ابن قتیبہ (213ھ - 276ھ) کی کتاب تأويل مختلف الحديث میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات
ابن قتیبہ (213ھ - 276ھ) کی کتاب تأويل مختلف الحديث میں فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر اعتراضات کے جوابات
اس پوسٹ میں ہم فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں محدث ابن قتیبہ (213ھ - 276ھ) کی کتاب تأويل مختلف الحديث میں موجود تنقیدات و اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ البتہ وہ اعتراضات و تنقیدات جن کا تفصیلی جواب ہم پہلے کسی اور پوسٹ میں دے چکے ہیں، اُنہیں یہاں دوبارہ ذکر نہیں کریں گے، بلکہ ان کا لنک فراہم کریں گے جو ہماری "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔ اس طرح قارئین وہاں جا کر ان کے جوابات تفصیل سے مطالعہ کر سکیں گے۔
اعتراض نمبر 1:
حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَصْمَعِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مِخْنَفٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَشْرِقِ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِكِتَابٍ مِنْهُ بِمَكَّةَ، عَامًا أَوَّلَ، فَعَرَضَهُ عَلَيْهِ مِمَّا كَانَ يَسْأَلُ عَنْهُ، فَرجع عَن ذَلِك كُله.فَوضع الرَّجُلُ التُّرَابَ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مَعْشَرَ النَّاسِ أَتَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ عَامًا أَوَّلًا، فَأَفْتَانِي بِهَذَا الْكِتَابِ، فَأَهْرَقْتُ بِهِ الدِّمَاءَ، وَأَنْكَحْتُ بِهِ الْفُرُوجَ ثُمَّ رَجَعَ عَنْهُ الْعَامَ.
یحیی بن مخنف کہتا ہیکہ ایک شخص مشرق سے ابو حنیفہؒ کے پاس مکہ آیا، ایک سال پہلے۔ وہ ایک کتاب لے کر آیا جس میں وہ مسائل درج تھے جن کے بارے میں اس نے ابو حنیفہؒ سے سوال کیا تھا۔ امام صاحب نے وہ کتاب دیکھی تو ان تمام مسائل سے رجوع کرلیا۔ اس شخص نے اپنے سر پر خاک ڈال لی اور کہا: "اے لوگوں! میں پچھلے سال اس شخص کے پاس آیا تھا، اس نے مجھے اس کتاب کے مطابق فتویٰ دیا تھا، میں نے انہی فتووں کے مطابق خون بہائے اور نکاح کیے، اور اب اس سال وہ ان سب سے رجوع کرچکا ہے۔
(تأويل مختلف الحديث ١/١٠٣)
جواب :اس روایت میں یحییٰ بن مخنف یہ راوی مجہول العین ہے ، اس کا تذکرہ ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملا ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 2:
قَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: حَدثنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ الرَّجُلَ قَالَ لَهُ: كَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: كَانَ رَأْيًا رَأَيْتُهُ، فَرَأَيْتُ الْعَامَ غَيْرَهُ. قَالَ: فَتَأْمَنُنِي أَنْ لَا تَرَى مِنْ قَابَلٍ شَيْئًا آخَرَ؟ قَالَ أَبُو حنيفَة: لَا أَدْرِي كَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ. فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: لَكِنِّي أَدْرِي أَنَّ عَلَيْكَ لَعْنَةَ اللَّهِ.
ایک آدمی نے امام ابو حنیفہؒ سے کہا: "یہ کیا معاملہ ہے؟" امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: "یہ ایک رائے تھی جو میں نے اختیار کی تھی، مگر اس سال میں نے دوسری رائے اختیار کرلی ہے۔" اس شخص نے کہا: "کیا تم مجھے اس بات کی ضمانت دیتے ہو کہ آئندہ سال پھر کوئی اور رائے اختیار نہ کرو گے؟" امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: "مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ سال کیا ہوگا۔" اس پر اس شخص نے کہا: "مگر میں جانتا ہوں کہ تم پر اللہ کی لعنت ہے!"
(تأويل مختلف الحديث ١/١٠٣)
جواب:
امام ابو حنیفہ کا اپنی رائے سے رجوع کرنا یہ کوئی عیب نہیں، بلکہ اجتہاد کی روح ہے۔ فقہاء و مجتہدین ہمیشہ نئے دلائل کی روشنی میں اپنی رائے سے رجوع کرتے رہے ہیں ، اس میں امام اعظم انوکھے نہیں۔ مجتہد کا اپنی رائے بدل دینا کوئی کمزوری نہیں بلکہ یہ اس کی علمی دیانت، قوتِ استدلال اور وسعتِ نظر کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ایک سچا عالم جب کسی مسئلے میں زیادہ مضبوط دلیل یا نئے حالات کا تقاضا دیکھتا ہے تو بلا جھجک اپنی پہلی رائے چھوڑ دیتا ہے۔ یہی عمل دراصل شریعت کی روح اور اجتہاد کا حسن ہے۔
مثال کے طور پر امام شافعیؒ کو ہی دیکھ لیجیے: ان کے دو قول ہیں—
* ایک "قولِ قدیم" (عراق میں)
* دوسرا "قولِ جدید" (مصر میں)۔
اب کیا اس بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ (نعوذ باللہ) امام شافعی نے پہلے امت کو گمراہ کیا اور بعد میں اپنی بات بدل لی؟
کیا کوئی ابن قتیبہ یا دوسرے ناقدین یہ جرأت کریں گے کہ امام شافعی کے عراق والے اقوال پر الزام لگائیں کہ انہوں نے امت کو برباد کردیا؟
یقیناً نہیں!
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ امام شافعی کے علم کی پختگی، وسعت اور حق پسندی کی دلیل ہے۔ جیسے جیسے ان کے سامنے نصوص اور دلائل کا دائرہ وسیع ہوا، انہوں نے اپنے اجتہاد کو بہتر سے بہتر بنایا۔ یہی طرزِ عمل امام مالکؒ، امام احمدؒ، امام ابو یوسفؒ اور دوسرے بڑے مجتہدین میں بھی نظر آتا ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ:
اگر امام شافعیؒ اور باقی مجتہدین کے رجوع کو علمی عظمت سمجھا جاتا ہے، تو امام ابو حنیفہؒ پر یہی رجوع کیوں طعن کا ہتھیار بنا دیا جاتا ہے؟
کیا امام اعظمؒ اتنے آسان ہدف ہیں کہ فقہ سے ناواقف ہر شخص اپنی نادانی کے نشتر صرف انہی پر آزمائے؟
حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا اپنی رائے سے رجوع کرنا ان کی دیانت، احتیاط اور دلیل کی پیروی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ الزام نہیں، بلکہ ان کے علمی مقام کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
دوم : اس سائل کا طعن "لَعْنَةُ اللهِ عَلَيْكَ" دراصل اسی شخص کی جہالت اور بدتہذیبی ہے، نہ کہ امام ابو حنیفہؒ پر کوئی الزام۔ علمی دنیا میں رائے کا بدلنا نہ صرف جائز بلکہ کمالِ دیانت کی دلیل ہے۔ اگر امام اعظم کا اپنی رائے سے رجوع کرنا لعنت کا سبب ہوتا تو پھر امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ—جنہوں نے کئی مسائل میں اپنی رائے بدلی—سب پر بھی لعنت ہونی چاہیے تھی؟ ہرگز نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ یہ لعنت امام ابو حنیفہؒ پر نہیں بلکہ اس شخص کے اپنے کھاتے میں جاتی ہے، کیونکہ اس نے ایک جلیل القدر امام کو برا بھلا کہا اور اپنی زبان کو آلودہ کیا۔ ایسے گستاخانہ الفاظ کسی عالمِ حق کے مقام کو کم نہیں کرتے بلکہ الٹا طعن کرنے والے کے لیے وبال اور ذلت کا باعث بنتے ہیں۔
اعتراض نمبر 3:
قَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: وَكَانَ الْأَوْزَاعِيُّ يَقُولُ: إِنَّا لَا نَنْقِمُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ رَأَى؛ كُلُّنَا يَرَى؛ وَلَكِنَّنَا نَنْقِمُ عَلَيْهِ أَنَّهُ يَجِيئُهُ الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فَيُخَالِفُهُ إِلَى غَيْرِهِ.
ابن قتیبہ کہتے ہیں: (اسی بارے میں) امام اوزاعی کہا کرتے تھے:
"ہم ابو حنیفہ پر اس بات کی وجہ سے نکیر نہیں کرتے کہ وہ رائے رکھتے تھے — ہم سب ہی رائے رکھتے ہیں — لیکن ہم ان پر اس وجہ سے نکیر کرتے ہیں کہ ان کے پاس نبی ﷺ کی حدیث آتی اور وہ اس کے خلاف کوئی اور رائے اختیار کرتے۔"
(تأويل مختلف الحديث ١/١٠٣)
جواب :
اولاً: ابن قتیبہ نے یہ بات بلا سند امام اوزاعی سے نقل کی ہے، حالانکہ ابن قتیبہ نے امام اوزاعی کو پایا ہی نہیں۔ امام اوزاعی کی وفات 157ھ میں ہوئی، جبکہ اس وقت تک ابن قتیبہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے یہ کلام منقطع ہے اور منقطع روایت کسی طور حجت نہیں بن سکتی۔
ثانیاً: امام اوزاعی رحمہ اللہ کا یہ جملہ دراصل اختلافِ اجتہاد کی ایک مثال ہے۔ وہ اہلِ شام کے بڑے فقیہ تھے اور ان کا منہج امام ابو حنیفہ سے مختلف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ حدیث کو رد نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے فہم، تاویل اور تطبیق میں اجتہاد فرماتے تھے۔ یہی اجتہاد کے اصول ہیں جن میں آئمہ کے درمیان اختلاف ہوا کرتا ہے۔
مزید برآں، ائمہ کرام کا ایک دوسرے کے بارے میں کلام ملنا کوئی نئی بات نہیں۔ مثلاً امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ امام اوزاعی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا:
"حديث ضعيف ورأي ضعيف"
کہ ان کی حدیث بھی ضعیف ہے اور رائے بھی۔
الخطيب (ج١٣ص٤٤٥)
اب سوال یہ ہے کہ: اگر امام احمد کے اس کلام کو لیا جائے تو کیا وہ حضرات جو امام اوزاعی سے امام اعظم پر جرح پیش کرتے ہیں کیا وہ امام اوزاعی کے بارے میں امام احمد کا یہ تبصرہ بھی قبول کرتے ہوئے اوزاعی کو بھی "ضعیف" مان لیں گے؟ ہرگز نہیں!
پس حقیقت یہ ہے کہ ایسے اقوال کو باہمی اختلافِ اجتہاد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، نہ کہ طعن و الزام کا ہتھیار بنا کر صرف امام ابو حنیفہ پر چسپاں کیا جائے۔
اعتراض نمبر 4:
حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَصْمَعِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ سُئِلَ عَنْ مُحْرِم لَمْ يَجِدْ إِزَارًا، فَلَبِسَ سَرَاوِيلَ، فَقَالَ: عَلَيْهِ الْفِدْيَةُ.
فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي الْمحرم:
«إِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا لَبِسَ سَرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ لَبِسَ خُفَّيْنِ»
فَقَالَ: دَعْنَا مِنْ هَذَا، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ.
(تأويل مختلف الحديث 1/104)
جواب :
اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 5:
قَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: وَرَوَى أَبُو عَاصِمٍ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ، فَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ سَرَقَ ودِيًّا٤ فَقَالَ: عَلَيْهِ الْقَطْعُ.
فَقُلْتُ لَهُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَر» ٥.
فَقَالَ: مَا بَلَغَنِي هَذَا.
قُلْتُ لَهُ: فَالرَّجُلُ الَّذِي أَفْتَيْتَهُ، رُدَّه.
قَالَ: دَعْهُ، فَقَدْ جَرَتْ بِهِ الْبِغَالُ الشُّهُبُ.
قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: أَخَافُ أَنْ تَكُونَ إِنَّمَا جَرَتْ بِلَحْمِهِ وَدَمِهِ.
ابو عاصم کہتے ہیں: ابو عوانہ نے بیان کیا کہ میں امام ابو حنیفہ کے پاس تھا، ان سے ایک شخص کے بارے میں سوال ہوا جس نے گُھنے ہوئے کجھور چرا لیے تھے، تو انہوں نے کہا: اس پر ہاتھ کاٹنا لازم ہے۔ میں نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے، اور انہوں نے رافع بن خدیج سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"پھل اور کھجور کے خوشے (تازہ کھجور) میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔" امام ابو حنیفہ نے کہا: یہ حدیث مجھے نہیں پہنچی۔ میں نے کہا: تو پھر جس شخص کو آپ نے فتویٰ دیا ہے، اس کو واپس بلا لیجیے۔ انہوں نے کہا: اسے چھوڑو، اس پر تو تیز رفتار خچر دوڑ چکے ہیں۔ ابو عاصم کہتے ہیں: مجھے ڈر ہے کہ شاید وہ خچر اس کے گوشت اور خون پر دوڑ چکے ہوں۔
(تأويل مختلف الحديث 1/104)
جواب :
ابن قتیبہ نے یہ روایت امام ابو عاصم النبيل (الضحاك بن مخلد؛ 123ھ – 212ھ) سے نقل کی ہے، لیکن ان کا ان سے کوئی سماع نہیں، کیونکہ ابو عاصم کی وفات 212 ہجری میں ہوئی جبکہ ابن قتیبہ کی پیدائش 213 ہجری میں ہے۔ اس لیے یہ سند منقطع ہے اور ضعیف شمار ہوتی ہے۔
تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ: حَدَّثْتُ أَبَا حَنِيفَةَ بِحَدِيث عبد الله، فِي الَّذِي قَالَ: «مَنْ يَذْبَحُ لِلْقَوْمِ شَاةً أُزَوِّجُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تُولَدُ لِي» فَفَعَلَ ذَلِك رجل، فَقَضَى ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهَا امْرَأَتُهُ وَأَنَّ لَهَا مَهْرَ نِسَائِهَا.
فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هَذَا قَضَاءُ الشَّيْطَانِ.
علی بن عاصم کہتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ کو عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت سنائی کہ ایک شخص نے کہا: "جو ہماری قوم کے لیے بکری ذبح کرے گا، میں اس سے اپنی پہلی پیدا ہونے والی بیٹی کا نکاح کر دوں گا۔"
چنانچہ ایک شخص نے ایسا کیا، تو ابن مسعود نے فیصلہ کیا کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے اور اس کے لیے عورتوں کا مہر مقرر ہے۔
امام ابو حنیفہ نے کہا: یہ شیطان کا فیصلہ ہے۔
(تأويل مختلف الحديث ١/١٠٥ )
جواب : روایت میں علی بن عاصم ہیں جو خود متروک راوی ہیں، اور یہ سند بھی منقطع ہے، کیونکہ علی بن عاصم کی وفات 201 ہجری میں ہوئی جبکہ ابن قتیبہ کی پیدائش اس کے بعد ہے۔ لہٰذا یہ روایت بھی سنداً درست نہیں ہے۔
قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 7:
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.
وکیع نے بیان کیا کہ امام ابو حنیفہ نے کہا: "یہ کیا بات ہے کہ وہ ہر اٹھنے اور بیٹھنے کے وقت ہاتھ اٹھاتا ہے؟ کیا وہ اُڑنا چاہتا ہے؟" تو ان سے عبداللہ بن مبارک نے کہا: "اگر وہ نماز کی ابتداء میں اُڑنا چاہتا ہے تو پھر رکوع و سجود میں بھی اُڑنا چاہتا ہوگا۔"
(تأويل مختلف الحديث 1/106)
جواب : اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 8:
وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ: وَسُئِلَ -يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ- عَنِ الشُّرْبِ فِي الْإِنَاءِ الْمُفَضَّضِ.
فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا هُوَ بِمَنْزِلَةِ الْخَاتَمِ فِي إِصْبَعِكَ، فَتُدْخِلُ يَدكَ الْمَاءَ، فَتَشْرَبُهُ بِهَا.
اسحاق بن راہویہ نے کہا: امام ابو حنیفہ سے چاندی منڈھے ہوئے برتن (یعنی جس پر چاندی کی ملمع کاری یا پٹی لگی ہو) میں پینے کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو انہوں نے فرمایا: "اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے تم اپنی انگلی میں انگوٹھی پہنے ہو، پھر تم ہاتھ پانی میں ڈالتے ہو اور اسی ہاتھ سے پیتے ہو۔"
(تأويل مختلف الحديث 1/107)
جواب : امام اسحاق بن راہویہؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو پایا ہی نہیں، لہٰذا یہ سند منقطع ہے ، تاہم اس مسئلے (مفضّض برتن کے جواز) میں امام اسحاق بن راہویہؒ کا موقف بھی عین وہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کا ہے، اور یہی رائے دیگر ائمہ و سلف سے بھی منقول ہے، مثلاً: عمر بن عبدالعزیزؒ، سعید بن جبیرؒ، طاؤسؒ، امام ابو ثورؒ، امام ابن المنذرؒ وغیرہم؛
حنفیہ کا موقف
حنفیہ کے نزدیک: "خالص سونے اور چاندی کے برتن سے کھانا، پینا، تیل لگانا اور خوشبو استعمال کرنا مرد و عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے، کیونکہ حدیث مطلق ہے"۔
الدر المختار: (کتاب الحظر و الاباحة، 342/6، ط: سعید) وکرہ الأکل والشرب والادھان والتطیب من إناء ذھب وفضة للرجل والمرأة لإطلاق الحدیث
البتہ ایسے برتن جو سونے یا چاندی کے پانی (یعنی ملمع یا پرت) سے ملمع کیے گئے ہوں اور ان میں سے اصل دھات جدا نہ ہوتی ہو (یعنی استعمال کے وقت دھات الگ ہو کر منہ یا کھانے پینے میں شامل نہ ہو) تو ان برتنوں میں کھانے پینے اور دوسری چیزوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بدائع الصنائع: (کتاب الاستحسان، 133/5) ’’ وأما الأوانی المموہۃ بماء الذہب والفضۃ الذي لا یخلص منہ شیء فلا بأس بالانتفاع بہا في الأکل والشرب وغیر ذلک بالإجماع ‘
اس سے استدلال یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ضرورت کے وقت برتن کو چاندی سے جڑوا لیا، لہٰذا اگر حاجت ہو تو تھوڑی مقدار میں چاندی استعمال کرنا جائز ہے۔ اس میں نہ اسراف ہے نہ تکبر۔ بالکل ایسے ہی جیسے برتن کو پیتل (نحاس) کی پٹی سے جوڑ دیا جائے۔ اسی بنیاد پر حنفیہ کہتے ہیں کہ مفضض برتن کا استعمال اگر منہ براہِ راست چاندی والی جگہ پر نہ لگے تو جائز ہے۔
دیگر اکابرین کا موقف اور دلائل
یہ موقف صرف امام ابو حنیفہؒ کا انفرادی اجتہاد نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام، تابعین اور دیگر اکابرین کی تائید بھی اس کے ساتھ موجود ہے۔
(1) التوضيح لشرح الجامع الصحيح (٢٧/٢٣٥) ورخصت في ذلك طائفة: روي عن عمران بن حصين وأنس بن مالك: أنهما أجازا الشرب في الإناء المفضض، وأجازه من التابعين طاوس والحكم والنخعي والحسن البصري، وقال أبو حنيفة وأصحابه: لا بأس أن يشرب الرجل بالقدح المفضض إذا لم يجعل فاه على الفضة، وهو كالشرب بيده وفيها الخاتم.
(2) المصنف لابن أبي شيبة – نمبر: 25716 حدثنا أبو بكر قال: حدثنا جرير عن هشام بن عروة عن أبيه أنه كان لا يشرب في إناء مضبب بفضة، (ويشرب) (من) (قدح فيه حلقة من ورق).
(3) المصنف لابن أبي شيبة – نمبر: 25718 حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن مهدي عن حماد بن سلمة عن حميد قال: دخلت على القاسم بن محمد وهو محموم وعلى صدره قدح مفضض فيه ماء.
(4) المصنف لابن أبي شيبة – نمبر: 25722 حدثنا أبو بكر قال: حدثنا أبو داود عن شعبة قال: سألت معاوية بن قرة قلت آتي (الصيارفة) فأوتى بقدح من فضة أشرب فيه قال: لا بأس.
(5) المصنف لابن أبي شيبة – نمبر: 25717 حدثنا أبو بكر قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي عن عمران (أبي) العوام القطان عن قتادة أن عمران بن حصين وأنس بن مالك كانا يشربان في الإناء المفضض.
(6) بلوغ المرام، صفحہ 21 (صفی الرحمن مبارکپوری) یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسی ضروریات و اغراض کے لیے تھوڑی سی چاندی استعمال کرنا جائز ہے۔ گویا کھانے پینے کے برتنوں میں ضرورتاً اتنی کم مقدار میں سونا اور چاندی اگر لگا ہوا ہو تو ایسے برتنوں میں کھانا پینا جائز ہے اور ان سے وضو اور غسل وغیرہ کرنا بھی بلا کراہت درست اور جائز ہے۔
(7) سلف صالحین کے اقوال
وَمِمَّنْ رَخَّصَ فِي ضَبَّةِ الْفِضَّةِ مِنَ السَّلَفِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَطَاوُسٌ وَأَبُو ثَوْرٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، وَغَيْرُهُمْ.
-
خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ
-
سعید بن جبیرؒ
-
طاؤسؒ
-
امام ابو ثورؒ
-
امام ابن المنذرؒ
-
امام اسحاق بن راہویہؒاور دیگر ائمہ رحمہم اللہ۔
(الموسوعة الفقهية الكويتية ١/١١٩)
8. ومِمَّنْ رَخَّصَ في ضَبَّةِ الفِضَّةِ: سعيدُ بنُ جُبَيْرٍ، ومَيْسَرَةُ، وزَاذانُ، وطاوسٌ، والشَّافِعِىُّ، وأبو ثَوْرٍ، وابنُ المُنْذِرِ، وأصْحابُ الرَّأْىِ، وإسحاقُ. وقال: قد وَضَعَ عمرُ بنُ عبدِ العزيزِ فَاهُ بينَ ضَبَّتَيْنِ. وكان ابنُ عمرَ لا يشْربُ من قَدَحٍ فيه حَلْقَةُ فِضَّةٍ ولا ضَبَّةٌ منها. وكَرِهَ الشُّرْبَ في الإناءِ الْمُفَضَّضِ: عَلىُّ بنُ الحسين، وعَطاءٌ، وسَالِمٌ، والمطَّلِبُ بنُ عبدِ اللهِ بنِ حَنْطَبِ. ونَهَتْ عائشةُ أن يُضَبِّبَ الآنِيةَ، أو يُحَلِّقَها بالفِضَّةِ. ونحوُ ذلك قولُ الحسنِ، وابنِ سِيرِينَ. ولعلَّ هؤلاءِ كَرِهُوا ما قُصِدَ به الزِّيْنَةُ، أو كان كثيرًا، أو يُسْتَعْمَلُ، فيكونُ قولُهم وقولُ الأوَّلِينَ واحدًا، ولا يكونُ في المسألةِ خلافٌ. فأمَّا اليَسِيرُ، كتَشْعِيبِ القدَحِ ونحوِه، فلَا بأسَ؛ لأنَّ النَّبِىَّ ﷺ كان له قَدَحٌ فيه سِلْسِلَةٌ من فِضَّةٍ شُعِّبَ بها. روَاه البُخَارِىُّ بمَعْناه.
جن حضرات نے چاندی کی پٹّی کی اجازت دی ہے ان میں شامل ہیں: سعید بن جبیرؒ، میسرہؒ، زاذانؒ، طاؤسؒ، امام شافعیؒ، امام ابو ثورؒ، امام ابن المنذرؒ، اصحاب الرائے (یعنی فقہائے احناف)، امام اسحاق بن راہویہؒ۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے منہ کو دو چاندی کی پٹیوں کے درمیان رکھا۔
ابن عمرؓ اس برتن سے نہیں پیتے تھے جس میں چاندی کی انگوٹھی یا چاندی کی پٹّی لگی ہوتی۔ اور امام علی بن حسینؒ، عطاءؒ، سالمؒ اور مطّلب بن عبداللہؒ نے مفضّض (چاندی منڈھے ہوئے) برتن میں پینے کو مکروہ کہا۔ حضرت عائشہؓ نے بھی برتنوں کو چاندی کی پٹیوں یا انگوٹھیوں سے جڑوانے سے منع فرمایا۔ اسی طرح امام حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ کا بھی یہی قول ہے۔
ممکن ہے کہ ان حضرات نے اس کو اس وقت مکروہ کہا جب مقصد اس سے زیب و زینت ہو، یا چاندی کی مقدار زیادہ ہو، یا براہِ راست استعمال ہو۔ اس صورت میں ان کا قول اور پہلا قول ایک ہی ہو جاتا ہے، اور اس مسئلے میں اختلاف باقی نہیں رہتا۔
رہا قلیل استعمال، جیسے قدح (پیالہ) کے شگاف کو جوڑنا، تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں چاندی کی ایک زنجیر تھی جس سے وہ جوڑا گیا تھا۔ اس روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
(المغني لابن قدامة - ت التركي ١٢/٥٢١)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں