نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 65 : امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ م 120ھ سے منقول فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ پر جروحات کا جائزہ :


اعتراض نمبر 65 : امام حماد بن ابی سلیمان  رحمہ اللہ م 120ھ سے منقول فقیہ ملت  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ  پر جروحات کا جائزہ :


 ہم نے غیر مقلدین کے ایک محدّث فورم پر ایک تحریر کا مطالعہ کیا جس کا عنوان تھا:

"حماد بن ابی سلیمان کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں موقف"۔

اس تحریر میں ایک روایت نقل کی گئی ہے، چنانچہ ہم سب سے پہلے اسی روایت کا اِسنادی اور متن کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد باقی درج شدہ روایات کو بھی تحقیق کی روشنی میں پرکھا جائے گا، ان شاء اللہ۔

اعتراض نمبر 1 

٣٥٤ - حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ الْخَرَّازُ، وَأَظُنُّ أَنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ أَنَا مِنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ: نا شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قِيلَ لِابْنِ عَوْنٍ: هُوَ أَبُو الْجَهْمِ عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرٍ، فَكَأَنَّهُ أَقَرَّ بِهِ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: «اذْهَبْ إِلَى هَذَا الْكَافِرِ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَقُلْ لَهُ: إِنْ كُنْتَ تَقُولُ الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ؛ فَلَا تَقْرَبْنَا»

عبداللہ بن احمد (بن حنبل) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عون خرّاز نے حدیث بیان کی — اور غالب گمان ہے کہ میں نے خود بھی ابنِ عون سے یہ بات سنی — انہوں نے کہا: ہم سے کوفہ کے ایک شیخ نے بیان کیا۔ ابو عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ابنِ عون سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ابو الجہم عبدالقدوس بن بکر ہیں؟ تو گویا انہوں نے اس کی تصدیق کر دی۔ ابنِ عون کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے حماد بن ابی سلیمان نے کہا: “جاؤ اُس کافر کے پاس — یعنی ابو حنیفہ کے — اور اسے کہہ دو کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ قرآن مخلوق ہے، تو پھر ہمارے قریب نہ آنا۔” مسند ابن الجعد ١/‏٦٦ — ابن الجعد (ت ٢٣٠)


جواب :  یہی روایت موضح أوهام الجمع والتفريق ٢/‏٢٢٤ میں بھی  سے موجود ہے ۔  قطعِ نظر اس بات سے کہ شروع میں راوی کو کچھ شبہ تھا یا نہیں، اور بعد میں ابنِ عون نے یہ تصدیق کر دی کہ "کوفہ کے ایک شیخ" سے مراد واقعی ابو الجہم عبدالقدوس بن بکر ہی ہیں — اگر اس سند میں  ابو الجہم عبدالقدوس بن بکر ہی  کی مراد لی جائے، تو بھی یہ روایت ضعیف بلکہ منکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راوی عبدُالقدّوس بن بَکر بن خُنَیس الکوفی ابو الجہم محدثین کے نزدیک معتبر نہیں بلکہ راجح قول یہی ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس راوی کے ہم عصر جرح و تعدیل کے بڑے ائمہ ــ امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل اور ابو خیثمہ ــ نے اس کی احادیث کو قبول کرنے کے بجائے اس پر سخت جرح کی اور اس کی روایات کو ترک کردیا تھا۔ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

قال ابن حجر في «تهذيب التهذيب ٦/٣٦٩»: ذكر محمود بن غيلان عن أحمد، وابن معين، وأبي خيثمة أنهم ضربوا على حديثه.

یعنی محمود بن غیلان کے مطابق امام احمد، امام ابن معین اور ابو خیثمہ نے اس راوی کی حدیث پر قلم پھیر دیا تھا، یعنی اسے ناقابلِ احتجاج سمجھا تھا۔

مزید یہ کہ امام بخاری نے بھی اسے اپنی کتاب «الضعفاء» میں ذکر کیا ہے (میزان الاعتدال ٢/٦٤٢ ، تاریخ الکبیر للبخاری ٧/١٤٠) 

معاصر محققین نے بھی اسی  فیصلہ کو اپنایا ہے۔ علامہ شعیب الأرنؤوط فرماتے ہیں: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة، وعبد القدوس بن بكر بن خنيس.

(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة ١١/١٠٢)

اگرچہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا اور ابو حاتم الرازی نے کہا: «لا بأس بحديثه»، مگر دوسری طرف ہم عصر جرح و تعدیل کے بڑے ائمہ   کی جرح ان کے قول سے کہیں زیادہ مقدم ہے۔ امام ذہبی نے «الكاشف» میں صرف وثّق کہہ کر نقل کیا مگر ابن حجر نے تقریب میں ابو حاتم کا قول ذکر کرکے ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ احمد، ابن معین وغیرہ نے اس پر سخت رد کیا ہے۔ 

عبد القدوس بن بكر بن خُنَيس، أبو الجهم الكوفي.

ضَعِيفٌ.

ذكره ابن حبان في «الثقات».

قال أبو حاتم: لا بأس بحديثه.

قال ابن حجر في «تهذيب التهذيب»: ذكر محمود بن غيلان عن أحمد، وابن معين، وأبي خيثمة أنهم ضربوا على حديثه.

قال الذهبي في «الكاشف»: وُثِّق.

قال ابن حجر في «تقريب التهذيب»: قال أبو حاتم: لا بأس به.

والراجح أنه ضعيفٌ؛ لضرب الأئمة على حديثه.

اس وجہ سے محقق إبراهيم بن عبد الله المديهش نے تخريج أحاديث وآثار حياة الحيوان للدميري من التاء إلى الجيم ١/‏١١٠٥ میں کہا ہیکہ راجح یہ ہیکہ یہ راوی ضعیف ہے۔

محقق بشار عواد معروف نے آئمہ کے اقوال کے بعد خلاصہ کے طور پر اس راوی کو ضعیف لکھا ہے۔ بل: ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد… فإن صحت الرواية عن أحمد وابن معين وأبي خيثمة، فلابد أنه تبين لهم ما لم يتبين لأبي حاتم؛ فضعفوه. (تحرير تقريب التهذيب ٢/٣٧٦)

اور محقق الحارث بن علی الحسنی نے بھی ضعیف لکھا ہے   كل من اسمه عبد القدوس: فهو ثقة، إلا ابن بكر بن خنيس ففيه ضعف. (منتقى الألفاظ بتقريب علوم الحديث ١/٢٣٠)

لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ اس راوی کی عدالت و ضبط پر کوئی معتبر، صریح، قطعی توثیق موجود نہیں۔ اس پر امام احمد، امام ابن معین، ابو خیثمہ اور امام بخاری جیسے ائمہ کی جرح موجود ہے۔ اس بنا پر راجح فیصلہ یہی ہے کہ عبد القدوس بن بکر بن خنيس ضعیف ہیں مگر متابعات و شواہد میں ان کا اعتبار کیا جاسکتا ہے، مستقل حجت نہیں۔ چونکہ اس روایت میں وہ منفرد ہیں لہذا وہ یہاں ضعیف ہیں۔

متن کے لحاظ سے بھی یہ روایت غلط ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہیکہ قرآن کو مخلوق سب سے پہلے الجعد بن درہم نے کہا تھا ۔ اور یہ (فتنہ) 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں ظاہر ہوا تھا۔

ولا خلاف بين الأمّة أنّ أوّل من قال: القرآن مخلوقٌ جعد بن درهمٍ في سنيّ نيّفٍ وعشرين۔ امت کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ سب سے پہلے جس نے یہ بات کہی کہ قرآن مخلوق ہے، وہ جعد بن درہم تھا، اور یہ (فتنہ) 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں ظاہر ہوا تھا۔ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/344)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أبي يقول: " أوّل من أتى بخلق القرآن جعد بن درهمٍ وقاله: في سنة نيّفٍ وعشرين ومائةٍ، ثمّ من بعدهما بشر بن غياثٍ المريسيّ، لعنه اللّه۔

عبدالرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام ابو حاتم) کو فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن کو مخلوق کہنے والا سب سے پہلا شخص جعد بن درہم تھا، اور اس نے یہ بات سن 120 ہجری کے بعد کچھ ہی برسوں میں کہی۔ پھر اس کے بعد بشر مریسی نے بھی یہی عقیدہ اپنایا، اللہ اس پر لعنت کرے۔“ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 425)

ذكره عبد الرّحمن بن أبي حاتمٍ قال: سمعت أحمد بن عبد اللّه الشّعرانيّ، يقول: سمعت سعيد بن رحمة، صاحب إسحاق الفزاريّ يقول: " إنّما خرج جهمٌ، عليه لعنة اللّه، سنة ثلاثين ومائةٍ، فقال: القرآن مخلوقٌ، فلمّا بلغ العلماء تعاظمهم فأجمعوا على أنّه تكلّم بالكفر، وحمل النّاس ذلك عنهم ".  (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 3/ 423)

روایات اور تاریخی شواہد سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ "خلقِ قرآن" کا مسئلہ 120 ہجری کے بعد زیرِ بحث آیا، جبکہ امام حمّاد کی وفات خود 120 ہجری میں ہوئی۔ لہٰذا زمانی اعتبار سے بھی ان کی طرف اس مسئلے کی نسبت درست نہیں ہوسکتی۔ مزید برآں یہ امر بھی واضح اور قطعی ہے کہ امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کا مؤقف یہ تھا کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے، اس لیے ان کی طرف "خلقِ قرآن" کا عقیدہ منسوب کرنا غلط اور بے بنیاد ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود




اعتراض نمبر  2
 أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا دعلج بن أَحْمَد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن علي الأبار، قَالَ: حَدَّثَنَا سفيان بن وكيع، قال: جاء عُمَر بن حماد بن أبي حنيفة فجلس إلينا، فقال سمعت أبي حمادا، يقول: بعث ابن أبي ليلى إلى أبي حنيفة، فسأله عن القرآن، فقال: مخلوق، فقال: تتوب وإلا أقدمت عليك؟ قال: فتابعه، فقال: القرآن كلام الله، قال: فدار به في الخلق يخبرهم أنه قد تاب من قوله: القرآن مخلوق، فقال أبي، فقلت لأبي حنيفة: كيف صرت إلى  هذا وتابعته؟ قال: يا بني، خفت أن يقدم علي فأعطيته التقية


جواب :  قارئین مکمل تفصیلی جواب "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کے دیے گئے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔



اعتراض نمبر  3
 أَخْبَرَنَا إبراهيم بن عُمَر البرمكي، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله بن خلف الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَر بن مُحَمَّد بن عيسى الجوهري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بكر الأثرم، قال: حَدَّثَنِي هارون بن إسحاق، قال: سمعت إِسْمَاعِيل بن أبي الحكم، يذكر عن عُمَر بن عبيد الطنافسي، عن أبيه، أن حماد بن أبي سليمان بعث إلى أبي حنيفة: إني برئ مما تقول، إلا أن تتوب، قال: وكان عنده ابن أَبِي غنية، فقال أَخْبَرَنِي جار لي أن أبا حنيفة دعاه إلى ما استتيب منه بعد ما استتيب

جواب :  قارئین مکمل تفصیلی جواب "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کے دیے گئے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔


اعتراض نمبر  4

وأَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبيد الله الحنائي، والحسن بن أبي بكر، وَمُحَمَّد بن عُمَر النَّرْسيّ، قالوا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشافعي، قَالَ: حَدَّثَنَا 
، قَالَ: حَدَّثَنَا ضرار بن صرد، قال: حَدَّثَنِي سليم المقرئ، قَالَ: حَدَّثَنَا سفيان الثوري، قال: قال لي حماد بن أبي سليمان: أبلغ عني أبا حنيفة المشرك أني برئ منه حتى يرجع عن قوله في القرآن

 أَخْبَرَنَا الحسين بن شجاع، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَر بن جعفر بن سلم، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن علي الأبار، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الأعلى بن واصل، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نعيم ضرار بن صرد، قال: سمعت سليم بن عيسى المقرئ، قال: سمعت سفيان بن سعيد الثوري، يقول: سمعت حماد بن أبي سليمان، يقول: أبلغوا أبا حنيفة المشرك أني من دينه برئ إلى أن يتوب.
قال سليم: كان يزعم أن القرآن مخلوق

٣٥٣ - حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، نا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ، نا أَبُو نُعَيْمٍ ضِرَارٌ قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عِيسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ يَقُولُ: «أَبْلِغُوا عَنِّي أَبَا حَنِيفَةَ الْمُشْرِكَ أَنِّي مِنْهُ بَرِيءٌ، إِلَّا أَنْ يَتُوبَ» قَالَ: قَالَ سُلَيْمٌ: كَانَ - يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ - يَزْعُمُ أَنَّ الْقُرْآنَ مَخْلُوقٌ (مسند ابن الجعد ص 66)

٣٩٣ - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ حَجَّاجٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ صُرَدَ قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمٌ الْمُقْرِئُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: أَبْلِغْ عَنِّي أَبَا حَنِيفَةَ  الْمُشْرِكَ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُ حَتَّى يَرْجِعَ عَنْ قَوْلِهِ فِي الْقُرْآنِ. (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة ٢/‏٢٦٥ )

٤٠٦ - وَحَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: نا أَبِي قَالَ: نا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ هَانِئٍ الطَّائِيُّ الْأَثْرَمُ، قَالَ: نا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْقَارِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: قَالَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ:  «أَبْلِغْ أَبَا حَنِيفَةَ الْمُشْرِكَ أَنِّي مِنْهُ بَرِيءٌ» قَالَ سُلَيْمَانُ: قَالَ سُفْيَانُ: لِأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ (الإبانة الكبرى - ابن بطة ٦/‏١٣٠)
نوٹ : اصل نام سلیم ہے نہ کہ سلیمان

٢١٩٨- سُلَيم بْن عِيسَى، القارئ، الكُوفيّ. سَمِعَ الثَّوري، وحَمزة الزَّيات. رَوَى عَنه: أَحْمَد بْن حُميد، وضِرار بْن صُرَد. قَالَ لي ضِرار بْن صُرَد: حدَّثنا سُلَيم، سَمِعَ سُفيان، قَالَ لي حَماد بْن أَبي سُليمان: أبلغ أبا حَنِيفة المشرك أني بريءٌ منه. قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ: القرآن مخلوق، وهو مَولَى لبْني تَيم بْن ثَعلبة بْن رَبِيعة. (التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل ٤/‏١٢٧)

جواب :  قارئین مکمل تفصیلی جواب "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کے دیے گئے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

اعتراض نمبر  5
 أَخْبَرَنِي عبد الباقي بن عبد الكريم، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الرَّحْمَن بن عُمَر الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: حَدَّثَنِي جدي، قال: حَدَّثَنِي علي بن ياسر، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْد الرَّحْمَن بن الحكم بن بشير بن سلمان، عن أبيه أو غيره، وأكبر ظني أنه عن غير أبيه، قال: كنت عند حماد بن أبي سليمان، إذ أقبل أَبُو حنيفة، فلما رآه حماد، قال: لا مرحبا ولا أهلا، إن سلم فلا تردوا عليه، وإن جلس فلا توسعوا له، قال: فجاء أَبُو حنيفة، فجلس، فتكلم حماد بشيء، فرد عليه أَبُو حنيفة، فأخذ حماد كفا من حصى  فرماه به

جواب :  قارئین مکمل تفصیلی جواب "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کے دیے گئے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...