اعتراض نمبر 30 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ ابو یوسف اور ابو حنیفہ کا ذکر سفیان ثوری کے سامنے کیا گیا تو وہ کہنے لگے: یہ کون ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے؟
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 30 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ ابو یوسف اور ابو حنیفہ کا ذکر سفیان ثوری کے سامنے کیا گیا تو وہ کہنے لگے: یہ کون ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے؟
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: ذَكَرَ أَبُو يُوسُفَ وَأَبُو حَنِيفَةَ عِنْدَ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فَقَالَ: وَمَنْ هَؤُلَاءِ ثُمَّ وَمَا هَؤُلَاءِ. قَالَ سُفْيَانُ: مَا كُنَّا نَأْتِي حَمَّادًا إِلَّا سِرًّا مِنْ أَصْحَابِنَا كَانُوا يَقُولُونَ لَهُ أَتَأْتِيهِ! أتجالسه! فما كُنَّا نَأْتِيهِ إِلَّا سِرًّا.
سَمِعْتُ أَبَا حُذَيْفَةَ مُوسَى بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: كُنْتُ ألقى حمادا بعد ما أُحَدِّثُ فَمَا كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَيْهِ.
عبیداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں: ابو یوسف اور ابو حنیفہ کا ذکر سفیان ثوری کے سامنے کیا گیا تو وہ کہنے لگے: یہ کون ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے؟ سفیان ثوری نے کہا: ہم حماد (بن ابی سلیمان) کے پاس اپنے ساتھیوں سے چھپ کر جاتے تھے، وہ کہا کرتے تھے: "کیا تم اس حماد بن ابی سلیمان کے پاس جاتے ہو! اس کے ساتھ بیٹھتے ہو!" تو ہم اسی وجہ سے چھپ کر حماد بن ابی سلیمان کے پاس جاتے تھے۔
ابو حذیفہ موسیٰ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے سفیان کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں کبھی کبھی حماد سے ملتا، لیکن سلام نہیں کرتا تھا۔
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/791 )
جواب : سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ امام ابو حنیفہؒ "امامِ اعظم" ہیں، فقہاء کے تاج اور رہنمائے امت ہیں۔ فقہ میں ان کا مرتبہ اتنا مسلم ہے کہ ان کے حامی ہوں یا دشمن، سب اس پر متفق ہیں کہ ان کی فقاہت بے نظیر ہے۔ آج چودہ سو سال بعد بھی ابو حنیفہ کی فقہ پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے، جبکہ سفیان ثوریؒ کی فقہ چوتھی پانچویں صدی کے بعد قصۂ پارینہ بن گئی۔ یہ اللہ کا امام اعظم اور امت پر انعام ہے کہ ان کے اجتہادات سے آج کروڑوں مسلمان فیض یاب ہو رہے ہیں۔
سفیان ثوریؒ کے جملے پر کہ "یہ کون ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے؟" تو اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں ان ائمہ کی شہادت کافی ہے جن کے علم و فضل پر پوری امت کا اعتماد ہے۔
امام شعبہؒ، جو اپنے وقت کے امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے تھے، امام ابو حنیفہؒ کو خط لکھتے اور ان سے حدیث روایت کرنے کی درخواست کرتے تھے۔ (الانتقاء لابن عبدالبر، ص۱۲۷، وسندہ حسن)۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محدثین کے سردار بھی امام اعظم کی علمی عظمت کے معترف تھے۔
امام یزید بن ہارونؒ، جو حدیث اور فقہ دونوں کے امام ہیں، فرماتے ہیں: "میں نے لوگوں کو دیکھا مگر ابو حنیفہؒ سے زیادہ عقلمند، افضل اور متقن کسی کو نہیں پایا۔" (تاریخ بغداد، ج۱۳، ص۳۶۱)
یاد رہے، اس زمانے میں سفیان ثوریؒ بھی موجود تھے، مگر تعریف کس کی ہو رہی ہے؟ ابو حنیفہ کی! یہ محض ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو اس دور کے سینکڑوں فقہاء اور محدثین کے مشاہدے کے بعد دیا گیا۔ اسی پر اکتفا نہیں، وہ مزید کہتے ہیں: "میں نے ایک ہزار فقہاء کو پایا اور ان میں پانچ ایسے تھے جو علم، حلم اور فقاہت میں سب سے افضل تھے، اور ان پانچ میں سب سے پہلے امام ابو حنیفہ کا نام ہے۔" (فضائل ابی حنیفۃ و أخبارہ لابی عوام، ص۵۶)
ایک ہزار فقہاء کے درمیان ابو حنیفہؒ کو سب سے پہلے مقام پر رکھنا محض ایک تعریف نہیں، بلکہ ایک واضح اعلان ہے کہ آپ اپنے دور کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ اب فیصلہ خود کیجیے! جسے یزید بن ہارون جیسے عظیم امام ہزار فقہاء پر فضیلت دے رہے ہوں، اس کے بارے میں "یہ کون ہیں؟" کہنا تعصب اور حسد کے سوا کچھ نہیں۔
حسن بن علی حلوانی بیان کرتے ہیں: میں نے یزید بن ہارون سے سوال کیا: "اے ابو خالد! آپ نے اپنی زندگی میں سب سے بڑا فقیہ کسے پایا؟" انہوں نے جواب دیا: "ابو حنیفہ۔" (راوی حسن بن علی مزید کہتے ہیں:) پھر میں نے ابو عاصم النبیل سے پوچھا: "آپ کے نزدیک ابو حنیفہ فقیہ تھے یا سفیان (ثوری)؟" تو ابو عاصم نے جواب دیا: "میرے نزدیک ابو حنیفہ، سفیان سے زیادہ فقیہ تھے۔" ( فضائل أبي حنيفة ص 83 ، سند 'لا باس به' )
امام سفیان بن عیینہؒ کا اعتراف
امام سفیان بن عیینہؒ کا قول بھی نہایت اہم ہے: "دو چیزوں کے بارے میں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ سے باہر نہیں جائیں گی، لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل گئیں: ایک حمزہ کی قراءت اور دوسرے ابو حنیفہ کے اجتہادات۔" (تاریخ بغداد، ج۱۵، ص۴۷۵، بشار عواد نے سند کو صحیح کہا)
یہ ابو حنیفہؒ کی فقہ کا زندہ معجزہ ہے کہ وہ ان کی زندگی ہی میں پورے عالم اسلام میں پھیل گئی جبکہ سفیان ثوریؒ کی فقہ آج محض کتابوں کے اوراق میں بند ہے۔
خلفائے وقت کا اعتماد
قضا کا سب سے بڑا منصب دینے کا وقت آیا تو اس وقت صرف عام قاضی کا تقرر نہیں تھا بلکہ پوری خلافت کے قاضی القضاۃ کے انتخاب کی گھڑی تھی۔ اُس زمانے میں سفیان ثوریؒ بھی موجود تھے، بڑے بڑے محدثین بھی حیات تھے، لیکن خلیفۂ وقت کی نگاہِ انتخاب صرف ایک ہی شخصیت پر جا ٹھہری، اور وہ تھے امام اعظم ابو حنیفہؒ۔ یہاں تک کہ جب آپؒ نے یہ منصب قبول نہ کیا تو قید تک کی نوبت آئی، لیکن خلیفہ کی رائے یہی تھی کہ قضا کے اعلیٰ منصب کے سب سے زیادہ اہل اگر کوئی ہیں تو وہ امام ابو حنیفہؒ ہیں۔
پھر امام اعظم کی وفات کے بعد بھی خلافت کے اہل کاروں نے دوبارہ اس منصبِ جلیلہ کے لیے غور کیا۔ اگر واقعی فقاہت میں امام ابو حنیفہ کے ہم پلہ کوئی اور ہوتا تو اُس وقت سفیان ثوریؒ یا اُن کے شاگردوں کو یہ ذمہ داری دی جاتی، مگر ایسا نہ ہوا۔ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ منصب آپ کے شاگردِ رشید امام ابو یوسفؒ کو دیا گیا اور وہ خلافتِ عباسیہ کے پہلے باقاعدہ قاضی القضاۃ بنے۔
یہ تمام واقعات ایک ہی بات کی کھلی دلیل ہیں کہ اُس وقت کے خلفاء اور اہلِ نظر کے نزدیک پوری خلافت میں ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ موجود نہ تھا، ورنہ اتنے بڑے منصب پر کسی اور کو ضرور منتخب کیا جاتا۔ اگر سفیان ثوریؒ کا یہ کہنا درست ہوتا کہ "یہ کون ہیں؟"، تو پھر کیا یہ ممکن تھا کہ خلافتِ عباسیہ کی مرکزی عدالت کا نظام انہی کے تربیت یافتہ شاگردوں کو سپرد کیا جاتا؟
اکابر محدثین کی آراء
یہاں چند اور ائمہ کی شہادت بھی پیش کرنا ضروری ہے:
امام شافعیؒ فرماتے ہیں: "میں نے ابو حنیفہؒ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں پایا۔" (تاریخ بغداد، ج۱۵، ص۴۷۴، سند صحیح)
امام عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں: "قول ابو حنیفہ ہمارے نزدیک اثر کے قائم مقام ہے، جب کوئی اثر موجود نہ ہو۔" (فضائل ابی حنیفہ، ص۸۴، اسنادہ صحیح)
ابوبکر بن عیاشؒ کا بیان ہے: "نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) بہت سمجھدار تھے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقہاء میں سے تھے۔" (فضائل ابی حنیفہ، رقم ۱۰۳، اسنادہ حسن)
امام علی بن صالح بن حييؒ ہیں، جنہیں محدثین کے ہاں "الإمام، القدوة، الثقة، مامون، رأسٌ في العلم، عابدٌ "جب امام ابو حنیفہؒ کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو گہرے دکھ اور عظیم اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں : ذهب مفتي العراق ، ذهب فقيه أهل العراق ( فضائل أبي حنيفة ص 81 ، سند حسن ) یعنی "عراق کا مفتی چلا گیا، اہلِ عراق کا فقیہ رخصت ہو گیا۔"
الإمام، الحافظ، عالم أهل البصرة سعید بن ابی عروبةؒ صحیحین میں ان سے تقریبا 150 روایات لی گئی ہیں. وہ بیان کرتے ہیں "كان أبو حنيفة عالم العراق" یعنی ابو حنیفہؒ پورے عراق کے عالم تھے۔ (الانتقاء ص 130 ، سند صحیح)
امام مکی بن ابراہیمؒ، جو امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، نے امام ابو حنیفہ کو "اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم" کہا (تاریخ بغداد، ج13، ص344، اسنادہ صحیح)
یہ سب اقوال واضح کر دیتے ہیں کہ امام اعظمؒ نہ صرف اپنے زمانے کے امام تھے بلکہ آئندہ صدیوں کے لیے بھی فقہ اسلامی کے سب سے بڑے ماہر اور رہنما ہیں۔سفیان ثوریؒ اگر ابو حنیفہؒ کے مقام کو نہ پہچان سکے، تو یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے۔تاریخ کی زبان اور امت کی گواہی یہ ہے کہ امامِ اعظم وہ ہستی ہیں، جنہیں ربّ نے فقہ کا تاج عطا کیا۔ ان کا علم آج بھی زندہ ہے، ان کا مکتب آج بھی قائم ہے۔ اور سفیان کی فقہ کہاں ہے؟ اگر ان کے اجتہادات میں بقا ہوتی، تو امت ان پر جمع ہو جاتی، مگر تاریخ کا فیصلہ واضح ہے: باقی رہنے والی حقیقت صرف ابو حنیفہؒ کی فقہ ہے۔
جبکہ دوسری سند میں أبو حذيفة موسى بن مسعود النهديُّ راوی ہے ، اس کے حافظے پر بھی جرح موجود ہے، اور خصوصاً جب وہ سفیان ثوری سے روایت کرتا ہے تو محدثین نے اس پر واضح جرح کی ہے، جیسا کہ ایک سلفی عالم کے اقتباس سے بھی یہ امر ظاہر ہوتا ہے۔ هذا إسنادٌ ضعيفٌ؛ فيه: أبو حذيفة موسى بن مسعود النهديُّ «صدوقٌ سيئُ الحفظِ، وكان يُصَحِّفُ» كما في (التقريب ٧٠١٠)، وقد تكلَّمَ أحمدُ في روايتِهِ عن سفيانَ خاصة فقال: «كأنَّ سفيانَ الذي يحدِّث عنه أبو حذيفة ليس هو سفيان الثوري الذي هو يحدِّث عنه الناس» (الضعفاء للعقيليِّ ٤/ ١٦٧). یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ابو حذیفہ موسیٰ بن مسعود نہدی ہیں جن کے بارے میں ابن حجر نے کہا ہے: «صدوق مگر کمزور حافظہ رکھتے تھے اور الفاظ میں تصحیف کر دیتے تھے» ۔ امام احمد نے ان کی خاص طور پر سفیان سے روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: «ایسا لگتا ہے کہ وہ سفیان جس سے ابو حذیفہ روایت کرتے ہیں، وہ سفیان ثوری نہیں جس سے دوسرے لوگ روایت کرتے ہیں»
(دیوان السنة، قسم الطهارة 3/521)
امام ابنِ حبان نے موسیٰ بن مسعود کو الثقات میں ذکر کیا ہے، لیکن ان کے الفاظ ہیں: «يخطئ» (وہ غلطیاں کرتے تھے) [الثقات 9/160]، اور امام عقیلی نے انہیں «الضعفاء» میں ذکر کیا [إكمال تهذيب الكمال 12/37]۔ امام عبداللہ الحاکم نیشاپوری فرماتے ہیں: «موسى بن مسعود كثير الوهم، سيئ الحفظ، غمزه عمرو بن علي وغيره» (موسیٰ بن مسعود بہت زیادہ وہم میں پڑنے والے، کمزور حافظے کے مالک تھے اور عمرو بن علی وغیرہ نے ان پر جرح کی ہے) [إكمال تهذيب الكمال 12/37]۔ ابن خزیمہ نے کہا: «لا يُحتجّ به» (ان سے حجت پکڑنا درست نہیں) [تهذيب التهذيب 4/188]، اور ابن قانع نے کہا: «فيه ضعف» (ان میں ضعف ہے) [تهذيب التهذيب 4/188]۔ دارقطنی نے فرمایا: «قد أخرج له البخاري، وهو كثير الوهم، تكلَّموا فيه، وهو صاحبُ الثوري» (بخاری نے ان سے روایت لی ہے مگر وہ بہت زیادہ وہم میں پڑنے والے تھے، محدثین نے ان پر کلام کیا ہے اور یہ سفیان ثوری کے خاص راوی تھے) [الجرح والتعديل ق165/أ؛ إكمال تهذيب الكمال 12/37؛ تهذيب التهذيب 4/188]، اور ابو احمد الحاکم نے کہا: «ليس بالقوي عندهم» (ان کے نزدیک یہ قوی نہیں ہیں) [تهذيب التهذيب 4/188]۔ ان تمام اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ محدثین کے نزدیک موسیٰ بن مسعود پر کثرتِ وہم، سوء الحفظ اور ضعف کی جرح موجود ہے، لہٰذا ان کی روایت قابلِ اعتماد نہیں۔
بالفرض یہ روایت سنداً صحیح بھی ہو تو اس میں اعتراض امام حماد پر نہیں بلکہ سفیان ثوری پر ہے۔ کیونکہ:
-
سلام نہ کرنا خلافِ سنت ہے – قرآن و حدیث میں سلام کو رواج دینے اور مؤمن کو سلام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، پس کسی کو جان بوجھ کر سلام نہ کرنا خود ایک طرح کا ترکِ سنت ہے۔ یہ عمل سفیان ثوری کی طرف منسوب ہے، لہٰذا اگر اعتراض ہو سکتا ہے تو ان پر، نہ کہ امام حماد پر۔
-
حماد کی امامت پر کوئی اثر نہیں – کسی شخص کا ان سے سلام نہ کرنا ان کی امامت یا علمی مرتبے کو متاثر نہیں کرتا، کیونکہ علمی امامت کا مدار "علم، فقہ، دیانت اور روایت" پر ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے ذاتی رویّے پر۔
-
اصل میں یہ اعتراض خود سفیان پر ہے – کہ وہ ایک طرف امام حماد سے علم لے رہے ہیں اور دوسری طرف ان سے سلام تک نہیں کرتے۔ یہ دوغلا پن زیادہ ان کے مزاج یا ذاتی رویے کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ امام حماد کی قدر و منزلت کو۔
لہٰذا صاف ظاہر ہوا کہ یہ روایت اگر مانی بھی جائے تو اس سے امام حماد کی امامت پر کوئی دھبہ نہیں لگتا بلکہ الٹا یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ سفیان ثوری کا یہ طرزِ عمل علمی وقار کے خلاف تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں