نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلدین ، امام نووی اور سینے پر ہاتھ

 فیس بک کے اکثر انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کی عادت ہے کہ وہ مرزا جہلمی کی طرح عبارات سے من مانے مفہوم اور اصول اخذ کرتے ہیں اور پھر باقی انگوٹھا چھاپ اہلحدیث ان من مانے مفہوم و اصولوں کا دفاع کرتے ہیں اور بعد میں گالیاں نکالتے ہیں۔۔۔۔

 اپنی اسی عادت سے مجبور ہو کو فیس بک کے ایک انگوٹھا چھاپ پھدو اہلحدیث محمد سلمان شیخ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسئلہ پر ایک پوسٹ لگائی اور امام نووی رح سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کا مؤقف اور جمہور کا مؤقف سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہے۔۔۔۔۔

امام نووی رح کا مؤقف واضح ہے جیسا کہ انہوں نے شرح مسلم میں بیان کیا ہے کہ تحت الصدر(سینے کے نیچے ) فوق السرہ( ناف کے اوپر) اور یہ ان کے نزدیک شافعیہ کا مؤقف ہے لیکن انگوٹھا چھاپ اہلحدیث محقق نے امام نووی رح کے قول سے یہ مراد لیا کہ سینے پر ہاتھ باندھنا جمہور اور ان کا مؤقف کے جو کہ واضح جھوٹ ہے۔۔۔۔۔

امام نووی رح نے اپنے مذھب کی دلیل میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی لیکن امام نووی رح کے نزدیک "علی الصدر" سے مراد تحت الصدر فوق السرۃ ہی ہے لیکن فیس بک کے انگوٹھا چھاپ اہلحدیث بضد ہیں کہ تحت الصدر فوق السرہ سے مراد سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی ہے۔۔۔۔۔

امام نووی رح کا یہی مسلک ان کی ایک اور کتاب میں موجود ہے کہ 

قال أصحابنا السنة أن يحط يديه بعد التكبير ويضع اليمنى على اليسرى ويقبض بكف المينى كوع اليسرى وبعض رسغها وساعدها قال القفال يتخير بين بسط أصابع اليمنى في عرض المفصل وبين نشرها في صوب الساعد ويجعلهما تحت صدره وفوق سرته هذا هو الصحيح المنصوص

(المجموع للنووی، 3۔310، ط: دار الفکر)

ترجمہ: "ہمارے اصحاب کہتے ہیں: سنت یہ ہے کہ تکبیر کے بعد اپنے ہاتھ نیچے لر لے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لے اور دائیں ہتھیلی سے بائیں کلائی اور کچھ گٹا اور بازو پکڑ لے۔ قفال کہتے ہیں: اسے اختیار ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں جوڑ کی چوڑائی میں پھیلا لے یا بازو کی لمبائی میں پھیلا لے۔ اور ان دونوں ہاتھوں کو سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر رکھے گا۔ یہی صحیح منصوص (مذہب) ہے۔"


امام نووی رح کی عبارت کا ترجمہ انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کے امام اہلحدیث علامہ وحید الزماں نے مسلم شریف کے ترجمہ میں اس طرح نقل کیا ہے کہ " ہمارے نزدیک چھاتی کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا ہے اور جمہور علماء کا یہی قول ہے" ( صحیح مسلم ، ترجمہ 2/29 مترجم امام اہلحدیث علامہ وحید الزماں )


امام نووی رح کا یہی موقف انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کے پسندیدہ محقق امیر صنعانی رح نے سبل السلام میں اس طرح نقل کیا ہے کہ " نووی نے منہاج میں کہا ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سینے کے نیچے رکھے ، شرح نجم الوہاج کے مصنف نے کہا ہے کہ اصحاب نے اس سے یہ مفہوم مراد لیا ہو جو سینے سے نیچے ہاتھ رکھنے پر دلالت کرتا ہے" ( سبل السلام ترجمہ 1 / 333 مترجم عبدالرحمن کیلانی)


فیس بک کے ایک اور انگوٹھا چھاپ اہلحدیث نے الزام لگایا ہے کہ امیر صنعانی کی مکمل عبارت نقل نہین کی گئی جبکہ میں نے سبل السلام کے ترجمہ جو کہ انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کے مشہور عالم عبدالرحمن کیلانی نے کیا ہے اس سے ثابت کیا تھا کہ امام نووی رح کا مسلک سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔۔


تو اگر کسی انگوٹھا چھاپ اہلحدیث کو اعتراض ہے کہ امیر صنعانی کی عبارت کا ترجمہ غلط کیا گیا یا عبارت مکمل نقل نہیں کی گئی تو اپنی گالیوں کا رخ عبدالرحمن کیلانی کی طرف کرے ۔۔۔

 

شوافع اور امام نووی رح کا یہی موقف انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کے مشہور امام شوکانی نے نقل کیاہے کہ 


والحديث استدل به من قال: إن الوضع يكون تحت السرة وهو أبو حنيفة وسفيان الثوري وإسحاق بن راهويه وأبو إسحاق المروزي من أصحاب الشافعي. وذهبت الشافعية، قال النووي: وبه قال الجمهور إلى أن الوضع يكون تحت صدره فوق سرته. وعن أحمد روايتان كالمذهبين، ورواية ثالثة أنه يخير بينهما ولا ترجيح وبالتخيير قال الأوزاعي وابن المنذر. قال ابن المنذر في بعض تصانيفه: لم يثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - في ذلك شيء فهو مخير. وعن مالك روايتان: إحداهما يضعهما تحت صدره، والثانية يرسلهما ولا يضع إحداهما على الأخرى.

(نیل الاوطار، 3/56)

علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں: "اور اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں گے۔ اور وہ ابوحنیفہ، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ اور شوافع میں سے ابو اسحاق مروزی ہیں۔ اور شافعیہ کا مذہب اور بقول امام نوویؒ جمہور جس کے قائل ہیں یہ ہے کہ ہاتھ سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے جائیں گے۔ اور امام احمدؒ دونوں مذہبوں کی طرح دو روایتیں ہیں، اور تیسری روایت یہ ہے کہ اسے اختیار ہوگا دونوں میں اور کسی کو ترجیح نہیں ہے۔ اور اختیار کی ہی بات اوزاعی اور ابن المنذر نے بھی کی ہے۔ ابن المنذرؒ نے اپنی ایک تصنیف میں کہا ہے: نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے اس لیے اختیار ہے۔ اور امام مالکؒ سے دو روایتیں ہیں: ایک یہ کہ سینے کے نیچے باندھے اور دوسری یہ کہ دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھے۔"


اسی طرح انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں کے مشہور عالم شمس الحق عظیم آبادی شافعیہ کے مذھب کے بارے میں امام نووی رح کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 

"وذھب الشافعیہ، قال النووی، وبہ قال الجمھور الوضع تحت الصدر وفوق السرة"( عون المعبود 2/351)

شافعیہ کا مذھب جیسا کہ امام نووی رح نے کہا ہے اور جمہور کا قول ہے سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ رکھنے چاہیے۔۔۔


ایک اور انگوٹھا چھاپ اہلحدیث محقق نے سنابلی کی کتاب سے حوالہ نقل کر کے علامہ ہاشم ٹھٹوی رح کی کتاب درھم آلصرہ سے ایک قول نقل کیا کہ " تحت الصدر میں صدر سے مراد سینے کا اوپری حصہ ہے اور وائل رضی اللہ عنہ کی جس حدیث میں علی الصدر کا لفظ ہے، اس سے مراد سینے کا نچلا حصہ ہے۔" ( درھم آلصرہ 48)


علامہ ہاشمؒ نے دو کتب کا حوالہ دیا ہے: شرح المنہاج للمحلی اور شرح العباب لابن حجر المکی۔

شرح المنہاج میں ہے: "زاد ابن خزیمۃ: علی صدرہ، ای آخرہ فیکون آخر الید تحتہ" (کنز الراغبین، 1۔193، ط: دار المنہاج)

 "ابن خزیمہ نے علی صدرہ کی زیادتی کی ہے یعنی سینے کا آخری حصہ لہذا ہاتھ کا آخری حصہ سینے کے نیچے ہو جائے۔"


شرح العباب کے مخطوطہ میں موجود ہے کہ 

"بین سرتہ و صدرہ لما صح انہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ ای آخرہ فتکون تحتہ بقرینۃ روایۃ تحت صدرہ"

 "(ہاتھ رکھے گا) اپنی ناف اور سینے کے درمیان اس لیے کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا۔ یعنی سینے کے آخر میں تو وہ (ہاتھ) اس (سینے) کے نیچے ہوگا تحت صدرہ کی روایت کے قرینے سے۔"


تو ان تمام حوالوں سے واضح ہوا کہ شوافع کا مذھب اور امام نووی رح کا مؤقف نماز میں سینے سے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا ہے اور فیس بک کے انگوٹھا چھاپ اہلحدیثوں نے امام نووی رح پر جھوٹا الزام لگایا ہے کہ ان کے نزدیک جمہور کا قول سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہے اور امام نووی رح کی عبارات کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے۔۔۔۔







غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 

محسن اقبال

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...