اعتراض نمبر 77 : کہ اوزاعی اور سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے بڑھ کر زیادہ منحوس اور محمد بن عبد اللہ الشافعی نے کہا کہ زیادہ شریر اسلام میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔
اعتراض نمبر 77 :
کہ اوزاعی اور سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے بڑھ کر زیادہ منحوس اور محمد بن عبد اللہ الشافعی نے کہا کہ زیادہ شریر اسلام میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔
أخبرنا أبو العلاء محمد بن الحسن الوراق، أخبرنا أحمد بن كامل القاضي. وأخبرنا محمد بن عمر النرسي، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، أخبرنا عبد الملك ابن محمد بن عبد الله الواعظ، أخبرنا أحمد بن الفضل بن خزيمة قالوا: حدثنا أبو إسماعيل الترمذي، حدثنا أبو توبة، حدثنا الفزاري قال:
سمعت الأوزاعي وسفيان يقولان: ما ولد في الإسلام مولود أشام عليهم - وقال الشافعي: شر عليهم - من أبي حنيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ میں شافعی سے مراد محمد بن عبد اللہ ہے جو سند میں مذکور ہے۔ اور النرسی کا شیخ ہے۔ اور خطیب پر واجب تھا کہ اس کا نام ذکر کرتا تاکہ وہم نہ رہتا کہ اس سے مراد امام شافعی نہیں کیونکہ ان دونوں میں نام کے لحاظ سے مناسبت ہے۔
اور شاید خطیب کا مقصد وہم ڈالنا ہی تھا۔ اور اس کی سند میں ابن کامل ہے جو ضبط میں کچھ نہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ متساھل بھی تھا جیسا کہ پہلے کئی مرتبہ بیان ہو چکا ہے۔
اور محمد بن عبد اللہ الشافعی جو ہے وہ ابوبکر البزاز ہے اس سے مصنف نے ابو حنیفہ پر مطاعن والی روایات بکثرت بیان کی ہیں۔
اور یہ اس بات کو پسند کرتا تھا کہ اس کو الشافعی کہہ کر پکارا جائے اور مذہب الشافعی میں اس کا عمل مجہول قسم کے راویوں سے روایت لے کر فقیہ الملت پر طعن کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اور اسی طرح اس نے خود بھی اس کے مطاعن بیان کیے۔
اور اس کا اپنے آپ کو شافعی مذہب کی طرف منسوب کرنا اس لیے نہ تھا کہ اس مذہب کو پورا کرے (یعنی اس کی خدمت کرے) بلکہ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ابو حنیفہ کے مطاعن والی من گھڑت روایات کو بیان کرنے کا موقع مل جائے۔
تو ہم اس کی طرف توجہ کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ اہل نقد میں سے بہت سے حضرات لوگوں کا ایک دوسرے کے بارہ میں کلام قبول نہیں کرتے جبکہ ان کا آپس میں مذہب کا اختلاف ہو۔ خواہ وہ اختلاف فروع میں ہو یا اصول میں۔ اور بالخصوص جبکہ اس سے تعصب ظاہر ہو۔ یہاں تک کہ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ متعصب کی شہادت ہی قبول نہ کی جائے گی جیسا کہ ان کی عبارت پہلے نقل کی جا چکی ہے[1]۔ اور بے شک ابن عبدالبر سعید بن المسیب کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ علم تمہیں جہاں سے بھی ملے حاصل کرو اور فقہاء کے آپس میں ایک دوسرے کے بارہ میں جو اقوال ہیں ان کو قبول نہ کرو۔
پس بے شک وہ ایک دوسرے پر غیرت کھاتے ہیں جیسے بکرے باڑہ میں غیرت کھاتے ہیں[2]۔
اور خطیب نے الکفایہ میں سند کے ساتھ شعبہ سے روایت کی ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ محمدثین نے آپس میں ایک دوسرے پر جو غیرت کھائی ہے اس سے بچو پس ان کی غیرت بکروں کی غیرت سے بھی زیادہ سخت ہے۔ الخ۔
اور اس کا راوی احمد بن الفضل ثقہ نہیں ہے۔
اور محمد بن اسماعیل الترمذی کے بارہ میں ابو حاتم نے کلام کیا ہے اور الفزاری کا حال تعصب میں وہ ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور ہم نے پہلے بیان کر دیا کہ یہ دونوں (اوزاعی اور سفیان ) امام اس قسم کی گھٹیا کلام سے بالکل بری الذمہ ہیں اور اس جیسی کلام سے صرف اس کا کہنے والا ہی مرتبہ میں گرتا ہے کیونکہ یہ کلام بے سوچے سمجھے کلام کرنے کو متضمن ہے[3]۔
پس حدیث میں جن تین چیزوں (عورت، مکان اور گھوڑا) میں نحوست پائے جانے کا ذکر ہے کیا ان کے علاوہ بھی کسی چیز میں نحوست ہو سکتی ہے؟
اور اگر بالفرض پائی جاسکتی ہے تو منحوس کو پہنچاننے کا کیا طریقہ ہے؟
اور اگر یہ بھی فرض کر لیں کہ معلوم ہو سکتا ہے تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہمارے امام منحوسوں کے اعلیٰ درجہ میں ہیں؟
تو کیا وحی کے علاوہ اس کو جاننے کا کوئی اور طریقہ ہے؟ اور وحی تو بند ہو چکی ہے البتہ شیطانی وحی جاری ہے۔ اور بے شک ان افسانہ نویسوں نے بڑی بے باکی کے ساتھ اس جیسی نازیبا کلام قریب قریب الفاظ کے ساتھ بہت سے ائمہ بلکہ چوٹی کے ائمہ سے روایت کی ہیں حالانکہ وہ سارے کے سارے اس سے بری الذمہ ہیں۔ اور ان ائمہ تک پہنچنے والے راویوں کی سندیں ہی ان کے من گھڑت ہونے کا اعلان کرتی ہیں
جیسا کہ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں ؟
اور اسی طرح متن سے بھی ان کا من گھڑت ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی ہی ان روایات کو گھڑنے والوں سے حساب لینے والا ہے[4]
اور خطیب اس جیسی ایک روایت حماد بن سلمہ سے کر کے بڑا خوش ہوا حالانکہ اس کی سند میں تین ساتھی (ابن رزق ابن سلم اور الابار) اور ایوب بن محمد النصبی۔ اور یحییٰ بن السکن ہیں[5]۔ اور اس یحیی کو صالح جزرہ نے ضعیف قرار دیا ہے[6]۔
اور خطیب نے ابن عیینہ سے بھی اس جیسی روایت کی ہے[7] اس کی سند میں بھی ابن رزق اور اس کے ساتھی ہیں اور ابو عمرو بن السماک یا ابو نعیم الاصبھانی اور الحمیدی ہیں۔ اور الحمیدی کے بارہ میں محمد بن عبد الحکم نے کہا کہ یہ حدیث میں تو نہیں مگر جب لوگوں کے بارہ میں کلام کرے تو جھوٹا ہے۔
اور خطیب نے ابن عون سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے اس میں الحسن بن ابی بکر ہے جس کے بارہ میں خود خطیب نے کہا ہے کہ وہ نبیذ پیتا تھا۔ اور مومل بن اسماعیل ہے اور وہ بخاری کے ہاں متروک ہے[8]۔
(اور یہ روایت اس روایت کے ساتھ معارض ہے جو صحیح سند کے ساتھ ہے)
بے شک ابو عبد الله الحسین بن علی الصمیری احمد بن محمد الصيرفي محمد بن احمد المسکی علی بن محمد النخعی۔ محمد بن سعدان۔ ابو سليمان الجوزجانی۔ خارجہ بن مصعب کی سند نقل کر کے بیان کیا کہ خارجہ نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن عون سے سنا جبکہ وہ ابو حنیفہ کا ذکر کر رہے تھے تو اس نے کہا کہ وہ رات بھر عبادت کرنے والے اور بکثرت عبادت میں مشغول رہنے والے تھے۔
خارجہ کہتے ہیں کہ اس کے ہم مجلس لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ بے شک وہ آج کوئی بات کہتا ہے اور پھر اگلے دن اس سے رجوع کر لیتا ہے۔
تو ابن عون نے کہا کہ یہی تو پرہیزگاری کی دلیل ہے۔
اس لیے کہ دیندار آدمی ہی اپنی بات سے دوسری بات کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگر یہ بات نہ ہو تو اس کی خطائیں غالب آتی رہیں گی اور اس کو راہ راست سے ہٹاتی رہیں گی۔
پھر اگر یہ کلام ان ائمہ سے ثابت ہو جائے تو خطیب پہلے زمانہ کے علماء اور امت کے پیشواؤں کے بارہ میں اس بات کی تشہیر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے سینوں کا غصہ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اور لعنتیں بھیج کر ٹھنڈا کرتے تھے جس کا اکثر بازاری لوگ بھی انکار کرتے ہیں۔
حالانکہ علماء کی شان تو یہ
ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں صرف دلیل کا جواب دلیل سے دیں۔
اور بے شک جو بحث ہوئی اس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ اس عار سے بری الذمہ ہیں۔
پس ہائے اللہ کی شان کہ ان راویوں کا دین کتنا کمزور ہے یہاں تک کہ انہوں نے ان راوی عیب والے کلمات کی نسبت انتہائی کمزور سندوں کے ساتھ اوزاعی ، مالک ، ثوری ، ابن عیینه اور ابن عون رحمہم اللہ جیسے حضرات کی طرف کر دی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب حضرات ابو حنیفہ کی اس کی شان کے لائق تعریف کرنے والے تھے۔
اور ہم نے ابن عبد البر کی کتاب اور خود خطیب کی تاریخ اور ابن ابی العوام کی کتاب وغیرہا کتب کے حوالہ سے کئی جگہ ابو حنیفہ کے بارہ میں ان حضرات کے تعریفی کلمات کا اشارہ کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اتنا ہی کافی ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ کتاب الام 6/211
[2]. جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1091.
[3]۔ اول تو یہ کہ یہاں سند میں ابو اسحاق الفزاری ہیں ، جو کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سخت دشمن تھے لہذا ان سے منقول یہ روایت قابل اعتماد نہیں ، ابو اسحاق الفزاری کی حقیقیت اور امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی رحمہ اللہ سے منقول جروحات کے متعلق تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 46 ، 50 ، 74 ، 75 ، 76 میں دیکھ سکتے ہیں۔
[5]۔ أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا أيوب بن محمد الضبي سمعت يحيى بن السكن البصري قال: سمعت حمادا يقول: ما ولد في الإسلام مولود أضر عليهم من أبي حنيفة.
أبو زكريا يحيى بن السكن البصري
أبو حاتم الرازي : ليس بالقوي
أبو حاتم بن حبان البستي : ذكره في الثقات
الذهبي : ليس بالقوي
صالح بن محمد جزرة : ضعفه
نور الدين الهيثمي : ليس بالقوي
[6]۔امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ :
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ جلیل القدر محدثین میں سے ہیں، جن کی خدماتِ حدیث بے حد و بے حساب ہیں۔ ان کے مقام و مرتبہ کا ہم دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ تاہم بعض تاریخی حوالوں سے ان کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں رائے میں سختی نظر آتی ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنا انصاف کا تقاضا ہے۔ تین بنیادی اسباب ان کے اس موقف کے پیچھے نظر آتے ہیں:
1۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم علل الحدیث میں معرفت کی بنیاد پر بعض حدیث پر کلام کرتے تو اس کو امام حماد یہ سمجھتے کہ امام ابو حنیفہ اپنی رائے سے حدیث کو رد کر رہے ہیں۔
2۔ امام حماد ان محدثین میں سے تھے جو اہل الرائے سے سخت تعصب رکھتے تھے۔
3. امام حماد کا شدت مزاج اور سخت رویہ
1. علمِ علل الحدیث کی محدود تدوین
امام ابو حنیفہ کا علل الحدیث سے حدیث کی جانچ کرنے کو امام حماد بن سلمہ یہ سمجھتے تھے کہ امام صاحب اپنی رائے سے حدیث کو ترک کرتے ہیں
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے زمانے میں علمِ علل الحدیث اپنی مکمل صورت میں مدون نہیں ہوا تھا۔ علمِ علل ایک نہایت باریک اور دقیق فن ہے، جس میں احادیث کے مخفی نقائص کو پہچانا جاتا ہے۔ اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے "سب سے دقیق اور بلند پایہ علم" قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "یہ علم صرف اسے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے غیر معمولی فہم اور حفظ عطا کیا ہو"۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس علم کی فطری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ باوجود اس کے کہ علمِ علل اُس زمانے میں مدون نہیں تھا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گہری بصیرت کے ذریعے حدیث کی علتوں کو پہچان لیتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات، جو بظاہر صحیح دکھائی دیتی تھیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان کی گہرائی میں جا کر ان کے نقص کو پہچانا اور امت کو علمی بنیاد پر ان کے عمل سے روکا۔ بعد کے محدثین نے بھی کئی مواقع پر ان کی تحقیق کی تصدیق کی۔ مثلا
اکثر غیر مقلدین امام اعظم کے خلاف تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ امام صاحب نے ایک حدیث کو سجع (شاعری کی ایک قسم ) کہہ کر رد کیا۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي - بمرو - حدثكم محمد بن علي الحافظ، حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد عن أبيه قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم " فقال: هذا سجع.
اب یہاں ہمارا جواب یہ ہیکہ 《 افطر الحاجم والمحجوم》 والی حدیث ہی منسوخ ہے ،
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر کلام کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر محدثین نے بھی اس صحیح سند سے مروی روایت پر کلام کیا ہے جس کی تفصیل نصب الرایہ للزیلعی میں دیکھیں ۔ مزید یہ کہ غیر مقلد البانی نے بھی اس کو منسوخ کہا ہے۔ بلکہ علل الحدیث کے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "باطل" کہا ہے (علل رقم 732) جو کہ سجع سے کہیں گنا زیادہ سخت لفظ ہے تو سب سے پہلے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ پر گستاخی کا فتوی لگایا جائے ۔ لیکن وہاں متعصب اصحاب الحدیث کی زبانوں کو تالا لگ جائے گا کہ یہاں ابو حنیفہ تو ہے نہیں ، یہاں ہمارا ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ہے ، لہذا وہ کہیں گیں کہ علل الحدیث کی وجہ سے ، اس روایت کو ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے ، تو یہی علل اگر ابو حنفیہ رحمہ اللہ استعمال کریں تو اصحاب الحدیث کے آئمہ ، بلا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام نامی تک بگاڑنے ، لعن طعن اور کافر کہنے تک آ جاتے ہیں ، اللہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تعصب کرنے والوں سے درگزر فرمائے ۔
اعتراض نمبر 53 کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔
اسی طرح امام صاحب نے سفیاں ثوری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک علل کی ایک بات یوں کہی کہ , ابن عدی کہتے ہیں :
"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الحميد الحماني سمعت أبا سعد الصاغاني يقول جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال ما ترى في الأخذ عن الثوري فقال اكتب عنه ما خلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي وحديث جابر الجعفي."
ایک شخص ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا ثوری سے روایت لینے کے بارے میں آپکی کیا راۓ ہے ابو حنیفہ نے کہا :"کہ ان سے روایت لکھ سکتے ہو سوائے حدیث ابی اسحاق عن حارث عن علی اور جابر جعفی کی روایت سےـ" (الكامل ابن عدي ج٢ ص ٣٢٨)
یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علل الحدیث سے واقفیت کی ایک مثال ہیکہ امام صاحب نے اس وقت خاص سند کی خامی بتائی جب باقیوں کا دھیان نہ تھا ۔ اسی طرح جابر جعفی کی حقیقیت کسی پر عیاں نہ تھی یہاں تک کہ امام صاحب نے اس کو کذاب کہا اور بعد کے تمام محدثین نے اسی امام صاحب کی اس جرح کو بالکل قبول کیا ، تفصیل دیکھیں (امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام 393 )
لہٰذا جب امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض فیصلوں پر تعجب یا اعتراض کیا، تو یہ اختلاف دراصل علمِ علل کی اُس وقت کی محدود تفہیم کی وجہ سے تھا، نہ کہ کوئی ذاتی عناد۔

2. امام حماد بن سلمہ اہل الحدیث سے تھے جن کا اہل الرائے سے رویہ تعصب والا تھا۔
قارئیں تفصیل ان لنکس پر پڑھ سکتے ہیں۔
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
3. فطری غصہ اور شدتِ مزاج
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ طبیعت میں کچھ سخت مزاج تھے۔ سخت مزاجی بعض اوقات انسان کی رائے میں شدت لے آتی ہے۔ چنانچہ ان سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بعض سخت الفاظ بھی منقول ہیں،
181) قال أبو داود النحوي سليمان بن معبد ليحيى بن معين:حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: سمعت حماد بن سلمة يقول: أعض الله أبا حنيفة بكذا وكذا، لا يكني، فقال ابن معين: «أساء أساء» .
حماد بن سلمہ نے کہا : اللہ ابو حنیفہ کی فلاں فلاں چیز کاٹ دے اور یہ بات کنایتہ نہیں کہی گئی تو امام ابن معین فرماتے تھے حماد نے برا کہا ، برا کہا۔
یہ حماد بن سلمہ کی شان کے خلاف تھا کہ وہ اس قسم کے فضول جملے کہتے البتہ یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اپنے حنفی ہونے کا کمال مظاہرہ فرمایا اور ببانگ دہل حماد بن سلمہ کے جملوں پر ان کو غلط کہا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ بعض محدثین جیسے حماد بن سلمہ کا رویہ اہل الرائے خصوصا امام اعظم کیلئے انتہائی متشدد ، متعصب اور سخت تھا ،
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہیکہ جرح و تعدیل کے امام ، یحیی بن معین نے دفاع ابو حنیفہ کر کے امت کو تعلیم دی ہیکہ امام اعظم کے خلاف بعض محدثین کی جو رائے ہے وہ انصاف پر مبنی نہیں ہے لہذا وہ رائے بھی قابل قبول نہیں ۔
لہذا دفاع حنفیت ، یہ یحیی بن معین کا طریقہ ہے جو ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔
حدثنا محمد بن ابراہیم بن جناد ، قال حدثنا ابو بکر الاعین قال: حدثنا منصور بن سلمة ابو سلمة الخزاعی ، قال:سمعت حماد بن سلمة یلعن ابا حنیفة و سمعت شعبة یلعن ابا حنیفة
یہ امر انسان کی فطری بشریت کا مظہر ہے کہ شدید غصے یا جذباتی کیفیت میں بعض سخت کلمات زبان سے نکل جاتے ہیں، جو عمومی حالات میں نہ نکلتے۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ یہ سختی امام حماد رحمہ اللہ کے ذاتی غم و غصہ کا نتیجہ تھی، اور علمی دنیا میں اس کا وزن دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ جذبات پر۔
لہٰذا اس بنیاد پر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی، اور امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کا عمومی مقام بھی محفوظ ہے۔
نوٹ : امام شعبہ سے لعنت کے الفاظ ثابت نہیں ۔
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻗﺎﻝ: " ﻛﺎﻥ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ اﻝﺟﺎﻫﻠﻴﺔ ﻟﻪ ﻣﺤﺠﻦ ﻳﺴﺮﻕ ﺑﻪ ﻣﺘﺎﻉ اﻟﺤﺎﺝ، ﻓﺈﺫا ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﺗﺴﺮﻕ اﻟﺤﺎﺝ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺳﺮﻕ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺴﺮﻕ ﻣﺤﺠﻨﻲ.
ﻗﺎﻝ ﺣﻤﺎﺩ: ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻫﺬا ﺣﻴﺎ اﻟﻴﻮﻡ، ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ
(الأخبار الموفقيات لزبير بن بكار)
کہ زمانی جاہلیت کا ایک چور اگر آج ہوتا تو امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہوتا۔
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی اس روایت میں طنزیہ انداز میں اصحابِ امام ابوحنیفہ پر تبصرہ موجود ہے۔ مگر اگر اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی سیرت پر نگاہ ڈالی جائے تو حقیقت بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
▪︎کیا ان اصحاب ابی حنیفہ میں قاضی القضاة امام ابو یوسف رحمہ اللہ نہیں تھے، جنہوں نے عدل و انصاف کی عظیم مثالیں قائم کیں؟
▪︎کیا وہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ نہیں تھے، جن کی تصنیفات سے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے عظیم آئمہ نے استفادہ کیا؟
▪︎کیا وہ وکیع بن جراح، مکی بن ابراہیم، اور دیگر جلیل القدر محدثین نہیں تھے، جن سے صحیح بخاری کی اعلیٰ اسانید چلتی ہیں؟
ان تمام عظیم شخصیات کا تعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تھا۔ یہ حضرات نہ صرف علم و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے علمی سرمائے کا ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔
لہٰذا اصحابِ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر طنز کرنا دراصل تاریخی حقیقتوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے، جسے حسنِ ظن اور علم کی روشنی میں درست انداز میں دیکھنا چاہیے۔
نتیجہ:
ہم امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے مقام و مرتبے کا پورا احترام کرتے ہیں، اور ان کی دینی خدمات ہمارے لیے قابلِ قدر ہیں۔ تاہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر ان کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کو قبول کرنا علمی دیانت کے خلاف ہوگا، کیونکہ:
1۔ یا تو یہ اعتراضات غصے اور شدتِ مزاج کے تحت صادر ہوئے تھے، جیسا کہ دیگر ائمہ کرام کے تبصروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
2۔ یا ان اعتراضات کی بنیاد علمِ علل الحدیث کی عدم تدوین اور اس فن کی باریکیوں کے عدمِ فہم پر تھی، جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بصیرت اور علمی گہرائی کو نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ تھا۔
3۔ نیز امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی رائے کو اگر معیار مانا جائے تو اس سے امت کے ان جلیل القدر محدثین اور فقہاء کی توہین لازم آئے گی، جنہوں نے براہ راست امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کیا، اور جن کے علم و تقویٰ پر پوری امت کا اجماع ہے۔
4۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کا ثبوت نہ صرف ان کے زمانے کے علما کے اقرار سے ملتا ہے بلکہ آج تک چودہ صدیوں پر محیط ان کے علمی نظام کے اثرات سے بھی واضح ہوتا ہے۔
5۔ کسی ایک عالم کا وقتی غصے میں کوئی سخت تبصرہ کرنا ان کی اپنی بشری کمزوری کا مظہر ہو سکتا ہے، مگر اس کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسی آفاقی شخصیت کے مقام میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔
لہٰذا ہم پورے حسنِ ادب کے ساتھ یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں کیے گئے اعتراضات نہ علمی معیار پر پورے اترتے ہیں، نہ عدل و انصاف کے تقاضے پر، اور نہ ہی امت کے متفقہ اجماعی موقف سے ہم آہنگ ہیں۔
ایسے اقوال کو حسنِ ظن اور علمی اصولوں کی روشنی میں نظر انداز کرنا ہی دانشمندی اور دیانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، اہلِ حق کا ادب کرنے اور اپنی زبان و قلم کو عدل و انصاف کے دائرے میں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
قارئیں تفصیل ان لنکس پر پڑھ سکتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ سلسلہ تعریف و توثیق ابو حنیفہ رحمہ اللہ
ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
▪︎ دفاع احناف لائبریری میں موجود رسالہ : امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت ، مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب
امام شافعی رحمہ اللہ سے امام محمد رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق پر دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
● سلسلہ دفاع امام محمد ، قسط نمبر 1 :
الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل ) از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ
[7]ہماری تحقیق کے مطابق یہاں سفیان سے سفیان بن عیینہ مراد نہیں ہے بلکہ سفیان الثوری مراد ہیں کیونکہ جہاں بھی یہ جرح ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے وہاں امام ثوری کا ہی ذکر ہے لیکن بعض نے سفیان سے مراد ابن عیینہ کر دیا ہے جو کہ غلط ہے ۔ کیونکہ
1۔ جہاں بھی جرح کے یہ الفاظ منقول ہیں وہاں یا تو سفیان لکھا ہوا ہے یا صراحت سے سفیان ثوری ۔
سفیان ابن عیینہ کہیں بھی مذکور نہیں۔
1)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ( كتاب الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص 128 ) اور یعقوب فسوی کی (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٥)
میں صراحت ہیکہ اسحاق الفزاری سفیان ثوری کے ساتھ تھے تب سفیان ثوری نے جرح کے کلمات کہے ۔
حدثنا نعيم ثنا الفزاري, قال: كنت عند الثوري، فنُعي أبو حنيفة، فقال: الحمد لله، وسجد، قال: كان ينقض الإسلام عروة عروة، وقال يعني الثوري: ما ولد في الإسلام مولود أشأم منه.
جبکہ امام بخاری ہی کی (التاريخ الصغير - البخاري - ج ٢ - الصفحة ٩٣) میں اور بعض دیگر کتب میں صرف سفیان لکھا ہوا ہے ، تو یہاں بھی سفیان الثوری ہی مراد ہیں ۔
لیکن جب اسی روایت کو(یعنی الثوری سے منقول روایت کو) امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا
وقال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعى أبى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الاسلام
عروة عروة وما ولد في الاسلام مولود أشر منه هذا ما ذكره البخاري
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٩)
تو سفیان الثوری کے بجائے ابن عیینہ لکھا ، جو ان کا تسامح ہے ۔ کیونکہ اصل مآخد میں صراحت سے سفیان ثوری لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح خطیب بغدادی نے (تاريخ بغداد - ج ٤ - الصفحة ٤٣٠) میں بھی المعرفہ والی روایت میں سفیان کے بعد ابن عیینہ کا اضافہ کیا ہے جو کہ غلطی ہے کیونکہ المعرفہ والتاریخ میں بھی صرف سفیان ہی لکھا ہوا ہے
ما أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّهِ الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أَبِي عُمَر، قَالَ: سَمِعْتُ ابْن عُيَيْنَةَ، يَقُولُ:
یہاں اس سند میں خطیب بغدادی نے ابن عیینہ نقل کیا ہے لیکن یہ سند درست نہیں کیونکہ
▪︎أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي مجہول ہیں
▪︎ أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري ضعیف ہیں
المعرفہ والتاریخ کی روایت :
حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.
( المعرفة والتاريخ ج٢ص٧٨٣)
کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں۔اب جب المعرفہ میں کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں ، اور کم ترین واسطوں سے منقول روایت میں الثوری ہی لکھا ہوا ہے تو اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ جروحات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہیں نہ کہ امام سفیان بن عیینہ سے۔ جیسے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا تسامح ہے ویسے ہی خطیب بغدادی سے بھی غلطی ہوئی ہے۔
اشکال اور جواب :
محمد بن ابی عمر ابن عیینہ کا مشہور شاگرد ہے تو کیا یہاں وہ ابن عیینہ سے روایت کر رہا ہے ؟
یہاں بھی سفیان ثوری ہی مراد ہیں وجہ یہ ہیکہ لازمی نہیں کہ جو کسی کا شاگرد مشہور ہو ، صرف اسی سے ہی روایت کرے ، مثلا حماد بن دلیل جو ابن عیینہ کے شاگرد نہیں ہیں لیکن امام احمد کی کتاب اور جامع بیان العلم وفضلہ 1/1089 میں روایت ابن عیینہ سے کر رہے ہیں (جس کی تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 میں دیکھ سکتے ہیں ) ، ہمیں ان کی سفیان بن عیینہ سے اور کوئی روایت نہیں ملی ، تاریخ بغداد میں بھی یہی روایت سفیان بن عیینہ سے مذکور ہے۔
لہذا بے شک محمد بن ابی عمر جن سے یہ روایت المعرفہ والتاریخ میں منقول ہے وہ ابن عیینہ کے شاگرد ہیں لیکن وہاں وہ روایت سفیان الثوری رحمہ اللہ سے کر رہے ہیں ۔ اور سفیان ثوری سے جروحات کا جواب ہو چکا ہے۔
دوسرا جواب :
نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه قال: كان رجلا صالحا، وكان به غفلة، ورأيت عنده حديثا موضوعا حدث به عن ابن عيينة، وهو صدوق [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 124)]
محمد بن ابی عمر العدنی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی نے کہا ہیکہ صالح تھا لیکن یہ غفلت برتنے والا تھا ، اور میں نے اس کی کئی موضوع روایات بھی دیکھی ہیں اگرچہ یہ ابن عیینہ سے روایت میں صدوق ہے ۔ انتھی
ہم کہتے ہیں کہ صدوق کوئی ایسی توثیق نہیں جس سے راوی کا ضنط پتہ چلتا ہو ، وہ روایتوں کو محفوظ کیسے کرتا ہے ، ضبط کیلئے راوی کا ثقہ ہونا ضروری ہے ، چونکہ محمد بن ابی عمر کی غفلت کا اشارہ ہو چکا ہے ، اور اوپر تفصیل بھی بیان ہو چکی کہ یہاں سفیان الثوری ہی مراد ہیں تو ، یہ تفصیل بھی سند کو مشکوک کر دیتی ہے ۔
بالفرض اگر کسی قرینہ سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہان ابن عیینہ مراد ہیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کی تعریف صحیح اسانید سے ثابت ہے ۔
اعتراض نمبر 2:
اعتراض : سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ابو حنیفہ کو عمرو بن دینار کی 3 احادیث بھی صحیح سے یاد نہ تھیں۔
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْحُسَيْنِ الْحَافِظَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ مُعَاوِيَةَ، هُوَ الْكَاغِذِيُّ يَحْكِي عَنْ سُلَيْمَانَ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: دَخَلْتُ الْكُوفَةَ، وَلَمْ يَتِمَّ لِي عِشْرُونَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِأَصْحَابِهِ، وَلِأَهْلِ الْكُوفَةِ: جَاءَكُمْ حَافِظُ عِلْمِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. قَالَ: فَجَاءَ النَّاسُ يَسْأَلُونِي عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. فَأَوَّلُ مَنْ صَيَّرَنِي مُحَدِّثًا أَبُو حَنِيفَةَ، فَذَاكَرْتُهُ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، مَا سَمِعْتُ مِنَ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَحَادِيثَ، يَضْطَرِبُ فِي حِفْظِ تِلْكَ الْأَحَادِيثِ
( الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي ١/٣٦٩ — أبو يعلى الخليلي )
سفیان (بن عُیَینہ) نے کہا: میں کوفہ آیا جبکہ میری عمر ابھی بیس سال بھی پوری نہ ہوئی تھی، تو ابو حنیفہ نے اپنے ساتھیوں اور اہلِ کوفہ سے کہا: "تمہارے پاس عمرو بن دینار کے علم کا حافظ آ گیا ہے۔"
سفیان کہتے ہیں: پھر لوگ مجھ سے عمرو بن دینار کے بارے میں سوال کرنے لگے، اور سب سے پہلے جس نے مجھے محدث (محدثین کی صف میں) بنایا، وہ ابو حنیفہ تھے۔
میں نے ان سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: "اے بیٹے! میں نے عمرو (بن دینار) سے صرف تین احادیث سنی ہیں؟ ان احادیث کے حفظ میں بھی مجبور ہوں (یعنی وہ بھی صحیح طریقے سے یاد نہیں)۔"
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں ہے ، کیونکہ ابن معاویہ الکاغذی مجہول ہیں اور ابن معاویہ نے یہ بات خود سلیمان الثقفی سے نہیں سنی ، لہذا سند ضعیف ہے ۔ البتہ امام ابن عیینہ کو سب سے پہلے محدث بنانے والی ذات کون تھی ؟ اس بارے میں ہمیں ایک صحیح روایت ملتی ہے۔
حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن سعدان قال: ثنا سويد بن سعيد، عن سفيان بن عيينة قال: أول من أقعدني للحديث أبو حنيفة، قدمت الكوفة فقال أبو حنيفة: إن هذا أعلم الناس بحديث عمرو بن دينار، فاجتمعوا علي فحدثتهم.
( فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام - المجلد 1 - الصفحة 185 - جامع الكتب الإسلامية )
امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں مجھے حدیث بیان کرنے کے لیے سب سے پہلے جس شخص نے بٹھایا وہ امام ابو حنیفہ تھے میں کوفہ جب آیا تو ابو حنیفہ نے فرمایا یہ (نوجوان سفیان ) عمرو بن دینار کی احادیث کا لوگوں میں بڑا علم (حفظ کرنے والا) ہے تو لوگوں کا اجتماع (امام ابو حنیفہ کے کہنے کی وجہ سے ) ہوا اور میں نے حدیثیں بیان کیں
(اس سند میں سوید متکلم فیہ راوی ہے. امام ابن حجر نے صدوق کہا ہے اور اخبار ابی حنیفہ للصیمری ص 82 میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے. اس لئے یہ سند قابل اعتبار ہے جبکہ امام ابن عیینہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دوسری صحیح و حسن اسانید سے توثیق و تعریف منقول ہے۔ لہذا ابن عیینہ سے امام صاحب کی تعریف ثابت ہے نہ کہ امام صاحب پر جرح ۔
اعتراض نمبر 3:
سفیان بن عیینہ سے منقول ایک اور اعتراض :
قال أبو حاتم: حدثت عن سفيان بن عيينة، قال: لقيني أبو حنيفة، فقال لي: كيف سماعك عن عمرو بن دينار ؟ قال: قلت له أكثرت عنه. قال: لكني لم أسمع منه إلا حديثين. قال: قلت: ما هو؟ فقال: حدثنا عمرو، عن جابر بن عبد الله «في [أخباري]»، فقلت: حدثنا عمرو، عن جابر بن زيد ليس جابر بن عبد الله، قلت: وما الآخر؟ فقال: حدثنا عمرو، عن ابن الحنفية عن علي: «لقد ظلم من لم يورث الإخوة من الأم» فقلت: حدثنا عمرو، عن عبد الله بن محمد بن علي ليس بابن الحنفية.
قال سفيان: «فإذا هو قد أخطأ فيهما جميعا
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧٥٦ )
ابو حاتم نے سفیان بن عُیینہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: مجھے ابو حنیفہ ملے اور مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا عمرو بن دینار سے سماع کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں نے ان سے بہت کچھ سنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں نے ان سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن عبد اللہ سے حدیث بیان کی...‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی ہے، نہ کہ جابر بن عبد اللہ سے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اور دوسری حدیث؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے ابن الحنفیہ سے علیؓ سے روایت کی: ’جس نے ماں شریک بھائیوں کو میراث نہ دی، اس نے ظلم کیا۔‘‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے عبداللہ بن محمد بن علی سے حدیث بیان کی، نہ کہ ابن الحنفیہ سے۔‘‘ سفیان نے کہا: ’’تو وہ دونوں حدیثوں میں غلطی پر تھے۔‘‘
جواب :
امام ابو حاتم (جن کی پیدائش 195ھ ہے) نے امام سفیان بن عیینہ (جن کی وفات 196 یا 198ھ ہے) سے اتنی چھوٹی عمر میں کیسے یہ روایت سن لی ؟
حدثت کا صیغہ سند میں انقطاع بتا رہا ہے ، مزید یہ کہ اس روایت کا متن بھی منکر ہے ، امام صاحب نے عمرو بن دینار سے صرف 2 روایتیں سنی ہیں یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ کتب میں امام صاحب کی عمرو بن دینار سے بہت سی روایات ملتی ہیں ۔ مثلا
▪︎ كتاب الآثار 636 - 1019 - 1021 ( الآثار لأبي يوسف ١/٢٣٠، الآثار لأبي يوسف ١/٢٣١ ، الآثار لأبي يوسف ١/١٤٠ )
▪︎ مسند أبي حنيفة برواية أبو نعيم 2 روايات
▪︎ سنن البيهقي 8209 - 14342 -
لہذا ابو حاتم والی روایت بھی ضعیف ہے اور متن بھی منکر ہے ، پس معترضین کا امام اعظم پر اعتراض باطل ہے ۔
دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 71
▪︎تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3
[8]۔ أخبرنا الحسن بن أبي بكر، أخبرنا حامد بن محمد الهروي، حدثنا محمد بن عبد الرحمن السامي، حدثنا سعيد بن يعقوب، حدثنا مؤمل بن إسماعيل، حدثنا عمر بن إسحاق قال: سمعت ابن عون يقول: ما ولد في الإسلام مولود أشأم من أبي حنيفة، إن كان لينقض عرى الإسلام عروة عروة.
حدثنا محمد بن محمد بن بكير المقرئ، أخبرنا عثمان بن أحمد بن سمعان الرزاز، حدثنا هيثم بن خلف، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا المؤمل،حدثنا عمرو بن قيس - شريك الربيع - قال: سمعت ابن عون يقول: ما ولد في الإسلام مولود أشأم من أبي حنيفة.
مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں ، مومل بن اسماعیل کے ضعف پر 100 سلفیوں کے حوالے
" النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ میں الاجماع شمارہ نمبر 5 یونیکوڈ میں موجود ہیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں