نماز قفال مروزی اور سلطان محمود غزنوی کی حنفیت سے توبہ کی داستان کا تحقیقی جائزہ
محدث کبیر مولانا حبیب الرحمان اعظمی صاحب ، غیر مقلد جدید اہل حدیث مولوی محمد ایڈیٹر اخبار محمدی دہلوی کا مضمون جس کا عنوان " حنفی مذہب کی نماز " تھا ،قفال مروزی کا سلطان محمود غزنوی کے دربار میں نماز والے واقعے کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :
ا۔ اس واقعہ کو امام الحرمین بیان کرتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ حنفی و شافعی فقہ کی جنگ کے زمانہ میں جب کہ علم جدل و خلاف کا عروج تھا، شافعیہ کے سپہ سالار امام الحرمین اور ان کے شاگرد ہی تھے، اس لیے ہمارے خلاف ان کی شہادت کب قابل سماعت ہو سکتی ہے۔
٢۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان محمود فقہ حنفی سے بلکہ اور علوم سے بھی بالکل کورا تھا اور فقہ حنفی كو خود دیکھ بھی نہ سکتا تھا، حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ اور غلط ہے۔ سلطان محمود بڑا جید عالم، زبر دست فقیہ حنفی ، فصاحت و بلاغت میں یگانۂ روزگار تھا، شعر بھی خوب کہتا تھا، فقہ حنفی میں اس کی نہایت نفیس تقریبا ساٹھ ہزار مسائل کی جامع کتاب جس کا نام کتاب التفرید ہے۔ امام مسعود بن شیبہ کے زمانہ تک بلاد غزنہ میں مشہور تھی۔ فقہ کے علاوہ حدیث، خطب، رسائل میں بھی اس نے اپنی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، اس کو امام مسعود بن شیبہ نے تعلیم میں پھر عبد القادر قرشی نے جواہر مضیہ میں حنفی فقیہ لکھا ہے، پھر اس کی کیا ضرورت تھی کہ قفال رحمہ اللہ کی تصدیق کے لیے ایک نصرانی کو بلا کر فقہ کی کتابیں پڑھوائی جاتیں اور وہ ترجمہ کر کے بادشاہ کو سنائے ، بادشاہ کچھ جاہل نہ تھا کہ ان حوالوں کو نہ دیکھ سکتا، یہ تو اڈیٹر محمدی ہی جیسے کسی عقل کے دشمن کا من گھڑت قصہ معلوم ہوتا ہے۔
3
اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان محمود نے حنفی مذہب سے توبہ کی ، یہ بھی غلط ہے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ فقہ حنفی میں اس نے ایک زبردست کتاب تصنیف کی ہے اور وہ مسعود بن شیبہ کے زمانہ تک بلادِ غزنہ میں مشہور تھی ، اور دو طبقات نویسوں کا نام لکھ چکا ہوں جنھوں نے اس کو طبقاتِ حنفیہ میں ذکر کیا ہے، اڈیٹر محمدی بتلائے کہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو سلطان نے کتاب التفرید مناظرہ سے پیشتر لکھی ہوگی یا بعد میں ، کتاب التفرید کو مناظرہ سے پیشتر کی تصنیف بتانا کھلی حماقت ہے کیونکہ اس وقت تو سلطان کو اتنی بھی لیاقت نہ تھی کہ فقہ کو خود دیکھ کر سمجھ سکتا ہو چہ جائیکہ اس فن میں صاحبِ تصنیف ہونا ، اور اگر بعد کی تصنیف ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس مذہب کو اس نے کفر سمجھ کر اس سے توبہ کی تھی اس میں کتاب تصنیف کرے، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ مذہب شافعی کو بھی اس نے مخالف حدیث پایا ہو اور دوبارہ حنفی مذہب کی حقانیت اس کے دل میں رچی ہو اور شافعیت سے توبہ کر کے یہ کتاب لکھی ہومگر یہ کہنے میں اڈیٹر محمدی کا جو مقصود ہے وہ حاصل نہیں ہو سکتا یعنی حنفی مذہب پر طعن اور حنفیہ کی دل آزاری۔
٤- آپ معلوم کر آئے ہیں کہ اس قصہ کی نسبت روایت امام الحرمین کی طرف کی جاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ امام الحرمین اپنے عہد میں رئیس الشافعیہ اور مقدم الجماعہ تھے، حجتہ الاسلام امام غزالی رحمه الله جیسے اکابر شافعیہ ان کی شاگردی پر ناز کرتے تھے ، اور ظاہر ہے کہ ان کو اپنی فقہ کی پوری واقفیت ہوگی ،مگر اس قصہ میں شافعی مذہب کے خلاف باتیں انھوں نے بیان کی ہیں ، جن کی وجہ سے ان کا شافعی مذہب سے بے خبر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح امام قفال مروزی کا بھی خود اپنے مذہب سے
ناواقف ہونا واضح ہوتا ہے، جو بقول محمدی ایک زبردست اور دونوں مذہبوں سے پورے واقف تھے۔ سنئے اڈیٹر محمدی لکھتا ہے : " انھیں حکم ہوا کہ دونوں مذہب کی رو سے ایسی نماز جس سے کم درجہ جائز نہ ہو پڑھ کر دکھائیں قفال مروزی نے أولا شافعی مذہب کے مطابق دو رکعتیں ادا کیں کامل طہارت اور پاکیزگی سے باقاعدہ وضو پورا کر کے اور پاک لباس پہن کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر با ادب خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، جن میں نماز کے کل ارکان بجالائے ، نہ کسی فرض کو چھوڑا نہ سنت کو، نہ ہیئت کو نہ رکن کو اور عمدگی سے نماز پوری کی ، کیونکہ شافعی مذہب میں نماز کے کمال اور عمدگی کو چھوڑ دینا نا جائز ہے۔ ( محمدی ص 1 )
ناظرین! اگر یہ قصہ صحیح ہو تو اولا قفال کا فریبی اور دھوکہ باز ہونا لازم آتا ہے ، یا اپنے مذہب سے نا واقف ہونا ( واللازم باطل فالملزوم مثله ) اس لیے کہ انھیں حکم تو ہوا تھا ایسی نماز دکھانے کا جس سے کم درجہ جائز نہ ہو، اور انھوں نے پڑھ کر ایسی نماز دکھائی جس سے بہتر شاید ہی ہو، آداب وہیات بھی نہیں چھوڑے۔ اور حنفی نماز پڑھی تو واجبات تک کا ناس مار دیا ، جس کے ترک سے نماز دہرانی واجب ہے، بتاؤ تو سہی کہ اس سے بڑھ کر اور کیا فریب ہوگا۔
ثانیاً۔ محمدی کے بیان کے مطابق امام الحرمین رئیس الشافعیہ کہتے ہیں کہ " شافعی مذہب میں نماز کے کمال و عمدگی کو چھوڑ دینا ناجائز ہے " اس فقرہ میں لفظ نا جائز کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ ان امور کی رعایت نہ کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، یا کم از کم واجب الاعادہ ہوتی ہے اور یہی مطلب یہاں متعین ہے، اس لیے کہ قفال کو کم تر درجہ کی نماز ہی کا حکم ہوا تھا، مگر شافعی مذہب کی طرف نماز کی عمدگی و کمال کی فرضیت یا اس کے وجوب کی نسبت محض غلط ہے، حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ( جن کو شافعی مذہب میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو حنفی مذہب میں کم از کم قاضی خاں و مرغینانی و صاحبِ کافی کو حاصل ہے ) احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:-
ترجمہ
سنتوں کو فرض سے ممتاز کرنا ایک معقول بات ہے، اس لیے کہ فرض کے فوت ہونے سے نماز صحیح نہیں ہوتی نہ کہ سنت کے، اور فرض ہی کے فوت سے عذاب ہوتا ہے سنت کے نہیں ]
اور لکھتے ہیں:
اور وہ سنتیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے جیسے رفع یدین، دعاء ثنا اور تشہد اول، یہ سب نماز کے لیے ہاتھ پاؤں اور آنکھ کے درجہ میں ہیں، ان کے فوت ہونے سے نماز کی صحت نہیں جاتی ، جس طرح ان اعضاء کے فوات سے زندگی نہیں ختم ہو جاتی ( تا آنکہ فرمایا ) اور رہی ہیئتیں تو وہ تو سنتوں کے بھی بعد کی چیزیں ہیں، لہذا وہ اسباب حسن میں ہوں گی ، اور ان سنتوں کے وظائف واذکار جو ہیں تو یہ اس حسن کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ الخ ]
(احیاء العلوم ج١ ص١١٥)
امام غزالی نے صاف تصریح کردی ہے کہ سنن کے چھوڑنے سے فرض فوت نہیں ہوتا، یعنی فرض ادا ہو جاتا ہے، حتی کہ سنتوں کے ترک سے عقاب بھی نہیں ہوتا ، اور ھیئات جو سنن کے علاوہ ہیں وہ اسباب حسن ہیں ، اور اذکار نماز تکمیلِ حسن کے لیے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ سنن ، ہیئات و وظائف و اذکار یہ سب اگر چھوڑ دے تب بھی فرض ادا ہو جائے گا، اب اس کے ساتھ ان سنن و هیئات کو معلوم کر لیجئے ، سنن یہ ہیں: ۱- رفع یدین تکبیر احرام میں، ۲- رفع یدین رکوع میں جاتے وقت، ۳- رفع رکوع سے کھڑے ہوتے وقت، ۴- قعدہ اولی، ۵- دعاء استفتاح، ۶ - تعوذ، ۷- تامین، ۸-ضم سوره ۹ - تکبیرات انتقال، ۱۰۔ رکوع و سجده وقومه وجلسہ کے اذکار، ۱۱- تشہد اول، ۱۲ قعدہ اولیٰ میں درود، ۱۳ قعدہ اخری میں دعاء ماثورہ، ۱۴ دوسرا سلام ۔ اور ہیئات یہ ہیں : کیفیت نشر اصابع ، حد رفع اصابع ، تورک، افتراش اطراق، ترک التفات، جلسۂ استراحت ۔
امام غزالی کے بیان کے مطابق ان تمام امور کے چھوڑ دینے سے بھی فرض ادا ہو جائے گا، پس کمال و عمدگی کی عدم رعایت سے بطلان نماز کا حکم کرنا اور ان کے ترک کو ناجائز بتانا شافعی نقطۂ خیال سے محض غلط ہے اور اس قصہ میں ان امور کے عدم تجویز کی نسبت امام الحرمین کی طرف کی گئی ہے، اور ان کی ذات اس سے بہت اجل و ارفع ہے کہ فقہ شافعی کے ایسے موٹے مسئلہ سے ناواقف ہوں، یہ اس بات کی زبر دست دلیل ہے کہ یہ قصہ کسی دشمن عقل کا من گھڑت ہے۔
-۵- اگر یہ قصہ صحیح ہو تو قفال مروزی جیسے جلیل القدر عالم کا ( حالانکہ بقول محمدی ایک زبر دست عالم اور دونوں مذہبوں سے پورے واقف تھے ) حنفی مذہب سے بلکہ خود اپنے مذہب سے بھی نا واقف ہونا لازم آتا ہے۔
ان کے اپنے مذہب سے نا واقف ہونے کی وجہ تو پہلے لکھی جا چکی ، رہی حنفی مذہب سے ناواقفیت کی وجہ وہ یہ ہے کہ انھیں حکم ہوا تھا کہ دونوں مذہبوں کی ایسی نماز پڑھیں جس سے کم درجہ جائز نہ ہو یعنی کمتر درجہ کی جائز نماز کا حکم ہوا تھا، مگر حنفی مذہب کی انھوں نے وہ نماز پڑھی جو حنفی مذہب کی رو سے مکروہ تحریمی اور جس کا لوٹانا واجب تھا ( کما سیاتی ) اس کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ انھیں حنفی مذہب سے نا واقف کہا جائے ، اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تو ان سے بڑھ کر گمراہ کن اور فریبی اور کون ہو سکتا ہے۔ کیا اڈیٹر محمدی قفال کو [لا تلبسوا الحق بالباطل] کا مخالف اور [ من يكسب خطيئة أو إثماً ثم يرم به بريئاً فقد احتمل بهتاناً وإثماً مبيناً ] کا مصداق بنانا چاہتا ہے، الحاصل اس وجہ سے بھی یہ قصہ محض من گھڑت معلوم ہوتاہے۔
۶- اس قصہ میں ہے کہ " پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ اب دو رکعتیں حنفی مذہب کے مطابق ادا کرو، جسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعہ جائز کہتے ہوں، قفال نے کتے کی دباغت دی ہوئی کھال پہن لی اور اس کا چوتھائی حصہ نجاست سے آلودہ کر لیا اور بھگوئی ہوئی کھجوروں کے پانی سے الٹا سلٹا وضو کیا "
اگر یہ قصہ صحیح ہو تو یہ امور امام قفال کو بہت بڑا فریبی و خائن اور چالباز یا شافعی مذہب سے محض نابلد ثابت کرتے ہیں حالانکہ اسی قصہ میں انھیں زبر دست عالم اور دونوں مذہبوں سے پورا واقف بنایا گیا ہے۔
دوستو! انصاف کرو کہ قفال سے شافعی مذہب کی کمتر درجہ کی نماز پڑھنے کو کہا گیا تو انھوں نے اچھا اور پاک لباس پہن کر پڑھی۔ ایک فریب تو ان کا یہی ہے کہ ادنیٰ درجہ کی نماز کے بجائے انھوں نے اعلیٰ درجہ کی پڑھی۔ کون جاہل کہہ سکتا ہے کہ میلے کچیلے کپڑوں میں شوافع کے یہاں نماز نہیں ہوتی ، یہ درست ہے کہ اچھے کپڑوں میں نماز مستحب ہے نہ یہ کہ فرض ہے اگر اچھے کپڑوں میں نماز پڑھنے کو صرف شافعی ہی مستحب نہیں کہتے ہیں بلکہ ابو حنیفہ سید الائمہ رحمہ اللہ بھی نہ صرف اس کے قائل بلکہ فاعل بھی تھے، فقہ حنفی میں یہ حکم موجود ہے:
[میلے کچیلے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، مستحب یہ ہے کہ آدمی تین کپڑوں میں نماز پڑھے ١-ازار ٢-قمیص اور ٣-عمامہ]
وجہ یہ لکھ دی گئی ہے:
[ظاہر وباطن کی ہر ممکن عمدگی کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں قیام کے آداب کی رعایت کی تکمیل کرتے ہوئے ]
اور فقہ کی مشہور کتاب منیة المصلي میں یہ بھی ہے:
[ امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ وہ نماز کے لیے بہترین کپڑے زیب تن فرماتے تھے ]
اگر قفال کو ادنیٰ درجہ کی نماز پڑھنی تھی تو جس طرح حنفی نماز جلد کلب مدبوغ سے پڑھی تھی کم از کم شافعی نماز گدھے کی کھال پہن کر پڑھتے ، کیونکہ اس میں بھی تو شافعی مذہب کی نماز ہو جاتی ہے، پھر معلوم نہیں کیا ضرورت پیش آئی تھی جو قفال نے کتے کی کھال دباغت دے کر اپنے پاس رکھی تھی ، اور معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت ان کے پاس ہی رہتی تھی ، اسی لیے تو اس موقع پر بھی بغچی سے نکال کر جھٹ زیب تن کرلی ، واللہ یاروں نے بھی کیا گپ ہانکی ہے؟ اڈیٹر صاحب ! جلد کلب مد بوغ میں تجویز نماز کی بناپر تم کو یا کسی شافعی کو حنفیہ پر ہنسنا زیبا نہیں، کیونکہ خود تمہارے یہاں بھی تو کتا بغل میں دبا کر نماز پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی لا تفسد صلوة حامله ( نزل الابرار ) اور تمہارے مقتدادا داؤد ظاہری نے تو غضب ہی ڈھادیا، ان کے مذہب پر سور کی مدبوغ جلد میں بھی نماز جائز ہے (نووی) اور تمہارے امام صدیق حسن بھوپالی نے بھی لکھا ہے کہ سور کے ناپاک ہونے پر آیت سے استدلال صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے پاک ہونے پر دال ہے ( بدور الاھلہ ص١٥ ١٦) اور بعض شافعی علماء نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ میتہ کی غیر مد بوغ کھال میں بھی نماز جائز ہے، ان مسائل کی موجودگی میں کسی کو ہم پر ہنسنے کا موقع نہیں ہے۔
٧۔ اس قصہ میں جیسا کہ آپ معلوم کر چکے ہیں یہ بھی ہے کہ قفال نے کلب کی جلد مدبوغ کا چوتھائی حصہ نجاست سے آلودہ کیا، اس سے بھی اس قصہ کا موضوع ہونا واضح ہوتا ہے۔ اولاً نجاست کا مطلقا ذکر کرنا پتہ دیتا ہے کہ راوی قصہ حنفی مذہب سے بالکل جاہل یا ابلہ قریب کوئی شخص ہے، حالانکہ حنفی مذہب میں جس نجاست کا یہ حکم ہے وہ وہ نجاست ہے جس میں دو متعارض نصوص وارد ہوئی ہوں ، جس کو اصطلاح فقہ میں نجاست خفیفہ کہتے ہیں جیسے ماکول اللحم کا پیشاب، اس لیے اس جگہ مطلق نجاست کہنا کسی جاہل یا ابلہ قریب ہی کی کارروائی ہو سکتی ہے، ایڈیٹر محمدی کہے تو کہے لیکن ہماری جرأت نہیں کہ امام الحرمین کو جاہل یا فریبی کہیں۔ ثانیا - امام قفال کا کلب کی جلد مدبوغ کو اس نجاست سے آلودہ کر کے نماز پڑھنا اور اس نماز کو حنفی مذہب کی جائز نماز قرار دینا بھی فریب یا جہالت ہے۔ اور یہی قصہ ان کو زبر دست عالم اور دونوں مذہبوں سے پورا واقف بھی قرار دیتا ہے، چونکہ ایک متعارض بات ایک ہی قصہ میں کوئی عاقل نہیں کہہ سکتا، اس کے علاوہ قفال کی یہ سخت توہین ہے ، اس لیے یہ قصہ یقینی موضوع ہے۔اب سنیے کہ ایسی نماز کو حنفی مذہب کی جائز نماز قرار دینا فریب یہ جہالت کیوں ہے بات یہ ہے کہ ربع ثوب یا ربع بدن میں نجاست خفیفہ کے معفو عنہ کا حکم قریب قریب اضطراری کے ہے اور اس کے ہوتے ہوئے جواز صلاۃ کا صرف اتنا مطلب ہے کہ کسی طرح فرض ساقط ہو جائے گا مگر اس کے ساتھ ہی ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا اور نماز مکروہ تحریمی اور اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا مولانا عبدالحئی صاحب فاضل لکھنوی شروح منیہ و کنز سے نقل فرماتے ہیں
مصنف کے قول عفو کا مطلب یہ ہے کہ بلحاظ صحت صلاۃ کے نہ کہ باعتبار گناہ کے اس لیے کہ معفو عنہ مقدار کا باقی رکھنا اور اس میں نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے لہذا اس کا دھونا واجب ہوگا اس سے کم مکروہ تنزیہی ہے اور اس کا دھونا واجب نہیں ہے
(عمدہ الرعایہ ١/ ١١٦)
دیکھیے صاف تصریح ہے نجاست ربع ثوب کا دھونا واجب ہے اور اس سے کم ہو تو مسنون ہے پھر ایڈیٹر محمدی کا اس مسئلے پر ہنسنا نہایت بے موقع ہے جبکہ اس کے مذہب میں تمام جانوروں کے پیشاب پاک ہیں
( بدور الاہلہ صفحہ 14، 15 ،16)
میتہ پاک ہے
(دلیل الطالب 224)
شراب پاک ہے
(دلیل 404۔ عرف الجادی 245 )
حیض و نفاس کے علاوہ انسانوں اور جانوروں کے تمام خون پاک ہیں (بدور 18۔ دلیل 230 عرف الجادی 10 )
بالخصوص جب اس کے مذہب میں خاص یہ صورت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی نجس بدن سے نماز پڑھ لے تو نماز باطل نہیں ہوگی مگر گنہگار ہوگا ( بدور 38 ) اور یہ کہ اگر کسی نے ناپاک کپڑوں میں بغیر عذر کے قصدا نماز پڑھ لی تو اس کی نماز صحیح ہو جاتی ہے
(دلیل الطالب 224 عرف الجادی 33 بدور 39)
غیر مقلدو ! جاڑوں کا موسم ہے چین کرو مزے اڑاؤ ۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے ایڈیٹر محمدی کا ہم پر ہنسنا بالکل وہی مثل ہے کہ اپنی انکھ کے شہتیر نہیں بجھائی دیتی غیر کی انکھ کا تنکا بھی نظر آتا ہے
٨۔ اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ" قفال مروزی نے نبیذ( بھگوئی ہوئی کھجوروں کے پانی) سے الٹا سلٹا وضو کیا اور اسی وضو سے نماز پڑھ کے کہا دیکھو یہ ہے حنفی مذہب کی جائز نماز "۔
