اعتراض نمبر 97:
کہ حماد بن سلمہ ابو حنیفہ کو ابو جیفہ (مردار کا باپ) کہتے تھے۔
أَخْبَرَنِي الأَزْهَرِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن العباس، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو القاسم بن بشار، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن راشد الأدمي، قال: سمعت أبا ربيعة فَهْدَ ابن عوف، يقول: سمعت حماد بن سلمة، يكني أبا حنيفة: أبا جيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ قارئین کرام اس کی وجہ سے ابوحنیفہ کے مخالفین کا اس کے ساتھ ادب کا درجہ دیکھ لیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ بے شک خطیب متعصب ہے اور الازھری بھی متعصب ہے لیکن ہمیں یہ خیال نہ تھا کہ بے شک یہ دونوں ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں اس جیسی احمقانہ بات لکھ کر غصہ کا اظہار کریں گے۔
اور وہ بھی محمد بن العباس الحزاز جیسے آدمی کی سند سے جس سند میں ابراہیم بن راشد الادمی ہے جو کہ ابن عدی کے ہاں متہم ہے جیسا کہ اس کا ذکر امام ذہبی نے کیا ہے۔
اور ابو ربیعہ فہد بن عوف کو تو ابن المدینی نے جھوٹا قرار دیا ہے[1]۔
اور حماد بن سلمہ جس کی طرف یہ احمقانہ بات منسوب کی گئی ہے وہ ان آفت زدہ روایات کا راوی ہے جو ان کتابوں میں ہیں جو موضوعات پر لکھی گئی ہیں اس کی کتابوں میں اس کے لے پالک نے اپنی مرضی سے بہت کچھ داخل کر دیا تھا جو رسوائی کا باعث ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے کہا ہے۔ اور بخاری نے اس سے اجتناب کیا اور مسلم نے اس کی صرف وہ روایات ذکر کی ہیں جو اس کے اختلاط کے عارضہ میں مبتلا ہونے سے پہلے کی ہیں اور تخلیط سے محفوظ ہیں۔ اور وہ اپنی فضیلت اور اچھی شہرت کے باوجود عربیت میں مسکین تھا۔ اس کی ابتدائی شہرت اچھی نہ تھی۔ اور وہ آخر عمر میں حشویہ کے ہاتھوں میں بڑا خطرناک ہتھیار بن گیا تھا اور اس کی مروی روایات میں یہ روایت بھی ہے کہ میں نے اپنے رب کو ایک بے ریش جوان آدمی کی صورت میں دیکھا جس کے بال بہت گھنگھریالے تھے[2]۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت ہی بلند ہے اور جن لوگوں نے اس کا دفاع کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ وہ یا تو اس کے حال سے بے خبر ہوں گے یا کج رو ہوں گے۔
ہم اللہ تعالی سے سلامتی چاہتے ہیں۔
اور اگر یہ کلمہ اس سے ثابت ہو جائے تو اس حماقت پر تو اس پر تعزیر واجب ہوگی جس حماقت کو زبان پر لانے سے بازاری آدمی بھی انکار کرتا ہے۔ اور آپ کو علم ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حطیٸہ کو تعزیر لگائی تھی جبکہ اس نے زبرقان کے بارہ میں یہ اشعار کے تھے۔
دع المكارِمَ لا تَرحَلْ لبُغيتها
واقعدْ فإنك أنتَ الطاعِمُ الكاسى
بزرگیوں کو چھوڑ دے اور ان کی تلاش میں سفر نہ کر۔
اور بیٹھا رہ کیونکہ بے شک تو
بہت ہی کھانے والا پہننے والا ہے۔
جیسا کہ اس کا بیان پہلے بھی ہو چکا ہے اور یہ اشعار تو اس احمقانہ جملہ (ابو جیفہ) کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔
اور خطیب کے ہاں انصاف کی بربادی ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے
مطاعن میں اس جیسی باتیں ذکر کر رہا ہے۔
پختہ بات ہے کہ مناسب تو یہ تھا کہ یہ بات حماد بن سلمہ کی انتہائی بے وقوفی پر اطلاع دینے کے لیے اور اس کی بے ہودہ گوئی واضح کرنے کے لیے اس کے مطاعن میں ذکر کرتا۔ بشرطیکہ خطیب کی نظر میں اس حکایت کا ثبوت فرض کر لیا جائے۔
اور ہو سکتا ہے کہ عبد الله بن المبارک نے اس فحش کلام کرنے والے کے رد کا ہی ارادہ کیا ہو جبکہ اس نے کہا :
ألا يا جيفة تعلوك جيفه
وأعيا قارىء ما في صحيفه
خبردار اے گلی سڑی مردار لاش اس کا بد بودار ہونا تجھ پر چھا جائے۔
اور اے وہ شخص جو اس چیز کو پڑھنے سے عاجز ہے جو قرآن میں لکھی ہوتی ہے۔
امثلك لا هديت ولست تهدى
يعيب اخا العفاف ابا حنيفة
کیا تیرے جیسا آدمی بھی راہنمائی کر سکتا ہے حالانکہ تو خود راہ راست پر نہیں ہے۔
پاک دامنی والے ابوحنیفہ پر عیب لگاتا ہے۔
اور اس نے آخر تک ان اشعار کو پڑھا جو ابن ابی العوام الحافظ نے العباس بن الفضل یوسف بن ابی یوسف کی سند سے عبد الله بن المبارک سے نقل کیے ہیں[4]۔ پس اللہ تعالی ابو حنیفہ کی جانب سے ابن المبارک کو جزاء خیر عطا فرمائے کہ اس نے ظالم کو اس کی زیادتی کے مطابق بدلہ دے دیا۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ فهد بن عوف، واسمه زيد.
روى عن حماد بن زيد.
قال ابن المديني: كذاب، يكنى أبا ربيعة.
وروى عن حماد بن سلمة، وشريك.
وعنه أبو حاتم، ومحمد بن الجنيد، وتركه مسلم، والفلاس.
وقال أبو زرعة: اتهم بسرقة حديثين.
(ميزان الاعتدال ٣/٣٦٦ )
وقال عَمْرو بْن علي أبو ربيعة صاحب أبي عَوَانة متروك الحديث.
(الكامل في ضعفاء الرجال ٤/١٦٧)
زيد بن عَوْف أَبُو ربيعَة الْقطيعِي ولقبه فَهد
يروي عَن حَمَّاد بن سَلمَة وَأبي عوَانَة
قَالَ عَليّ ذهب وَقَالَ الفلاس وَمُسلم بن الْحجَّاج مَتْرُوك الحَدِيث وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ ضَعِيف
( الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ١/٣٠٦ )
[2]۔ بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ٧/٢٢٤ ،
إبطال التأويلات - ط إيلاف ١/١٤٣
[3]۔ جامع الأحاديث ٢٦/٣٢٨ ، أنساب الأشراف للبلاذري ٥/٢٣٣ ،
[4]۔ حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: أنشدني العباس بن محمد بن الفضل بن يوسف بن أبي يوسف لعبد الله بن المبارك:
ألا يا حيفة تعلوه حيفة ... وأعيى قارئاً ما في الصحيفة
أمثلك لا هُديت ولست تُهدى ... تعيب أخا العفاف أبي حنيفة
تعيب مشمرا سهر الليالي ... وصام نهاره لله خيفة
وصان لسانه عن كل إفك ... وما زالت جوارحه عفيفة
يعف عن المحارم والملاهي ... ومرضاة الإله له وظيفة
فمن كأبي حنيفة في نداه ... لأهل الفقر في السنة الجحيفة
( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ص 140 )
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ جلیل القدر محدثین میں سے ہیں، جن کی خدماتِ حدیث بے حد و بے حساب ہیں۔ ان کے مقام و مرتبہ کا ہم دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ تاہم بعض تاریخی حوالوں سے ان کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں رائے میں سختی نظر آتی ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنا انصاف کا تقاضا ہے۔ تین بنیادی اسباب ان کے اس موقف کے پیچھے نظر آتے ہیں:
1۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم علل الحدیث میں معرفت کی بنیاد پر بعض حدیث پر کلام کرتے تو اس کو امام حماد یہ سمجھتے کہ امام ابو حنیفہ اپنی رائے سے حدیث کو رد کر رہے ہیں۔
2۔ امام حماد ان محدثین میں سے تھے جو اہل الرائے سے سخت تعصب رکھتے تھے۔
3. امام حماد کا شدت مزاج اور سخت رویہ
1. علمِ علل الحدیث کی محدود تدوین
امام ابو حنیفہ کا علل الحدیث سے حدیث کی جانچ کرنے کو امام حماد بن سلمہ یہ سمجھتے تھے کہ امام صاحب اپنی رائے سے حدیث کو ترک کرتے ہیں
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے زمانے میں علمِ علل الحدیث اپنی مکمل صورت میں مدون نہیں ہوا تھا۔ علمِ علل ایک نہایت باریک اور دقیق فن ہے، جس میں احادیث کے مخفی نقائص کو پہچانا جاتا ہے۔ اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے "سب سے دقیق اور بلند پایہ علم" قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "یہ علم صرف اسے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے غیر معمولی فہم اور حفظ عطا کیا ہو"۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس علم کی فطری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ باوجود اس کے کہ علمِ علل اُس زمانے میں مدون نہیں تھا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گہری بصیرت کے ذریعے حدیث کی علتوں کو پہچان لیتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات، جو بظاہر صحیح دکھائی دیتی تھیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان کی گہرائی میں جا کر ان کے نقص کو پہچانا اور امت کو علمی بنیاد پر ان کے عمل سے روکا۔ بعد کے محدثین نے بھی کئی مواقع پر ان کی تحقیق کی تصدیق کی۔ مثلا
اکثر غیر مقلدین امام اعظم کے خلاف تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ امام صاحب نے ایک حدیث کو سجع (شاعری کی ایک قسم ) کہہ کر رد کیا۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي - بمرو - حدثكم محمد بن علي الحافظ، حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد عن أبيه قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم " فقال: هذا سجع.
اب یہاں ہمارا جواب یہ ہیکہ 《 افطر الحاجم والمحجوم》 والی حدیث ہی منسوخ ہے ،
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر کلام کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر محدثین نے بھی اس صحیح سند سے مروی روایت پر کلام کیا ہے جس کی تفصیل نصب الرایہ للزیلعی میں دیکھیں ۔ مزید یہ کہ غیر مقلد البانی نے بھی اس کو منسوخ کہا ہے۔ بلکہ علل الحدیث کے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "باطل" کہا ہے (علل رقم 732) جو کہ سجع سے کہیں گنا زیادہ سخت لفظ ہے تو سب سے پہلے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ پر گستاخی کا فتوی لگایا جائے ۔ لیکن وہاں متعصب اصحاب الحدیث کی زبانوں کو تالا لگ جائے گا کہ یہاں ابو حنیفہ تو ہے نہیں ، یہاں ہمارا ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ہے ، لہذا وہ کہیں گیں کہ علل الحدیث کی وجہ سے ، اس روایت کو ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے ، تو یہی علل اگر ابو حنفیہ رحمہ اللہ استعمال کریں تو اصحاب الحدیث کے آئمہ ، بلا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام نامی تک بگاڑنے ، لعن طعن اور کافر کہنے تک آ جاتے ہیں ، اللہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تعصب کرنے والوں سے درگزر فرمائے ۔
اعتراض نمبر 53 کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔
اسی طرح امام صاحب نے سفیاں ثوری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک علل کی ایک بات یوں کہی کہ , ابن عدی کہتے ہیں :
"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الحميد الحماني سمعت أبا سعد الصاغاني يقول جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال ما ترى في الأخذ عن الثوري فقال اكتب عنه ما خلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي وحديث جابر الجعفي."
ایک شخص ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا ثوری سے روایت لینے کے بارے میں آپکی کیا راۓ ہے ابو حنیفہ نے کہا :"کہ ان سے روایت لکھ سکتے ہو سوائے حدیث ابی اسحاق عن حارث عن علی اور جابر جعفی کی روایت سےـ" (الكامل ابن عدي ج٢ ص ٣٢٨)
یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علل الحدیث سے واقفیت کی ایک مثال ہیکہ امام صاحب نے اس وقت خاص سند کی خامی بتائی جب باقیوں کا دھیان نہ تھا ۔ اسی طرح جابر جعفی کی حقیقیت کسی پر عیاں نہ تھی یہاں تک کہ امام صاحب نے اس کو کذاب کہا اور بعد کے تمام محدثین نے اسی امام صاحب کی اس جرح کو بالکل قبول کیا ، تفصیل دیکھیں (امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام 393 )
لہٰذا جب امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض فیصلوں پر تعجب یا اعتراض کیا، تو یہ اختلاف دراصل علمِ علل کی اُس وقت کی محدود تفہیم کی وجہ سے تھا، نہ کہ کوئی ذاتی عناد۔

2. امام حماد بن سلمہ اہل الحدیث سے تھے جن کا اہل الرائے سے رویہ تعصب والا تھا۔
قارئیں تفصیل ان لنکس پر پڑھ سکتے ہیں۔
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
3. فطری غصہ اور شدتِ مزاج
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ طبیعت میں کچھ سخت مزاج تھے۔ سخت مزاجی بعض اوقات انسان کی رائے میں شدت لے آتی ہے۔ چنانچہ ان سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بعض سخت الفاظ بھی منقول ہیں،
181) قال أبو داود النحوي سليمان بن معبد ليحيى بن معين:حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: سمعت حماد بن سلمة يقول: أعض الله أبا حنيفة بكذا وكذا، لا يكني، فقال ابن معين: «أساء أساء» .
حماد بن سلمہ نے کہا : اللہ ابو حنیفہ کی فلاں فلاں چیز کاٹ دے اور یہ بات کنایتہ نہیں کہی گئی تو امام ابن معین فرماتے تھے حماد نے برا کہا ، برا کہا۔
یہ حماد بن سلمہ کی شان کے خلاف تھا کہ وہ اس قسم کے فضول جملے کہتے البتہ یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اپنے حنفی ہونے کا کمال مظاہرہ فرمایا اور ببانگ دہل حماد بن سلمہ کے جملوں پر ان کو غلط کہا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ بعض محدثین جیسے حماد بن سلمہ کا رویہ اہل الرائے خصوصا امام اعظم کیلئے انتہائی متشدد ، متعصب اور سخت تھا ،
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہیکہ جرح و تعدیل کے امام ، یحیی بن معین نے دفاع ابو حنیفہ کر کے امت کو تعلیم دی ہیکہ امام اعظم کے خلاف بعض محدثین کی جو رائے ہے وہ انصاف پر مبنی نہیں ہے لہذا وہ رائے بھی قابل قبول نہیں ۔
لہذا دفاع حنفیت ، یہ یحیی بن معین کا طریقہ ہے جو ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔
حدثنا محمد بن ابراہیم بن جناد ، قال حدثنا ابو بکر الاعین قال: حدثنا منصور بن سلمة ابو سلمة الخزاعی ، قال:سمعت حماد بن سلمة یلعن ابا حنیفة و سمعت شعبة یلعن ابا حنیفة
یہ امر انسان کی فطری بشریت کا مظہر ہے کہ شدید غصے یا جذباتی کیفیت میں بعض سخت کلمات زبان سے نکل جاتے ہیں، جو عمومی حالات میں نہ نکلتے۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ یہ سختی امام حماد رحمہ اللہ کے ذاتی غم و غصہ کا نتیجہ تھی، اور علمی دنیا میں اس کا وزن دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ جذبات پر۔
لہٰذا اس بنیاد پر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی، اور امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کا عمومی مقام بھی محفوظ ہے۔
نوٹ : امام شعبہ سے لعنت کے الفاظ ثابت نہیں ۔
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻗﺎﻝ: " ﻛﺎﻥ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ اﻝﺟﺎﻫﻠﻴﺔ ﻟﻪ ﻣﺤﺠﻦ ﻳﺴﺮﻕ ﺑﻪ ﻣﺘﺎﻉ اﻟﺤﺎﺝ، ﻓﺈﺫا ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﺗﺴﺮﻕ اﻟﺤﺎﺝ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺳﺮﻕ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺴﺮﻕ ﻣﺤﺠﻨﻲ.
ﻗﺎﻝ ﺣﻤﺎﺩ: ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻫﺬا ﺣﻴﺎ اﻟﻴﻮﻡ، ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ
(الأخبار الموفقيات لزبير بن بكار)
کہ زمانی جاہلیت کا ایک چور اگر آج ہوتا تو امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہوتا۔
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی اس روایت میں طنزیہ انداز میں اصحابِ امام ابوحنیفہ پر تبصرہ موجود ہے۔ مگر اگر اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی سیرت پر نگاہ ڈالی جائے تو حقیقت بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
▪︎کیا ان اصحاب ابی حنیفہ میں قاضی القضاة امام ابو یوسف رحمہ اللہ نہیں تھے، جنہوں نے عدل و انصاف کی عظیم مثالیں قائم کیں؟
▪︎کیا وہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ نہیں تھے، جن کی تصنیفات سے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے عظیم آئمہ نے استفادہ کیا؟
▪︎کیا وہ وکیع بن جراح، مکی بن ابراہیم، اور دیگر جلیل القدر محدثین نہیں تھے، جن سے صحیح بخاری کی اعلیٰ اسانید چلتی ہیں؟
ان تمام عظیم شخصیات کا تعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تھا۔ یہ حضرات نہ صرف علم و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے علمی سرمائے کا ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔
لہٰذا اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر طنز کرنا دراصل تاریخی حقیقتوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے، جسے حسنِ ظن اور علم کی روشنی میں درست انداز میں دیکھنا چاہیے۔
نتیجہ:
ہم امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے مقام و مرتبے کا پورا احترام کرتے ہیں، اور ان کی دینی خدمات ہمارے لیے قابلِ قدر ہیں۔ تاہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر ان کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کو قبول کرنا علمی دیانت کے خلاف ہوگا، کیونکہ:
1۔ یا تو یہ اعتراضات غصے اور شدتِ مزاج کے تحت صادر ہوئے تھے، جیسا کہ دیگر ائمہ کرام کے تبصروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
2۔ یا ان اعتراضات کی بنیاد علمِ علل الحدیث کی عدم تدوین اور اس فن کی باریکیوں کے عدمِ فہم پر تھی، جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بصیرت اور علمی گہرائی کو نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ تھا۔
3۔ نیز امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی رائے کو اگر معیار مانا جائے تو اس سے امت کے ان جلیل القدر محدثین اور فقہاء کی توہین لازم آئے گی، جنہوں نے براہ راست امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کیا، اور جن کے علم و تقویٰ پر پوری امت کا اجماع ہے۔
4۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کا ثبوت نہ صرف ان کے زمانے کے علما کے اقرار سے ملتا ہے بلکہ آج تک چودہ صدیوں پر محیط ان کے علمی نظام کے اثرات سے بھی واضح ہوتا ہے۔
5۔ کسی ایک عالم کا وقتی غصے میں کوئی سخت تبصرہ کرنا ان کی اپنی بشری کمزوری کا مظہر ہو سکتا ہے، مگر اس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسی آفاقی شخصیت کے مقام میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔
لہٰذا ہم پورے حسنِ ادب کے ساتھ یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں کیے گئے اعتراضات نہ علمی معیار پر پورے اترتے ہیں، نہ عدل و انصاف کے تقاضے پر، اور نہ ہی امت کے متفقہ اجماعی موقف سے ہم آہنگ ہیں۔
ایسے اقوال کو حسنِ ظن اور علمی اصولوں کی روشنی میں نظر انداز کرنا ہی دانشمندی اور دیانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، اہلِ حق کا ادب کرنے اور اپنی زبان و قلم کو عدل و انصاف کے دائرے میں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
قارئیں تفصیل ان لنکس پر پڑھ سکتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ
ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
▪︎ دفاع احناف لائبریری میں موجود رسالہ : امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت ، مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب
امام شافعی رحمہ اللہ سے امام محمد رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق پر دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
● سلسلہ دفاع امام محمد ، قسط نمبر 1 :
الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل ) از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں