نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 7 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں سفیان نے کہا: "اسلام میں ابو حنیفہ سے بڑھ کر اسلام کے ماننے والوں کے لیے کوئی زیادہ نقصان دہ شخص پیدا نہیں ہوا۔

 


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 7 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ)  اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں  سفیان  نے کہا: "اسلام میں ابو حنیفہ سے بڑھ کر اسلام کے ماننے والوں کے لیے کوئی زیادہ نقصان دہ شخص پیدا نہیں ہوا۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ : مَا وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ مَوْلُودٌ أَضَرَّ عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ»

سفیان  نے کہا: "اسلام میں ابو حنیفہ سے بڑھ کر اسلام کے ماننے والوں کے لیے کوئی زیادہ نقصان دہ شخص پیدا نہیں ہوا۔

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/783 )

الجواب :

ہماری تحقیق کے مطابق یہاں سفیان سے سفیان بن عیینہ مراد نہیں ہے بلکہ سفیان الثوری  مراد ہیں کیونکہ جہاں بھی یہ جرح ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے وہاں امام ثوری کا ہی ذکر ہے لیکن بعض نے سفیان سے مراد ابن عیینہ کر دیا ہے جو کہ غلط ہے ۔ کیونکہ 

1۔ جہاں بھی جرح کے یہ الفاظ منقول ہیں وہاں یا تو سفیان لکھا ہوا ہے یا صراحت سے سفیان ثوری ۔ 

سفیان ابن عیینہ کہیں بھی مذکور نہیں۔

1)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ( كتاب الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص 128 )  اور یعقوب فسوی کی  (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/‏٧٨٥)

میں صراحت ہیکہ اسحاق الفزاری سفیان ثوری کے ساتھ تھے تب سفیان ثوری نے جرح کے کلمات کہے ۔ 

حدثنا نعيم ثنا الفزاري, قال: كنت عند الثوري، فنُعي أبو حنيفة، فقال: الحمد لله، وسجد، قال: كان ينقض الإسلام عروة عروة، وقال يعني الثوري: ما ولد في الإسلام مولود أشأم منه.

جبکہ امام بخاری ہی کی (التاريخ الصغير - البخاري - ج ٢ - الصفحة ٩٣) میں اور بعض دیگر کتب میں  صرف سفیان لکھا ہوا ہے ، تو یہاں بھی سفیان الثوری ہی مراد ہیں ۔

 لیکن جب اسی روایت کو(یعنی الثوری سے منقول روایت کو) امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا

وقال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعى أبى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الاسلام 

عروة عروة وما ولد في الاسلام مولود أشر منه هذا ما ذكره البخاري

(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٩)

 تو سفیان الثوری کے بجائے ابن عیینہ لکھا ، جو ان کا تسامح ہے ۔ کیونکہ اصل مآخد میں صراحت سے سفیان ثوری لکھا ہوا ہے۔ 

اسی طرح خطیب بغدادی نے (تاريخ بغداد  - ج ٤ - الصفحة ٤٣٠) میں بھی المعرفہ والی روایت میں سفیان کے بعد ابن عیینہ کا اضافہ کیا ہے جو کہ غلطی ہے کیونکہ المعرفہ والتاریخ میں بھی صرف سفیان ہی لکھا ہوا ہے

ما أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّهِ الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أَبِي عُمَر، قَالَ: سَمِعْتُ ابْن عُيَيْنَةَ، يَقُولُ:

یہاں اس سند میں خطیب بغدادی نے ابن عیینہ نقل کیا ہے لیکن یہ سند درست نہیں کیونکہ 

▪︎أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي مجہول ہیں 

▪︎ أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري ضعیف ہیں

المعرفہ والتاریخ کی روایت :

حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة. 

( المعرفة والتاريخ ج٢ص٧٨٣) 

 کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں۔اب جب المعرفہ میں کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں ، اور کم ترین واسطوں سے منقول روایت میں الثوری ہی لکھا ہوا ہے تو اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ جروحات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہیں نہ کہ امام سفیان بن عیینہ سے۔ جیسے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا تسامح ہے ویسے ہی خطیب بغدادی سے بھی غلطی ہوئی ہے۔

اشکال اور جواب : 

محمد بن ابی عمر ابن عیینہ کا مشہور شاگرد ہے تو کیا یہاں وہ ابن عیینہ سے روایت کر رہا ہے ؟

یہاں بھی سفیان ثوری ہی مراد ہیں وجہ یہ ہیکہ لازمی نہیں کہ جو کسی کا شاگرد مشہور ہو ، صرف اسی سے ہی روایت کرے ، مثلا حماد بن دلیل جو ابن عیینہ کے شاگرد نہیں ہیں لیکن امام احمد کی کتاب اور جامع بیان العلم وفضلہ 1/1089  میں روایت ابن عیینہ سے کر رہے ہیں (جس کی تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود  تانیب الخطیب  امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 میں دیکھ سکتے ہیں ) ، ہمیں ان کی سفیان بن عیینہ سے اور کوئی روایت نہیں ملی ، تاریخ بغداد میں بھی یہی روایت سفیان بن عیینہ سے مذکور ہے۔ 

لہذا بے شک محمد بن ابی عمر جن سے یہ روایت المعرفہ والتاریخ میں منقول ہے وہ ابن عیینہ کے شاگرد ہیں لیکن وہاں  وہ روایت سفیان الثوری رحمہ اللہ سے کر رہے ہیں ۔ اور سفیان ثوری سے جروحات کا جواب ہو چکا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود  

اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ


دوسرا جواب : 

نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه قال: كان رجلا صالحا، وكان به غفلة، ورأيت عنده حديثا موضوعا حدث به عن ابن عيينة، وهو صدوق [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 124)]

محمد بن ابی عمر العدنی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی نے کہا ہیکہ صالح تھا لیکن یہ غفلت برتنے والا تھا ، اور میں نے اس کی کئی موضوع روایات بھی دیکھی ہیں اگرچہ یہ ابن عیینہ سے روایت میں صدوق ہے ۔ انتھی 

ہم کہتے ہیں کہ صدوق کوئی ایسی توثیق نہیں جس سے راوی کا ضنط پتہ چلتا ہو ، وہ روایتوں کو محفوظ کیسے کرتا ہے ، ضبط کیلئے راوی کا ثقہ ہونا ضروری ہے ، چونکہ محمد بن ابی عمر کی غفلت کا اشارہ ہو چکا ہے ، اور اوپر تفصیل بھی بیان ہو چکی کہ یہاں سفیان الثوری ہی مراد ہیں تو ، یہ تفصیل بھی سند کو مشکوک کر دیتی ہے ۔ 

بالفرض اگر کسی قرینہ سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہان ابن عیینہ مراد ہیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کی تعریف صحیح اسانید سے ثابت  ہے  ۔


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود  

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3 :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں


اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی


اعتراض نمبر 75 : کہ سفیان ثوری نے جب ابو حنیفہ کی وفات کی خبر سنی تو کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس سے آرام پہنچایا۔ اس نے اسلام کا کڑا ، ایک ایک حلقہ کر کے توڑا اور اس سے بڑھ کر کوئی منحوس اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر24 : امام ابو حنیفہؒ کا کمالِ اخلاق: ناقد کو بھی معزز جانا - امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمھم اللہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 25 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ


اعتراض نمبر 36 : امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...