دوستو ! جائز نماز سے اگر یہ مراد ہے کہ فرض کسی صورت سے ساقط ہو گیا چاہے مقبول و مرضی ہو یا نہ ہو تو صحیح ہے مگر ایسی ہی جائز نماز کے دکھانے کا حکم شافعی مذہب کی رو سے بھی ہوا تھا مگر قفال نے شافعی مذہب کی ایسی جائز نماز پڑھ کر نہ دکھائی بلکہ مقبول اور مرضی عند اللہ جائز نماز پڑھ کر دکھائی جو سراسر فریب اور دغا ہے اگر انہیں دونوں مذہبوں کی رو سے کم تر درجے کی جائز نماز پڑھ کر دکھانا تھی تو جس طرح حنفی مذہب کی نماز کے لیے نبیذ سے وضو کیا تھا شافعی مذہب کی نماز کے لیے کم از کم ایسے قلتین سے پانی لے کر وضو کرتے جس میں آدھ سیر پیشاب ڈالا گیا ہو کیونکہ قلتین میں آدھ سیر پیشاب ڈال کر اس میں سے جو کوزہ نکالے پاک ہوگا (دیکھو شافعی مذہب کی نہایت معتبر کتاب احیاء العلوم )
اگر قفال کے الفاظ " یہ ہے حنفی مذہب کی جائز " سے ان کی مراد مقبول و مرضی نماز ہے تو محض غلط ہے اور حنفی مذہب سے بے خبری کا یہ بین ثبوت ہے
اولا اس لیے کہ حنفی مذہب نبیذ سے وضو کرنے کے بارے میں دو روایتیں اور بھی ہیں اور ان میں سے ایک عدم جواز بھی ہے (ہدایہ)
ثانیا جواز کی روایت بھی مطلق نہیں ہے بلکہ وضو کا جواز اس وقت ہے جب پانی نہ ملے گویا جواز وضو بالنبیذ اس کا حکم اضطراری ہے جو وقت اضطرار تک ہے پھر نہیں جیسے تیمم ایسی صورت میں کوئی بھلا چنگا آدمی کسی شہر میں تیمم کر کے نماز پڑھے اور کہے کہ غیر مقلدین کا خیال سے میری نماز ہو گئی تو ایڈیٹر محمد اس کو یقینا دغاباز فریب یا جاہل قرار دے گا اسی طرح پانی ملنے کی صورت میں نبی سے وضو کر کے کوئی نماز پڑھے اور کہے کہ حنفی مذہب کی رو سے یہ جائز نماز ہوگی تو ہم اس کو دغاباز یا جاہل کیوں نہیں کہہ سکتے ہدایہ میں مصرح ہے
ترجمہ۔
اگر نبیذ تمر کے علاوہ کوئی اور پانی نہ پاوے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے وضو کر لے گا اور تیمم نہیں کرے گا
دیکھیے کیسا صاف ہے کہ توضی بالنبیذ کے جواز کا حکم پانی نہ ملنے کی صورت میں مخصوص ہے۔ مگر قفال نے مرو شہر میں نبیذ سے وضو کر کے نماز پڑھی اور اس کو حنفی مذہب کی جائز نماز قرار دیا حالانکہ وہ حنفی مذہب کی رو سے بالکل باطل تھی کیونکہ وہاں پر پانی موجود تھا اس لیے نبیذ سے وضو جائز نہ تھا ۔ اگر یہ قصہ صحیح ہو تو قفال کی اعلی درجے کی خیانت و دغا بازی ہے ہاں اگر وہ بھی یہ کہہ دیتے کہ نبیذ سے وضو جائز ہونے کا حکم حنفی مذہب میں پانی نہ ملنے کی صورت میں ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ اس کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے اضطرار کا وقت میتہ کا کھا لینا ۔
رہا الٹا سلٹا وضو کرنا وہ ہمارے یہاں ناجائز بمعنی نا مرضی ہے کیونکہ ترتیب سنت ہے اور ترک ترتیب مکروہ لہذا ایسے وضو سے نماز یک گو نامرضی ہوگی ۔ان باتوں کی وجہ سے مجھے کامل یقین ہے کہ یہ قصہ کسی دشمن عقل کا من گھڑت ہے جس نے اس قصہ کو امام الحرمین کی کتاب میں ملحق کر دیا ہے ورنہ قفال کی شان اس سے بہت ارفع ہے اور وہ ایسی دغا بازی یا جہالت کا کام کریں ۔توبہ توبہ! مجھے ایڈیٹر محمد کی علمی مسکنت پر ترس آتا ہے ۔وہ لکھتا ہے " لیکن ہم بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ بے شک حنفی مذہب کی فقہ کی کتابوں میں یہ کل جزیات موجود ہیں " پھر اس جزئی یعنی جواز توضی بالنبیذ التمر کے لیے ہدایہ کی عبارت نقل کر کے خود ہی لکھتا ہے " یعنی اگر پانی نہ ملے تو بھیگی ہوئی کھجوروں کے پانی سے وضو کر کے تیمم نہ کرے " مگر غریب کو اتنی خبر نہیں کہ قفال نے ایسی جگہ نبیذ سے وضو کیا تھا جہاں پانی مل سکتا تھا اور اس وضو سے حنفی مذہب کی رو سے نماز جائز بتائی تھی اور یہ جزئی ہدایہ میں نہیں ہے ہدایہ میں تو پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو جائز قرار دیا گیا ہے اللہ اکبر اس فہم پر یہ دعوی
خدا تیرا بت کافر دراز سن تو کرے
جفا کے تو بھی ہو قابل خدا وہ دن تو کرے
٩۔ اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ اللہ اکبر کے بجائے خدائے بزرگ تر است کہہ کر قران پڑھنے کی جگہ میں ایک چھوٹی سی آیت ( مدھامتان ) کا ترجمہ دو برگ سبز فرش کی زبان میں پڑھ دیا اور اس نماز کو حنفی نماز کی جائز نماز قرار دیا مگر آگے معلوم ہوگا کہ یہ بھی جہالت یا دغا بازی ہے اور امام قفال کی شان اس سے اجل ہے کہ ان کی طرف یہ باتیں منسوب کی جائیں اس لیے یقینا غیر مقلدین کے کسی خوش فہم نے یہ گپ ہانکی ہے بغور سنیے کہ فارسی میں تکبیر تحریمہ اور قرات ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے تکبیرۃ الاحرام کے مسئلے میں صاحبین یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی عربی میں شروع کرنے سے عاجز ہو تو جائز ہے کہ فارسی یا اور کسی زبان میں شروع کر لے اور امام صاحب بلا عجز بھی جائز فرماتے ہیں ۔بعض علماء لکھتے ہیں کہ صاحبین نے اس مسئلے میں امام صاحب کی طرف رجوع کیا ہے اور قراءت کے مسئلے میں پہلے امام صاحب فارسی میں قراءت کو جائز فرماتے تھے پھر بعد میں رجوع فرمایا اور در مختار میں ہے :
قرات کو عجز کے ساتھ مقید کیا ہے اس لیے کہ صحیح یہ ہے کہ امام صاحب نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا اور اس پر فتوی ہے اور ہدایہ میں اور شرح مجمع میں ہے اسی پر اعتماد ہے
( ١/٣۴٠ )
امام جس زمانے میں جواز کے قائل تھے اس وقت یہ بھی فرماتے تھے گو جائز ہے مگر بلا عاجز نہ کرنا چاہیے کہ بلا عاجز ایسا کرنے والا مسئ ہوگا کیونکہ یہ سنت متوراثہ کے خلاف ہے ہدایہ میں ہے ۔
الا انہ یصیر مسیئا لمخالفة السنة المتوراثة
الغرض تجویز کے ساتھ ہی طوق اثم ( گناہ گاری) کے بھی قائل تھے اس لیے اس قول کی بنا پر بھی ایسی نماز جس میں قرات و شروع فارسی میں کیا گیا ہو مطلقا جائز نہیں ہے بلکہ مع الکراہہ چہ جائیکہ اس قول سے امام صاحب کا رجوع بھی ثابت ہو چکا ہے (٣) اور فارسی میں قراءت بلا عجز ان کے ہاں بھی ناجائز قرار پا چکی ہے۔ ایسی صورت میں مرجوع عنہ قول پر عمل کر کے اس نماز کی تجویز کی نسبت مذہب حنفی کی طرف کرنا سراسر دغا بازی یا جہالت ہے اور یہ کام قفال کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بھولے ایڈیٹر تم نے قفال کا دونوں مذہبوں کا واقف قرار دیا ہے اور انہوں نے بجائے قرات دو برگ سبز پڑ کر حنفی مذہب کی جائز بتایا ہے اور تم نے یہ خیال کر کے نقل راچ عقل آنکھ بند کر کے نقل کر دیا ہے، مگر ہم تم کو تمہاری اسی بیکسی اور علمی ناداری پر رحم آتا ہے اس لیے تمہاری معلومات میں ایک قابل قدر اضافہ کرنا چاہتے ہیں سنو کہ قفال نے تمہارے بیان کے مطابق بجائے قرات صرف دو برگ سبز پڑھ کر اس نماز کو حنفی نماز کی رو سے جائز بتایا ہے مگر یہ محض افترا ہے ۔ حنفی مذہب کی ایک بہترین تصنیف فتح القدیر کا نام تم نے سنا ہوگا اس میں لکھا ہے
صحیح بات یہ ہے کہ اگر قرات قصص اور امر و نہی کے مقام سے ہو تو صرف اسی قدر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی
_____________________________________________________
(٣)ہدایہ میں ہے ویروی وجوعة فی اصل المسئلة ۔۔۔۔ ١٢
___________________________
کیونکہ اس صورت میں وہ غیر قرآن کے کلام کا بولنے والا ہو گا،
بر خلاف اس کےاگر وعظ ونصیحت کا مقام ہو اور اس پر اکتفا کرے تو نماز قراءت سے خالی ہونے کی وجہ سے فاسد ہو جائے گی۔
اور ایسا ہی اور کتب میں بھی ہے۔ اس حوالہ سے معلوم ہو گیا کہ قفال کا اس نماز کو حنفی مذہب کی جائز نماز کہنا بالکل غلط ہے، بلکہ حنفی مذہب کی رو سے وہ نماز بالکل فاسد تھی۔ یہاں تک قراءت بالفارسیہ کے متعلق تھا اور مطلق قراءت کی بابت سنئے، قراءت مفروضہ کی تقدیر میں امام صاحب سے تین روایتیں ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ فرض قراءت ایک آیت ہے چاہے چھوٹی ہی ہو، اور دوسری روایت یہ ہے کہ جتنے پر اسم قرآن بولا جا سکے اور وہ کسی کے خطاب کے مشابہ نہ ہو، تیسری روایت یہ ہے کہ تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو اور یہی تیسری روایت صاحبین کا قول ہے، یہ روایتیں قراءت مفروضہ کی تقدیر میں ہیں ، یعنی جتنا پڑھنے سے فرض ساقط ہو سکے، لیکن ابھی ذمہ میں واجب باقی ہے، واجب قراءت کی مقدار سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورہ یا تین آیتیں ہیں، اتنا پڑھنے سے واجب بھی ادا ہو جائے گا اور نماز مکروہ تحریمی نہ ہوگی ، بخلاف پہلی مقدار کے کہ اگر مقدار مفروض پڑھی تو گو فرض کسی درجہ میں ادا ہو جائے گا مگر چونکہ واجب ادا ہونے سے رہ گیا اس لیے نماز مکروہ تحریمی ہوگی لیکن مقدار واجب کے بعد ابھی ایک مقدار اور باقی رہ گئی ہے اور وہ مقدار مسنون ہے کہ اتنا پڑھ لے تو نماز بالکل مکمل ہو جائے گی اور مکروہ تنزیہی بھی نہ رہے گی، اور اگر صرف مقدار واجب پڑھی تو گو مکروہ تحریمی نہ ہو مکروہ تنزیہی ہونے سے نہ بچ سکے گی( مقدار مسنون یا مستحب کی تفصیل کتب فقہ کرو) میں چاہتا ہوں کہ جتنی باتیں میں نے قراءت کے متعلق لکھی ہیں اس پر فقہ حنفی کی شہادت بھی پیش کرتا چلوں۔
کبیری شرح منیۃ المصلی میں ہے:
ترجمہ
مقدار قراءت میں فرض ایک آیت کا پڑھنا ہے ہر اس رکعت میں جس میں قراءت فرض ہے اگرچہ آیت چھوٹی ہی کيوں نہ ہو جیسے کہ اللہ کا ارشاد 《ثم نظر 》، یہ امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ کی ایک روایت ہے اور یہی مشہور ہے، اور ان سے ایک روایت يہ بھی ہے کہ جس پر اسم قرآن کا اطلاق کیا جا سکے اور کسی کے خطاب یا اس جیسی چیز کے مشابہ نہ ہو، اس روایت کی بنا پر ان کے نزدیک《 ثم نظر 》 جیسی آیت کافی نہ ہوگی اور صاحبین کے نزدیک(2)۔اور یہی امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ کی بھی ایک روایت ہے ۔ یا تو تین چھوٹی آیتیں پڑھنا فرض ہے جیسے 《 ثم نظر ثم عبس وبـــر ثم أدبــر و استکبر》 ، یا ایک لمبی آیت پڑھنا جو تین چھوٹی آیتوں کے بقدر ہو،
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
______________________________________________________
(2)صاحب درمختار نے اسی کو احوط کہا ہےالدر المتقی 1/ 104۔
______________________________________________________
پھر سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورۃ یا تین چھوٹی آیتیں ملائے گا جو سب سے چھوٹی سورۃ کے برابر ہوں، اور گزر چکا ہے کہ فاتحہ ہی کی طرح یہ بھی واجب ہے لہذا اگر فاتحہ کے ساتھ ایک چھوٹی آیت یا دو چھوٹی آیتیں پڑھیں تو واجب میں کمی کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی ہوگی ، اور اگر تین چھوٹی آیتیں پڑھیں، یا ایک دو آیتیں تین چھوٹی آیتوں کے برابر پڑھیں تو نماز مکروہ تحریمی تو نہ ہوگی لیکن حد استحباب میں بھی داخل نہ ہوگی اور کراہت تنزیہی اس میں باقی رہ جائے گی ، اس لیے کہ مستحب کے ترک سے مکروہ تنزیہی ہوگی جیسا کہ واجب کے ترک سے مکروہ تحریمی ہوتی ہے، اور یہاں استحباب سے مراد سنت ہے جیسا کہ بیشتر کتابوں میں مصرح ہے۔ (275)
اس تفصیل کے بعد سنئے کہ 《 مدهامتان 》 کا ترجمہ فارسی پڑھ کر حنفیہ کے مذہب پر جواز و صحتہ نماز کا حکم کرنا محض بہتان ہے، اس کی ایک وجہ تو پہلے بتا چکا ہوں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اتنی قراءت سے امام صاحب کے نزدیک مقدار مفروضہ بھی ادا
نہیں ہوتی لہذا ایسی نمازحنفی مذہب میں کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی،《 مدھامتان 》 کا پچھلی دونوں روایتوں ( روایات تقدیر قراءت مفروضہ میں سے) کی بنا پر مقدار مفروض کے برابر نہ ہونا تو بالکل ظاہر ہے، ہاں پہلی روایت کی بنا پر اڈیٹر محمدی جیسے قاصر النظر کو اس کے مقدار مفروض کے برابر ہونے کا خیال ہو سکتا ہے، مگر خدا کی شان کہ ہمارے فقہا نے صاف تصریح کردی ہے کہ 《 مدهامتان 》 مقدار مفروض کے برابرنہیں اور اتنے سے فرض قراءت ساقط نہیں ہوسکتا۔
کبیری میں ہے:
ترجمہ
اور اگر کوئی ایسی آیت پڑھے جو ایک ہی لفظ ہو جیسے 《 مدهامتان 》یا ایک ہی حرف ہو جیسے 《 ص - ق- ن 》وغیرہ کہ یہ حروف بعض قراء کے نزدیک ایک آیت ہیں ، تو اس کے جواز کے باب میں مشائخ کا اختلاف ہے، یعنی یہ مقدار قراءت کے لیے کافی ہوگی یا نہیں، تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کو قاری ( پڑھنے والا ) نہیں کہا جا سکتا۔
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ 《 مدهامتان 》 پڑھ لینے سے فرض قراءت ادا نہ ہوگا۔ اسی طرح در مختار (۳۹۶/۱) و در منتقی (۱۰۴/۱) میں ہے:
ترجمہ
اگر ایک ہی کلمہ ہو تو صحیح بات یہ ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوگی ۔
اور مجمع الانھر میں ہے ،
ترجمہ
اور اگر ایک لفظ ہو جیسے 《مدهامتان 》 یا اوائل سور کا ایک حرف ہو جیسے 《 ص 》 تو صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کو شمار کرنے والا کہا جائے گا پڑھنے والا نہیں (1/104)۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف 《 مدھامتان 》 عربی میں بھی پڑھے تو نماز باطل ہوگی ، فرض ساقط نہ ہو گا، چہ جائیکہ اس کا فارسی ترجمہ۔ بلکہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی چھوٹی سی آیت ملالی تب بھی نماز پلٹانا واجب ہوگا، در مختار میں ہے:
اور اس کے بعد واجب طور پر ایک سورہ يا تین آیتیں پڑھے اور اگر ایک آیت یا دو آیتیں تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہوں تو کراہت تحریمی جاتی رہے گی ، اس کو حلبی نے ذکر کیا ہے، اور کراہت تنزیہی صرف مسنون سے جاتی ہے (1/363)
اور اگر ایک سورہ یا تین آیتیں بھی پڑھ لیں اور ان سے پہلے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تب بھی اعادہ واجب ہے شامی میں ہے
: انه يلزم بتركها الإعادة لوعامداً كالفاتحة (۳۶۳/۱)
۱۰- اس قصہ میں یہ بھی ہے " اور بغیر با قاعدہ اطمینان کے ساتھ رکوع کرنے کے دو سجدہ کر لیے اور وہ بھی کیا تھے جیسے مرغ زمین سے دانہ اٹھاتا ہو اور دو سجدوں کے درمیان جلسہ بھی نہ کیا " اور اس کو حنفی مذہب کی جائز نماز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آپ عنقریب جان لیں گے کہ یہ حنفی مذہب کی جائز نماز نہیں ہے بلکہ
قریب بہ حرام ہے، اس کا پلٹانا واجب ہے، ایسا کرنے والا فاسق گناہگار ہے۔ پہلے یہ معلوم کر لینا چاہئے کہ فقہ کی اصطلاح میں اطمینان و سکون سے رکوع سجدہ کرنے کو تعدیل ارکان کہتے ہیں۔ اور تعدیل ارکان کے بارے میں دو قول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ وہ فرض ہے، اور یہی امام ابو یوسف نوراللہ مرقدہ کا مسلک کا ہے، اور امام طحاوی نوراللہ مرقدہ نے اس کو امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ اور امام محمد نوراللہ مرقدہ سے بھی نقل کیا ہے، اور فقہا میں سے صاحب مجمع اور علامہ عینی نوراللہ مرقدہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور صاحب فیض نے فرمایا ہے کہ یہی احوط ہے۔
امام طحاوی شرح معانی الآثار میں فرماتے ہیں:
اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان سے اختلاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رکوع کی مقدار یہ ہے کہ نمازی رکوع کرے یہاں تک کہ حالت رکوع میں سیدھا ہو جائے ، اور سجدہ کی مقدار یہ ہے که سجدہ کرے یہاں تک کہ مطمئن ہو جائے ، تو یہ رکوع اور سجدے کی ضروری مقدار ہے، اور ان حضرات نے اس پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے (پھر طحاوی نے مسئی صلوۃ والی حدیث کو متعدد طریقوں سے ذکر کیا ) پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حدیثوں میں اس فرض کو بیان فرمایا جس کے بغیر چارہ نہیں اور جس کے بغیر نماز پوری نہیں ہوسکتی، پس معلوم ہوا کہ اس کے ماسوا سے مراد یہ ہے کہ وہ حصول فضیلت کا کم سے کم درجہ ہے، اگر چہ وہ حدیث منقطع ہے اور سند کے لحاظ سے ان دونوں کے ہم پلہ نہیں ہے، اور یہی امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ اور ابو یوسف نوراللہ مرقدہ و محمد نوراللہ مرقدہ کا قول ہے (ص 1/137)
اور در مختار میں ہے:
عینی نے کہا ہے کہ وہی مختار ہے اورمصنف نے اس کو برقرار رکھا ہے (1/332)۔
اس روایت کی بنا پر مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اڈیٹر محمدی کے خیال میں جس نماز کو قفال نے حنفی مذہب کی جائز نماز کہا ہے، وہ در حقیقت حنفی مذہب میں بالکل باطل ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ تعدیل ارکان واجب ہے، اس کے سہوا ترک سے سجدہ سہو واجب ہے ( ہدایہ ) صاحب کنز و وقایہ منتقی نے اس کو جزم کے ساتھ لکھا ہے ، رد المختار میں ہے(1/342)
اور در مختار میں واجبات کے سلسلے میں ہے:
ترجمہ
اور تعدیل ارکان یعنی اعضاء و جوارح کو مطمئن اور پر سکون رکھنا رکوع اور سجدہ میں ایک تسبیح کے بقدر اور ایسے ہی ان سے اٹھنے (3) کے بعد جیسا کہ کمال نےاختیار کیا ہے (1/342)
اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ ایک تسبیح کے برابر رکوع اور سجدہ، اور رکوع و سجدہ سے اٹھ کر اعضا کو ساکن رکھنا اور اطمینان کے ساتھ ان کو ادا کرنا تعدیل ارکان ہے اور یہ واجب ہے۔ اور قاضی صدر نے فرمایا کہ ہر رکن کو پورا کرنا واجب ہے، پس رکوع وسجدہ میں اور رکوع سے سیدھے ہو کر اور سجدہ سے سراٹھا کر اتنی دیر ٹھہرنا کہ ہر عضو کو سکون حاصل ہو جائے واجب ہے حتی کہ اگر کوئی بھول کر ایسا نہ کرے تو سجدہ سہو واجب ہے، اور اگر قصد ترک کر دے تو نہایت مکروہ ہے اور اس کو نماز لوٹانالازم ہے، شامی میں اس کو روایت و درایت کی رو سے اصح قرار دیا ہے۔ علامہ برکلی نے اس مبحث میں مستقل رسالہ لکھا ہے، اس میں وجوب تعدیل ارکان کے دلائل بہت بسط وایضاح سے لکھے ہیں، علامہ شامی فرماتے ہیں 1/342
__________________________________________________
(3) رد المختار 1/342 میں ہے جس سے معلوم ہوا کہ رکوع سے سیدھا کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھنا بھی واجب ہے۔
__________________________________________________
جس عبارت سے بھی یہ ثابت ہوا کہ رکوع و سجدہ اور قومہ جلسہ میں اطمینان و سکون اور خود قومہ و جلسہ یہ سب واجب ہیں، ان باتوں پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مداومت اور ایک حدیث میں آپ کا حکم کرنا ان کے وجوب ہی پر دلالت کرتا ہے، قاضی خاں اور صاحب محیط کے فتوے بھی اس کے موید ہیں۔
اور شرح منیہ میں ہے:
جب روایت درایت کے موافق ہو تو درایت سے چشم پوشی مناسب نہیں جیسا کہ قاضی خاں سے نقل کیا جا چکا ہے اور ایسا ہی وہ قول ہے جو قنیہ میں مذکور ہے،اور قاضی صدر نے اپنی شرح میں تمام ارکان کے سکون واطمینان سے ادائیگی میں بہت سختی اختیار کی ہے، انھوں نے کہا کہ ہر رکن کو پورا کرنا امام ابوحنیفہ نوراللہ مرقدہ اور امام محمد نوراللہ مرقدہ کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف اور امام شافعی کے نزدیک فرض ہے،پس وہ رکوع اور سجدہ میں اور ان سے اٹھنے کے بعد ٹہرے اور اس کا ہر عضو مطمئن ہو جائے ، امام ابو حنیفہ اور محمد نوراللہ مرقدہ کے نزدیک یہ واجب ہے حتی کہ اگر ان کو یا ان میں سے کسی ایک کو سہوا چھوڑ دیا تو اس پر سجدہ سہو لازم ہو جائے گا ، اور اگر قصداً چھوڑ دیا تو سخت مکروہ ہے اور اس کو نماز لوٹانا واجب ہے ۔
(دہلی صفحہ 289 )
شرح منیہ ہی میں یہ اقوال بھی منقول ہیں:
ترجمہ
امام محمد سے رکوع اور سجدہ میں اعتدال کی نسبت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے نماز نہ ہونے کا اندیشہ ہے اور اسی طرح کی بات امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ سے بھی منقول ہے، اور سرخسی نوراللہ مرقدہ سے منقول ہے کہ جس نے اعتدال چھوڑ دیا تو اس کے اوپر لازم ہے کہ نماز لوٹائے اور اعتدال کرے ( ص ٢٨٩)
اس عبارت سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ خود امام اعظم نوراللہ مرقدہ کا اور امام محمد نوراللہ مرقدہ کا یہ قول ہے کہ تعدیل ارکان کے ترک سے نماز نا جائز ہونے کا اندیشہ وخوف ہے
لہذا اس قول کی بنا پر بھی مذکورہ بالا نماز کو حنفی مذہب کی جائز نماز کہنا صریح مغالطہ ہے اور خالص بے انصافی ہے، اس پر نظر کرتے ہوئے ہر ہوش والا یہی فیصلہ کرے گا کہ ان امور کی نسبت قفال و امام الحرمین کی طرف بہتان و افترا ہے، اور یہ قصہ طلسم ہوشربا کی داستان اور گل بکاولی کے قصہ سے زیادہ وقیع نہیں ہے۔ غور تو کرو آخر یہ کتنی بڑی بے انصافی ہے کہ شافعی مذہب کی جائز نماز دکھاتے وقت تو کوئی مستحب بھی نہیں چھوڑا ، اور حنفی مذہب کی جائز نماز پڑھی تو واجبات بلکہ فرائض تک کا ناس مار دیا۔ حنفی مذہب میں یہ کہاں ہے کہ فرائض کے ترک سے نماز ہو جاتی ہے۔ حنفی مذہب میں تو واجب کے قصدا ترک سے بھی نماز لوٹانا واجب ہے جیسا کہ بار ہا بتایا جا چکا، صاحب در مختار نے الدر المنتقی میں لکھا ہے (١/ ٨٨)۔ اور ایسا ہی درمختار میں بھی ہے۔
علاوہ بریں جب حنفی مذہب کی نماز پڑھنے کے وقت ایسا کیا تھا تو شافعی مذہب کی نماز دکھانے کے وقت بھی چاہتا تھا کہ کم از کم سورہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورہ نہ پڑھتے ، دوسرا سلام نہ دیتے وغیرہ وغیرہ کہ ایسا کرنے سے شافعی مذہب میں نماز ہو جاتی ہے۔ تعدیل ارکان کی جو مقدار اوپر مذکور ہوئی وہ اس کا ادنی درجہ تھا۔
مجمع الانہرو درمنتقی میں ہے:
رکوع اور سجدہ میں تعدیل ارکان طرفین کے نزدیک واجب ہے اور اس کی کم سے کم مقدار ایک تسبیح کے برابر ہے
(ص 88)
اگر کسی نے اتنا بھی کر لیا تب بھی نماز مکروہ تنزیہی ہوگی ، ہاں جب کم از کم تین بار تسبیح بھی پڑھ لے تو کراہت تنزیہی جاتی رہے گی، در مختار میں ہے(١/ ٣٦۵):
ترجمہ
اور اس میں کم از کم تین بار تسبیح پڑھے اگر تسبیح چھوڑ دیا یا تین سے کم پڑھا تو مکروہ تنزیہی ہے )(۴)
__________________________________________________
(۴)۔ اس کے ترک سے ملامت بھی کی جائے گی اور ایسا کرنے والا گنہگار بھی ہوگا اصول بی الیسر
_________________________________________________
تین تسبیحوں کے ترک کو مکروہ تنزیہی قرار دینا مشہور روایت کی بنا پر ہے۔ اس مسئلہ میں دو قول اور بھی ہیں ، ابو مطیع بلخی نوراللہ مرقدہ شاگر د امام اعظم نوراللہ مرقدہ کا قول یہ ہے کہ تین تسبیحیں فرض ہیں (شامی ١/ ٣٦۵)
اور قہستانی نوراللہ مرقدہ سے منقول ہے کہ تین تسبیحات واجب ہیں اور اسی کو علامہ ابن امیر حاج نوراللہ مرقدہ اور شیخ ابراہیم حلبی نوراللہ مرقدہ اور علامہ شامی نوراللہ مرقدہ نے دلیل کے اعتبار سے قوی قرار دیا ہے، علامہ شامی اس کے بعد فرماتے ہیں:
ترجمہ:
خلاصہ کلام یہ کہ رکوع اور سجدہ میں تین بار تسبیح پڑھنے میں ہمارے یہاں تین اقوال ہیں ، ان میں دلیل کے لحاظ سے راجح یہ ہے کہ وہ واجب ہے، لہذا اسی پر اعتماد کرنا چاہئے جیسا کہ ابن الہام نوراللہ مرقدہ اور ان کے متبعین نے قومہ اور جلسہ میں سکون واطمینان کی روایت پر اعتماد کیا
(١/٣٦۵)
ابو مطیع کے قول پر ایک تسبیح کے برابر تعدیل کرنے سے بھی فرض ادا نہ ہوگا جب تک کہ تین بار نہ کہے، اور اخیر قول پر جب تک تین بار تسبیح نہ پڑھے گا مکروہ تحریمی ہوگی ، اعادہ واجب ہوگا۔ اور شامی نے کہا ہے اس پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نہیں کہہ سکتا کہ جس نماز میں کہ ایک بار بھی تسبیح نہ پڑھی گئی ہو نہ اس کی مقدار میں رکوع و سجدہ و قومہ و جلسہ میں تعدیل کی گئی ہو تو حنفی مذہب کی رو سے جائز نماز کیسے ہوسکتی ہے۔ اور قفال دونوں مذہبوں سے واقف ہو کر ایسا کب کہہ سکتے ہیں۔ جو یہ جانتا ہے وہ جزم کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ قصہ سرتاپا موضوع اور باطل ہے
11- اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ اسی طرح دو رکعت پڑھ کر سلام کے بجائے گوز مار دیا اور فارغ ہو گئے اور سلطان سے کہنے لگے یہ ہے حنفی مذہب کی جائز نماز، استغفر اللہ ! اس میں بھی وہی مغالطہ و فریب ہے، حنفی مذہب میں ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے، ایسی نماز کا لوٹانا واجب ہے، جس نے ایسا کیا وہ سخت گناہ گار ہے بلکہ اگر نماز کی توہین اور اس کا مذاق اڑانے کی غرض سے کیا ہے تو اندیشہ کفر ہے۔ اور جن عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز تمام ہو جائے گی ، ان کا یہ مطلب ہے کہ فرائض وارکان جتنے تھے وہ پورے ہو گئے لیکن گناہگاری اور کراہت تحریمی اور وجوب اعادہ سے چارہ نہیں ہے۔
( دیکھیں عمدہ 115 )
لزوم اثم و کراهته تحریمی و وجوب اعادہ کے قائل ہوتے ہوئے امام صاحب و صاحبین فرائض وارکان کے پورے ہو جانے کے قائل صرف ان احادیث و آثار سے مجبور ہو کر ہوئے ہیں جو اس باب میں مروی ہیں، مولانا علی قاری نوراللہ مرقدہ کا قول عمدہ الرعایہ (١/ ١۵٠)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر تشہد کے بعد سلام کے پہلے خارج ہو جائے تو نماز پوری ہو جاتی ہے۔ حضرت امام صاحب اور صاحبین نے انھیں روایات کی بنا پر ایسی صورت میں نماز کے تمام ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سلام چونکہ واجب ہے لہذا اگر کوئی قصدا اس کو ترک کر دے تو گناہ گار ہوگا، وہ نماز لوٹائے گا۔ امام صاحب اور صاحبین نے اپنے قول کی بنیاد حدیث نبوی پر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتوئی پر رکھی ہے، اس لیے اس قول پر اعتراض در حقیقت حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ہے، اس قول کا مضحکہ اڑانا حدیث کا مضحکہ اڑانا ہے، جس میں اندیشہ کفر ہے (معاذ اللہ ) امام قفال کی شان سے نہایت بعید ہے کہ ان سے ایسے افعال سرزد ہوں۔ اس لیے یقیناً کسی دشمن عقل و مخالف دین نے قفال پر یہ بہتان باندھا ہے، افترا کیا ہے۔ ان وجوہ مذکورہ بالا کی بنا پر میرے نزدیک یہ قصہ بالکل موضوع و باطل ہے۔
اخیر میں یہ بتادینا بھی مناسب ہے کہ یہ قصہ صلوۃ القفال کے نام سے مشہور ہے ، اور حضرت علامہ علی قاری نوراللہ مرقدہ نےاس کا پر زور رد لکھا ہے، اس رسالہ کا نام تشيع الفقهاء الحنفية بتشييع السفهاء الشافعية ہے۔ افسوس ہے کہ میں اب تک اس کی زیارت سے محروم ہوں ، اگر یہ رسالہ دستیاب ہو گیا اور کچھ نئی باتیں اس میں ملیں گی تو انتخاب کر کے بدیہ ناظرین کروں گا، ان شاء اللہ تعالی۔
__________________________________________________
اس رسالے کا مخطوطہ ٹیلی گرام چینل النعمان سوشل میڈیا مکتبہ میں موجود ہے
_________________________________________________
تنبیہ :۔ اس قصہ کو دمیری شافعی نے بھی اس کے حوالے سے نقل کیا ہے، اور آخر میں یہ کلام کر دیا ہے کہ اس میں یہ جو مذکور ہے کہ امام شافعی ہیت ، ادب ، سنت کے ترک سے نماز کو جائز نہیں کہتے یہ مستقیم ( صحیح ) نہیں ہے۔ ان کے الفاظ کیلئے دیکھیں : (حياة الحيوان الکبری ۴۴۸٫۲) اس کے بعد اشارہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ قصہ کا یہ عنوان صحیح نہیں، مشہور یہ ہے کہ انھوں نے ویسی ہی نماز پڑھی جس سے کم جائز نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ وہ ذرا اور غور کرتے اور قصہ کے ہر جزو پر نظر کرتے تو صاف اقرار کر لیتے کہ یہ قصہ ہی بالکل غلط ہے۔
تعجب ہے کہ مولوی یوسف جے پوری نے بھی حقیقۃ الفقہ میں اس کو لکھا ہے اور حیاۃ الحیون سے بھی نقل کیا ہے، مگر دمیری کی وہ عبارت نقل نہیں کی جس میں قصہ کے بعض اجزا کی انھوں نے تغلیط کی ہے اور چالاکی کا اقتضا بھی یہی تھا، اس لیے کہ اگر وہ عبارت نقل کر دیتا تو پورے قصہ میں اشتباہ ہو جاتا اور نا واقفوں کو بہکانا جو مقصود تھا حاصل نہ ہوتا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں