نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 34 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں سلیمان نے کہا: ایوب ان تینوں سے گریز کرتے تھے: ربیعہ، عثمان البَتِّي اور ابو حنیفہ۔

 


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 34 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ   میں نقل کرتے ہیں سلیمان نے کہا: ایوب ان تینوں سے گریز کرتے تھے: ربیعہ، عثمان البَتِّي اور ابو حنیفہ۔


وَقَالَ سُلَيْمَانُ: كَانَ أَيُّوبُ يَرْغَبُ عَنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ: رَبِيعَةَ  وَالْبَتِّيِّ وَأَبِي حَنِيفَةَ.


سلیمان نے کہا: ایوب ان تینوں سے گریز کرتے تھے: ربیعہ، عثمان البَتِّي اور ابو حنیفہ۔

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق : ٣/٢٠)


جواب : یہ روایت دراصل سلیمان بن حرب کے شدید تعصب کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کی بنیاد ہی کمزور ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام ایوب سَختیانیؒ امام اعظم ابو حنیفہؒ، ربیعہ الرائے اور عثمان البَتّی سے اعراض کرتے تھے، انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امام ایوب سَختیانیؒ کی وفات 131ھ میں ہوئی، جبکہ سلیمان بن حرب کی ولادت 140ھ میں ہوئی۔ یعنی نو سال بعد! اب سوچنے کی بات ہے کہ جس شخصیت کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں، نہ ان سے براہِ راست کچھ سنا، ان کے بارے میں ایسی جراتمندانہ نسبت کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ صرف اور صرف تعصب کی پیداوار ہے۔

اس سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود امام ایوب سَختیانیؒ کے سب سے مشہور شاگرد امام حماد بن زیدؒ—جو کہ سلیمان بن حرب کے اپنے استاد بھی تھے—انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بارے میں نہایت حسین اور مثبت کلمات نقل کیے ہیں۔ 

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 1 :امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام ایوب سختیانیؒ (م ۱۳۱؁ھ) کی نظر میں۔


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 18 :امام حماد بن زید ؒ(م۱۷۹؁ھ) کی نظر میں امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔


یعنی ایوبؒ کے قریب ترین شاگرد امام ابو حنیفہؒ کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ایوبؒ سے دہائیوں بعد پیدا ہونے والے سلیمان بن حرب بلا سند اور بغیر کسی مستند روایت کے ان پر الزام دھرتے ہیں۔ اب ذرا انصاف کیجیے: بات کس کی معتبر ہوگی؟ ایک ایسے شخص کی جو صرف تعصب اور عناد کی بنیاد پر بہتان تراشی کرے؟ یا اس شاگرد کی جو براہِ راست امام ایوب کے ساتھ رہا، ان سے علم سیکھا اور ان کے علوم کا وارث ٹھہرا؟ ظاہر ہے، وزن صرف اور صرف امام حماد بن زیدؒ کے اقوال کو حاصل ہے۔

یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے: سلیمان بن حرب کی جانب سے امام ابو حنیفہؒ پر اعتراضات کا سلسلہ صرف اسی روایت تک محدود نہیں، بلکہ ان کے دیگر بیانات میں بھی یہ تعصب جھلکتا ہے۔ ان کا انداز ہمیشہ منفی تنقید کا رہا، وہ امام ابو حنیفہؒ کے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کر کے صرف ایسی روایات یا اقوال نقل کرتے جو ان کے خلاف دکھائی دیں۔ یہی طرزِ فکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ شخص ایک متعصب ناقد تھا نہ کہ ایک غیر جانب دار مؤرخ یا محدث۔


اعترض نمبر 78 : کہ سلیمان بن حرب نے کہا کہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اللہ کے راستہ سے روکتے تھے۔


اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار


جہاں تک فقہی مسائل میں رائے اور اجتہاد کے استعمال کا تعلق ہے، تو بعض اہلِ علم نے اس طرزِ عمل کو ناپسند کیا اور اسے گویا دین سے دوری یا نصوص سے بے اعتنائی قرار دیا۔ لیکن درحقیقت یہ تصور سراسر غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رائے و اجتہاد شریعت میں بصیرت، فہم اور گہرائی کی علامت ہے۔ اگر ہر مسئلہ میں صرف ظاہر الفاظ پر اکتفا کیا جاتا اور عقلِ سلیم کو استعمال نہ کیا جاتا تو نہ نئے پیش آمدہ مسائل حل ہو سکتے اور نہ ہی شریعت کی وسعت اور ہمہ گیری واضح ہوتی۔

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امت کے بڑے بڑے ائمہ نے ہر دور میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا۔ امام مالکؒ ہوں یا امام شافعیؒ، امام احمدؒ ہوں یا امام ابو حنیفہؒ، سب نے نصوص کی روشنی میں عقل و رائے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسائل کی تشریح و تطبیق کی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ اسلامی نے صدیوں کے علمی ارتقاء میں اپنے دامن کو وسیع سے وسیع تر کیا اور ہر زمانے کے تقاضوں کا جواب دیا۔ قارئین اس تفصیل کو درج ذیل لنک میں مزید ملاحظہ کر سکتے ہیں۔


اعتراض نمبر 3 :بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔


پس صاف ظاہر ہے کہ یہ روایت نہ صرف کمزور بنیاد پر کھڑی ہے بلکہ سلیمان بن حرب کے اپنے تعصب اور جانبداری کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم امام ایوب سَختیانیؒ کے براہِ راست شاگرد امام حماد بن زیدؒ کی گواہی کو لیں تو امام ابو حنیفہؒ کی علمی عظمت اور مقام مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔




تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...