اعتراض نمبر 65 : امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ م 120ھ سے منقول فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 65 : امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ م 120ھ سے منقول فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا جائزہ :
ہم نے غیر مقلدین کے ایک محدّث فورم پر ایک تحریر کا مطالعہ کیا جس کا عنوان تھا:
"حماد بن ابی سلیمان کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں موقف"۔
٣٥٤ - حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ الْخَرَّازُ، وَأَظُنُّ أَنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ أَنَا مِنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ: نا شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قِيلَ لِابْنِ عَوْنٍ: هُوَ أَبُو الْجَهْمِ عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرٍ، فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ بِهِ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: «اذْهَبْ إِلَى هَذَا الْكَافِرِ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْ لَهُ: إِنْ كُنْتَ تَقُولُ الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ؛ فَلَا تَقْرَبْنَا»
عبداللہ بن احمد (بن حنبل) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عون خرّاز نے حدیث بیان کی — اور غالب گمان ہے کہ میں نے خود بھی ابنِ عون سے یہ بات سنی — انہوں نے کہا: ہم سے کوفہ کے ایک شیخ نے بیان کیا۔ ابو عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ابنِ عون سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ابو الجہم عبدالقدوس بن بکر ہیں؟ تو گویا انہوں نے اس کی تصدیق کر دی۔ ابنِ عون کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے حماد بن ابی سلیمان نے کہا: “جاؤ اُس کافر کے پاس — یعنی ابو حنیفہ کے — اور اسے کہہ دو کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ قرآن مخلوق ہے، تو پھر ہمارے قریب نہ آنا۔” مسند ابن الجعد ١/٦٦ — ابن الجعد (ت ٢٣٠)
قال ابن حجر في «تهذيب التهذيب ٦/٣٦٩»: ذكر محمود بن غيلان عن أحمد، وابن معين، وأبي خيثمة أنهم ضربوا على حديثه.
یعنی محمود بن غیلان کے مطابق امام احمد، امام ابن معین اور ابو خیثمہ نے اس راوی کی حدیث پر قلم پھیر دیا تھا، یعنی اسے ناقابلِ احتجاج سمجھا تھا۔
مزید یہ کہ امام بخاری نے بھی اسے اپنی کتاب «الضعفاء» میں ذکر کیا ہے (میزان الاعتدال ٢/٦٤٢ ، تاریخ الکبیر للبخاری ٧/١٤٠)
معاصر محققین نے بھی اسی فیصلہ کو اپنایا ہے۔ علامہ شعیب الأرنؤوط فرماتے ہیں: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة، وعبد القدوس بن بكر بن خنيس.
(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة ١١/١٠٢)
اگرچہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا اور ابو حاتم الرازی نے کہا: «لا بأس بحديثه»، مگر دوسری طرف ہم عصر جرح و تعدیل کے بڑے ائمہ کی جرح ان کے قول سے کہیں زیادہ مقدم ہے۔ امام ذہبی نے «الكاشف» میں صرف وثّق کہہ کر نقل کیا مگر ابن حجر نے تقریب میں ابو حاتم کا قول ذکر کرکے ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ احمد، ابن معین وغیرہ نے اس پر سخت رد کیا ہے۔
عبد القدوس بن بكر بن خُنَيس، أبو الجهم الكوفي.
ضَعِيفٌ.
ذكره ابن حبان في «الثقات».
قال أبو حاتم: لا بأس بحديثه.
قال ابن حجر في «تهذيب التهذيب»: ذكر محمود بن غيلان عن أحمد، وابن معين، وأبي خيثمة أنهم ضربوا على حديثه.
قال الذهبي في «الكاشف»: وُثِّق.
قال ابن حجر في «تقريب التهذيب»: قال أبو حاتم: لا بأس به.
والراجح أنه ضعيفٌ؛ لضرب الأئمة على حديثه.
اس وجہ سے محقق إبراهيم بن عبد الله المديهش نے تخريج أحاديث وآثار حياة الحيوان للدميري من التاء إلى الجيم ١/١١٠٥ میں کہا ہیکہ راجح یہ ہیکہ یہ راوی ضعیف ہے۔
محقق بشار عواد معروف نے آئمہ کے اقوال کے بعد خلاصہ کے طور پر اس راوی کو ضعیف لکھا ہے۔ بل: ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد… فإن صحت الرواية عن أحمد وابن معين وأبي خيثمة، فلابد أنه تبين لهم ما لم يتبين لأبي حاتم؛ فضعفوه. (تحرير تقريب التهذيب ٢/٣٧٦)
اور محقق الحارث بن علی الحسنی نے بھی ضعیف لکھا ہے كل من اسمه عبد القدوس: فهو ثقة، إلا ابن بكر بن خنيس ففيه ضعف. (منتقى الألفاظ بتقريب علوم الحديث ١/٢٣٠)
لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ اس راوی کی عدالت و ضبط پر کوئی معتبر، صریح، قطعی توثیق موجود نہیں۔ اس پر امام احمد، امام ابن معین، ابو خیثمہ اور امام بخاری جیسے ائمہ کی جرح موجود ہے۔ اس بنا پر راجح فیصلہ یہی ہے کہ عبد القدوس بن بکر بن خنيس ضعیف ہیں مگر متابعات و شواہد میں ان کا اعتبار کیا جاسکتا ہے، مستقل حجت نہیں۔ چونکہ اس روایت میں وہ منفرد ہیں لہذا وہ یہاں ضعیف ہیں۔
متن کے لحاظ سے بھی یہ روایت غلط ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہیکہ قرآن کو مخلوق سب سے پہلے الجعد بن درہم نے کہا تھا ۔ اور یہ (فتنہ) 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں ظاہر ہوا تھا۔
ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔ امت کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ سب سے پہلے جس نے یہ بات کہی کہ قرآن مخلوق ہے، وہ جعد بن درہم تھا، اور یہ (فتنہ) 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں ظاہر ہوا تھا۔ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)
ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔
عبدالرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام ابو حاتم) کو فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن کو مخلوق کہنے والا سب سے پہلا شخص جعد بن درہم تھا، اور اس نے یہ بات سن 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں کہی۔ پھر اس کے بعد بشر مریسی نے بھی یہی عقیدہ اپنایا، اللہ اس پر لعنت کرے۔“ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)
ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أحمد بن عبد اللّه الشّعرانيّ، يقول: سمعت سعيد بن رحمة، صاحب إسحاق الفزاريّ يقول: " إنّما خرج جهمٌ، عليه لعنة اللّه، سنة ثلاثين ومائةٍ، فقال: القرآن مخلوقٌ، فلمّا بلغ العلماء تعاظمهم فأجمعوا على أنّه تكلّم بالكفر، وحمل النّاس ذلك عنهم ". (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 423)
روایات اور تاریخی شواہد سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ "خلقِ قرآن" کا مسئلہ 120 ہجری کے بعد زیرِ بحث آیا، جبکہ امام حمّاد کی وفات خود 120 ہجری میں ہوئی۔ لہٰذا زمانی اعتبار سے بھی ان کی طرف اس مسئلے کی نسبت درست نہیں ہوسکتی۔ مزید برآں یہ امر بھی واضح اور قطعی ہے کہ امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کا مؤقف یہ تھا کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے، اس لیے ان کی طرف "خلقِ قرآن" کا عقیدہ منسوب کرنا غلط اور بے بنیاد ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں