اعتراض نمبر 32 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں منقول: سلیمان بن حرب کا یحییٰ بن اکثم سے سوال — امام ابو حنیفہؒ کی تعریف و توصیف کس نے کی؟
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 32 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں منقول: سلیمان بن حرب کا یحییٰ بن اکثم سے سوال — امام ابو حنیفہؒ کی تعریف و توصیف کس نے کی؟
قَالَ سليمان بن حرب: كلمت يحي بن أكثم فقال: إِنِّي لَسْتُ بِصَاحِبِ رَأْيٍ. قَالَ: وَذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْتُ لَهُ دَعِ التَّنَازُعَ وَلَكِنْ قَدْ كَانَ فِي زَمَانِهِ أَئِمَّةٌ بِالْكُوفَةِ وَغَيْرِ الْكُوفَةِ فَأَخْبَرَنِي بِرَجُلٍ وَاحِدٍ حَمِدَ أَمْرَهُ وَرَأْيَهُ؟ قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَكَتَ سَاعَةً ثُمّ قَالَ: قَالَ جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ فِي رَجُلٍ دَفَعَ ثَوْبًا إِلَى خَيَّاطٍ إِنْ فَرَغْتَ مِنْهُ الْيَوْمَ جَعَلْتُ لَكَ دِرْهَمَيْنِ وَإِنْ أَخَّرْتَهُ إِلَى غَدٍ فَدِرْهَمٌ، قَالَ فُلَانٌ كَذَا، وَقَالَ فُلَانٌ كَذَا، وَقَالَ فُلَانٌ كَذَا، وَقَالَ هَؤُلَاءِ لَهُ أُجْرَةُ مِثْلِهِ. قَالَ: فَقُلْتُ: كَفَاهُ بِهَذَا ضَعَةً أَنْ لَا يَقْدِرَ عَلَى أَحَدٍ وَيُضْطَرَّ فِيهِ إِلَى مُغِيرَةَ.
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/794 )
جواب : یہ روایت جسے بعض لوگ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں، درحقیقت علمی اعتبار سے ایک کمزور اور متعصبانہ حکایت ہے، جو کہ خود اس روایت کے راوی سلیمان بن حرب رحمہ اللہ کے باطن میں چھپے ہوئے متشددانہ رجحان اور تعصبات کا آئینہ ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ سلیمان بن حرب امام اعظم کے خلاف متعصب ہیں ، ان کے تعصب کے بارے میں قارئیں اس لنک پر کلک کر کے پڑھیں
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
اب آتے ہیں اس روایت کی طرف ،
پہلا سقم ( نقص ) :
یہ بہت عجیبب بات ہے کہ سلیمان بن حرب ، یحیی بن اکثم سے امام ابو حنیفہ کے تعلق سے پوچھتے ہیں کہ تم نے کسی ( کے منہ ) سے امام ابو حنیفہ کی تعریف سنی ہے ؟. جبکہ سلیمان بن حرب کی پیدائش 140 ہجری میں ہوئی اور یحییٰ بن اکثم کی 160 ہجری میں۔ یعنی سلیمان، یحییٰ سے بیس برس بڑے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عمر میں 20 سال بڑے عالم اپنے سے کم سن، بلکہ ایسے شخص سے جو امام ابو حنیفہؒ کے زمانے کو بھی پا ہی نہیں سکا، کس بنیاد پر یہ سوال کرتا ہے کہ “کیا تم نے امام کے بارے میں کسی کو ان کی تعریف کرتے سنا؟”
جبکہ یہ بات تو یحیی بن اکثم کو سلیمان بن حرب سے پوچھنی چاہیے تھی کیونکہ سلیمان کے شیوخ میں سے کئی لوگ ایسے تھے جو اس بات کا بہتر جواب دے سکتے تھے. جيسے امام شعبة ، حماد بن زيد، سفيان بن عيينة،. وكيع بن الجراح وغيرة. اگر ان لوگوں سے سلیمان بن حرب جواب طلب کرتے تو انہیں امام ابو حنیفہ کی تعریف ہی سننے کو ملتی. لیکن یہاں تو سلیمان ایسے شخص سے معلوم کر رہے ہیں جو نہ صرف ان سے بیس سال چھوٹا ہے بلکہ وہ پیدا ہی امام ابو حنیفہ کے انتقال کے بعد ہوا ہے.
کیا یہ سلیمان بن حرب کا انصاف ہے کہ ایک ایسا شاگرد نما شخص جس کی ولادت ہی امام کی وفات کے بعد ہوئی، اس سے گواہی طلب کی جائے جبکہ انہیں پوچھنا اپنی شیوخ سے تھا اور جواب بھی انہیں تعریف کا ہی ملتا.
اب بات کرتے ہیں متن میں موجود درزی کی اجرت اور اس تعلق سے مختلف جوابات کی. تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس متن میں یہ مذکور ہی نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں کیا جواب دیا. کیونکہ وہاں مذکور ہے کہ فلاں نے یہ جواب دیا اور فلاں نے یہ جواب دیا. پھر امام ابو حنیفہ پر اعتراض کیسا؟
بالفرض ہم یہ مانیں یہ فلاں فلاں جو کہا گیا دراصل اس میں امام ابو حنیفہ کا بھی جواب شامل تھا. تو بات پھر یہ آتی ہے کہ سلیمان بن حرب نے تو جواب پر اعتراض ہی نہیں کیا کہ یہ جواب غلط ہے. بلکہ بقول سلیمان اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے امام مغیرہ کے جواب کی طرف رجوع کیا. تو اس میں حرج ہی کیا ہے، یعنی اگر کسی فقیہ نے کسی سوال کا جواب دیا اور دوسرے فقیہ نے اس کی تائید میں یا اس جواب کو بہتر سمجھتے ہوئے اس جواب کی موافقت کی تو اس میں ایسا کیا غلط ہو گیا؟
اعتراض تو تب ہوتا جب جواب غلط ہوتا. لیکن اگر جواب پر اعتراض نہ کرکے کسی کی موافقت اختیار کرنے پر اعتراض کیا جائے تو اسکا مطلب اس ( اعتراض کرنے والے) شخص کو سامنے والے پر علمی نہیں ذاتی طور پر کوئی اشکال ہے. جو دکھاتا ہے کہ سلیمان امام ابو حنیفہ کے معاملے میں متعصب قسم کے تھے.
اور اگر بقول سلیمان بن حرب کے مغیرہ ضبی رحمہ اللہ ایسے شخص نہیں کہ انکے جواب کا اعتبار کیا جائے یا مغیرہ ثقہ نہیں تو خود سلیمان بن حرب امام شعبہ کے واسطہ سے امام مغیرہ کی سند سے إبراهيم نخعی کے اقوال کیوں نقل کرتے ہیں ؟ پھر تو سلیمان کو مغیرہ کے واسطہ سے کچھ بھی نقل نہیں کرنا چاہیے تھا.
اگر سوال واقعی علمی ہوتا :
اگر واقعی سلیمان بن حرب کے دل میں کوئی علمی اشکال ہوتا تو وہ اپنے اساتذہ سے رجوع کرتے، لیکن شاید ان کا مقصد اشکال دور کرنا نہیں بلکہ محض الزام تراشی اور تاثر دینا تھا کہ امام کے ہم عصر علماء ان کے مخالف تھے۔
سلیمان کا یہ کہنا کہ "ان کے زمانے میں کوئی امام ان کی رائے کی تعریف کرتا تھا؟" تو گویا اپنی ہی آنکھوں پر پٹی باندھ لینے کے مترادف ہے۔ کیا وہ اپنے ہی دور کے مشاہیر علماء کو بھول گئے؟
امام شعبہ بن حجاج — سلیمان بن حرب کے استاد - وہی شعبہ جنہیں "امیرالمؤمنین فی الحدیث" کہا جاتا ہے — ان کا امام ابو حنیفہ کے بارے میں موقف تاریخ میں موجود ہیں:
چنانچہ حافظ المغرب امام ابن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳ھ) کہتے ہیں : قال ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل )نا احمد بن الحسن الحافظ قال نا عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی قال سئل یحی بن معین وانا اسمع عن ابی حنیفۃ فقال ثقۃ ما سمعت احدا ضعفہ،ہذا شعبۃ بن الحجاج یکتب الیہ ان یحدث ویامرہ وشعبۃ شعبۃ ۔
عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی سے روایت ہے کہ یحی بن معین نے ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ثقہ تھے ،میں نے سنا کہ کسی ایک نے بھی انہیں ضعیف کہا ہو ،یہ شعبہ بن الحجاج ،انہیں (خط ) لکھتے ہیں کہ وہ حدیث بیان کریں اور انہیں حکم دیتے ہیں ،اور شعبہ تو آخر شعبہ تھے ۔(الانتقاء لابن عبدالبر ص:۱۲۷،وسندہ حسن ،الجوہر المضیۃ ج:۱ص:۱۹۔مقام ابی حنیفہ ص:۱۳۰)
مزید تفصیل کے لیے قارئین ملاحظہ کریں۔
حماد بن زید، سلیمان نے شاید سب سے زیادہ ان ہی سے روایت کیا ، وہ کہتے ہیں: "قسم بخدا! میں ابو حنیفہ سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ وہ ایوبؒ سے محبت کرتے ہیں" (الانتقاء لابن عبد البر، ص130)۔
ابن المبارک جیسے اجلّ ائمہ کی شہادت کہ عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں میں نے سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والا دیکھا ہے، سب سے زیادہ فقاہت رکھنے والے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں .. میں نے ان جیسا فقاہت وا لا نہیں دیکھا... ( تاریخ بغداد 469/15 سند صحیح )
ابن المبارک جیسے اجلّ ائمہ کی شہادت کیا سلیمان کے کانوں تک نہیں پہنچی؟
وکیع بن الجراح، کوفہ کے امام، امام وکیع بن جراحؒ نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی (تاریخ بغداد، رقم 1083)۔
تو کیا یہ سب سلیمان کے نزدیک ائمہ میں شمار نہیں ہوتے؟ اگر ان ائمہ کی گواہی معتبر نہیں تو پھر کس کی گواہی معتبر ہوگی؟
“مغیرہ کی طرف رجوع کرنا کمزوری ہے”؟
سلیمان نے کہا کہ امام ابو حنیفہؒ کے لیے یہ کمزوری ہے کہ وہ ایک مسئلے میں مغیرہ کی طرف رجوع کریں۔ سبحان اللہ! گویا فقہاء کا دوسرے ائمہ یا رواۃ کی آراء لینا کمزوری ہے؟
کیا خود امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے اپنے اسلاف کی آراء سے استفادہ نہیں کیا؟
کیا تاریخ گواہ نہیں کہ ایک فقیہ دوسرے کی رائے سے استفادہ کرتا ہے؟
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی فقاہت کی عظمت ہے کہ فقیہ مسائل میں دیگر فقہاء اور علماء کے علوم سے استفادہ کرے، نہ کہ تعصب کی پٹی باندھ لے۔ امام ابو حنیفہؒ کا مغیرہ کی رائے سے استفادہ کرنا علمی وسعت کی علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔
درحقیقت یہ اعتراض اس دور کی علمی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ بصرہ اور کوفہ کے علماء کے درمیان رقابت مشہور تھی۔ سلیمان بن حرب بصرہ کے تھے، اور ان کا امام ابو حنیفہؒ (جو کوفہ کے امام تھے) کے بارے میں سخت رویہ اسی علمی تعصب کی پیداوار ہے۔ ورنہ اگر علمی غیرجانبداری سے بات کی جاتی تو وہ اپنے ہی دور کے درجنوں ائمہ کے اقوال پیش کرتے جو امام ابو حنیفہ کے فضائل بیان کرتے ہیں۔
نتیجہ
پس حقیقت بالکل واضح ہے:
یہ روایت امام ابو حنیفہؒ کے خلاف نہیں بلکہ سلیمان بن حرب کے تعصب اور علمی کمزوری کے خلاف گواہی ہے۔ امام اعظمؒ کے علم و فقہ کی تعریف کرنے والے ائمہ کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے جھٹلانا تاریخ کے انکار کے مترادف ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں