محدث أبو زرعة الرازي (عبيد الله بن عبد الكريم ) رحمه الله م 264ھ کی فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ
محدث أبو زرعة الرازي (عبيد الله بن عبد الكريم ) رحمه الله م 264ھ کی فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ
اس پوسٹ میں ہم فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں محدث أبو زرعة الرازي کی تنقیدات و اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ البتہ وہ اعتراضات و تنقیدات جن کا تفصیلی جواب ہم پہلے کسی اور پوسٹ میں دے چکے ہیں، اُنہیں یہاں دوبارہ ذکر نہیں کریں گے، بلکہ ان کا لنک فراہم کریں گے جو ہماری "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔ اس طرح قارئین وہاں جا کر ان کے جوابات تفصیل سے مطالعہ کر سکیں گے۔
اعتراض نمبر 1:
ذكر أبو زرعة النعمان بن ثابت أبو حنيفة في كتاب الضعفاء (كتاب الضعفاء [٢/ ٦٦٤]). قال البرذعي: ورأي أبو زرعة في كتابي حديثًا، عن أبي حاتم، كما شيخ له، عن أيوب بن سويد، عن أبي حنيفة، حديثًا مسندًا، وأبو حاتم جالس إلى جنبه فقال لي: من يعاتب على هذا أنت، أو أبو حاتم؟ قلت: أنا، قال: لم؟ قلت: لأني جبرته على قراءته، وكان يأبى فقرأه علي بعد جهد، فقال لي قولًا غليظًا أنسيته في كتابي ذلك الوقت. فقلت له: إن إبراهيم بن أورمة كان يعني بإسناد أبي حنيفة، فقال أبو زرعة: إنا للَّه وإنا إليه راجعون، عظمت مصيبتنا في إبراهيم يُعْنى به، لأي معنى يصدقه؟ لاتباعه؟ لإتقانه؟ ثم ذكر كلامًا غليظًا في إبراهيم لم أخرجه ها هنا،
امام ابو زرعہ نے نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کا ذکر اپنی کتاب الضعفاء میں کیا ہے۔ برذعی کہتے ہیں: ابو زرعہ نے میری کتاب میں ابو حاتم سے (روایت) ایک حدیث دیکھی، ایک ایسے شیخ سے، ایوب بن سوید → ابو حنیفہ → (رسول اللہ ﷺ سے) مرفوع حدیث۔ اور ابو حاتم ان کے پہلو میں بیٹھے تھے، تو مجھ سے (ابو زرعہ) نے کہا: اس پر ملامت کس کو کی جائے؟ تم کو یا ابو حاتم کو؟ میں نے کہا: مجھ کو۔ کہا: کیوں؟ میں نے کہا: کیونکہ میں نے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ مجھے یہ پڑھ کر سنائے، اور وہ انکار کرتا تھا، پھر بڑی مشقت کے بعد اس نے مجھے پڑھ کر سنایا۔ تو ابو زرعہ نے مجھ سے سخت کلام کیا — جو میں اس وقت اپنی کتاب میں لکھنا بھول گیا۔ پھر میں نے کہا: ابراہیم بن أُورَمہ امام ابو حنیفہ کی سند سے مراد لیتا تھا۔ ابو زرعہ نے کہا: إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون — ہماری ابراہیم پر کتنی بڑی مصیبت ہے کہ وہ ابو حنیفہ کی سند کو معتبر سمجھتا ہے! کس وجہ سے اسے (ابو حنیفہ کو) سچا مانتا ہے؟ کیا اس کے اتباع کی وجہ سے؟ یا اس کی مضبوطی کی وجہ سے؟ پھر ابراہیم کے بارے میں سخت الفاظ کہے — جو میں یہاں نقل نہیں کر رہا۔ (سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧١٧ — البرذعي ت ٢٩٢)
جواب : سب سے پہلے تو امام ابو حنیفہ ضعیف نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ متعدد جلیل القدر ائمہ حدیث نے امام ابو حنیفہؒ کی ثقاہت، فقہ اور علم کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی توثیق و تعریف امت کے علمی ورثے میں محفوظ ہے، جو ان کے بلند مقام کا روشن ثبوت ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ (م264ھ) کا مزاج امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کے بارے میں نہایت سخت تھا، اور وہ جرح میں غیر معمولی شدت اختیار کرتے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے امام البرذعی اور امام ابراہیم بن أورمہ جیسے ثقہ اور قابلِ احتجاج محدثین پر بھی سخت کلام کیا۔یہ سب اس وجہ سے تھا کہ یہ حضرات امام ابو حنیفہ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے — جسے امام ابو زرعہ نے برداشت نہیں کیا۔ امام برذعی کے مطابق: "وہ کلام میں بیان بھی نہ کر سکا" — اور ہمارا گمان ہے کہ امام برذعی کو اس میں ایسی شدت اور سختی محسوس ہوئی ہوگی کہ انہوں نے مناسب نہ سمجھا کہ اسے نقل کیا جائے کہ امام ابو زرعہ نے ان پر کس انداز میں تنقید کی۔ یہ سب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام ابو زرعہ کا اندازِ نقد محض علمی نہیں بلکہ ان کے مزاج کی شدت بھی اس میں نمایاں تھی۔ لہٰذا جرح و تعدیل میں ایسا سخت لہجہ اپنی جگہ، مگر اصل وزن "دلیل کا" ہوتا ہے، صرف "سختی کا" نہیں۔ اور اس مقام پر امام ابو زرعہ کی طرف سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں — صرف شدتِ مزاج کی جھلک ہے۔ پس ایسے سخت کلمات کو حتمی فیصلہ یا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔
اعتراض نمبر 2:
ثم قال لي: رحم اللَّه أحمد بن حنبل بلغني أنه كان في قلبه غصص من أحاديث ظهرت، عن المعلى بن منصور، كان يحتاج إليها وكان المعلى أشبه القوم بأهل العلم، وذلك أنه كان طلابة للعلم، ورحل، وعنى به فصبر أحمد عن تلك الأحاديث، ولم يسمع منه حرفا، وأما علي بن المديني، وأبو خيثمة وعامة أصحابنا سمعوا منه، وأي شيء يشبه المعلى من أبي حنيفة المعلى صدوق، وأبو حنيفة يوصل الأحاديث، أو كلمة قالها أبو زرعة، هذا معناها.
جواب :
قارئینِ کرام! یہ بات ثابت ہے کہ امام مُعَلّٰی بن منصور امام ابو حنیفہ کے مذہب پر تھے، لیکن امام احمد بن حنبل نے ان سے روایت اس لیے نہیں لی کہ امام احمد اہل الرائے سے روایت نہیں کرتے تھے — خواہ وہ راوی ثقہ ہو یا صدوق ۔ تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ امام ابو زرعہ خود امام مُعَلّٰی بن منصور کی تعریف کرتے ہیں، انہیں اہلِ علم، ثقہ اور قابلِ اعتماد قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض مواقع پر تو انہیں ابو حنیفہ سے بھی زیادہ قابلِ اعتماد بتاتے ہیں! لیکن دوسری طرف اسی امام ابو زرعہ کا امام ابو حنیفہ پر بے حد شدید جرح کرنا — یہاں تک کہ تُند و تیز الفاظ سے بھی دریغ نہ کرنا — ایک حیرت انگیز تضاد محسوس ہوتا ہے۔
یعنی ایک طرف شاگردِ مذہبِ ابو حنیفہ (امام معلیٰ بن منصور) کی تعریف، اور دوسری طرف اسی امام ابو حنیفہؒ پر شدید ترین نقد — یہ طرز بظاہر تعجب خیز ضرور ہے۔ یہ صرف تعجب خیز نہیں بلکہ خود امام ابو زرعہ کے منہج پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اعتراض نمبر 3:
ثم قال لي أبو زرعة: حدث عن موسى بن أبي عائشة، عن عبد اللَّه بن شداد، عن جابر، عن النبي -ﷺ-، فزاد في الحديث، عن جابر يعني حديث القراءة خلف
جواب : تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 4:
ويقول: القرآن مخلوق، ويرد على رسول اللَّه -ﷺ-، ويستهزيء بالآثار، ويدعوا إلى البدع، والضلالات ثم يعني بحديثه ما يفعل هذا إلا غبي جاهل، أو نحو ما قال،
ترجمہ: یہ قول امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کا ہے، جیسا کہ سؤالات البرذعی (۲/۷۱۹) میں درج ہے۔ اس میں وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "وہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے، رسول اللہ ﷺ پر رد کرتے ہیں، آثار کا مذاق اڑاتے ہیں اور بدعات و ضلالات کی طرف بلاتے ہیں، پھر کہا کہ یہ سب کوئی بیوقوف جاہل ہی کرتا ہے یا اس جیسا کچھ کہا۔"
جواب: امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ (م264ھ) نہ تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہم عصر تھے، نہ ہی ان سے ملاقات یا سماع کا کوئی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وہ امام صاحب کے زمانے میں موجود ہی نہیں تھے، تو ایسے سنگین دعوے اور الزامات وہ آخر کس بنیاد پر عائد کر سکتے ہیں؟
اگر امام ابو زرعہ کے پاس اپنے اس قول کے ثبوت میں کوئی صحیح، متصل اور معتبر سند ہوتی، تو وہ ضرور پیش کرتے تاکہ ان کے بیان کو علمی وقعت حاصل ہوتی۔ لیکن جب نہ سند موجود ہے، نہ سماع، نہ معاصرت — تو ان کا یہ قول محض ایک بے بنیاد دعویٰ بن کر رہ جاتا ہے، جس کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ مزید برآں، یہ صرف ایک دعویٰ نہیں بلکہ الزام ہے، اور وہ بھی ایسا الزام جس کی پشت پر نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی قابلِ اعتماد حوالہ۔ ایسے بے بنیاد الزامات سے امام اعظم ابو حنیفہؒ جیسے علم و تقویٰ کے مینار کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ الزام تراش خود اپنی کم علمی، تعصب اور نادانی کا پردہ فاش کر دیتا ہے۔
اگر امام ابو زرعہ کے الزامات کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تمام باتیں محض تعصب اور کم علمی پر مبنی تھیں۔ ان کے اقوال میں نہ تحقیق کی روش نظر آتی ہے، نہ علمی دیانت کا لحاظ — بلکہ یہ اس دور کی اہلِ رائے اور اہلِ حدیث کی باہمی کشیدگی کا اثر معلوم ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان تمام الزامات سے بری و پاک ہیں۔ مثال کے طور پر، ان پر جو یہ الزام لگایا گیا کہ وہ قرآن کو مخلوق کہتے تھے، یہ سراسر بے دلیل اور من گھڑت بات ہے۔ اس کے برعکس، خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں سے صحیح سندوں کے ساتھ یہ اقوال منقول ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔ امام بیھقی الاسماء والصفات میں اپنی سندصحیح سے بیان کرتے ہیں :
1. أنبأني أبو عبد الله الحافظ , إجازة , أنا أبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي , ثنا عبد الله بن أحمد بن عبد الرحمن بن عبد الله الدشتكي , قال: سمعت أبي يقول: سمعت أبا يوسف القاضي , يقول: كلمت أبا حنيفة رحمه الله تعالى سنة جرداء في أن القرآن مخلوق أم لا؟ فاتفق رأيه ورأيي على أن من قال: القرآن مخلوق , فهو كافر قال أبو عبد الله رواة هذا كلهم ثقات
محمد بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں ؟ تو انہوں (ابو یوسف) نے کہا استغفراللہ نہ ہی انہوں نے ایسا کہا نہ ہی میں کہتا ہوں راوی کہتا ہے میں نے پھر پوچھا کیا ابو حنیفہ کا عقیدہ جہم والا تھا ؟ تو ان (ابویوسف) نے فرمایا نہ ہی انکا عقیدہ ایسا تھا اور نہ ہی میرا . امام بیھقی کہتے ہیں اس روایت کے سارے رجال ثقہ درجے کے ہیں [الأسماء والصفات للبيهقي، برقم:۵۵۱]
2... خبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم وقال النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء شانوا أصحاب أبي حنيفة.
محمد بن شازان جوہری کہتے ہیں میں نے سلیمان جوزجانی ، معلی بن منصور سے سنا وہ کہتے ہیں : کہ ابو حنیفہ نے، ابو یوسف نے کلام نہیں کیا اور نہ ہی زفر نے ، نہ ہی محمد شیبانی نے اور اصحاب ابو حنیفہ میں سے کسی نے بھی قرآن کے (مخلوق ہونے )کے مسلے پر کلام نہیں اور جس نے قرآن کے مسلے پر کلام کیا وہ بشر المریسی ، ابن ابو داود ہیں اور یہ (دو) ابو حنیفہ کے اصحاب تھے [تاریخ بغداد ، جلد ۱۵ ، ص ۵۱۶ سند جید ]
تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 7 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید
یقیناً عقل، انصاف اور علم — تینوں کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ثابت شدہ روایت کو تسلیم کریں،
اور بغیر سند کے الزام کو وہی درجہ دیں جس کا وہ مستحق ہے: یعنی محض ایک بے وقعت دعویٰ، جس کی کوئی علمی یا اخلاقی حیثیت نہیں۔
"غیر مقلدین کے نام سوال"
امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب"الجرح والتعديل"میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ،ان لفظوں میں ذکر کیاہے۔ «محمد بن اسمعيل البخارى ابو عبدالله قدم عليهم الرى سنة مائتين وخمسين روى عن عبدان المروزى ابى همام الصلت بن محمد والفريابى وابن ابى اويس سمع منه ابى وابوذرعة ثم تركا حديثه عند ماكتب اليهما محمد بن يحيي النيسابورى انه اظهر عندهم ان لفظه بالقرآن مخلوق»
ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ سئہ250ھ میں مقام رے آئے۔عبدان مرزوی رحمۃ اللہ علیہ،ابو ہمام صلت بن محمد رحمۃ اللہ علیہ،فریابی رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ ابی اویس رحمۃ اللہ علیہ سے احادیث روایت کیں۔ان سے میرے والد(ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ)اورابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے سماع کیا۔پھر جب امام محمد بن یحییٰ نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ اورابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف لکھاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے ہاں"لفظى بالقرآن مخلوق"عقیدہ کا اظہار کیا ہے تو انھوں نے حدیث ترک کردی۔" ("الجرح والتعديل ج7 ص191 طبع بيروت")
قارئین دیکھیں : تلامذہ امام اعظم کا محدثانہ مقام ص 375
ویسے یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسی مسئلے (قرآن مخلوق ہونے کے الزام) میں امام ابو زرعہ نے امام بخاری سے بھی روایت ترک کر دی تھی — حالانکہ امام بخاری کا موقف بھی بالکل وہی تھا جو امام ابو حنیفہ کا تھا۔
لہٰذا سوال یہ ہے: اگر غیر مقلدین صرف اسی الزام کی بنیاد پر امام ابو زرعہ کے کلام کو امام ابو حنیفہ کے خلاف پیش کرتے ہیں، تو کیا اب وہ انصاف کے ساتھ امام بخاری کو بھی — معاذ اللہ — ’’مَتروک‘‘ یا ’’جہمی‘‘ کہیں گے؟ کیوں کہ جو عقیدہ امام ابو حنیفہ پر الزام بنا — وہی عقیدہ امام بخاری پر بھی امام ابو زرعہ نے الزام کی صورت میں چسپاں کیا تھا۔ اگر ایک ہی امام (ابو زرعہ) ایک طرف ابو حنیفہ کو مجروح کہتا ہے اور دوسری طرف بخاری کو بھی اسی بنیاد پر ترک کرتا ہے — تو کیا اصولی دیانت کا تقاضا نہیں کہ یا تو دونوں کو رد کریں یا پھر دونوں کو کامل عدل و احترام کے ساتھ قبول کریں؟
آثار کا مذاق اُڑانے کا دعویٰ — سنت دشمنی کا جھوٹا بے بنیاد بہتان
پھر یہ بے دلیل دعویٰ کہ امام صاحب سنت کو رد کرتے تھے اور آثار کا مذاق اُڑاتے تھے — اس کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ آخر انہوں نے کس طرح رد کیا یا کس طرح استہزاء کیا۔ اس کے برعکس ہمیں امام سفیان ثوریؒ سے صحیح قول ملتا ہے کہ امام صاحب سنت کے سختی سے پابند تھے، اور اسی طرح امام ابن المبارکؒ سے بھی امام صاحب کی تعریف و توصیف منقول ہے۔
عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.
(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ، الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)
حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني أحمد بن القاسم قال: حدثني ابن أبي رزمة، عن عبدان قال: سمعت عبد الله بن المبارك يقول: إذا سمعتهم يذكرون أبا حنيفة بسوء ساءني ذلك، وأخاف عليهم المقت من الله عز وجل
جب یہ لوگ (جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرتے ہیں) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا
تذکرہ برائی سے کرتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ امام صاحب رحمہ اللّٰہ کی
مخالفت کرنے کی وجہ سے ان لوگوں پر کہیں اللہ کا عذاب نازل ہی نا جائے
(فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ 76 سند صحیح)
تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
امام ابو زرعہ کا اعتراض اور الزام کہ "امام ابو حنیفہ جاہل یا غبی تھے" — درحقیقت ایک علمی تنقید نہیں بلکہ تعصب اور کم فہمی کا مظہر تھا۔ تاریخ کے مستند ائمہ نے امام ابو حنیفہؒ کے علم، فقہ، اور دیانت کی ایسی شہادتیں دی ہیں جو ان الزامات کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ امام مکی بن ابراہیمؒ (شیخ البخاری) فرماتے ہیں: "کان أعلم أهل زمانه" — "وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔" (تاریخ بغداد، ج13، ص344، إسنادہ صحیح) امام شافعیؒ فرماتے ہیں: "ما رأيت أفقه من أبي حنيفة." — "میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں پایا۔" (تاریخ بغداد، ج15، ص474، سند صحیح) حضرت قاسم بن معنؒ (پوتے عبداللہ بن مسعودؓ) فرماتے ہیں: "ما جلس الناس إلى مجلس أنفع من مجلس أبي حنيفة." — "لوگوں نے کسی مجلس کو امام ابو حنیفہ کی مجلس سے زیادہ نفع بخش نہیں پایا۔" (الانتقاء، 1/134، إسناد حسن)
اعتراض نمبر 5:
ويذكر أحاديث من رواية أبي حنيفة لا أصل لها، فذكر من ذلك حديث علقمة بن مرثد عن ابن بريدة عن أبيه «الدال على الخير كفاعله»
جواب : تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 6:
وأنكر عليه حديثًا آخر يرويه، عن علقمة بن مرثد عن ابن بريدة، حديث عمر «جاء جبريل إلى النبي -ﷺ- فقال: ما الإيمان. . .» قال أبو زرعة، فجعل هو، وأبو سنان، الإيمان شرائع الإيمان، وذكر أحاديث قد أوهم فيها، وأنكرها من روايته، ثم قال لي: من قال القرآن مخلوق فهو كافر فيعنى بما أسند الكفار أي قوم هؤلاء .
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧١٧ — البرذعي ت ٢٩٢)
جواب : تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
امام ابو زرعہ نے جن دو تین احادیث کی بنا پر امام ابو حنیفہ پر اعتراض کیا تھا — ان تمام جروحات کی حقیقت کی ہم اوپر وضاحت کر چکے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو زرعہ کا امام ابو حنیفہ پر یہ الزام درست نہیں تھا۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں امام ابو زرعہ صرف اتنا کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ "بعض احادیث میں اُن سے وہم ہوا" — لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہ کون سی مخصوص احادیث ہیں۔ اگر وہ ان احادیث کا صراحتاً ذکر کر دیتے تو ہم ان کا بھی تحقیقی جواب پیش کر دیتے۔
اعتراض نمبر 7:
قال البرذعي: قال أبو حاتم: حدثت عن سفيان بن عيينة، قال: لقيني أبو حنيفة، فقال لي: كيف سماعك عن عمرو بن دينار؟ قال: قلت له أكثرت عنه، قال: لكني لم أسمع منه إلا حديثين. قال: قلت: ما هما؟ فقال: حدثنا عمرو، عن جابر بن عبد اللَّه في أخباري، فقلت: حدثنا عمرو عن جابر بن زيد ليس جابر بن عبد اللَّه، قلت: وما الآخر؟ فقال: حدثنا عمرو، عن أبي الحنفية، عن علي: «لقد ظلم من لم يورث الأخوة من الأم» فقلت: حدثنا عمرو، عن عبد اللَّه بن محمد بن علي ليس بابن الحنفية. قال سفيان: فإذا هو قد اخطأ فيهما جميعًا
البرذعی کہتے ہیں:ابو حاتم نے سفیان بن عُیینہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: مجھے ابو حنیفہ ملے اور مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا عمرو بن دینار سے سماع کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں نے ان سے بہت کچھ سنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں نے ان سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن عبد اللہ سے حدیث بیان کی...‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی ہے، نہ کہ جابر بن عبد اللہ سے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اور دوسری حدیث؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے ابن الحنفیہ سے علیؓ سے روایت کی: ’جس نے ماں شریک بھائیوں کو میراث نہ دی، اس نے ظلم کیا۔‘‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے عبداللہ بن محمد بن علی سے حدیث بیان کی، نہ کہ ابن الحنفیہ سے۔‘‘ سفیان نے کہا: ’’تو وہ دونوں حدیثوں میں غلطی پر تھے۔‘‘ (سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧٥٦ )
جواب : تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 36 : امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
اعتراض نمبر 8:
* قال البرذعي ﵀ (ص٥٧٠) من أسئلة البرذعي: سمعت أبا زرعة يقول: كان أبو حنيفة جهميًا وكان محمد بن الحسن جهميًا، وكان أبو يوسف جهميًا بيّن التجهّم.
إلى أن قال (ص٧٥٥) قال أبو زرعة: كان أهل الري قد فتنوا بأبي حنيفة وكنا أحداثًا نجري معهم ولقد سألت أبا نعيم عن هذا وأنا أرى أني في عمل ولقد كان الحميدي يقرأ كتاب الرد ويذكر أبا حنيفة أنا أهم بالوثوب عليه حتى منَّ الله علينا وعرفنا ضلالة القوم.
یہ بات بھی واضح رہے کہ ابو زرعہ یا امام حمیدی وغیرہ کا کلام اُس وقت کے مسلکی تعصّب (اہل الرائے بمقابلہ اہل الحدیث) کی شدت کا نتیجہ تھا — نہ کہ امام ابو حنیفہ کی علمی حقیقت پر مبنی کوئی متوازن تحقیق۔
قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
امام ابو زرعہ کا تبصرہ — تعصب کا نتیجہ:
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام اعتراضات اس دور کی اہلِ الرائے اور اہلِ الحدیث کے درمیان جاری علمی کشمکش کا ایک وقتی اثر تھے، نہ کہ امام ابو حنیفہؒ کے مقام و مرتبہ پر کوئی حقیقی اعتراض۔
حسد کی بنیاد پر طعن و تشنیع — مسعر بن کِدام کی شہادت:
حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: سمعت محمد بن حماد يقول: سمعت الحسن بن إسماعيل بن مجالد قال : سمعت وكيع بن الجراح يقول : سمعت مسعر بن كدام يقول : "حسد أهل السير النعمان بن ثابت لفهمه وعلمه، فشنع عليه." (فضائل أبي حنيفة، ص74، سند حسن) مسعر بن کِدام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اہلِ سیر (محدثین) نے نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) سے ان کی فہم و بصیرت اور علم کی وجہ سے حسد کیا، اور ان پر طعن و تشنیع شروع کر دی۔"
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 3 :بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں