ابراہیم بن یعقوب جوزجانی ناصبی کی امام ابو حنیفہؒ پرجرح
أخبرنا عبد العزيز بن أحمد الكتاني، قال: حدثنا عبد الوهاب بن جعفر الميداني، قال: حدثنا عبد الجبار بن عبد الصمد السلمي، قال: حدثنا القاسم بن عيسى العصار، قال: حدثنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني، قال: إن أبا حنيفة لا يُحتج بحديثه ولا يُؤخذ برأيه.
1. جوزجانی کی اہل کوفہ کے بارے میں متعصبانہ جرح
1۔ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی اہلِ کوفہ کے بارے میں شدید متشدد تھا، اور اس کی کوفی محدثین کے خلاف جرح کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا۔امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وممن ينبغي ان يتوقف في قبوله قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد، فإن الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب، وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع، فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة، حتى أنه اخذ يلين مثل الأعمش وأبى نعيم وعبيد الله بن موسى۔۔الخ" (لسان الميزان 1/16) یعنی ایسے شخص کی جرح سے احتراز کرنا چاہیے، جو عداوت کی بنیاد پر کسی کو جرح کرے۔ سمجھدار شخص جب جوزجانی کی اہلِ کوفہ کے متعلق جرح اور طعن دیکھے گا، تو تعجب کرے گا، کیونکہ اس کا جھکاؤ ناصبیت کی طرف تھا اور اہلِ کوفہ تشیع کے حوالے سے مشہور تھے۔ لہٰذا وہ تعصب کی بنا پر ان پر نکتہ چینی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اعمش، ابو نعیم، عبیداللہ بن موسیٰ ثقة محدثین کو بھی کمزور قرار دیا
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے امام ابو حنیفہؒ پر "چوری" کا جھوٹا الزام لگایا، جیسا کہ امام ابن ابی حاتم کی الجرح والتعديل میں جو جانی کے واسطہ سے منقول ہے کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں(الجرح والتعديل - الرازي - ج 8 - الصفحة 450) حالانکہ اسی قول کے فوراً بعد صحیح سند سے امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اس واقعے کی اصل حقیقت بیان کر دی ہے۔ امام ابن مبارکؒ فرماتے ہیں:" وذاك أنه أخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان، فروى عن حماد ولم يسمعه منه" (الجرح والتعديل، ج 8، ص 450) یعنی امام ابو حنیفہ نے محمد بن جابر کے پاس رکھی ہوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کیں ، اور پھر ان کتابوں سے حماد کی روایات بیان کرنے لگے، حالانکہ انہوں نے یہ روایات براہِ راست حماد سے نہیں سنیں۔
اس روایت میں "أخذ" (حاصل کرنا) کا لفظ ہے، جس کا مطلب کسی کی کتاب لینا، مانگنا، یا اس سے استفادہ کرنا ہے — نہ کہ چوری۔ لیکن جوزجانی نے اسی واقعے کو تعصب کی بنیاد پر توڑ مروڑ کر "سرق" یعنی چوری بنا کر پیش کیا.
معلوم ہوتا ہے کہ جوزجانی ناصبی کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف شدید تعصب تھا، اور اسی تعصب کی بنیاد پر اس نے کتابیں "اخذ" جیسے جائز عمل کو بھی "سرقہ" یعنی چوری کا رنگ دے کر امام ابو حنیفہؒ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ بعض ثقہ سمجھے جانے والے راویوں نے تعصب میں آ کر امام اعظمؒ کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون
اعتراض نمبر 20 : محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ: وأما الجوزجاني، فقد قلنا غير مرة : إن جرحه لا يقبل فى أهل الكوفة، لشدة انحرافه، ونصبه. (فتح الباری : 1/446، دار المعرفہ بیروت)
یعنی: جہاں تک جوزجانی کا تعلق ہے، تو ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہِ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہلِ کوفہ کے بارے میں اس کی جرح قابلِ قبول نہیں۔
غیر مقلدین کی تصریحات
کچھ غیر مقلدین جوزجانی کو ناصبی نہیں مانتے، ان کے لیے انہی کے اکابرین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں:
▪︎ زبیر علی زئی (غیر مقلد): جوزجانی (ناصبی) (نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28)
▪︎ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری: جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے. (حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، 14 ستمبر 2017)
▪︎ مولانا اسماعیل سلفی (غیر مقلد): انہوں نے ابن حجر کے حوالہ سے جوزجانی کو ناصبی اور اہل کوفہ کا دشمن لکھا ہے۔ (مقالات حدیث، صفحہ 579)
زبیر علی زئی نے بھی جوزجانی کو متشدد لکھا ہے۔ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، صفحہ 577)
▪︎ ابویحییٰ نور پوری (غیر مقلد): "جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔ اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی." (حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ)
چونکہ ثقہ محدثین جیسے امام شعبہ اور یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہؒ کی توثیق کی ہے، اس لیے جوزجانی کی جرح — جو ناصبیت، تعصب اور اہلِ کوفہ سے دشمنی پر مبنی ہے — ردی کی ٹوکری کے لائق ہے۔
پس، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جوزجانی کی جرح ناقابلِ قبول ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح کو نہ تو امام ذہبیؒ نے قبول کیا، نہ ابن حجرؒ نے اسے ان کے خلاف بطور حجت پیش کیا، اور نہ ہی امام مزّیؒ جیسے بلند پایہ محدث نے اس پر کوئی اعتماد ظاہر کیا۔
اگر واقعی یہ جرح قابلِ اعتماد اور مؤثر ہوتی، تو یہ عظیم محدثین، جو فنِ جرح و تعدیل میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، ضرور امام ابو حنیفہؒ کے ترجمے میں اس کا ذکر کرتے یا اس پر توضیح دیتے۔ مگر ان سب کا اس جرح کو نظر انداز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ: یہ جرح ناقابلِ قبول ہے۔
خصوصاً اس لیے بھی کہ امام ابو حنیفہؒ اپنی فقاہت، ضبط، دیانت اور امت میں علمی قبولیت کے باعث ہمیشہ بلند مقام پر فائز رہے ہیں۔ ایسی مبہم یا تعصّب پر مبنی جرح ان کی عظمت کو متاثر نہیں کرتی۔
اسی لیے جمہور محدثین نے ان کی عدالت، ثقاہت اور علمی مقام کو تسلیم کیا ہے، اور ان پر کیے گئے بعض بے بنیاد اعتراضات کو ردّ کر کے ان کے مقام و مرتبے کی تائید کی ہے۔مزید تفصیل
کے لیے دیکھیے: "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون
علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ
اعتراض نمبر 22 : امام مالک رحمہ اللہ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں