اعتراض: امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حدیثِ جبریل/حديث عمر میں "شرائعُ الإسلام" کے الفاظ کا اضافہ امام ابو حنیفہ نے کیا ہے۔
اعتراض: امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حدیثِ جبریل/حديث عمر میں "شرائعُ الإسلام" کے الفاظ کا اضافہ امام ابو حنیفہ نے کیا ہے۔
وأنكر عليه حديثًا آخر يرويه، عن علقمة بن مرثد عن ابن بريدة، حديث عمر «جاء جبريل إلى النبي -ﷺ- فقال: ما الإيمان. . .» قال أبو زرعة، فجعل هو، وأبو سنان، الإيمان شرائع الإيمان، وذكر أحاديث قد أوهم فيها، وأنكرها من روايته، ثم قال لي: من قال القرآن مخلوق فهو كافر فيعنى بما أسند الكفار أي قوم هؤلاء .
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧١٧ — البرذعي ت ٢٩٢)
جواب: یہ روایت کچھ اس طرح نقل کی گئی ہے کہ
(أبو حنيفة) (عن) علقمة بن مرثد (عن) يحيى بن يعمر قال بينما أنا مع صاحب لي بمدينة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذ بصرنا بعبد الله بن عمر فقلت لصاحبي هل لك أن تأتيه فتسأله عن القدر قال نعم قلت دعني حتى أكون أنا الذي أسأله فإنه أعرف بي منك قال فانتهينا إلى عبد الله بن عمر فسلمنا عليه وقعدنا إليه فقلنا له يا أبا عبد الرحمن إنا نتقلب في هذه الأرض فربما قدمنا البلدة بها قوم يقولون لا قدر فيما نرد عليهم فقال أبلغهم أني منهم بريء ولو أني وجدت أعواناً لجاهدتهم ثم أنشأ يحدثنا قال بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ومعه رهط من أصحابه إذ أقبل شاب جميل أبيض حسن اللمة طيب الريح عليه ثياب بيض فقال السلام عليك يا رسول الله السلام عليكم قال فرد عليه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ورددنا معه فقال ادنو يا رسول الله قال ادن فدنا دنوة أو دنوتين ثم قام موقراً له ثم قال ادنو يا رسول الله قال ادن فدنا حتى ألصق ركبتيه بركبتي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال أخبرني عن الإيمان فقال الإيمان أن تومن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه واليوم الآخر والقدر خيره وشره من الله تعالى فقال صدقت فتعجبنا من تصديقه لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وقوله صدقت كأنه يعلم ثم قال فأخبرني عن شرائع الإسلام ما هي قال إقام الصلاة وإيتاء الزكوة وحج البيت وصوم رمضان والاغتسال من الجنابة قال صدقت فتعجبنا من قوله صدقت قال فأخبرني عن الإحسان ما هو قال الإحسان أن تعمل لله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك قال فإذا فعلت ذلك فأنا محسن قال نعم قال صدقت قال فأخبرني عن الساعة متى هي قال ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن لها أشراطاً فهي من الخمس التي استأثر الله تعالى بها فقال إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غداً وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير قال صدقت ثم انصرف ونحن نراه إذ قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم علي بالرجل فقمنا في أثره فما ندري أين توجه ولا رأينا له شيئاً فذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال هذا جبرئيل أتاكم يعلمكم معالم دينكم والله ما أتاني في صورة إلا وأنا أعرفه فيها إلا هذه الصورة
(جامع المسانيد للخوارزمي 1/173، مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي ١/ )
امام ابوحنیفہ کی اس روایت پر امام ابوزرعہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس روایت میں شرائع الاسلام کا اضافہ امام ابو حنیفہ (م ۱۵۰ھ) اور سعید بن سنان کا وہم ہے۔ (أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية : ج ٢ ص ۷۲۰ - ۷۲۲)، اور امام مسلم یہ کہتے ہیں کہ اس روایت میں موجود الفاظ شرائع الاسلام مرجیہ کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتے ، جیسا کہ غیر مقلد اثری نے نقل کیا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں اعتراض غیر صحیح ہیں ۔
(1) امام زرعہ الرازی کے اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ امام ابو حنیفہ (م ۱۵۰ھ)، سعید بن سنان کے علاوہ ثقه، شیخ الحرم، عبد العزیز بن ابی رواد ، صدوق راوی جراح بن ضحاک وغیرہ نے بھی کہ اس روایت میں شرائع الاسلام کا اضافہ بیان کیا ہے (کتاب الضعفاء الكبر العقیلی : ج ۳ ص ۸ ، حلیة الاولیاء: ج ۸:ص ۲۰۲) ، لہٰذا امام ابو زرعہ کا اعتراض محلِ نظر ہے، کیونکہ یہ الفاظ کسی ایک راوی کا منفرد اضافہ نہیں، بلکہ متعدد ثقہ رواۃ کی متابعت سے ثابت ہیں۔ اور اصولاً ثقہ راوی کی زیادتی اصولِ حدیث کے مطابق مقبول ہوتی ہے۔
(۲) امام مسلم کا اعتراض بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ صدوق راوی جراح بن ضحاک نے بھی " شرائع الاسلام" کے الفاظ کی زیادتی بیان کی ہے۔ اور ان پر کسی معتدل امام نے مرجیہ ہونے کی جرح نہیں کی۔ ابو جعفر العقیلی نے جراح بن ضحاک کو مرجئی قرار دیا ہے۔ حالانکہ امام عقیلی تشدد میں مشہور و معروف ہیں ۔ لہذا ان کا جراح بن ضحاک کو مرجئی قرار دینا غیر صحیح ہے۔ لہذا امام مسلم کا اعتراض بھی صحیح نہیں ہے۔
اہلِ سنت کا اصول واضح ہے کہ کسی راوی کو صرف “مرجئہ” کہہ کر رد نہیں کیا جاتا — خاص طور پر جب وہ “مرجئہ اہلِ سنت” میں سے ہو، نہ کہ “مرجئہ اہلِ بدعت” میں سے۔
ایسے ثقہ راوی اگر کوئی لفظِ زائد بیان کریں تو اسے اصولِ حدیث کے مطابق قبول کیا جاتا ہے، کیونکہ — ثقہ راوی کی زیادتی معتبر اور قابلِ قبول ہوتی ہے۔
لہٰذا اگر یہ اضافہ مرجئہ اہلِ سنت کے ثقہ رواۃ نے بیان کیا ہو — تو وہ اصولاً مقبول ہے، نہ کہ مردود۔
اگر کوئی شخص “مرجئہ ثقہ راوی” کی زیادتی کو رد کرتا ہے، تو اس کا مطلب دو میں سے ایک ہے:
-
یا تو وہ اسے ثقہ نہیں سمجھ رہا،
-
یا پھر اسے بدعتی (اہلِ بدعت) قرار دے رہا ہے۔
مگر یہ دونوں دعوے باطل ہیں — کیونکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: مسعر (بن کدام رحمۃ اللہ علیہ)، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، نعمان (بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ)، عمرو بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ، عبد العزیز بن ابی رواد رحمۃ اللہ علیہ، ابو معاویہ رحمۃ اللہ علیہ، عمر بن زر رحمۃ اللہ علیہ یہ سب مرجئہ (اہل سنت) تھے... میں (امام ذہبی ) کہتا ہوں ارجاء تو بڑے بڑے علماء کی جماعت کا مذہب رہا ہے، اس کے قائل پر گرفت (اعتراض) نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ (میزان الاعتدال 99/4)
پس مرجئہ اہلِ سنت کے ثقہ راوی کا اضافہ اصولاً مقبول ہے، مردود نہیں۔
تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں