ بِالْمَدِينَةِ، فَنَظَرْنَا، فَوَجَدْنَاهُمْ مُنْ أَبْنَاءِ سَبَايَا الْأُمَمِ.

(كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص 507)

اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 35 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں سفیان نے کہا کہ: مدینہ میں سب سے پہلے رائے سے کلام کرنے والے ربیعہ تھے، کوفہ میں ابو حنیفہ اور بصرہ میں البَتّی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ یہ سب دوسری قوموں کی باندیوں کی اولاد میں سے تھے۔


اعتراض نمبر 67: کہ عروہ نے کہا کہ بنی اسرائیل درست نظریہ پر گامزن رہے یہاں تک کہ ان میں قیدیوں کی اولاد پیدا ہوئی اور انہوں نے رائے کو داخل کر کے ان کو برباد کر دیا۔ اور اس امت کے معاملہ کو برباد کرنے والے قیدیوں کی اولاد ابو حنیفہ اور ربیعہ وغیرہ ہیں۔



تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...