نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جون, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مہدی رستم صاحب کے عربی رسالہ کا ترجمہ امام احمد رحمہ اللہ کی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح

یہ مضمون مہدی رستم صاحب کے عربی رسالہ کا ترجمہ ہے ، جس میں معمولی رد و بدل کیا گیا ہے  ، اصل رسالہ ہمارے النعمان سوشل میڈیا سروسز کے ٹیلیگرام چینل پر موجود ہے ۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على أشرف الأنبیاء والمرسلین، سیدنا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعهم بإحسان إلى یوم الدین۔ أما بعد؛ نوجوانانِ کم علم، جنہیں اپنے عجز کا شعور نہیں، اور وہ خود کو عقلِ کل سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ باتیں عام کر رہے ہیں جو امام فقہ، امام اعظم ابو حنیفہؒ کے بارے میں کہی گئیں، جن سے زمانے نے ہمیں راحت دی تھی۔  ان (کم علموں) کا لب و لہجہ گویا یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مخاطب ہونے کے لائق بھی نہیں۔ اگر ان کے باطل خیالات سے کسی کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم ان کے جواب کے لیے حرکت بھی نہ کرتے۔ یہ مضمون امام احمد بن حنبلؒ کے امام ابو حنیفہؒ پر اعتراضات کے اسباب پر مشتمل ہے، جیسا کہ عنوان ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، میں اس موضوع کو روایتی انداز میں  《يُطوى ولا يُروى》  یعنی (ان کو رکھ دینا اور آگے نقل نہ کرنا) کہہ کر ختم نہیں کروں گا کیونکہ یہ اعتراضات بیان ہو چکے ہیں۔ بلکہ ان اعتراضات کے اس...

اعتراض نمبر 145: کہ یحییٰ بن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ سے حدیث نہ لکھی جائے۔

 اعتراض نمبر 145:  کہ یحییٰ بن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ سے حدیث نہ لکھی جائے۔ أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن عَبْد الله الأَنْمَاطِي، أخبرنا محمّد بن المظفر، أخبرنا علي ابن أحمد ابن سليمان المقرئ، حَدَّثَنَا أحمد بن سعد بن أبي مريم قَالَ: وسألته- يعني يَحْيَى بن معين- عن أَبِي حنيفة فقال: لا تكتب حديثه. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ احمد بن سعد بن ابی مریم المصری اپنے مسائل میں کثیر الوهم اور کثیر الاضطراب تھا۔  اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس کی یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے جو ابن معین سے ثقہ حضرات کرتے ہیں۔ بلکہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ثقہ ہی نہیں ہے کیونکہ ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کے بارہ میں جو روایت ابن معین کے اصحاب میں سے ثقہ کرتے ہیں یہ ان کی مخالفت کرتا ہے[1]۔ امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ [1]۔ ابن ابی مریم ، امام یحیی بن معین سے ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کے خلاف ایسی بات نقل کرتا ہے ، جو یحیی بن معین رحمہ اللہ کے دیگر معروف ثقہ شاگردوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ جس کا اقرار خود خطیب بغدادی امام ابو یوسف کے ترجمہ میں کر چکے ہیں ۔  حَدَّثَنَا أحمد بن سعد ب...

اعتراض نمبر 144: کہ یحیی بن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں ضعیف تھے۔

 اعتراض نمبر 144:  کہ یحیی بن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں ضعیف تھے۔ أَخْبَرَنَا ابن رزق، أَخْبَرَنَا هبة الله بن محمد بن حبش الفراء، حدّثنا محمّد ابن عثمان بن أبي شيبة قَالَ: سمعت يحيى بن معين- وسئل عن أَبِي حنيفة- فَقَالَ: كَانَ يضعف في الحديث. الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت خطیب کے ہاں بھی اس روایت کے خلاف ہے جو کئی سندوں کے ساتھ ابن معین سے صحیح طور پر ثابت ہے اور اس کے باوجود وہ اس روایت کو نقل کرتا ہے اور اس پر خاموشی اختیار کرتا ہے حالانکہ اس کی سند میں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ہے اور وہ کذاب ہے اور اس کا معاملہ بالکل واضح ہے[1]۔ اور خود خطیب نے ایک جماعت سے اس کی تکذیب ص 43 ج 3 میں نقل کی ہے اور خطیب کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ احمد بن الصلت پر تو کلام کرتا ہے اس روایت میں جو پہلے گزری اور یہاں محمد بن ابی شیبہ کذاب کے بارہ میں خاموشی اختیار کر لی ہے۔اسی طرح خواہش آدمی کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ [1]۔  محمد بن عثمان متکلم فیہ راوی ہے ، کئی ایک حفاظ نے اس پر سخت جروحات کیں ہیں ۔  محمد بن عثمان بن ...

اعتراض نمبر 143 : کہ سفیان نے ابوحنیفہ کو جو حدیث میں ثقہ اور صدوق اور فقہ میں مامون کہا ہے تو اس روایت کی سند کمزور ہے کیونکہ اس میں احمد بن عطیہ ہے۔

 اعتراض نمبر 143 :  کہ سفیان نے ابوحنیفہ کو جو حدیث میں ثقہ اور صدوق اور فقہ میں مامون کہا ہے تو اس روایت کی سند کمزور ہے کیونکہ اس میں احمد بن عطیہ ہے۔ الجواب :  میں کہتا ہوں کہ میں نے تاریخ الخطیب کے مطبوعہ دونوں مصری نسخوں میں 353 کے حاشیہ میں احمد بن الصلت کے بارہ میں بیان کر دیا ہے۔  اور وہ ابو العباس احمد بن محمد بن المغلس الحمانی ہے جو کہ اس جبارة بن المغلس کا بھتیجا ہے جو ابن ماجہ کا شیخ ہے۔  اس کا ذکر کبھی احمد بن محمد الحمانی کے نام سے اور کبھی احمد بن الصلت کے نام سے اور کبھی احمد بن عطیہ کے نام سے کیا جاتا ہے۔  اور یہ متکلم فیہ راوی ہے۔  اور ہمیں ابو حنیفہ کے مناقب میں اس کی روایات کی طرف توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس ایسی سندیں ہیں جن کے راویوں پر کوئی کلام نہیں ہے جو بہت سی روایات اس معنی میں ہیں جو الحمانی نے روایت کی ہے۔  لیکن ضروری ہے کہ مخالف سے اس کی کاروائی میں اس کے درجہ کی بحث کریں اور احمد بن محمد الحمانی پر ذہبی نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔  اس کی اس حدیث میں جو اس نے ابو حنیفہ کے طریق سے ابن جزء کی ب...

اعتراض نمبر 142 : کہ یحیٰی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب اور جہمی تھے اور ابوحنیفہ بھی جہمی تھے کذاب نہ تھے۔

 اعتراض نمبر 142 :  کہ یحیٰی بن معین نے کہا کہ محمد بن الحسن کذاب اور جہمی تھے اور ابوحنیفہ بھی جہمی تھے کذاب نہ تھے۔ أَخْبَرَنَا العتيقي، حَدَّثَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأذني- بدمشق- أَخْبَرَنَا أَبُو الميمون عَبْد الرَّحْمَنِ بْن عَبْدِ اللَّه البَجَلِيّ قَالَ: سَمِعْتُ نصر بن مُحَمَّد البَغْدَادِيّ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْن معين يَقُولُ: كَانَ مُحَمَّد بن الحَسَن كذابا وَكَانَ جهميا، وَكَانَ أَبُو حنيفة جهميا ولم يكن كذابا.  الجواب :  میں کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم وہ دونوں کذب اور جہمیت سے بری الذمہ تھے اور امام شافعی جو کہ خطیب کے امام ہیں انہوں نے محمد بن الحسن سے دلیل پکڑی ہے اور علی بن المدینی نے بھی اس کی توثیق کی ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب المنتظم میں اور ابن حجر نے تعجيل المنفعة میں نقل کیا ہے۔ حالانکہ بے شک ابن معین کی نسبت ابن المدینی ابوحنیفہ کے اصحاب کو برا بھلا کہنے کی طرف زیادہ قریب تھے۔ اور الدار قطنی تو اپنے انتہائی تعصب کے باوجود غرائب مالک میں کہتے ہیں جبکہ انہوں نے الرفع فی الرکوع والی حدیث کے راویوں کا ذکر کیا...