نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر76: مسئله : سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔


 اعتراض نمبر٧٦
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔

حدیث نبوی ﷺ

عن زيد بن ثابت قال قرات على رسول الله ﷺ والنجم فلم يسجد فيه -

(ترجمه ) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ پر سورہ نجم پڑھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

(بخاري ج١ ابواب ما جاء في سجود القرآن وسنتها باب من قر ا سجدة ولم يسجد فيه ص ١٣٦ واللفظ له.

رقم الحدیث (۷۳ - ۱۰۷۲) (مسلم ج١کتاب المساجد باب سجود التلاوة ص ۲۱۵، رقم الحدیث ۱۳۹۸)

 فقه حنفی

والسجدة واجبة فى هذه المواضع على التالي والسامع قصد سماع

القرآن اولم يقصد.

(هدایه اولين ج١كتاب الصلوة باب سجدة التلاوة صفحه ١٦٣) . ( ترجمہ ) صاحب ہدایہ سجود کے مقامات کا ( جن میں سورۃ نجم بھی آجاتی ہے ) ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ان مقامات پر سجدہ کرنا واجب ہے، تلاوت کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ جس نے سننے کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

(فقہ وحدیث (۱۱۵)

جواب:

یہاں پر دو مسئلے ہیں ایک یہ کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔ دوسرے سورہ نجم میں بھی سجدہ ہے۔

فقہ حنفی کے دلائل

سجدہ کی آیات تین قسم کی ہیں پہلی قسم جن میں سجدہ کا امر ہے جیسا کہ واسجد واقترب (العلق) اور مطلق امر وجوب کے لیے ہے۔ دوسری قسم جن میں سجدہ سے کفار کا استنکاف کا ذکر ہے جیسا کہ واذا قرء عليهم القرآن لا يسجدون انشقاق) کفار کی مخالفت واجب ہے

تیسری قسم جن میں انبیاء علیہم السلام کے سجدہ کا ذکر ہے جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے اذا تتلی عليهم آيات الرحمن خروا سجدا و بکیا (مریم) اور انبیاء علیہم السلام کی اقتداء لازم ہے۔ جیساکہ قرآن میں ہے اولئيك المذين هدى الله فيهدهم اقتده (انعام آیت نمبر ۹۰ پ۷)

ترجمہ: وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔

حدیث :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بندہ آیت سجدہ تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا بھا گتا ہے اور کہتا ہے افسوس ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیاگیا اس نے سجدہ کیا تو اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا میں نے انکار کیا تو میرے لیے دوزخ ہے

ابن ماجه باب سجود القرآن مسلم ج١ص ٦١

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابن آدم مامور با سجود ہے اور مطلق امر وجوب کے لئے آتا ہے۔

حدیث ۲

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے والنجم کا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکوں اور جن اور انس نے سجدہ کیا۔

حدیث :

( بخاری باب سجدة النجم ص ١۴۶ حدیث نمبر ١٠٧١ مسلم باب سجود التلاوة )

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ النجم پڑھی۔ پس آپ نے سجدہ کیا اور اس میں قوم کے ہر شخص نے سجدہ کیا۔ (بخاری باب سجدہ انجم )

حدیث ۴

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ آیت سجدہ کو پڑھتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے تھے آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی سجدہ کرتے پھر رش ہو جاتا حتی کہ کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ ملتی جس پر وہ سجدہ کرتا ۔ ( بخاری باب ازدحام الناس اذا قرا الامام السجدة )

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سجدہ واجب ہے اور سننے والوں پر بھی واجب ہے اس لیے توسننے کے بعد تمام لوگ سجدہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سجدہ کے لیے جگہ باقی نہیں رہتی تھی ۔

علامہ ابو الحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی قرطبی متوفی ۴۴۹ لکھتے ہیں تمام شہروں کے فقہاء

کا اس پر اجماع ہے کہ جب تلاوت کرنے والا آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو جو اس کے پاس بیٹھا ہوا

آیت سجدہ کو سن رہا ہو، اس پر واجب ہے کہ اس کے سجدہ کے ساتھ وہ بھی سجدہ کرے حضرت عثمان

رضی اللہ عنہ نے کہا: جو آیت سجدہ کو سنے اس پر بھی سجدہ کرنا واجب ہے۔ 

(شرح ابن بطال ج ۳ ص ۵۹)

ناظرین ہم نے سجدہ کا واجب ہونا بھی ثابت کر دیا اور سورہ النجم میں سجدہ کا ثبوت بھی دے

دیا۔ اس مسئلہ کو حدیث کے خلاف کہنا بالکل درست نہیں ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں۔

پہلا جواب :

اس روایت میں سورۃ النجم میں سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے مگر دوسری روایات میں جو ہم اوپر نقل کر آئے ہیں ان میں النجم میں سجدہ کرنے کا ذکر موجود ہے۔

 دوسرا جواب:

سجدہ تلاوت فورا ادا کرنا واجب نہیں بعد میں کرنا بھی جائز ہے اس روایت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے فوراً سجدہ نہیں کیا۔

تیسرا جواب :

امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے حضرت زید بن ثابت نے اس وقت آیت سجدہ پڑھی ہوجس وقت میں سجدہ کرنا جائز نہ ہو اس لیے آپ نے اس وقت سجدہ نہیں کیا۔

چو تھا جواب :

یہ بھی احتمال ہے کہ آپ اس وقت با وضو نہ ہوں۔ لہذا اگر یہ تطبیق دے دی جائے تو دونوں قسم کی روایات کا آپس میں جو ٹکرآؤ ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ محدثین نے اور بھی کئی جواب دیتے ہیں۔ بہرحال بات یہ ہے کہ حنفی مسلک کسی طرح بھی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...