اعتراض نمبر 97:
کہ حماد بن سلمہ ابو حنیفہ کو ابو جیفہ (مردار کا باپ) کہتے تھے۔
أَخْبَرَنِي الأَزْهَرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن العباس، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو القاسم بن بشار، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن راشد الأدمي، قال: سمعت أبا ربيعة فَهْدَ ابن عوف، يقول: سمعت حماد بن سلمة، يكني أبا حنيفة: أبا جيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ قارئین کرام اس کی وجہ سے ابوحنیفہ کے مخالفین کا اس کے ساتھ ادب کا درجہ دیکھ لیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ بے شک خطیب متعصب ہے اور الازھری بھی متعصب ہے لیکن ہمیں یہ خیال نہ تھا کہ بے شک یہ دونوں ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں اس جیسی احمقانہ بات لکھ کر غصہ کا اظہار کریں گے۔
اور وہ بھی محمد بن العباس الحزاز جیسے آدمی کی سند سے جس سند میں ابراہیم بن راشد الادمی ہے جو کہ ابن عدی کے ہاں متہم ہے جیسا کہ اس کا ذکر امام ذہبی نے کیا ہے۔
اور ابو ربیعہ فہد بن عوف کو تو ابن المدینی نے جھوٹا قرار دیا ہے[1]۔
اور حماد بن سلمہ جس کی طرف یہ احمقانہ بات منسوب کی گئی ہے وہ ان آفت زدہ روایات کا راوی ہے جو ان کتابوں میں ہیں جو موضوعات پر لکھی گئی ہیں اس کی کتابوں میں اس کے لے پالک نے اپنی مرضی سے بہت کچھ داخل کر دیا تھا جو رسوائی کا باعث ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے کہا ہے۔ اور بخاری نے اس سے اجتناب کیا اور مسلم نے اس کی صرف وہ روایات ذکر کی ہیں جو اس کے اختلاط کے عارضہ میں مبتلا ہونے سے پہلے کی ہیں اور تخلیط سے محفوظ ہیں۔ اور وہ اپنی فضیلت اور اچھی شہرت کے باوجود عربیت میں مسکین تھا۔ اس کی ابتدائی شہرت اچھی نہ تھی۔ اور وہ آخر عمر میں حشویہ کے ہاتھوں میں بڑا خطرناک ہتھیار بن گیا تھا اور اس کی مروی روایات میں یہ روایت بھی ہے کہ میں نے اپنے رب کو ایک بے ریش جوان آدمی کی صورت میں دیکھا جس کے بال بہت گھنگھریالے تھے[2]۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت ہی بلند ہے اور جن لوگوں نے اس کا دفاع کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ وہ یا تو اس کے حال سے بے خبر ہوں گے یا کج رو ہوں گے۔
ہم اللہ تعالی سے سلامتی چاہتے ہیں۔
اور اگر یہ کلمہ اس سے ثابت ہو جائے تو اس حماقت پر تو اس پر تعزیر واجب ہوگی جس حماقت کو زبان پر لانے سے بازاری آدمی بھی انکار کرتا ہے۔ اور آپ کو علم ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حطیٸہ کو تعزیر لگائی تھی جبکہ اس نے زبرقان کے بارہ میں یہ اشعار کے تھے۔
دع المكارِمَ لا تَرحَلْ لبُغيتها
واقعدْ فإنك أنتَ الطاعِمُ الكاسى
بزرگیوں کو چھوڑ دے اور ان کی تلاش میں سفر نہ کر۔
اور بیٹھا رہ کیونکہ بے شک تو
بہت ہی کھانے والا پہننے والا ہے۔
جیسا کہ اس کا بیان پہلے بھی ہو چکا ہے اور یہ اشعار تو اس احمقانہ جملہ (ابو جیفہ) کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔
اور خطیب کے ہاں انصاف کی بربادی ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے
مطاعن میں اس جیسی باتیں ذکر کر رہا ہے۔
پختہ بات ہے کہ مناسب تو یہ تھا کہ یہ بات حماد بن سلمہ کی انتہائی بے وقوفی پر اطلاع دینے کے لیے اور اس کی بے ہودہ گوئی واضح کرنے کے لیے اس کے مطاعن میں ذکر کرتا۔ بشرطیکہ خطیب کی نظر میں اس حکایت کا ثبوت فرض کر لیا جائے۔
اور ہو سکتا ہے کہ عبد الله بن المبارک نے اس فحش کلام کرنے والے کے رد کا ہی ارادہ کیا ہو جبکہ اس نے کہا :
ألا يا جيفة تعلوك جيفه
وأعيا قارىء ما في صحيفه
خبردار اے گلی سڑی مردار لاش اس کا بد بودار ہونا تجھ پر چھا جائے۔
اور اے وہ شخص جو اس چیز کو پڑھنے سے عاجز ہے جو قرآن میں لکھی ہوتی ہے۔
امثلك لا هديت ولست تهدى
يعيب اخا العفاف ابا حنيفة
کیا تیرے جیسا آدمی بھی راہنمائی کر سکتا ہے حالانکہ تو خود راہ راست پر نہیں ہے۔
پاک دامنی والے ابوحنیفہ پر عیب لگاتا ہے۔
اور اس نے آخر تک ان اشعار کو پڑھا جو ابن ابی العوام الحافظ نے العباس بن الفضل یوسف بن ابی یوسف کی سند سے عبد الله بن المبارک سے نقل کیے ہیں[4]۔ پس اللہ تعالی ابو حنیفہ کی جانب سے ابن المبارک کو جزاء خیر عطا فرمائے کہ اس نے ظالم کو اس کی زیادتی کے مطابق بدلہ دے دیا۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ فهد بن عوف، واسمه زيد.
روى عن حماد بن زيد.
قال ابن المديني: كذاب، يكنى أبا ربيعة.
وروى عن حماد بن سلمة، وشريك.
وعنه أبو حاتم، ومحمد بن الجنيد، وتركه مسلم، والفلاس.
وقال أبو زرعة: اتهم بسرقة حديثين.
(ميزان الاعتدال ٣/٣٦٦ )
وقال عَمْرو بْن علي أبو ربيعة صاحب أبي عَوَانة متروك الحديث.
(الكامل في ضعفاء الرجال ٤/١٦٧)
زيد بن عَوْف أَبُو ربيعَة الْقطيعِي ولقبه فَهد
يروي عَن حَمَّاد بن سَلمَة وَأبي عوَانَة
قَالَ عَليّ ذهب وَقَالَ الفلاس وَمُسلم بن الْحجَّاج مَتْرُوك الحَدِيث وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ ضَعِيف
( الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ١/٣٠٦ )
[2]۔ بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ٧/٢٢٤ ،
إبطال التأويلات - ط إيلاف ١/١٤٣
[3]۔ جامع الأحاديث ٢٦/٣٢٨ ، أنساب الأشراف للبلاذري ٥/٢٣٣ ،
[4]۔ حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: أنشدني العباس بن محمد بن الفضل بن يوسف بن أبي يوسف لعبد الله بن المبارك:
ألا يا حيفة تعلوه حيفة ... وأعيى قارئاً ما في الصحيفة
أمثلك لا هُديت ولست تُهدى ... تعيب أخا العفاف أبي حنيفة
تعيب مشمرا سهر الليالي ... وصام نهاره لله خيفة
وصان لسانه عن كل إفك ... وما زالت جوارحه عفيفة
يعف عن المحارم والملاهي ... ومرضاة الإله له وظيفة
فمن كأبي حنيفة في نداه ... لأهل الفقر في السنة الجحيفة
( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ص 140 )
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں