اعتراض نمبر 1: امام یعقوب فسوی (م 277ھ) نے اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ اور مشہور محدث امام اعمشؒ کو ان روایات کا مصداق قرار دیا ہے جن میں عراق کو فتنوں کا منبع بتایا گیا ہے، مثلاً حدیثِ "قرن الشیطان" وغیرہ۔
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 1:
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) نے اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ اور مشہور محدث امام اعمشؒ کو ان روایات کا مصداق قرار دیا ہے جن میں عراق کو فتنوں کا منبع بتایا گیا ہے، مثلاً حدیثِ "قرن الشیطان" وغیرہ۔
مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ
وَأَبِي حَنِيفَةَ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَصْحَابِهِ وَالْأَعْمَشِ وَغَيْرِهِ
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/746 )
جواب : یہ رائے، جو کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام اعمشؒ جیسے عظیم علمی شخصیات کے متعلق ہے، نہ صرف غیر مناسب بلکہ تعصب پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ امام اعمشؒ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں 850 سے زائد روایات مروی ہیں۔ اگر ان پر یعقوب فسوی کی تنقید قبول کر لی جائے تو لازم آئے گا کہ صحیحین کی ان تمام احادیث پر سوال اُٹھے — تو یہ سب روایات مشکوک ہو جائیں گی، جو امت کے اجماع کے خلاف ہے۔ جو کسی صورت ممکن نہیں، اور فرقہ غیر مقلد برصغیری اہلِ حدیث بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اسی طرح امام ابو حنیفہؒ پر بلا دلیل اس نوعیت کی تنقید محض ایک فکری زیادتی ہے جس کو اس کتاب کے محقق دکتور ضیاء العمری نے بھی تسلیم کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
أورد الفسوي عدة روايات في ذم الإمام أبي حنيفة رحمه الله ۔۔۔ ولولا أمانة النشر الحذفتها، غفر الله لنا ولهم جميعاً ۔
یعنی یعقوب فسوی نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں کئی ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کی وجہ وہ علمی اختلاف ہے جو دوسرے صدی ہجری میں شدت اختیار کر گیا تھا۔ یہ اختلاف دو علمی مکاتب فکر کے درمیان تھا: ایک وہ جو "اہل الرائے" کہلاتا تھا اور اس کی قیادت امام ابو حنیفہؒ کر رہے تھے، دوسرا "اہل الحدیث" کا مکتبہ فکر تھا۔اس اختلاف کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف کے علماء اجتہاد کی بنیاد پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے شریعت کی خدمت کی: محدثین نے احادیثِ نبویہ کو محفوظ رکھا، اور فقہا—جن میں اہل الرائے بھی شامل ہیں—نے انہی احادیث سے شریعت کے احکام اخذ کیے۔ اس طرح دونوں گروہوں کی محنت شریعت کی خدمت میں لگی۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی محنت کے نتائج کو دیکھیں، ان سب کا ذکر خیر سے کریں، اور ان کے درمیان اجتہادی اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اگر ہم آج اس پرانے اختلاف کو غیر جانب دار اور مثبت انداز سے دیکھیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ سب ہی لوگوں کی خیر خواہی کے لیے کوشاں تھے، دین کے محافظ تھے، اور ان کی کوششیں دراصل ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی تھیں، چاہے اس وقت وہ بظاہر متضاد لگتی ہوں۔
ہر کسی کا ایک رخ ہوتا ہے جس کی طرف وہ مائل ہوتا ہے، پس ہمیں چاہیے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لیں۔ امام ابو حنیفہؒ بھی دیگر مجتہد اماموں کی طرح ایک معتبر شخصیت ہیں جنہوں نے علمی دنیا میں بلند مقام پایا، اور ان پر طعن کرنے سے ان کی قدر کم نہیں ہوتی۔
امام ابو حنیفہؒ پر طعن کرنے والی روایات، جن میں سے کچھ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں نقل کی ہیں، بعد میں دونوں فریقوں کے درمیان مناظروں اور شدید علمی مباحث کا باعث بن گئیں، جو کہ قدیم اور جدید علما کی کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یقیناً، کچھ محدثین کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر سخت الفاظ، الزامات، اور کفر و فسق جیسے بہتان ناقابل قبول ہیں۔ ان میں سے کچھ تو باہمی اختلافات کی شدت کی وجہ سے تھے، اور کچھ ایسے اقوال یا نظریات کے غلط انتساب کی وجہ سے پیدا ہوئے جنہوں نے بعض محدثین کو ناراض کر دیا، تو ان کے منہ سے ایسے کلمات نکل گئے جو انہیں نہیں کہنا چاہیے تھے۔اگر ناشر کی امانت داری نہ ہوتی تو ہم ان جملوں کو حذف کر دیتے۔ اللہ ہمیں اور انہیں معاف فرمائے۔
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/746 )
اگر یعقوب فسوی کی یہ بات تسلیم کر لی جائے تو پھر امتِ مسلمہ صدیوں سے ان راویوں کی احادیث پر عمل کر رہی ہے جنہیں خود یعقوب فسوی فتنہ انگیز قرار دے رہے ہیں — اور یہ نہ صرف تاریخی طور پر نامعقول بات ہے بلکہ علمی دیانت کے بھی خلاف ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا تعلق اہلِ کوفہ کے ان گروہ سے تھا جو عقیدے میں اعتدال، سلفِ صالحین کی تعظیم، تقدیر پر ایمان، اور گناہگار مسلمانوں کے لیے نرمی جیسے اصولوں پر قائم تھے۔ اس کی ایک خوبصورت جھلک اس روایت میں بھی ملتی ہے، جو مسند الامام أبي حنيفة میں مذکور ہے:
حَدثنَا أَبُو بكر الطلحي، ثَنَا عُثْمَان بن عبد الله الطلحي، ثَنَا إِسْمَاعِيل بن مُحَمَّد الطلحي، ثَنَا سعيد بن سَالم الْبَصْرِيّ، سَمِعت أَبَا حنيفَة، يَقُول: لقِيت عَطاء بِمَكَّة، فَسَأَلته عَن شَيْء فَقَالَ: من أَيْن أَنْت؟ قلت: من أهل الْكُوفَة، قَالَ: أَنْت من الَّذين فارقوا دينهم وَكَانُوا شيعًا، قلت: نعم. قَالَ: فَمن أَي الْأَصْنَاف أَنْت؟ قلت: مِمَّن لَا يسب السّلف، ويؤمن بِالْقدرِ، وَلَا يكفر أحدا بذنب، قَالَ لي عَطاء: عرفت، فألزم. سعید بن سالم بصری روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ کو یہ فرماتے سنا: میں مکہ مکرمہ میں حضرت عطاءؒ (بن ابی رباح) سے ملا اور ان سے ایک مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے پوچھا: "کہاں سے آئے ہو؟" میں نے عرض کیا: "میں کوفہ کا رہنے والا ہوں۔"
عطاءؒ بولے: "تم اس بستی سے ہو جس کے لوگ دین میں فرقہ فرقہ ہو گئے؟" میں نے کہا: "جی ہاں۔" انہوں نے پھر پوچھا: "تم ان میں سے کس گروہ سے ہو؟" میں نے جواب دیا: "میں ان لوگوں میں سے ہوں جو سلف کو برا نہیں کہتے، تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں، اور کسی مسلمان کو گناہ کے باعث کافر نہیں کہتے۔" حضرت عطاءؒ نے فرمایا: "تم نے حق کو پہچانا، اسی پر جمے رہو۔"
(مسند الامام أبي حنيفة، ص: 23 ، اگرچہ اس روایت کی سند میں راوی سعید بن سالم پر کچھ کلام ہوا ہے، تاہم مضمون کی تائید دیگر کئی معتبر دلائل سے ہوتی ہے مثلا یہی مضمون عقیدہ طحاویہ میں ہے جو کہ امام اعظم کے عقائد پر مشتمل معتمد ترین کتاب ہے ۔ اسی وجہ سے متعدد کٹر سلفی علماء نے بھی اس روایت کو بطورِ استدلال اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، مثلاً: أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة ١/١٩٨ — محمد بن عبد الرحمن الخميس ، الإصابة في الذب عن الصحابة - ١/١٣٢ — عبد الهادي العمري ، موسوعة مواقف السلف في العقيدة والمنهج والتربية ٢/١٣٩ — المغراوي ، من أعلام السلف ٣/٨ — أحمد فريد )
یہ تمام شواہد اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ اہلِ حق میں سے تھے اور اُن پر "اہلِ فتنہ" ہونے کا الزام ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، جو نہ عقل مانتی ہے نہ روایت۔
اس پر مزید یہ کہ خود یعقوب فسوی کے متعدد اساتذہ امام ابو حنیفہؒ کی واضح توثیق اور تحسین کرتے ہیں، جو اس تنقید کو مزید کمزور کر دیتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
محدث یعقوب فسوی کے ثقہ ثبت شیوخ سے امام ابو حنیفہؒ کی واضح تعریف و توصیف۔
اصولی بات یہ ہے کہ اگر کسی عالم کے شیوخ، کسی شخصیت کی مدح و توثیق کریں تو ان کے شاگرد کی معترضانہ رائے قابلِ ترجیح نہیں رہتی۔
بعض محدثین نے رائے، قیاس یا اجتہاد کی بنیاد پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تنقید کی ہے، جیسے کہ یعقوب فسوی نے یہاں کوئی دلیل ذکر نہیں کی کہ امام ابو حنیفہ کس طرح اس حدیث کے مصداق ہیں، بلکہ یعقوب فسوی نے قیاس اور رائے کے استعمال کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کے خلاف تعصب میں آ کر جرح کی جو کہ مردود ہے، جس کی تفصیل اس پوسٹ میں ملاحظہ ہو سکتی ہے۔
اعتراض نمبر 3 :بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
احادیث میں مذکور فتنوں سے مراد ؟
امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( 368 – 463ھ) لکھتے ہیں : اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم – والله اعلم – الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق . ”واللہ اعلم ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔“ [ الاستذكار : 519/8 ]
علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م : 449 ھ) لکھتے ہیں : قال الخطابي : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق : ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس : إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن : الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر : مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره : كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.
حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا ! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“ [ شرح صحيح البخاري : 44/10 ]
شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرما تے ہیں : وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق. ”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ ( خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے ) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ “ [ فتح الباري : 13/13 ] مذکورہ بالا 3 حوالے غیر مقلدین کی ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں
یعقوب فسوی کی متعصبانہ تنقید کے برعکس بعض مشہور محدثین نے امام ابو حنیفہؒ کو اس مشہور حدیث کا مصداق قرار دیا ہے جس میں فرمایا گیا: "اگر ایمان ثریا (ستارے) پر بھی ہو گا، تو فارس کے لوگوں میں سے ایک شخص اسے پا لے گا۔" (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث: 4897)
حافظ جلال الدین سیوطی شافعی اور امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی الشافعی جیسے جلیل القدر علماء نے اس حدیث کا مصداق صراحتاً امام اعظم ابو حنیفہؒ کو قرار دیا ہے۔ (سبل الهدى والرشاد، 10/116)
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں