نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 15:دانوں اور کھجوروں کا نصاب زکوة


 اعتراض نمبر15

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله : 15

دانوں اور کھجوروں کا نصاب زکوة

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن ابي سعيد الخدرى ان النبي ﷺ قال ليس في حب ولا تمر صدقة حتى يبلغ خمسة اوسق

ترجمہ: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانے اور کھجور جب تک پانچ وسق تک نہیں پہنچ جاتے تب تک ان میں زکوۃ نہیں۔ 

( نسائي كتاب الزكوةباب زكوة الحبوب 344 رقم الحديث 2487) 

فقہ حنفی 

قال ابو حنيفة قليل ما اخرجته الارض و كثيرة العشر سواء سقى سیحا او سقته السماء الا القصب والحطب والحشيش 

هداية اولين ج1كتاب الزكوة باب زكوة الزروء والثمار صفحه 201 یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا سرکنڈے اور گھاس کے علاوہ زمین کی ہر پیداوار پر وہ کم ہو یا زیاہ زکوۃ ہے۔ 

(فقہ وحدیث ص 54)

جواب:

امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا استدلال ان آیات و احادیث کے عموم سے ہے جن میں زمین سے اگنے والی اشیاء کی زکوة دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ان میں قلیل یا کثیر مقدار کا کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ مثلا 

1 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا انْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا اخْرَجْنَا لكُمْ مِنَ الْأَرْضِ -

 (بقرہ : 267)

اے ایمان والو ( نیک کام میں ) خرچ کیا کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے اور اس میں سے جو کہ ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے۔

2۔ وٙاٰتُوْاحٙقّٙہ یٙوْمٙ حٙصٙاْدِہ

اور اس میں جو حق ( شرح سے ) واجب ہے وہ اس کے کاٹنے ( اور توڑنے) کےدن مسکینوں کو دیا کرو۔

(انعام 141 )

3۔ عن سالم بن عبدالله عن ابيه عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال فيما سقت السماء و العيون او كان عشريا العشر وما سقى بالنضح نصف العشر. (بخاري ج 1 ص 201 ، ابن ماجه ص 130 ، نسائي مترجم ج 2 ص 105 ، ترمذي ج1ص 81. ابوداود ج ا ص 225)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو زمین بارش یا چشموں سے سیراب ہو یا دریائی پانی سے سیراب ہو اس پر عشر (1/10) ہے اور جس زمین کو کنوئیں کے پانی سے اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر ہے۔ ( یعنی 1/20)

4۔ جابر بن عبد الله يذكر انه سمع النبي ﷺ قال فيما سقت الانهار والغيم العشور وفيما سقى بالسانية نصف العشر .

(مسلم شریف ج 1 ص 316 نسائی ج 2 ص 105)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس زمین کو دریا یا بارش سیراب کرے اس پر عشر ( یعنی دس فیصد زکوۃ ) اور جس زمین کو کنوئیں کے پانی سے اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر ( یعنی پانچ فیصد بیسواں حصہ) ہے

5۔ عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فيما سقت السماءوالعيون العشر وفيما سقى بالنضح نصف العشر .

(ابن ماجہ ص 130 ترمذی ج 1 ص 81)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس زمین کو بارش یا چشمے سیراب کریں اس میں عشر ہے اور جس کو اونٹوں کے ذریعہ کنوئیں سےسیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔

6۔ عن معاذ بن جبل قال بعثني رسول الله ﷺ الى اليمن و امرنى ان اخذهما سقت السماء وما سقى يعلى العشر وما سقى بالدواني نصف العشر.

(ابن ماجہ ص 130 نسائی مترجم ج 2 ص 105 )

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ جو چیز بارش سے سیراب ہو یا بعلی (یعنی خود بخود ) ہوا اس میں عشر ہے اور جو ڈولوں سے سیراب ہو اس میں نصف عشر ہے۔ 

7۔عن سليمان بن يسار و عن بسرين سعید ان رسول الله صلی اللہ عليہ وسلم قال فيما سقت السماء والعيون والبعل العشر وفيما سقی بالنضح نصف العشر 

(موطا امام مالک مترجم ص 269)

 سلیمان بن سیار اور بسر بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بارش اور چشموں اور تالابوں سے سیرا کی جانی والی زمین کی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) ہے اور جو زمین پانی پہنچ کر سیراب کی جائے اس میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ ہے)

8۔ عن قتادة قال معمر وقراته في كتاب عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم عند كل رجل كتبه لهم فيما سقى بالنضح ولارشية نصف العشر قال معمر ولا اعلم فيه اختلافا وفيما كان بعلاء وفيما كان بالكظائم و فيما كان بخلا العشر قال معمر ولم اسمع فيه اختلافا.

(مصنفعبدالرزاق جلد 4 ص 134، سنن الکبری ج4 ص 130)

 قتادہ بیان کرتے ہیں کہ معمر نے کہا میں نے تمام (معتبر) لوگوں کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہوا فرمان دیکھا کہ جس زمین کو رسیوں اور ڈولوں کے ذریعہ کنوئیں کے پانی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے معمر کہتے ہیں کہ میرے علم میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اور جس زمین کو بارش یا دریائی پانی سے سیراب کیا جائے اس میں عشر ہے معمر کہتے ہیں کہ میرے علم میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

 قرآن مجید کی دو آیات اور چھ احادیث سے امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ آیات اور احادیث میں تکمیل اور کثیر کا فرق کئے بغیر مطلق زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر عشر یا نصف عشر کا حکم عائد فرمایا گیا ہے۔ اور یہ احادیث عموم قرآن کے مطابق بھی ہیں۔ پہلے جو دلائل نقل کئے گئے ہیں ان میں مطلقا حکم موجود ہے اب ہم ایسی روایت بھی نقل کرتے ہیں جس میں قلیل وکثیر کی وضاحت موجود ہے۔

 9۔ كتب عمر بن عبد العزيز ان هو خذ مما انتب الارض من قلیل اوکثیر العشر

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ نے لکھا کہ جو کچھ زمین اگائے تھوڑا یا زیادہ اس سےعشر لیا جائے گا۔

(مصنف عبد الرزاق ج 4 ص 12 حدیث نمبر 7196

 مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 371 حدیث نمبر 10028 )

 اس حدیث میں صاف صراحت موجود ہے کہ پیداوار کی مقدار تھوڑی ہو یازیادہ زکوۃ لازمی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین رحمہم اللہ اور دیگر فقہائے اسلام رحمہم اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نظریہ کی تائید:

10۔ عن ابن عمر عن عمر بن الخطاب قال ما سقت الانهار والسماء والعيون فالعشر وما سقى بالرشاء فنصف العشر . 

(مصنف عبد الرزق جلد 4 ص 134)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس زمین کو دریائی پانی بارش اور چشمے سیراب کریں اس میں عشر ہے اور جس کو رسیوں کے ذریعہ کنوئیں کے پانی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔ 

11۔عن عاصم بن ضمرة عن على قال ما سقى فتحا اوسقة السماء ففيه العشر وما سقى بالعرب فنصف العشر .

(مصنف عبدالرزاق جلد 4 ص 133)

عاصم بن ضمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس زمین کو بارش سیراب کرے اس میں عشر ہے اور جس زمین کو ڈول کے ذریعہ کنوئیں سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے۔

12۔ عن مجاهد قال فيما اخرجت الارض فيما قل منه او كثر العشر او نصف العشر

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 139) مجاہد رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں زمین جس چیز کو بھی نکالے خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر اس میں عشر یا نصف عشر ہے۔

13۔ عن حماد قال في كل شي اخرجت الارض العشر ونصف العشر 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 139) حماد کہتے ہیں ہر وہ چیز جس کو زمین نکالے اس میں عشر ہے یا نصف عشر ہے۔ 

14۔ عن ابراهيم قال في كل شئى اخرجت الارض زكوة 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 139)

ابراہیم کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کو زمین نکالے اس میں زکوۃ ہے۔

15-16-17-18 یہ جملہ دلائل اپنے عموم کے ساتھ اس پر دال ہیں کہ جو چیز بھی زمین سے پیدا ہو اس میں عشر ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ شافعی، فتح الباری ج 2 ص 350 میں اور قاضی شوکانی غیر مقلد نیل الاوطارج 4 ص 151 میں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃاللہ علیہ ج ص 1335 مطبوعہ نولکشور میں لکھتے ہیں۔

قال ابن العربی اقوى المذاهب و احوطها للمساكين قول ابي حنيفة وهو التمسك بالعموم .

علامہ ابو بکر ابن العربی رحمۃاللہ علیہ نے کہا ہے کہ قوی تر مذہبوں کا اس مسئلہ میں مذہب امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ پہلے کا ہے باعتبار دلیل اور احتیاط کے۔

علامہ ابن العربی رحمۃاللہ علیہ کے حوالہ سے جس بات کا ذکر کیا گیا ہے وہ علامہ ابن العربی رحمۃاللہ علیہ کی مشہور کتاب عارضتہ الاحوذی شرح جامع ترمذی ج2 ص135 پر موجود ہے 

19۔ نواب صدیق حسن خان غیر مقلد دلیل الطالب ص 426 میں لکھتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی عمومی دلیلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ جو چیز زمین سے پیدا ہو اس میں عشر ہے۔ مثلاً

خذ من اموالهم صدقة وقول النبي صلی اللہ عليہ وسلم فيما سقت السماء الحدیث و این حدیث در صحیح است و راجع له التحفة. ( جلد 2 ص 12)

رہی وہ روایت جور اشدی صاحب نے نقل کی ہے تو اس کے کئی جواب ہیں۔

جواب نمبر :1

صاحب ہدایہ ج 1 ص 181 میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں صدقہ سے مراد ز کوۃ ہے عشر مراد نہیں ہے۔

صاحب ہدایہ کا یہ کہنا بجا ہے اور اس کے دو قرینے ہیں 

 قرینه اولی

ترمزی کی روایت میں یہ لفظ ہیں۔ ليس فيما دون خمسة ذود صدقة و ليس فيما دون خمسة أو سق

صدقة نہیں ہے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ اور نہیں ہے پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوۃ اور نہیں ہے پانچ گنے یا تو کرے سے کم ہیں زکوۃ یعنی غلے یام میں۔

نسائی میں یہ روایت مکمل اس طرح ہے۔

ولا فيما دون خمس خود ولا فيها دون خمس اواق صدقة

 اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوۃ نہیں

 قرینہ ثانی

پانچ وسق اس زمانہ میں پانچ او قیوں کی قیمت میں برابر تھے یعنی دو سودرہم ان کی مالیت تھی اس سے عشر کا انتقاء نہیں ہوتا۔

جواب نمبر : 2

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پانچ وسق سے کم مقدار کی زکوۃ حکومت وصول نہیں کرے گی بلکہ اس کا مالک خود اپنے طور پر اس کی زکوۃ ادا کرے گا۔ 

جواب نمبر :3

اس حدیث میں کھجور سے مراد وہ کھجوریں ہیں جو تجارت کے لئے ہوں کیونکہ اس وقت عام طور پر کھجوروں کی خرید و فروخت وسق کے حساب سے ہوتی تھی اور ایک وسق کھجور کی قیمت چالیس درہم ہوتی اس حساب سے پانچ وسق کی قیمت دو سو درہم ہوئے جو مال تجارت میں زکوۃ کے لئے متعین نصاب ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...