اعتراض نمبر 28 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں رقبہ بن مصقلہ نے قاسم بن معن سے پوچھا: "کہاں سے آئے ہو؟" اس نے کہا: "ابو حنیفہ کے پاس سے۔" رقبہ نے کہا: "وہاں سے تم صرف رائے چبا کر لوٹو گے، فقہ حاصل نہ کر سکو گے۔
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 28 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں رقبہ بن مصقلہ نے قاسم بن معن سے پوچھا: "کہاں سے آئے ہو؟" اس نے کہا: "ابو حنیفہ کے پاس سے۔" رقبہ نے کہا: "وہاں سے تم صرف رائے چبا کر لوٹو گے، فقہ حاصل نہ کر سکو گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ : قَالَ رَقَبَةُ لِلْقَاسِمِ ابن مَعْنٍ: أَيْنَ تَذْهَبُ؟ قَالَ: إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ. قَالَ: يُمَكِّنُكَ مِنْ رَأْيِ مَا مَضَغْتَ وَتَرْجِعُ الى أهلك بغير فقه.
رقبہ نے قاسم بن معن سے کہا: "کہاں جا رہے ہو؟" قاسم نے کہا: "ابو حنیفہ کے پاس۔" رقبہ نے کہا: "وہ تمہیں ایسی رائے دے گا جسے تم صرف چبا کے واپس جاؤ گے، اور اپنے گھر لوٹو گے بغیر کسی فقہ (گہری سمجھ) کے۔"
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/790 )
جواب : رقبہ بن مصقلہ کا اعتراض محض معاصرانہ تعصب اور علمی نوک جھونک کے پس منظر میں ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر قاسم بن معنؒ جیسے جلیل القدر محدث اور فقیہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں شریک ہوئے تو یہ ان کے شرف و کمال کی علامت ہے۔ حضرت قاسم بن معنؒ وہ شخصیت ہیں جنہیں ائمہ حدیث نے متفقہ طور پر "ثقہ"، "صدوق"، "فاضل"، "نبیل"، اور "عادل" تسلیم کیا۔ امام ابو داود، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، ابن حبان، امام ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ اجمعین — سب ان کے علم و دیانت پر متفق ہیں۔ خود قاسم بن معنؒ سے جب کسی نے یہ کہا کہ "کیا آپ، جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی نسل سے ہیں، اس بات پر راضی ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں شمار ہوں؟" تو انہوں نے جلال کے ساتھ فرمایا: "لوگوں نے کسی مجلس کو امام ابو حنیفہ کی مجلس سے زیادہ نفع بخش نہیں پایا۔" (الانتقاء 134/1 ، اسنادہ حسن)
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
یہ بات خود ظاہر کرتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس علم و فقہ کا سرچشمہ تھی جس سے صاحبین جیسے اجلہ فقہا، عبداللہ بن مبارک اور وکیع بن جراح جیسے عظیم محدثین، اور داود طائی جیسے زاہدین نے استفادہ کیا اور ہر ایک نے اپنے اپنے دینی شعبے میں کمال پیدا کیا۔ امام صاحب کے شاگرد رہتی دنیا تک علم و فقہ کے مشعل بردار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عقائد سے لے کر فروعی مسائل تک امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ کی آراء اصحاب الحدیث کے اساتذہ تک پہنچتی ہیں اور بخاری شریف کی ثلاثیات میں بھی امام صاحب کے شاگردوں کا فیض جھلکتا ہے۔ ابن عیینہ جیسے ائمہ نے بھی اقرار کیا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقاہت آفاق پر پھیل چکی ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس سے "فقہ نہیں ملتی" سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رقبہ رحمہ اللہ کا یہ قول محض تعصب کی بنا پر تھا، ورنہ قاسم بن معنؒ اور ان جیسے اکابر کے اقرار سے ثابت ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کی مجلس سب سے زیادہ نفع بخش اور علمی طور پر زرخیز تھی۔
لہٰذا یہ روایت امام ابو حنیفہؒ پر نہیں بلکہ ان کے مخالفین کے تعصب پر دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اہل الحدیث نے انصاف سے کام نہیں لیا اور بغض و تعصب میں امام اعظمؒ کی شان کو گھٹانے کی کوشش کی، مگر تاریخ نے گواہی دی کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقاہت آفاق گیر ہوئی اور آپ کی مجلس سب سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوئی۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں