المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 2 : ابو حنیفہ حدیث میں ماہر نہ تھے , ابو حنیفہ نے صرف 130 روایات بیان کیں , امام ابو حنیفہ حجت نہیں ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر
متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ :
المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 2 :
النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي ... لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا. إما أن يكون أقلب إسناده أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.
ترجمہ : ابو حنیفہ حدیث میں ماہر نہ تھے ، انہوں نے صرف ایک سو تیس (130) احادیث روایت کیں جو باسند بیان کی اس کے علاوہ دنیا میں اس کی کوئی حدیث نہیں۔ ان میں سے بھی ایک سو بیس احادیث میں غلط بیانی کی یا ان کی سندیں الٹ پلٹ کر دی ، متن کو بگاڑ دیا جس کا کوئی پتہ ہی نہیں چلتا ، جب اس کے صواب پر خطا غالب ہوئی تو اس سے احتجاج کرنا صحیح نہیں۔
( كتاب المجروحين لابن حبان ت زاید 3/63 )
شق نمبر 1 : ابو حنیفہ حدیث میں ماہر نہ تھے یعنی محدث نہ تھے ۔
جواب :
امام ذھبی فرماتے ہیں کہ
وَرَوَى عَنْهُ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ عِدَّةٌ لا يُحْصَوْنَ فَمِنْ أَقْرَانِهِ
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محدثین اور فقہاء میں سے اس قدر زیادہ لوگوں نے روایات کیں ہیں کہ ان کی تعداد بیان کرنا مشکل ہے۔
( مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه للذھبی ص 20 )
اگر امام صاحب محدث نہ تھے تو محدثین اور فقہاء نے کیسے ان سے ان گنت روایات نقل کیں ؟
ایک اور روایت میں ہیکہ :
سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَبَا حَنِيفَةَ لِحُبِّهِ لأَيُّوبَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَحَادِيثَ كَثِيرَةً
امام حماد کہتے ہیں: قسم بخدا ! میں ابو حنیفہ سے محبت کرتا ہوں ، اس لئے کہ وہ ایوب سے محبت کرتے ہیں ، اور حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔
(الانتقاء لابن عبد البر : ص 130 ، اس کی سند صحیح ہے الاجماع شمارہ 12 ص 20)
اگر امام صاحب کو صرف چند حدیثیں یاد تھیں تو امام حماد بن زید رحمہ اللہ (جن کو امام ذھبی سیر اعلام النبلاء 7/457 میں العلامة ، الحافظ الثبت ، محدث الوقت کے القابات سے یاد کیا ہے ) نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے " بہت زیادہ " احادیث کیسے نقل کر دیں ؟ معلوم ہوا امام صاحب کثیر الحدیث تھے ۔
بلکہ امام صاحب تو اتنے اعلی درجہ کے محدث تھے کہ آپ کی روایات کو حصول برکت کے واسطے محدثین پڑھایا کرتے تھے ، ملاحظہ ہو
امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب معرفة علوم الحديث میں ایک باب باندھا ہے
هذا النوع من هذه العلوم معرفة الأئمة الثقات المشهورين من التابعين وأتباعهم ممن يجمع حديثهم للحفظ، والمذاكرة، والتبرك بهم
" ثقہ اور مشہور آئمہ دین ، جن کی احادیث حفظ اور مذاکرہ اور حصول برکت کیلئے جمع کی جاتیں ہیں" ۔
اس باب میں امام حاکم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر بھی کیا ہے ۔
( معرفة علوم الحديث ص 245 )
شق نمبر 2:
ابو حنیفہ نے صرف 130 روایات بیان کیں
جواب :
بقول امام ذہبی ، ابن حجر اور ابن الصلاح رحمھم اللہ محدث ابن حبان نہایت متعصب ، زبان دراز ، ثقہ راوی پر خوامخواہ جرح کرنے والے اور ہلڑ باز تھے۔
(میزان الاعتدال 3/508 ،
میزان الاعتدال 1/274 ، القول المسدد ص 33 ، میزان 1/460)
یہاں بھی محدث ابن حبان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی کیونکہ اگر وہ صرف کتاب الآثار دیکھ لیتے تو ایسی خلاف واقعہ بات نہ لکھتے ، صرف کتاب الآثار بروایت امام محمد میں مرفوع روایات کی تعداد 130 سے اوپر ہے جبکہ موقوف اور آثار تابعین مختلف کتب کے اندر سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ، الموسوعہ لمرویات الامام ابی حنیفہ میں مولانا لطیف الرحمان بہرائچی قاسمی صاحب نے امام صاحب کی مرویات کو جمع کیا ہے جن کی تعداد ( 10613 ) دس ہزار چھ سو تیرہ ہے۔
شق نمبر 3:
امام ابو حنیفہ حجت نہیں ہیں۔
جواب :
چنانچہ اس مقام پر محدث ابن حبان امام ابو حنیفہ کو ضعیف کہہ رہے ہیں جبکہ اسی کتاب المجروحین میں 60 صفحے آگے یحیی بن عنبسہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
يحيى بن عنبسة : شيخ دجال يضع الحديث على ابن عيينة وداود بن أبي هند وأبي حنيفة وغيرهم من الثقات.
کہ یہ راوی ثقہ رواة یعنی سفیان بن عیینہ ، داود بن ہند اور ابو حنیفہ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا ۔
( المجروحین 3/124)
یہاں ابن حبان نے امام ابو حنیفہ کو ثقہ لکھا ہے
؏ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے
چونکہ محدث ابن حبان نے خود یہاں حق تسلیم کر لیا ہے لہذا مزید حوالہ جات ذکر کرنا باعث طوالت ہے۔
قارئین " دفاع احناف لائبریری " امام ابو حنیفہ سیکشن میں " ثقہ ثبت حافظ الحدیث امام ابو حنیفہ " کے نام سے 4 جلدوں پر مشتمل pdf
فائل دیکھ سکتے ہیں جس میں 70 سے زائد آئمہ اسلام سے امام ابو حنیفہ کی ثقاہت ، فقاہت اور جلالت شان اسنادی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں