نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلة مسح الرقبة , گردن پر مسح کرنا

 

مسئلة مسح الرقبة

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں۔

گردن کے مسح کے بارے میں اکثر غیر مقلدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گردن کے مسح کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔  زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ : صحیح وحسن احادیث میں سر اور کانوں کے مسح کا ذکر ہے ، لیکن گردن کے مسح کا ذکر نہیں۔ (ہدایۃ المسلمین :صفحہ ۱۵) اور اسی طرح کی بات ابراہیم سیالکوٹی ، عبد الرحمن العزیز، عبد الرؤف ، داؤد ارشد وغیرہ نے کہی ہے۔ (صلاۃ النبی ﷺ:صفحہ ۱۹، صحیح نمازِ نبوی :صفحہ ۴۵، مسنون نماز:صفحہ ۴۶، حدیث اور اہل تقلید:جلد ۱:صفحہ۲۳۷)

الجواب :

گردن پر مسح کرنے کی معتبر احادیث ملاحظہ فرمائیے :

دلیل نمبر ۱:

امام ابو داؤد ؒ (م۲۷۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثنا محمد بن عيسى، ومسدد، قالا: حدثنا عبد الوارث، عن ليث، عن طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده، قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح رأسه مرة واحدة حتى بلغ القذال - وهو أول القفا، وقال مسدد - مسح رأسه من مقدمه إلى مؤخره حتى أخرج يديه من تحت أذنيه

کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ سر کا مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ،یہاں تک کہ آپ ﷺ مسح کرتے ہوئے گدی تک پہنچ گئے ۔

پھر حدیث کے راوی (غالباً امام ابو داؤد ؒ )  القذال کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وهو أول القفا وہ گردن کے شروع کا حصہ ہے ۔ یعنی گدی ہے ۔  (سنن ابی داؤد : حدیث نمبر۱۳۲) اور غیر مقلدین کا اصول ہے کہ راوئ حدیث اپنی حدیث کا مطلب دوسروں سے زیادہ جانتا ہے ۔ (فتاویٰ البانیہ : صفحہ ۲۳۶) شواہد اور متابع ہونے کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے ۔ [1]

اعتراض:

ابوصہیب داؤد ارشد صاحب کہتے ہیں کہ پھر یہ حدیث ابوداؤدمیں بھی ہے، جس میں راوی القذال کی تفسیرقفاء سے کرتا ہے ، امام مسدد کی روایت میں بلغ القذال کی بجائے یہ الفاظ ہیں مسح رأسه من مقدمه إلى مؤخره یعنی نبی ﷺ نے مسح سر کے ابتدائی حصہ سے شروع کیا اور آخری حصہ تک لے گئے ۔الغرض اس روایت سے گردن کا مسح ثابت نہیں ہوتا۔ (حدیث اور اہل تقلید :جلد ۱:صفحہ۲۴۱)

الجواب :

اول       تو جان لیں کہ القذال کی تفسیر قفاء سے راوی حدیث (غالباً امام ابو داؤد ؒجیسے فقیہ اور حافظ الحدیث) نے کی ہے، غیر مقلدین کا اصول ہے کہ راوی حدیث اپنی حدیث کے مطلب کو دوسروں سے زیادہ  جانتا ہے ۔ (فتاویٰ البانیہ :صفحہ ۲۳۶)  لہذا ابو صہیب صاحب کا اس سے انکار مردود ہے ۔

دوم       یہ کہ ابو صہیب نے امام مسددؒ کے الفاظ میں خیانت کی ، پورے الفاظ ملاحظہ فرمائیے :’مسح رأسه من مقدمه إلى مؤخره حتى أخرج يديه من تحت أذنيه نبی ﷺ نے مسح سر کے ابتدائی حصہ سے اخیر تک کیا یہاں تک کہ (مسح کے بعد) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا۔ (سنن ابی داؤد:حدیث نمبر۱۳۲) مسح کے بعد ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالنا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ نے سر کے مسح کے ساتھ گدّی کا مسح بھی فرمایا ۔

کیونکہ اگر گدی کا مسح مراد نہ لیا جائے ، تو ہاتھ کو کانوں کے نیچے سے کیوں نکالا، پھر سر کے مسح کا طریقہ خود غیر مقلدین بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سرکا مسح کیا، دونوں ہاتھوں کو سر کے اگلےحصہ سے شروع کرکے گُدّی تک لے گئے ، پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے ، جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔ (نمازِ نبوی :صفحہ ۵۲، مختصر صحیح نماز نبوی،از،زبیر علی زئی:صفحہ ۶)

غور فرمائیے ! سر کے مسح کے ختم پر دونوں ہاتھوں کو جس طرح آگے لے کر جاتے ہیں ، اسی طرھ پیچھے لے کر آتے ہیں، لیکن یہاں مسددؒ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا۔یہ واضح ثبوت ہے کہ آپ ﷺ نے سر کے ساتھ گردن کا بھی مسح فرمایا، لیکن چونکہ اہل حدیث حضرات کے مسلک کے خلاف تھا ، اس لئے ابو صہیب صاحب نے اسے چھپالیا ۔ (اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے ۔ آمین )

سوم        یہ کہ سنن ابوداؤد ہی میں مسدد ؒ کی روایت کے ساتھ محمد بن عیسیٰ بن نجیح البغدادی ؒ (م۲۲۴؁ھ) کی روایت بھی ہے ، جس میں ’بلغ القذال‘ کے الفاظ آئے ہیں ، لیکن اس کو موصوف نے ذکر تک نہیں کیا ۔  الغرض ابو صہیب صاحب یہ کہنا کہ ’اس روایت سے گردن کا مسح ثابت نہیں ہوتا‘باطل اور مردود ہے ۔

اعتراض نمبر۲:

غیر مقلدین کے شرف الحق عظیم آبادی صاحب کہتے ہیں کہ :

الحديث مع ضعفه لا يدل على استحباب مسح الرقبة لأن فيه مسح الرأس من مقدمه إلى مؤخر الرأس أو إلى مؤخر العنق على اختلاف الروايات وهذا ليس فيه كلام إنما الكلام في مسح الرقبة المعتاد بين الناس أنهم يمسحون الرقبة بظهور الأصابع بعد فراغهم عن مسح الرأس وهذه الكيفية لم تثبت ۔

               یہ حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ گردن کے مسح کے استدلال پر دلالت نہیں کرتی ، کیونکہ اس میں تو یہ (بیان ہے کہ ) سر کے مسح کو پہلے حصہ سے شروع کیا اور اخیر تک (ہاتھوں کو) لے گئے ، یا سر کے آخری حصہ تک لے گئے ، روایات کے مختلف الفاظ کے مطابق۔ اس میں کوئی نزع اور کلام نہیں ، بلکہ عوام الناس میں متعارف گردن کے مسح میں کلام ہے ، جو سر کے مسح کے الٹے ہاتھوں سے کیا جاتا ہے ، اور یہ کیفیت ثابت نہیں ہے ۔ (عون المعبود )

الجواب :

اول       مسند احمد کی روایت کے الفاظ یہ ہے کہ :

حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا عبد الوارث، حدثنا ليث، عن طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده، أنه " رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح رأسه حتى بلغ القذال، وما يليه من مقدم العنق بمرة " قال القذال: السالفة العنق

حضرت کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے سر کا مسح کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ مسح کرتے ہوئے گدی اور اس سے ملے ہوئے گردن کے اگلے حصہ پہنچ گئے ۔  راوئ حدیث (غالباً یہ امام احمد بن حنبلؒ ہے )’القذال کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ السالفة العنق گلے کا پچھلا حصہ یعنی گدی۔ (مسند احمد : حدیث نمبر ۱۵۹۵۱،و اسنادہ حسن بالشواہد) اور امام طبرانی ؒ(م۳۶۰؁ھ) بھی فرماتے ہیں کہ :

حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا شيبان بن فروخ، ثنا أبو سلمة الكندي، ثنا ليث بن أبي سليم، حدثني طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده،: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فمضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا، يأخذ لكل واحدة ماء جديدا، وغسل وجهه ثلاثا، فلما مسح رأسه قال: «هكذا» ، وأومأ بيده من مقدم رأسه حتى بلغ بهما إلى أسفل عنقه من قبل قفاه۔

کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنےوضو کیا ، تو ۳ مرتبہ کلّی کی ، ۳مرتبہ ناک صاف کیا اور آپ ﷺنے ہر ایک بار نیا پانی لیا اور آپ ﷺنے ۳مرتبہ چہرہ دھویا ، پھر سر کا مسح کیا ، اس طرح (ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا) کہ (آپ ﷺنے ) سر کے شروع حصہ سے مسح کیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے ہاتھ مسح کرتے ہوئے گردن کے پچھلے حصہ (اور) گُدّی کے (آخری حصہ ) سے پہلے تک پہنچ گئے ۔  (معجم الکبیرللطبرانی :جلد ۱۹:صفحہ۱۸۰،واسنادہ حسن بالشواہد)

ان دونوں روایتوں پر غور فرمائیے ، کہ اس میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے گردن کے پچھلے حصہ تک مسح کیا ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث میں گردن پر مسح کا ثبوت ملتا ہے، لہذا اس کا انکار کرنا صاحب عون المعبود کا محض مسلکی تعصب ہے ۔

دوم       جہاں تک سر کے مسح کے بعد ، گردن پر مسح کرنے کی بات ہے ، تو:

امام ابو بشر الدولابی (م۳۱۰؁ھ)کہتے ہیں کہ :

         حدثنا إبراهيم بن يعقوب قال:، ثنا سعيد بن سليمان قال:، ثنا حفص بن غياث وإسماعيل بن زكريا , عن ليث , عن طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مسح برأسه ثم أمر بيديه هكذا على سالفته من خلفه۔

کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺنے اپنے سر ِمبارک کا مسح کیا، پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی گردن کے پچھلے حصہ پر گزارا۔(الکنی والاسماءللدولابی :جلد۱:صفحہ ۱۶۴، حدیث نمبر۳۲۱)[2]

اسی طرح امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

أخبرنا أبو القاسم عبد الواحد بن محمد بن إسحاق بن النجار المقري بالكوفة، أنا أبو القاسم جعفر بن محمد بن عمرو الأخمسي، ثنا أبو حصين الوادعي، ثنا يحيى الحماني، ثنا حفص، عن ليث، عن طلحة، عن أبيه، عن جده " أنه أبصر النبي صلى الله عليه وسلم حين توضأ مسح رأسه وأذنيه وأمر يديه على قفاه "

                                                                                        

حضرت کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو وضو کرتے ہوئے دیکھا ، (تو) آپ ﷺ نے اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کا مسح کیا اور (پھر) اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی گدی پر گزارا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد۱:صفحہ ۹۹:حدیث نمبر ۲۷۸[3]،تاریخ ابن ابی خیثمہ:جلد۲:صفحہ۷۰۹، حدیث نمبر ۲۹۳۹) یہ روایت واضح طور پر دلالت کررہی ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے سر کا مسح فرمایا ، پھر کانوں کا اور پھر گردن کا مسح کیا۔ [4]

اور ابوداؤد کی روایت (بطریق مسدد) میں تو صراحت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا ہے ، یہ الفاظ بھی دلالت کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے گردن کا مسح فرمایا ، کیونکہ اگر اس روایت سے گردن کا مسح نہیں، بلکہ صرف سر کا مسح ثابت ہوتا ہے ، جیسا کہ صاحب عون المعبود ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہاتھوں کو سر کے اوپر سے واپس لانا چاہیے تھا۔  کیونکہ سر کے مسح میں جس طرح ہاتھوں کو سر کے شروع حصہ سے سر کے آخری حصہ تک لے جایا جاتا ہے ، ویسے ہی ہاتھوں کو واپس سر کے شروع حصہ پر لایا جاتا ہے ، جس کا ذکر خود اہل حدیث علامء بخاری اور مسلم کے حوالہ سے کرتے ہیں ، جس کے حوالے گزر چکے ۔

لیکن محدثین کی روایت میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا ہے، اور عوام بھی جانتی ہے کہ مسح میں آدمی کا ہاتھ اسی وقت کانوں کے نیچے نکلتا ہے ، جب وہ گردن کا مسح کرتا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ پہلے سر کا مسح کرتے تھے ، جیسا کہ بخاری اور مسلم میں ہے ، اور پھر سر کے مسح کے بعد گردن کا مسح فرماتے ۔

لہذا صاحب ِ عون المعبود کا یہ کہنا کہ مسح کے بعد گردن پر مسح کرنا ثابت نہیں ہوتا ، باطل ومردود ہے۔

سوم         جہاں تک گردن کے مسح میں الٹے ہاتھ سے مسح کرنے کی بات ہے، تو حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں ہے کہ ’ يمسح رقبته بظاهر اليدين حتى يصير ماسحا ببلل لم يصر مستعملا ‘یعنی اپنی گردن کا مسح دونوں ہاتھوں کی پشت سے کرے تاکہ مسح ایسی تری سے ہو جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہے۔

(العنایۃ شرح ہدایہ : جلد ۱:صفحہ ۳۳)[5]                  

دلیل نمبر ۲:

امام ابو طاہر سِلَفی ؒ (م۵۷۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

أخبرنا الشيخ أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار بن أحمد بانتخابي عليه من أصول كتبه  أخبرنا أحمد، حدثنا عبد العزيز، حدثنا جدي، حدثنا سعيد بن عنبسة، حدثنا شعيب بن حرب، حدثنا مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف، عن أبيه،  عن جده   قال: رأيت النبي - صلى الله عليه وسلم -، توضأ، فمسح برأسه حتى بلغ القذال۔

حضرت کعب بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ، تو آپ ﷺ نے اپنے سرِ مبارک کا مسح فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ مسح کرتے ہوئے اپنی گُدی تک پہنچ گئے ۔  (الطیوریات:جلد ۳:صفحہ ۸۳۱، حدیث نمبر ۷۴۴)

نوٹ:     اس حدیث میں موجود ’ القذال ‘کا مطلب گدی ہے، جیسا کہ خود اسی حدیث کے راویوں نے بتایا ہے، دیکھئے ، ص:۷۹ اور اس کی سند شواہد کی وجہ سے حسن درجہ کی ہے ۔ [6]

نوٹ:     اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ؒ نہیں ہیں ، بلکہ ان کے متابع  میں مالک بن مغول ؒ (م۱۵۹؁ھ)ہیں جو کہ ثقہ اور مضبوط ہیں ۔ (تقریب: رقم ۶۴۵۱)اور غیر مقلدین کے نزدیک لیث ابن ابی سلیم شواہد اور متابعات کی کی صورت میں مقبول ہیں ، جیسا کہ تفصیل ص : ۷۱  پر موجود ہے، لہذا مالک بن مغول ؒ کی روایت کی وجہ سے اب غیر مقلدین علماء مثلاً ابو صہیب داؤد ، زبیر علی زئی اور عبد الوارث اثری وغیرہ کا [7]گردن کے کی روایت میں لیث بن ابی سلیم ؒ پر جرح کرنا، خود ان کے اصول کی روشنی میں مردود ہے، لہذا لیث ؒ کی روایت بھی متابع ملنے کی وجہ سے حسن ہے۔

دلیل نمبر ۳:

امام ابو نعیم (م ۴۳۰؁ھ )فرماتے ہیں کہ :

حدثنا محمد بن أحمد بن محمد، ثنا عبد الرحمن بن داود، ثنا عثمان بن خرزاذ، ثنا عمرو بن محمد بن الحسن المكتب، ثنا محمد بن عمرو بن عبيد الأنصاري، عن أنس بن سيرين، عن ابن عمر، أنه كان إذا توضأ مسح عنقه ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من توضأ ومسح عنقه لم يغل بالأغلال يوم القيامة۔

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے جب وہ وضو کرتے ، تو گردن کا مسح فرماتے اور کہتے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو وضو کرے اور اپنی گردن پر مسح کرے ، تو قیامت کے روز اس کو بیڑیاں نہیں پہنائی جائیں گی ۔ (تاریخ ابو نعیم : جلد ۲: صفحہ ۷۸، واسنادہ حسن بالشواہد )

اس کی سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہے :

(۱)  امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ)مشہور ثقہ ، حافظ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد۱:صفحہ ۳۶۵)

(۲)  محمد بن احمد بن محمد سے مراد ، ثقہ امین راوی ابو بکر محمد بن احمد بن محمد بن جشنش الاصبہانی المعدل ؒ (م۳۸۴؁ھ)ہے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی :جلد ۸: صفحہ۵۶۲)[8]     

(۳) عبد الرحمن بن داؤد الفارسی ؒ ثقہ، مامون ، کثیر الحدیث ہیں ۔ (تاریخ الاسلام :جلد ۷:صفحہ ۳۸۷، طبقات المحدثین :جلد ۴:صفحہ ۹۶)[9]

(۴)  حافظ عثمان بن عبد اللہ بن محمد بن خرازاد ؒ (م ۲۸۲؁ھ)  سنن نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۴۴۹۰)

(۵)  عمرو بن محمد بن الحسن ؒ پر شدید جرح ہے، لیکن عبد اللہ بن عمر ؓ سے موقوف روایت میں ان کے متابع میں  امام ،حافظ یحیٰ بن عبد الحمید الحمّانی ؒ (م۲۲۸؁ھ) [ثقہ ،حافظ] موجود ہیں پھر موسیٰ بن طلحہ ؓ (م۱۰۳؁ھ) سے بھی یہی صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔  لہذا اس روایت میں ان پر جرح بیکار ہے ۔ [10]

(۶) محمد بن عمروبن عبید ؒ کے متابع میں فلیح بن سلیمان ؒ (م ۱۶۸؁ھ) صحیح بخاری کے راوی ہیں ، جو کہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔  لہذا متابع ہونے کی وجہ سے محمد بن عمرو ؒ پر جرح بھی اس روایت میں مردود ہے ۔ [11]

(۷) انس بن سیرین ؒ (۱۲۰؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۵۶۳)

(۸) عبد اللہ بن عمرؓ (م۷۴  ؁ھ) مشہور صحابی رسول ہیں ۔  الغرض معتبر  متابع  و شواہد کی موجودگی میں یہ روایت حسن درجہ کی ہے ۔

متابع نمبر۱:

تلخیص الحبیر میں ہے کہ :

رواه أبو الحسين بن فارس بإسناده عن فليح بن سليمان عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  من توضأ ومسح بيديه على عنقه وقي الغل يوم القيامة۔امام ابو الحسین بن فارس ؒ (۳۹۵؁ھ)نے عن فليح بن سليمان عن نافع عن ابن عمر‘ کی سند سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن پر مسح کیا، تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے ) سے بچا لیا جائے گا۔ (جلد ۱:صفحہ ۱۶۳)

نوٹ:

                اگرچہ ، اس حدیث کی پوری سند موجود نہیں ہے،(یعنی یہ روایت معلق ہے) لیکن اس روایت کو امام عبد الواحد بن اسماعیل الرویانی ؒ  (۵۰۲؁ھ) [ثقہ] [12]نے صحیح کہا ہے ۔ (بحر المذہب :جلد۱:صفحہ ۱۱۹) زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ اس روایت امام ابن فارس ؒ    (م ۳۹۵؁ھ) نے بھی ’ هذا إن شاء الله حديث صحيح ‘ کہا ہے ۔ (ہدایۃ المسلمین :صفحہ ۱۶) اور محدثین کا کسی حدیث کی تصحیح وتحسین کرنا ، غیر مقلدین  کے نزدیک اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (دیکھئے ،ص: ۹۶) خود زبیر علی زئی صاحب  یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ ’’جس راوی کی  کم از کم  دو محدثین  توثیق کردیں وہ مجہول نہیں رہتا بلکہ  ثقہ و صدوق قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ (الحدیث : شمارہ : ۲۵ : ص ۴۳)  لہذا جب اس حدیث کو ۲،۲ محدثین نے صحیح کہا ہے، تو معلوم  ہوا  کہ اس روایت کے تمام راوی خود اہل حدیث حضرات کے اپنے  اصول سے ثقہ و صدوق ہیں جس کی وجہ سے اس کی سند حسن ہوگی۔ لہذا  اس روایت  سے کم سے کم تاریخ ابو نعیم والی روایت کا ضعف تو ختم ہوہی جاتا ہے ۔ [13]

متابع نمبر۲:

امام بیہقی ؒ (م۴۵۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

أخبرنا عبد الواحد، أنا أبو القاسم بن عمرو، ثنا أبو حصين، ثنا يحيى، ثنا أبو إسرائيل، عن فضيل بن عمرو، عن مجاهد، عن ابن عمر " أنه كان إذا مسح رأسه مسح قفاه مع رأسه ، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جب آپ اپنے سر کا مسح کرتے ، تو سر کے ساتھ اپنی گدی کا مسح فرماتے تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی : جلد ۱:صفحہ ۹۹، حدیث نمبر ۲۷۹)

سند کے رواۃ کی تحقیق درجِ ذیل ہے :

(۱) امام بیہقی ؒ مشہور محدث ،ثقہ، حافظ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام ،وغیرہ)

(۲)  عبد الواحد بن محمد ؒ صدوق راوی ہیں ۔ (السلسبیل النقی فی تراجم شیوخ البیہقی :صفحہ ۴۵۳)

(۳)  ابو القاسم محمد بن جعفر بن عمروؒ بھی مقبول راوی ہیں، ان سے امام ابو نعیم ؒ (م ۴۳۰؁ھ)امام ابو الشیخ ؒ (م۳۶۹؁) اور احمد بن علی ابو الحسین الکوفی ؒ (م ۴۳۴؁ھ) نے روایت کی ہے ۔ اور امام ابو نعیم ؒ نے آپ کی روایت کو صحیح کہا ہے ۔ (مستخرج علی صحیح مسلم :جلد ۱ :صفحہ ۱۹۹)اور محدثین کا کسی حدیث تصحیح وتحسین کرنا ، غیر مقلدین کے نزدیک اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔  (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام :ص۱۷، انوار البدر : ص ۲۷) لہذا معلوم ہوا کہ امام ابو نعیم ؒ کے نزدیک یہ راوی معتبر ہے ۔

(۴) ابو حسین سے مراد ابو حسین محمد بن الحسین الکوفی ؒ (م ۲۹۶؁ھ) ہیں ، جو کہ ثقہ ہیں ۔ (ارشاد القاصی والدانی إلیٰ تراجم شیوخ الطبرانی :صفحہ ۵۳۴)

(۵)  یحیٰ کا پورا نام یحیٰ بن عبد الحمید الحمانی ؒ (م۲۲۸؁ھ ) ہے، اور صحیح مسلم کے راوی ہونے کے ساتھ جمہور کے نزدیک ثقہ حافظ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۷۵۹۱،تہذیب التہذیب :جلد ۱۱:صفحہ ۲۴۷)[14]

(۶) ابو اسرائیل اسماعیل بن خلیفہ ؒ (م۱۶۹؁ھ)بھی راجح قول میں معتبر ہیں ۔

             ابو العباس الدوری ، الدارمی اور احمد بن ابی یحیٰ ؒ کہتے ہیں کہ امام یحیٰ بن معین ؒ (۲۳۳؁ھ)نے ابو اسرائیل کو ثقہ قرار دیا ہے ، اور ابن طہمان ؒ ، ابن محرزؒ ، ابو زرعہ دمشقی ؒ اور ابن الجنید ؒ کی روایت میں ابن معین ؒ فرماتے ہیں کہ آپ میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (موسوعۃ اقوال یحیٰ بن معین :جلد۱:صفحہ ۲۳۸)[15]،امام احمد بن حنبل ؒ  آپ سے روایت کرتے ہیں۔ (سؤالات ابی داؤد:رقم ۴۰۸)اور غیر مقلدین کے نزدیک امام احمد ؒ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ۔ (انوار البدر /۱۸۲) نیز کہتے ہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف نہیں ہیں ، اس نے (محض ) احادیث میں اختلاف کیا ہے ۔ (علل احمد بروایۃ عبد اللہ : رقم ۲۵۳۹)، اور کہتے ہیں کہ ان کی حدیث لکھی جائے ۔  امام ابن عدی ؒ (م ۳۶۵؁ھ)کہتے ہیں کہ عام طور سے جو ان سے روایت کیا گیا ہے وہ ثقات کے خلاف ہے اور وہ ان لوگوں میں ہیں جن کی حدیث لکھی جاتی ہے ۔ امام ابن سعد ؒ (م ۲۳۰؁ھ)کہتے ہیں کہ محدثین نے انہیں صدوق کہا ہے ۔  امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۵؁ھ)کہتے ہیں کہ وہ جھوٹے نہیں ہیں ، ان کی حدیث شیعوں کی نہیں ہے اور نہ ان کی حدیث میں کچھ نکارت ہے ۔ امام ابو زرعہ ؒ انہیں صدوق کہتے ۔ امام فلاس ؒ (م۲۴۳؁ھ)بھی کہتے ہیں کہ وہ جھوٹوں میں سے نہیں ہیں ۔ (اکمال تہذیب الکمال :جلد۲:صفحہ ۱۶۵، تہذیب الکمال :جلد ۳:صفحہ ۷۸)۔  امام ابو حاتم ؒ (م۲۷۷؁ھ) انہیں حسن الحدیث اور جید اللقاء کہتے ہیں ۔ [16]حافظ ہیثمی ؒ (م ۸۰۷؁ھ)نے بھی آپ کو حسن الحدیث کہا ہے ۔ (مجمع الزوائد:حدیث نمبر ۱۶۸۷۵)۔ امام یعقوب بن سفیان ؒ (م۲۷۷؁ھ) بھی آپ کو ثقہ کہتے ہیں ۔ امام حاکم ؒ(م ۴۰۵؁ھ) اور امام ابو عوانہؒ (م۳۱۶؁ھ) نے ان کی روایت کو صحیح کہا ہے۔ (اکمال تہذیب الکمال :جلد ۲:صفحہ ۱۶۵، المستدرک للحاکم :جلد۳:صفحہ ۱۱۲، حدیث نمبر ۴۵۵۹، صحیح ابی عوانہ :جلد ۲۰:صفحہ ۳۵۰، حدیث نمبر ۱۱۷۶۰)اور محدثین کا کسی حدیث کی تصحیح وتحسین کرنا ، غیر مقلدین کے نزدیک اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ، جیسا کے پہلے حوالے گزر چکے ، امام سفیان بن عیینہ ؒ (م۱۹۸؁ھ)نے بھی آپ کو ثقہ ، کوفی قرار دیا ہے ۔ (المعرفہ والتاریخ :جلد۳ :صفحہ ۲۴۱) امام ابن شاہین ؒ (م۳۸۵؁ھ) نے آپ کو کتاب الثقات میں شمار کیا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات :رقم ۲۴)

نوٹ: ان پر جرح ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ [17]

(۷)  فضیل بن عمرو الکوفی ؒ (م ۱۱۰؁ھ)صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب : رقم ۵۴۳۰)

(۸)  امام مجاہد ؒ (م۱۰۴؁ھ) مشہور مفسر اور ثقہ تابعین میں سے ہیں ۔ (تقریب : رقم ۶۴۸۱)

(۹)  عبد اللہ بن عمر ؓمشہور صحابی ہیں ۔ (تقریب )  لہذا یہ سند حسن درجہ کی ہے ۔

معلوم ہوا کہ تاریخ اصبہان والی روایت میں عمر و بن محمد بن الحسن منفرد نہیں ہیں ، بلکہ صحیح مسلم کے ثقہ راوی ، حافظ یحیٰ بن عبد الحمید الحمانی ؒ (م ۲۲۸؁ھ)ان کے متابع موجود ہیں ۔  لہذا عمرو بن محمود بن الحسن پر جرح بیکار ہے ۔

متابع نمبر ۳:

امام ابو عبید القاسم بن سلام ؒ (م۲۲۴؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

فإن علي بن ثابت , وعبد الرحمن حدثانا عن المسعودي، عن القاسم بن عبد الرحمن، عن موسى بن طلحة   قال: من مسح قفاه مع رأسه وقي الغل يوم القيامة۔ موسیٰ بن طلحہ ؓ (م۱۰۳؁ھ) کہتے ہیں کہ جس نے اپنے کے ساتھ اپنی گدی کا بھی مسح کیا، تو وہ قیامت کے دن (گردن میں ) طوق پڑنے سے محفوظ رہے گا۔ (کتاب الطہور :صفحہ ۳۷۴۔ ۳۷۵)،اس کی سند صحیح ہے ۔

سند کے رواۃ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیے :

(۱)  امام ابو عبید القاسم بن سلّام ؒ (م۲۲۴؁ھ) ثقہ راوی ہیں ۔(تقریب :رقم ۵۴۶۲)

(۲) علی بن ثابت الجزری ؒ ثقہ راوی ہیں ۔ (اکمال تہذیب الکمال :جلد ۹:صفحہ ۲۸۳)، پھر  ان کے متابع میں امام عبد الرحمن بن مہدی ؒ (م۱۹۸؁ھ)بھی موجود ہیں جو کہ سید الحفاظ ، ثقہ، مضبوط اور رجال اور حدیث کے جاننے والے ہیں ۔ (تقریب :رقم ۴۰۱۸)

(۳) المسعودی ؒ جن کا پورا نام عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عتبہ ؒ ہے، جمہور کے نزدیک ثقہ ، صدوق راوی ہیں [18]، مگر آخر میں ان کو اختلاط ہوگیا تھا۔(تقریب :رقم ۳۹۱۹، تہذیب التہذیب :جلد ۶:صفحہ ۲۱۰)لیکن ابن مہدی ؒ نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت لی ہے ۔  لہذا ان کا سماع صحیح ہے ۔[19]

(۴)  قاسم بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعودؓ (م ۱۲۰؁ھ) جو کہ حضرت ابن مسعود ؓ کے پوتے ہیں ، صحیح بخاری کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۵۴۶۹)

(۵)  موسیٰ بن طلحہ ؓ (م۱۰۳؁ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ جلیل ہیں ۔  (التقریب : رقم ۶۹۷۸)                                                                                                                     

نوٹ نمبر ۱:

             امام موسیٰ بن طلحہ ؓ (م۱۰۳؁ھ)کے بارے میں امام المحدثین ، الحافظ الکبیر ابو القاسم ابن العساکر ؒ (م۵۷۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’ ولد في العهد النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلم فسمّاہ ‘آپ ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے ، تو حضور ﷺ نے آپ کا نام رکھا ۔  

             معلوم ہوا کہ آپ صحابی ؓ ہیں ۔  یہی وجہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁ھ)کو تقریب میں کہنا پڑا کہ ’ يقال(ولد) فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم ‘کہا گیا ہے کہ آپ حضور ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوگئے تھے ۔ (تقریب :رقم ۶۹۷۸)

             نیز آپ کو ’الاصابۃ ‘ میں شمار کیا ہے ۔ (جلد ۶:صفحہ ۲۱۰، تاریخ دمشق لابن عساکر :جلد ۶۰:صفحہ ۴۲۲)

            یہ روایت بھی تاریخ ابی نعیم کی روایت کی تائید کر رہی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو نعیم کی روایت بھی مقبول ہے ۔

نوٹ نمبر ۲:

                 یہ روایت حکماً مرفوع ہے ، کیونکہ صحابی اپنی رائے سے یہ بات نہیں بتاسکتے ۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب :

                 تاریخ ابی نعیم اور ابن فارس کی روایت پر ابو صہیب داؤد ارشد صاحب ، انوار خورشید صاحب کو جواب دیتے ہیں کہ آپ نے ’عنق‘ کا معنی گردن کرکے اس سے مراد گدی لیاہے ، جو روایت کے الفاظ میں تحریف ِ معنوی ہے ۔ (حدیث اور اہل تقلید :جلد۱ :صفحہ ۲۳۸)

الجواب :

                خود داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایک روایت دوسری روایت کی تفسیر کرتی ہے ۔ (دین الحق :جلد ۱:صفحہ ۶۶۹)، زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ حدیث خود حدیث کی تشریح کرتی ہے ۔ (نور العینین :صفحہ ۱۲۵)

               اہل حدیث حضرات کے اسی اصول کی روشنی میں تاریخ ِ ابی نعیم اور ابن فارس کی روایت میں موجود لفظ ’عنق‘ کی یہ تفسیر  موسیٰ بن طلحہ ؓ کی روایت میں موجود لفظ ’قفا‘ کر رہا ہے کہ ’عنق‘ سے ’قفا‘ مرادہے۔

               یہی وجہ ہے کہ خود اہل حدیث عالم عبد الوارث ضیاء الرحمن اثری صاحب نے ’عنق‘ کا ترجمہ گدی کیا ہے ۔ (گردن کا مسح :صفحہ ۲۰)[20]  

             لہذا یہ داؤد صاحب کا اعتراض خود ان کے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔

اسکین : گردن کا مسح

آخری دلیل :

الامام الحافظ ابو احمد ابن عدی ؒ (م۳۵۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ أَحْمَدَ بْنِ فَرُّوخٍ، حَدَّثَنا أبُو زُرْعَةَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الحسن بْنِ مُخْتَارٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ خَالِدٍ عَن ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عنِ الزُّهْريّ، عَن أَبِي سَلَمَةَ، عَن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ، فَوَضَّأَنِي جِبْرِيلُ فَرْضَ الْوُضُوءِ، وَسَنَنْتُ أَنَا فِيهِ الاسْتِنْجَاءَ وَالْمَضْمَضَةَ وَالاسْتِنْشَاقَ وَغَسْلُ الأُذُنَيْنِ وَتَخْلِيلُ اللِّحْيَةِ وَمَسْحُ الْقَفَا، وَهو أَسْبَغُ الْوُضُوءِ.

                حضرت ابو ہریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ : مجھے وضو کا حکم دیا گیا ، تو مجھے جبریل نے فرض وضو کرایا ، اور میں اس میں(چند چیزیں ) سنت قرار دیتا ہوں :استنجاء کرنا ، کلّی کرنا ، ناک صاف کرنا،  دونوں کان دھونا ، ڈاڑھی کا خلال کرنا، اور گدی پر مسح کرنا، یہ مکمل وضو ہے ۔(الکامل لابن عدی :جلد ۱:صفحہ ۳۶۱۔ ۳۶۲، و اسنادہ حسن)[21]

نیز ، اب گردن کے مسح کے سلسلہ میں فقہاء اور محدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے :

(۱) امام عبد اللہ بن احمد ؒ (م ۲۹۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’ رأيته إِذا مسح بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ مسح قَفاه ‘میں نے امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱؁ھ)کو دکھا کہ جب آپ ؒ نے سر اور اپنے دونوں کانوں کا مسح فرماتے ، تو اس کے ساتھ اپنی گدّی کا بھی مسح کرتے ۔ (مسائل احمد بروایۃ عبد اللہ : رقم ۹۰)

معلوم ہوا کہ امام احمد ؒ کے نزدیک گدی پر مسح کرنا صحیح ہے ۔

(۲)  امام عبد الکریم الرافعی ؒ (م ۶۲۳؁ھ) نے گردن پر مسح کرنے کی روایت کو صحیح کہا ہے اور گردن مسح کو سنت قرار دیا ہے ۔  (الشرح الصغیر للرافعی بحوالہ بھجۃ المحافل : جلد۲: صفحہ ۲۹۸، الشرح الکبیر للرافعی : جلد ۱: صفحہ ۴۳۴)

(۳)  الامام الجلیل احمد بن محمد المحاملی ؒ (م۴۱۵؁ھ) نے گردن پر مسح کو سنت کہا ہے ۔ (اللباب للمحاملی :صفحہ ۶۰)

(۴) امام حسان بن محمد  ابن العاصؒ (م ۳۴۹؁ھ) نے بھی گردن کے مسح کو سنت قرار دیا ہے ۔ (الحاوی الکبیر : جلد ۱:صفحہ ۱۳۳)

(۵)  فقیہ ابو الحسین یحیٰ بن ابی الخیر العمرانی ؒ (م ۵۵۸؁ھ) نے گردن کے مسح کو مسنون کہا ہے ۔ (البیان للعمرانی : جلد۱: صفحہ ۱۴۲)

(۶)  الامام الکبیر احمد بن ابی احمد الطبری ابو العباس ابن القاص ؒ (م ۳۳۵؁) نے گردن پر مسح کرنے کو سنت کہا ہے ، اور علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق

(۷)  امام ابو اسحٰق الشیرازی ؒ (م ۴۷۶؁ھ) نے سکوت کے ذریعہ امام احمد الطبری ؒ کی تائید کی ہے ۔ (کتاب المفتاح لابن القاص ، بحوالہ المجموع :جلد۱:صفحہ ۴۶۳، المہذب :جلد۱:صفحہ ۴۴،انوار الطریق: ص ۸)

(۸)  الامام القاضی حسین بن محمد ؒ (م ۴۶۲؁ھ ) کہتے ہیں کہ أما مسح العنق لم ترد فيه سنةجہاں تک گردن پر مسح کی بات ، تو اس کے سنت ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے ۔ (التعلیقۃ للقاضی حسین علی مختصر المزنی : جلد۱:صفحہ ۲۷۸)

(۹)  الامام الفقیہ ابو سعد المتولی النیسابوری ؒ (م۴۷۸؁ھ) کہتے ہیں ’ مُسْتَحَبٌّ لَا سُنَّة ‘گردن پر مسح کرنا مستحب ہے ، سنت نہیں ۔ (المجموع : جلد۱:صفحہ ۴۶۳)

(۱۰)  مشہور حافظ الحدیث ، امام  ابو محمد البغوی ؒ (م ۵۱۶؁ھ) بھی گردن کے مسح کو مستحب کہتے ہیں ۔ (التہذیب للبغوی :جلد ۱:صفحہ ۲۵۶)

(۱۱)    امام ابو حامد محمد الغزالیؒ (م ۵۰۵ ؁ھ) گردن پر مسح کرنے کو سنت کہتے ہیں ۔ (الوسیط الغزالی :جلد ۱:صفحہ ۲۸۸)

(۱۲)  امام عبد اللہ بن یوسف ابو محمد الحوینی ؒ (م۴۳۸؁ھ) بھی گردن کے مسح کو سنت ادب کہتے ہیں ۔

(۱۳)  امام الحرمین ؒ(م۴۷۸؁ھ) کو بھی اس کے سنت ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے ۔ (نہایۃ المطلب :جلد۱ :صفحہ ۸۳، ۱۱، المجموع :جلد۱ :صفحہ ۴۶۴)

(۱۴)  الامام الحافظ عبد الرحمٰن بن محمد الفورانی ؒ (م ۴۶۱؁ھ) بھی مستحب کہتے ہیں ۔ (المجموع :جلد۱:صفحہ ۴۶۴)

(۱۵)  امام ابو المحاسن الرویانی ؒ (م ۵۰۲؁ھ ) کہتے ہیں کہ ’ وقال أصحابنا بخراسان: هو سنة ‘ہمارے خراسان کے اصحاب نے کہا کہ گردن کا مسح سنت ہے ۔ (بحر المذہب :جلد ۱:صفحہ ۱۰۱)

(۱۶)امام ابو البرکات عبد السلام ابن تیمیہ ؒ (م ۶۵۲؁ھ) نے اپنی کتاب المنتقیٰ میں باب باندھا ہے کہ باب مسح العنق۔(المنتقیٰ :صفحہ ۷۶)  معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی گردن کا مسح کرنا چاہیے ۔

(۱۷)  الامام الحافظ ابو بکر السیوطی ؒ(م ۹۱۱ ؁ھ) کے نزدیک بھی گردن کا مسح مستحب ہے ۔ (الاشباہ والنظائر :صفحہ ۱۱۹)

(۱۸) الامام الزاہد الشیخ عبد القادر الجیلانی ؒ (م۵۶۱؁ھ) گردن کے مسح کو سنت قرار دیتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین :صفحہ ۵۸، ترجمہ غیر مقلد مبشرحسین لاہوری )

(۱۹)  اسی طرح حافظ ابن الجوزی ؒ (م ۵۹۷؁ھ) نے اپنی کتاب ’اسباب الہدایۃ ‘میں ۔

(۲۰)  امام یحیٰ بن منصور ابن الصیرفی ؒ (م۶۷۸؁ھ ) ۔

(۲۱)  امام ابو البقاء عبد اللہ بن حسین ؒ (م ۶۲۶؁ھ) اور

(۲۲)  امام عبد الرحمن ابن رزین ؒ(م ۶۵۶؁ھ) نے اپنی کتاب ’شرح مختصر الخرقی ‘ میں گردن کے مسح کو مستحب قرار دیا ہے ۔

بلکہ اپنی کتاب ’ الخلاصہ ‘ میں کہتے ہیں کہ ’ مَسْحُ العُنُقِ  مُسْتَحَبٌّ على الأصَحِّ ‘گردن کا مسح سب سے صحیح قول میں مستحب ہے ۔ (الانصاف بتحقیق عبد اللہ الترکی :جلد۱صفحہ ۲۹۱)

(۲۳)  نیز ، امام علی بن عقیل البغدادی ؒ (م ۵۱۳؁ھ ) نے اپنی ’التذکرۃ ‘ میں :

(۲۴)  فقیہ حسن بن احمد ابن البناء البغدادی ؒ (م ۴۷۱؁ھ )  نے ’العُقَد‘میں :

(۲۵) امام ابو عبد اللہ بن حمدون ؒ (م ۶۹۵؁) نے ’الافاضات‘ میں اور :

(۲۶) الحافظ الناظم ابن ناصر الدین ؒ (م ۸۴۸؁ھ) وغیرہ حضرات گردن کے مسح کو مستحب وپسندیدہ مانتے ہیں ۔ (الانصاف  بتحقیق عبد اللہ الترکی : جلد ۱:صفحہ ۲۹۱)

        الغرض یہ تمام کے تمام فقہاء اور محدثین غیر حنفی ہیں [22] اور ان سب کے نزدیک گردن کا مسح سنت ومستحب ہے ۔ [23] لہذا بعض علماء اور غیر مقلدین کا اسے بدعت اور حرام کہنا باطل اور مردود ہے ۔  اور دلائل کی روشنی میں ، تحقیق اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گردن کے مسح کی روایتیں حسن درجہ کی ہیں اور راجح یہی ہے  کہ گردن کا مسح مستحب ہے ۔ واللہ اعلم



[1] امام ابو داؤد ؒ کی توثیق گزرچکی ، دوسری راوی محمد عیسیٰ سے مراد محمد بن عیسیٰ بن البغدادی ؒ(م۲۲۴؁ھ) ہیں ، جو کہ ثقہ ، حافظ اور فقیہ ہیں ۔ (تقریب :رقم ۶۲۱۰، الکاشف)ان کے متابع میں امام مسدد ؒ (م۲۲۸؁ھ) بھی ثقہ ، حافظ ہیں ۔ (تقریب :رقم ۶۵۹۸)،تیسرے راوی     عبد الوارث بن سعید ؒ (م۱۸۰؁ھ) جو کہ صحیحین کے راوی ہیں، اور ثقہ ، مضبوط ہیں ۔ (تقریب: رقم ۴۲۵۱) باقی راویوں کی توثیق گزر چکی ۔ دیکھئے ص: ۷۰

               واضح رہے کہ لیث بن ابی سلیم ؒ (م۱۴۸؁ھ) کے بارے میں غیر مقلدین کا قولِ فیصل گزر چکا کہ ان کی روایت شواہد اور متابعات کی صورت میں مقبول ہوگی اور جرح مردود ہوگی ۔(ص: ۷۱)  اور یہاں اس روایت میں بھی ان کے شواہد اور متابعات موجود ہیں، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ پھر انہوں نے سماع کی صراحت بھی کردی ہے ، جیسا کہ معجم الکبیر للطبرانی میں موجود ہے ۔چناچہ امام طبرانی ؒ (م۳۶۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا شيبان بن فروخ، ثنا أبو سلمة الكندي، ثنا ليث بن أبي سليم، حدثني طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده،: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فمضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا، يأخذ لكل واحدة ماء جديدا، وغسل وجهه ثلاثا، فلما مسح رأسه قال: «هكذا» ، وأومأ بيده من مقدم رأسه حتى بلغ بهما إلى أسفل عنقه من قبل قفاه۔

اس روایت کے رواۃ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ :

(۱) امام طبرانی ؒ(م۳۶۰؁ھ)مشہور ثقہ، حافظ ہیں۔

(۲) ان کے استاد حافظ حسین بن اسحاق التستری ؒ (م۲۹۰؁ھ) بھی ثقہ حافظ ہیں۔ (إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني:صفحہ ۲۸۰، ۲۸۱)،

(۳) شیبان بن فروخؒ(م۲۳۶؁ھ)صحیح مسلم کے راوی اور صدوق ہیں۔ (سیر اعلام :جلد ۱۱:صفحہ ۱۰۱)،

(۴) البتہ ابو سلمہ الکندی ؒ پر کلام ہے ۔مگر ارشاد الحق اثری صاحب ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ (اس روایت میں ) مبارکپوری صاحب ابواسحاق کو مختلط کہتے ہیں ، لیکن طحاوی میں ابو اسحاق کا متابع موجود ہے ، لہذا ابو اسحاق پر اعتراض فضول ہے ۔ (توضیح الکلام :صفحہ ۵۱۴-۵۱۵، طبع قدیم ) ،الغرض جب اہل حدیث حضرات کے نزدیک ابو اسحاق ؒ کا متابع ملنے کی وجہ سے ان پر اختلاط کا الزام باطل ہے ، تو یہاں پر بھی ابو سلمہؒ کا متابع امام بیہقی ؒ (م۴۵۸؁ھ) کی ایک روایت میں موجود ہیں اور اس میں بھی لیث بن ابی سلیم ؒ نے سماع کی تصریح کی ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی : جلد۱:صفحہ۹۹، حدیث نمبر۲۷۷، ورجالہ کلہم ثقات)۔  لہذا اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں یہاں پر بھی ابو سلمہ الکندی ؒ پر جرح فضول اور بے کار ہے اور باقی راویوں کی تحقیق پہلے گذر چکی۔  الغرض ثابت ہوا کہ لیث بن ابی سلیم ؒ نے یہ روایت طلحہ بن مصرفؒ سے سنی ہے ۔

 

 

[2] امام ابو بشر الدولابی ؒ (م۳۱۰؁ھ)جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ، حافظ ہیں۔ (دوماہی الاجماع مجلہ:شمارہ نمبر۲، صفحہ ۳، ۴)،ان کے استاد ابراہیم بن یعقوب ابو اسحاق الجوزجانی ؒ (م۲۵۹؁ھ)ہیں ، جو کہ ثقہ ، حافظ ہیں۔ (تقریب:رقم ۲۷۳)، ان کے استاد سعید بن سلیمان ابو عثمان الواسطیؒ (م۲۲۵؁ھ) جو صحیحین کے راوی اور ثقہ ،حافظ ہیں۔ (تقریب :رقم۲۳۲۹)اسماعیل بن زکریا ؒ (م۱۹۴؁ھ) بھی صحیحین کے معتبر راوی ہیں۔(اکمال تہذیب الکمال : جلد۲:صفحہ ۱۷۱)، اسی طرح حافظ حفص بن غیاث ؒ (م۱۹۵؁ھ)بھی ثقہ راوی ہیں ۔ (تقریب :رقم ۱۴۳۰) باقی رواۃ کی تحقیق گزر چکی ۔

[3] اس کے سارے رجال ثقہ ہیں، جس کی تفصیل آگے ص :۹۶ پر موجود ہے ۔

[4] یہاں نہایت ادب کے ساتھ عرض کرنا یہ ہے کہ حضرت مفتی شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتہم اپنے رسالہ عرف الزھرۃ  فی مسح الرقبۃ‘  میں تحریر فرماتے ہیں (جس کا خلاصہ یہ ہے ) کہ طلحہ بن مصرف کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ سر کا مسح کرتے ہوئے ہی گردن کا مسح فرمالیا تھا اور گردن کا الگ سے مسح کرنا ،  ہماری کوتاہ نظر سے نہیں گزرا۔ (صفحہ : ۶۳) لیکن چونکہ الحدیث یفسر بعضہ بعضاکا اصول مشہور ہے، اور پھر یہ الکنیٰ والاسماء للدولابی اور بیھقی کی روایت صاف طور سے دلالت کر رہی ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے سر کا مسح فرمایا ، پھر کانوں کا اور پھر گردن کا، لہذا صحیح بات یہ ہے کہ طلحہ بن مصرف کی تمام روایات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے سر کا مسح کرنے کے بعد الگ سے گردن کا مسح فرمایا تھا۔ واللہ اعلم

[5] اس حدیث کی اگر چہ سند نہیں ملی ، مگر قیاس اس کی تائید کرتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:

معجم الکبیر للطبرانی سے ثابت ہوتا ہے کہ وضو میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کیلئے الگ الگ لینا چاہیے ، اس سے قیاساً یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وضو میں ہر عمل کیلئے (یعنی کلی کرنے، ناک میں پانی ڈالنے ، چہرہ ، ہاتھ ، پیر دھونے اور مسح کرنے کیلئے بھی ) نیا پانی لینا چاہیے۔

جب ہر عمل کیلئے نیا پانی لینا ہے ، تو مسح کیلئے نیا پانی لینا ہوگا۔

اور مسح ۳ چیزوں کا کرنا ہے۔

۱۔ سر کا مسح ۔

۲۔ کانوں کا مسح ۔

۳۔ گردن کا مسح ۔

ایک علمی اشکال اور اس کا جواب :

بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ سر، کان اور گردن کے لئے بھی نیا پانی لینا چاہیے، کیونکہ قیاس یہی تقاضہ کرتا ہے کہ جب ہر عمل کیلئے نیا پانی لینا ہے، تو پھر مسح کے ان اعمال کے لئے نیا پانی لینا ہوگا۔

مگر اس کا جواب عرض ہے کہ حدیث پاک میں جہاں سر کے ساتھ کان پر مسح کا ذکر ہے، وہیں پر کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارناؤوط:حدیث نمبر ۱۰۸۷،اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور حاشیہ میں شیخ شعیب الارناؤط اس کی سند کو حسن کہتے ہیں )،  تو معلوم ہوا کہ ایک ہی بار میں پانی سے پورے سر اور کان پر مسح کرنا ہے، لہذا کان کے مسح پر قیاس کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ گردن کے لئے بھی الگ سے پانی لینے کی حاجت نہیں ہے، یعنی ایک ہی بار کے پانی میں پورے سر ، کان اور گردن کا مسح کرنا ہے ۔ اور بھیگے ہوئے ہاتھوں کو   بدن کے کسی حصہ پر لگانے کا نام مسح ہے’’إصابة اليد المبتلة العضو‘‘۔ لہذا مسح کی تعریف یہ تقاضہ کر رہی ہے کہ دونوں ہاتھوں کے وہ حصے جو پانی سے تر ہیں ، جب وہ تر حصے سر، کان اور گردن پر پھیرے جائیں گے (عام حالات میں ) تب ہی وہ مسح کہلائے گا۔

تو احناف نے یہ تطبیق بیان فرمائی کہ آدمی ایک بار اپنے دونوں ہاتھوں کو بھیگولے ، پھر انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں کو الگ کرکے باقی تین انگلیوں اور ہتھیلی سے سر کا مسح کرلے ، اور انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے کانوں کا مسح کرلے اور پھر الٹے ہاتھوں سے گردن کا مسح کرلے۔

اس سے ایک بار کے پانی سے ہی پورے سر ، کان اور گردن کا مسح ہو جائے گااور دونوں ہاتھوں لگا ہوا پانی بھی پوری طرح استعمال ہوجائے گا۔  معلوم ہوا کہ یہ گردن پر مسح کا طریقہ بھی احادیث سے اخذ کیا ہوا ہے، لہذا صاحب عون المعبود کا اعتراض مردود ہے۔

نیز گردن پر الٹے ہاتھ سے مسح کے سلسلہ میں فقہاء کی عبارتیں ملاحظہ فرمائیے:

         ویمسح رقبتہ بظاہر الیدین حتی یصیر ماسحا ً ببلل لم یصر مستعملا ہکذا روت عائشۃ مسح رسول اللہ ﷺ۔ (العنایۃ شرح الہدایہ مع فتح القدیر ج:۱ص: ۲۹،کتاب الطہارۃ مسئلۃ وتفسیر النیۃ فی الوضوء )

         وزاد فی النہایۃ ویمسح رقبتہ بظاہر الیدین حتی یصیر ماسحا ببلل لم یصر مستعملا ۔ (الکفایۃ ج:۱ص:۳۰شرح الہدایہ مع فتح القدیر ج: ۱ص:۲۹ ،کتاب الطہارۃ )

         ویمسحہما بماء جدید وفی النہایۃ یمسحہما بظاہر الکفین۔ (الجوہرۃ النیرۃ ج:۱ص:۶ سنن الطہارۃ ،مسح الرقبۃ )

         ویمسح رقبتہ بظہر الیدین ۔ (الجوہرۃ النیرۃ ج:۱ص:۷ ،سنن الطہارۃ )

         ویمسح رقبتہ بظاہر الیدین حتی یصیر ماسحا ببلل لم یصر مستعملا ہکذا روت عائشۃ رضی اللہ عنہا مسحہ علیہ السلام اہ ونقل عن الحواشی السعدیۃ ان قولہ لم یصر مستعملا یعنی حقیقۃ وان لم یصر مستعملا حکما فی عضو واحد ۔ (منحۃ الخالق ج:۱ص: ۲۶)

         (وقولہ ومسح رقبتہ )یعنی بظہر الیدین لعدم استعمال بلتہما واستدل فی فتح القدیر علی استحباب مسح الرقبۃ انہ علیہ السلام مسح ظاہر رقبتہ مع مسح الرأس ۔ (البحر الرائق ج:۱ص: ۲۸ ،سنن الوضوء ،ومسح الرقبۃ )

         (قولہ فی المتن ومسح رقبتہ )أی بظہر الیدین لعدم استعمال بلتہما ۔(تبیین الحقائق ج:۱ص: ۶،مستحبات الوضوء)

         ومسح الرقبۃ مستحب بظہرالیدین لعدم استعمال بلتہما ۔(فتح القدیر ج:۱ص:۳۲،کتاب الطہارات ،ترک الاسراف والتقتیر وغیرہ )

         ویمسح رقبتہ بظہر الیدین حتی یصیر مسحہما ببلل لم یستعمل لان البلۃ لم تستعمل مادامت علی ا لعضو واذا انفصلت تصیر مستعملۃ بلا خلاف کما عرفت آنفا وبذلک ظہر ضعف ما قیل وکیفیتۃ ان یضع کفیہ واصابعہ علی مقدم الرأس ویمدہما الی قفاہ علی وجہ یستوعب جمیع الرأس ویمسح اذنیہ باصبعیہ ولا یکون الما ء مستعملا تدبر۔ (مجمع الانہر ج:ص:۲۸،کتاب الطہار ۃ سنن الوضوء )

         قال فی الدر :(ومسح الرقبۃ )بظہر یدیہ ،قال الشامی :(قولہ ومسح الرقبۃ )ہو الصحیح وقیل انہ سنۃ کما فی البحر وغیرہ (قولہ بظہر یدیہ )ای لعدم استعمال بلتہما ۔بحر ،فقول المنیۃ بماء جدید لا حاجۃ الیہ کما فی شرحہا الکبیر ،وعبر فی المنیۃ بظہر الاصابع ولعلہ المراد ہنا ۔ (شامی ج:۱ص: ۱۲۴،سنن الوضوء مسح الرقبۃ )

         (ویمسح الرقبۃ بظہور الاصابع الثلاث )المتقدم ذکرہا لبقاء البلۃ علی ظہورہا غیر مستعملۃ وحینئذ فلا احتیاج الی قولہ (بماء جدید ) ۔ (حلبی کبیر ص: ۲۵)

         والثانی مسح الرقبۃ وہو بظہر الیدین اہ کذا فی البحر الرائق ۔ (عالمگیری ج:۱ص: ۸)

         ویمسح رقبتہ بظاہر الیدین ۔ (المعتصر الضروری ص: ۳۴)

         (ومسح رقبتہ )بظاہر یدیہ۔ (النہر الفائق شرح کنز الدقائق ج:۱ص:۴۹)

         (ومسح الرقبۃ) بظہر یدیہ ۔۔۔۔در مختار (قولہ بظہریدیہ )لعدم استعمال بلتہما ودلیلہ ما روی انہ علیہ السلا م مسح ظاہر رقبتہ مع مسح الرأس ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ تحت لفظ رقبۃ )

         الحنفیۃ قالو ا: مندوبات الوضوء وان شئت قلت فضائلہ اومستحباتہ او نوافلہ او آدابہ ۔۔۔۔(الی قولہ)ومسح الرقبۃ بظہر یدہ لعدم استعمال الماء الموجود بہا ۔(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ لعبدالرحمن الجزیری ج:۱ص: ۷۴،۷۵،ملخصاً)

         عبر الحنفیۃ عن ذلک بالآداب جمع ادب ہو ما فعلہ النبی ﷺ مرۃ او مرتین ولم یواظب علیہ وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ وآداب الوضوء عندہم اربعۃ عشر شیئا۔۔۔۔۔(الی قولہ )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسح الرقبۃ بظہر یدیہ لا الحلقوم عند الحنفیۃ ۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ ج:۱ص:۴۰۳-۴۰۵ :ملخصاً)

[6] رواۃ  کی تفصیل یہ ہے:

(۱) امام ابو طاھر سِلَفی ؒ (م۵۷۱؁ھ )مشہور ثقہ حافظ ہیں ، (لسان المیزان :جلد ۱:صفحہ ۶۵۷)،

(۲)ابو الحسین مبارک بن عبد الجبار ؒ (م۵۰۰؁ھ) بھی صدوق ، ثقہ حافظ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام للذہبی :جلد ۱۰:صفحہ ۸۳۰)،

(۳)احمد  سے مراد احمد بن محمد ابو الحسن العتیقی ؓ (م۴۴۱؁ھ)ہیں ، جو کہ ثقہ ، محدث ہیں۔ (سیر : جلد ۱۷:صفحہ ۶۰۲)،

(۴)امام ابو القاسم عبد العزیز بن عبد اللہ الدارقی ؒ (م۳۷۵؁ھ)ہیں ، جو کہ ثقہ ہیں ، (تاریخ الاسلام :جلد ۸:صفحہ ۴۱۵)

(۵)حسن بن محمد ابو علی الدارقیؒ (م۳۱۷؁ھ) ہیں اور یہ بھی ثقہ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام :جلد ۷:صفحہ ۳۲۱)

(۶)  سعید بن عنبسہؒ ہیں ، جن پر کلام ہے، لیکن غیر مقلدین کے اصول کی روشنی ان پر کلام مردود ہے ، کیونکہ زبیر علی زئی صاحب ایک راوی محمد بن حمید الرازی جن کو وہ خود کذاب قرار دیتے ہیں ، ایک روایت میں ان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس حدیث کو یعقوب بن عبد اللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہےپھر ان راویوں کا نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ سارے راوی ثقہ وصدوق ہیں، لہذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط ومردود ہے ۔ (تعداد رکعات قیام رمضان ،صفحہ :۱۹)

لہذا جب غیر مقلدین کے نزدیک محمد بن حمید ؒ پر کذاب کی جرح اس لئے مردود ہے ، کیونکہ ثقات نے ان کی تائید کی ہے ، تو پھر اہل حدیث حضرات کے اسی اصول کے مطابق اس روایت میں بھی سعید بن عنبسہ پر کلام مردود ہے ، کیونکہ لیث بن ابی سلیم ؒ کی روایت میں کئی ثقہ رواۃ [مثلا حافظ مسددؒ (م۲۲۸؁ھ)،محمد بن عیسی البغدادیؒ (م۲۲۴؁ھ)، عبد الصمد بن عبد الوارثؒ(م۲۰۷؁ھ)، شیبان بن فروخؒ(م۲۳۶؁ھ)،سعید بن سلیمان الواسطیؒ(م۲۲۵؁ھ)،امام،حافظ یحیی بن عبد الحمید الحمانیؒ (م۲۲۸؁ھ) وغیرہ حفّاظ] سعید کی تائید کرتے ہیں۔(ص۷۸-۸۲ ) تو خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں ثابت ہوا کہ یہ راوی اس روایت میں مقبول ہے اور اس پر کلام مردود ہے ۔

(۷) شعیب بن حرب ؒ (م۱۹۷؁ھ)ہیں ، جو کہ صحیح بخاری کے راوی ہیں اور ثقہ عابد ہیں ۔ (تقریب :رقم ۲۷۹۷)

(۸)  مالک بن مغول ؒ (م۱۵۹؁ھ) صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ومضبوط ہیں۔ (تقریب : رقم ۶۴۵۱) ، باقی رواۃ کی تفصیل پہلے گزر چکی ۔  معلوم ہوا کہ یہ سند شواہد کی وجہ سے حسن درجہ کی ہے ۔

[7]حدیث اور اہل تقلید :جلد ۱ :صفحہ ۲۴۱، گردن کا مسح : صفحہ ۹۔

[8]اعتراض: ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے محمد بن احمد بن محمد سے مراد محمد بن احمد بن محمد ابوبکر المفید بتایا ہے، کہا کہ یہ راوی متہم ہے۔ (حدیث اور اہل تقلید :جلد ۱: صفحہ ۲۳۹)، عبد الوارث غیر مقلد نے بھی یہی کہا ہے ۔ (گردن کا مسح :صفحہ ۲۲)

الجواب :تاریخ ابو نعیم کی روایت بھی امام ابو نعیم ؒ نے ابوبکر المفید کے حوالہ سے ذکر نہیں کی، اور یہاں اس روایت میں محمد بن احمد بن محمد سے مراد ابو بکر الاصبہانی المعدل ؒ (م۳۸۴؁ھ)ہیں ، چنانچہ تاریخ ابی نعیم :جلد ۲صفحہ ۱۷۲ پر ، امام ابو نعیم ؒ نے صراحت کے ساتھ پورا نام  محمد بن احمد بن محمد بن جشنش لکھا ہے، معلوم ہوا کہ یہاں پر ابو بکر مفید مراد نہیں ہے۔

لہذا ابو صہیب صاحب کا تعین صحیح نہیں ہے۔

نوٹ: البانی ؒ نے پہلے محمد بن احمد بن محمد سے مراد ابوبکر المفید لیا تھا ، پھر اس سے رجوع کرتے ہوئے انہوں نے ابو بکر المعدل مراد لیا ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :جلد ۲:صفحہ ۱۶۷) ،مگرموصوف ابو صہیب صاحب اور عبد الوارث اثری نے علامہ البانی کے حوالہ سے ، اس روایت کا موضوع اور ضعیف ہونا نقل تو کیا ہے (جس کی حقیقت آگے آرہی ہے) ، لیکن اسی صفحہ پر شیخ البانی کے رجوع کو نظر انداز کر کے ، محمد بن احمد سے مراد ابو بکر المفید ہی لیا ہے ، تاکہ وہ اس روایت کو ضعیف ثابت کرسکیں ۔  

[9] مفتی شعیب اللہ خان  صاحب نے  اپنے مضمون ’عرف الزھرۃ  فی مسح الرقبۃ ‘میں عبد الرحمن بن داؤد کے تعین میں خطا کی ہے ۔ (صفحہ : ۵۹) چنانچہ انہوں نے عبد الرحمٰن بن داؤد الواعظ ؒ مراد لیا ہے، جن کی وفات (۶۰۸؁ھ) کے بعد ہوئی ہے ، جو کہ صحیح نہیں ہے، بلکہ صحیح عبد الرحمن بن داؤد الفارسی ؒ ہے۔

[10] آٹھ رکعت تراویح کی روایت میں ایک راوی محمد بن حمید الرازی ہیں جس کو کفایت اللہ سنابلی صاحب کذاب کہتے ہیں۔(مسنون رکعات تراویح صفحہ ؛۴۹)  لیکن اس راوی کی روایت پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ  اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے پھر ان راویوں کا نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں ،لہذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط ومردود ہے۔ (تعداد رکعات قیام رمضان صفحہ : ۱۹)

 اسکین  :

                  الغرض جب محمد بن حمید الرازی  اہل حدیثوں کے نزدیک کذاب ہونے کے باوجود صرف متابعت کی وجہ سے ان کی روایت صحیح ہو سکتی ہے ،تو پھر اہل حدیث حضرات کے اسی اصو ل کی روشنی میں عمرو بن محمد بن الحسن ؒ کی بھی روایت کی متابعات ہونے کی وجہ سے کم سے کم حسن تو ضرور ہوگی۔ اس لحاظ سے  بھی کفایت صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے ۔

 پھرکفایت صاحب بھی لکھتے ہیں کہ جب مطلقا کسی کے کذاب ہونے بات کہی جائے  تو حقیقی معنی ہی مراد ہونگے مگر یہ کہ کوئی قرینہ مل جائے ۔(مسنون رکعات تراویح صفحہ ۴۵)

ہم کہتے ہیں کہ اس روایت میں عمرو بن محمد بن الحسن ؒ کو کذاب نہ کہنے کا قرینہ یہ ہے کہ ان کی  گردن کے مسح کی روایت کے کئی صحیح  و حسن متابعات موجود ہیں ۔ لہذا ان کے اپنے اصول کی روشنی میں ہی عمرو بن محمد بن الحسن  پر اعتراض باطل و مردود ثابت ہوا ۔

البانی صاحب کا الزامی طور پر ایک حوالہ :

علامہ البانی ؒ  نے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہؒ جن کو کفایت صاحب کذاب کہتے ہیں (مسنون رکعات تراویح صفحہ ؛۴۳) اس ابراہیم بن عثمان ؒ کی ایک روایت کو البانی ؒحسن نہیں صحیح کہہ رہے ہیں  ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر :۱۴۹۵)

اسکین  ملاحظہ فرمائے :

                  اہل حدیث حضرات  !کیا وجہ ہے کہ آپ کے محدث البانی صاحب نے کفایت صاحب کے بہ قول ایک کذاب کی روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں ۔

 پس جو جواب آپ اس روایت کا دیں گے وہی ہماری طرف سے عمرو بن محمد بن الحسن ؒ کے بارے میں ہو گا ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمرو بن محمد بن الحسن پر کذاب کا الزام اس گردن پر مسح والی روایت میں مردود ہے ۔اور ان کی یہ روایت متابعات و شواہد کی وجہ سے حسن درجہ کی ہے۔ واللہ اعلم

[11] مفتی شعیب صاحب دامت براکاتہم نے علامہ شوکانی ؒ کے حوالہ سے محمد بن عمرو الانصاری کو ُ واہ ‘قرار دیا ہے ، جو کہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁ھ)نے تقریب میں ان کو صرف ضعیف لکھا ہے ۔ (رقم ۶۱۹۲)پھر ان کے متابع میں فلیح بن سلیمان[ثقہ]  کی معلق روایت بھی موجود ہے ۔  لہذا ان پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے ۔

نیز، عبد الرحمن بن داؤد اور محمد بن عمروؒ کی وجہ سے مفتی صاحب نے اس روایت کو موضوع کہا ہے، لیکن تحقیق کی روشنی میں یہ بات صحیح نہیں ہے، جس کی تفصیل آپ دیکھ چکے ہیں ، پھر ابن عمر ؓ سے حسن سند کے ساتھ موقوفاً، اور (م۱۰۳؁ھ)میں وفات پانے والے راوی جن کے صحابی ہونے کا امکان ہے، ان سے بھی یہی حدیث صحیح سند کے ساتھ مروی ہے، جن کی تفصیل آرہی ہے۔  لہذا یہ روایت موضوع نہیں ، بلکہ شواہد اور متابع کی وجہ سے یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔

[12] دیکھئے : وفیات الاعیان لابن خلکان :جلد ۳:صفحہ ۱۹۸، سیر اعلام النبلاء:جلد ۱۹:صفحہ ۲۶۰، المنتخب من کتاب السیاق لتاریخ نیساپور:صفحہ ۳۷۱۔

[13] اعتراض :

ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کہتے ہیں کہ حافظ ابن حجر ؒ مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ابن فارس اور فلیح راویوں کے درمیان ہلاک کی جگہ ہے ، لہذا دیکھا جائے ان میں کون راوی ہے۔ (التلخیص الحبیر :جلد ۱:صفحہ ۹۳) علامہ شوکانی ؒ ان درمیانی راویوں کی نشاندہی  کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حسین بن علوان اور (ابو) خالد واسطی ہے ۔ (حدیث اور  اہل تقلید :جلد۱: صفحہ ۲۳۸)

اسکین :

الجواب:

قاضی شوکانی ؒ (م۱۲۵۰؁ھ)کے پورے الفاظ ملاحظہ فرمائیے :

رواه أبو الحسين بن فارس بإسناده عن فليح بن سليمان عن نافع عن ابن عمر أن النبي - صلى الله عليه وسلم قال: من توضأ ومسح بيديه على عنقه وقي الغل يوم القيامة وقال: إن شاء الله هذا حديث صحيح. قلت: بين ابن فارس وفليح مفازة فلينظر فيها انتهى. وهو في كتب أئمة العترة في أمالي أحمد بن عيسى، وشرح التجريد بإسناد متصل بالنبي - صلى الله عليه وسلم ، ولكن فيه الحسين بن علوان عن أبي خالد الواسطي بلفظ: من توضأ ومسح سالفتيه وقفاه أمن من الغل يوم القيامة۔(نیل الاوطار :جلد۱:صفحہ ۲۰۷)

اسکین :

غور فرمائیے، قاضی شوکانی ؒ نے ’ الحسين بن علوان عن أبي خالد الواسطي ‘کو ابن فارس ؒ کی روایت کے درمیانی راوی نہیں ، بلکہ ایک دوسری حدیث جس کے الفاظ یہ ہیں :’ من توضأ ومسح سالفتيه وقفاه أمن من الغل يوم القيامة ‘، اس کے راوی قرار دیتے ہیں ، لیکن افسوس چونکہ ابو صہیب داؤد ارشد صاحب اپنے مسلک کے خلاف آئی یہ روایت کو کسی بھی قیمت پر ضعیف ثابت کرنا چاہتے تھے ، اس لئے انہوں نے یہ کہا کہ علامہ شوکانی ؒ (ابن فارس کی روایت کے ) درمیانی راویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حسن بن العلوان اور (ابو) خالد الواسطی ہے ، اور قاضی شوکانی ؒ صاحب پر جھوٹ بول دیا ۔ (اللہ ان کی خطاء کو معاف فرمائے ۔ آمین )

ایک اور دلیل :

حسين بن علواناور ابو خالد الواسطی کا ابن فارس کی روایت کے راوی نہ ہونے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ ابو خالد الواسطی کی وفات ۱۲۰؁ھ کے بعد ہوئی ہے۔(تقریب :رقم ۵۰۲۱) اور ان کے شاگرد حسین بن علوان کی وفات (۲۰۰؁ھ)کے بعد ہوئی ہے ۔ (تاریخ الاسلام : جلد۵:صفحہ ۵۳)، جبکہ ابن فارس کی اس روایت میں ابن عمرؓ ؓ(م۷۴؁ھ ) شاگردامام نافع ؒ ہیں جن کی وفات (۱۱۷؁ھ)میں ہے ، وہ ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۷۰۸۶)اور ان کے شاگردفلیح بن سلیمان ؒ (م۱۶۸؁ھ)ہیں، جو کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۵۴۴۳،تحقیقی مقالات :زبیر علی زئی : جلد۴:صفحہ ۳۶۹)

              لہذا یہ قرائن بتا رہے ہیں کہ ابو خالد الواسطی اور حسین بن العلوان ،ابن فارس اور فلیح کے درمیانی راوی ہوہی نہیں سکتے ، کیونکہ ان دونوں حضرات (ابو خالد اور حسین ) ۲۰۰؁ھ کے آس پاس وفات پاچکے تھے ، ابن فارس ؒ کی سند کے وہ راوی مطلوب ہے جو فلیح بن سلیمان ؒ (م۱۶۸؁ھ)سے ابن فارس ؒ (م۳۹۵؁ھ) کے درمیانی زمانہ کے ہیں ۔

              لہذا ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے محض تعصب میں آکر بغیر تحقیق کے علامہ شوکانی پر جھوٹ بولا ہے ۔ (اللہ انہیں معاف فرمائے ۔ آمین )

نوٹ:       مفتی شعیب صاحب دامت برکاتہم نے یہ حدیث کو بھی موضوع لکھا ہے، لیکن دلیل میں علامہ شوکانیؒ کی عبارت کو پیش کیا ہے ۔ (صفحہ ۵۸)اور ہم بتلاچکے ہیں کہ علامہ شوکانی ؒ کے ذکر کردہ رواۃ ’ الحسين بن علوان عن أبي خالد الواسطي ‘ابن فارس ؒ کی روایت کے نہیں ہیں ، بلکہ دوسری حدیث کے ہیں ، جس کی تفصیل گزرچکی ، لہذا یہاں اس روایت کو موضوع کہنا حضرت والا کا سہو ہے۔

 

[14] امام، حافظ یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ ۲۲۸؁ھ)صحیح مسلم کے راوی ہیں اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ، حافظ ہیں،

امام الجرح والتعدیل امام یحیی بن معین ؒ(م ۲۳۳؁ھ) کہتے ہیں کہ امام یحیی بن عبدالحمیدثقہ ہیں ،اور کہتے ہیں کہ’’صدوق مشہور ما بالکوفۃ مثل ابن الحمانی ،مایقال فیہ الا من حسد ‘‘  صدوق ہیں مشہور ہیں کوفہ میں ان کے جیسا کوئی نہیں تھا اور ان کے بارے میں (بری )بات حسد کی وجہ سے کہی جاتی ہے ۔اور ابن محرزؒ کی روایت میں ہے کہ یحیی ؒ کہتے ہیں کہ ’’کان ثقۃ لا بأس بہ رجل صدق ‘‘یحیی بن عبدالحمیدؒ ثقہ تھے ان میں کوئی خرابی نہیں تھی اور وہ سچے آدمی تھے ۔بلکہ الاسماء والکنی میں امام دولابی ؒ (م۳۱۰؁ھ) [ثقہ عند الجمہور ]نے حافظ عباس الدوریؒ سے روایت کیا ہے کہ امام یحیی بن معین ؒ ،یحیی بن عبدالحمید ؒ کو ثقہ کہتے تھے یہاں تک کہ اس دنیا سے وفات پا گئے۔الفاظ یہ ہیں ’’ولم یزل یحیی یقول ہذا فی ابی یحیی الحمانی وابنہ حتی مات ‘‘ نیز ابن معین ؒ نے انہیں محدث ا ورصاحب حدیث بھی قرار دیا ہے،بلکہ محمد بن ابی ہارون الہمدانی ؒ              ۲۸۳؁ھ)  کہتے ہیں کہ امام یحیی بن معین ؒ نے فرمایا کہ ’’ ثقۃ ،فقلت :یقولون فیہ ؟فقال :یحسدونہ ہو واللہ الذی لاالہ الا ہو ثقۃ‘‘ یحیی بن عبدالحمید ؒ ثقہ ہیں ،تو میں نے (محمد بن ابی ہارون ؒ)کہا کہ بعض لوگ ان کے بارے میں (برا )کہتے ہیں ،؟تو ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ وہ یحیی بن عبدالحمید ؒ سے حسد کرتے ہیں ،اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یحیی بن عبدالحمید ؒ ثقہ ہیں ۔(تمام اقوال کے لئے موسوعۃ اقوال یحیی بن معین فی الجرح واتعدیل وعلل الحدیث ج:۵ص:۸۳،۸۵دیکھیں)

ایک روایت میں یحیی بن معین ؒ نے کہا کہ:امام یحیی بن عبدالحمید ؒ ثقہ ہیں ،ثقہ ہیں ۔(تاریخ اسماء الثقات ص:۲۷۰) امام مسلم ؒ ۲۶۱؁ھ) نے آپ سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے اور غیر مقلدین کے نزدیک امام مسلم ؒ جس سے روایت لیں وہ ان کی طرف سے توثیق اور ان کے نزدیک معتبر وثقہ ہوتا ہے ۔(سینے پر ہا تھ باندھنے کا حکم اور مقام ص:۴۳،انوار البدر ص:۱۳۶) ثابت ہوا کہ امام مسلم ؒ کے نزدیک بھی امام یحیی بن عبدالحمید ؒ ثقہ ہیں ۔امام ابو حاتم ؒ ۲۷۷؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ کان احد المحدثین‘‘  یحیی الحمانی ؒ محدثین میں سے تھے ۔اور کہتے ہیں کہ ’’لم ار احدا من المحدثین ممن یحفظ یأتی بالحدیث علی لفظ واحد سوی یحیی الحمانی فی شریک ‘‘ پھر ان کے بیٹے امام ابن ابی حاتم ؒ اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ :کان ابی یروی عنہ ۔میرے والد (ابو حاتم ؒ)ان سے روایت کرتے تھے ۔(تاریخ بغداد ج:۱۴ص:۱۷۴،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج:۹ص:۱۷۰) اور غیر مقلدین کے نزدیک امام ابو حاتم ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔ دیکھئے (انوار البدر :ص ۲۸۲) معلوم ہو ا کہ امام ابو حاتم ؒ کے نزدیک وہ ثقہ ہی ہیں ۔

امام احمد بن منصور الرمادی ؒ۲۶۵؁ھ) [جوکہ ثقہ ،حافظ اور ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں ،تقریب رقم :۱۱۳،ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی ص:۱۹۶،وہ)کہتے ہیں کہ’’ ہو عندی أوثق من أبی بکربن ابی شیبۃ ،وما یتکلمون فیہ الا من الحسد ‘‘ میرے نزدیک امام یحیی بن عبد الحمیدؒ امام ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ سے زیادہ ثقہ ہیں اوران کے بارے میں (بعض)لوگ حسد کی وجہ سے کلام کرتے ہیں ۔(تہذیب الکمال ج:۳۱ص:۴۳۰،تاریخ بغداد ج:۱۴ص:۱۷۹) امام یعقوب بن سفیان ؒ ۲۷۷؁ھ) نے بھی یحیی بن عبدالحمیدؒ سے روایت کیا ہے ۔(التاریخ والمعرفہ ج:۳ص:۱۵۴،۱۹۲،۲۲۴،۳۶۳) اور امام یعقوب بن سفیان ؒ اپنے نزدیک ثقہ ہی سے روا یت کرتے ہیں ،نیز خود یعقوب بن سفیان ؒ سے مروی ہے کہ میں نے ۱۰۰۰ شیوخ سے حدیثیں لکھی ہیں اور تمام کے تمام ثقہ تھے جیسا کہ غیر مقلدین کا کہنا ہے ۔(مقالات زبیر علی زئی ج:۱ص:۴۴۹) معلوم ہواکہ امام یعقوب بن سفیان ؒ کے نزدیک بھی امام یحیی بن عبدالحمید ؒ ثقہ ہیں،

ثقہ اور صدوق راوی علی بن حکیم الکوفی ؒ ۲۳۷؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’مارأیت احدا احفظ لحدیث شریک منہ ‘‘ میں نے شریک کی حدیث میں امام یحیی بن عبدالحمید ؒ سے زیادہ حافظے والا نہیں دیکھا ۔(الکامل لابن عدی ج:۹ص:۹۷) امام حافظ محمد بن عبداللہ بن نمیر ؒ الکوفی۲۳۴؁ھ)، (جوکہ ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں ۔ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی ص:۱۸۶،وہ) کہتے ہیں کہ ’’ہوثقۃ ہو أکبر من ہؤلاء کلہم فاکتب عنہ ‘‘امام یحیی بن عبدالحمیدؒ ثقہ ہیں اور وہ ان تمام لوگوں سے بڑے(بہتر ) ہیں ،لہذا ان سے حدیثیں لکھو ۔(تاریخ بغداد ج:۱۴ص:۱۷۵)

نوٹ :

اس روایت میں ’’ان تمام لوگوں‘‘سے مراد ثقہ اور صدوق راوی حکیم الکوفی ؒ۲۳۷؁ھ) حافظ محمد بن عبداللہ الحضرمی ؒ ۲۹۷؁ھ) اور ان کے اصحاب ہیں ۔(یعنی محدثین ہیں ) جیساکہ الکامل لابن عدی ج:۹:ص۹۷ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز ابن نمیر ؒ کے اس قول پر علی بن حکیم الکوفی ؒ ۲۳۷؁ھ ) ،حافظ محمد بن عبداللہ الحضرمی ؒ(م ۲۹۷؁ھ)نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ،اور علی زئی صا حب کا اصول کے مطابق سکوت ذریعہ ان دونوں حضرات نے ابن نمیر ؒ کی تائید کی ہے۔ (انوار الطر یق ص: ۸ ) نیز ذہن میں رہے کہ علی بن حکیم الکوفی ؒ ۲۳۷؁ھ)سے یحیی الحمانی ؒ کی مدح ثابت ہے ،جیسا کہ اوپر گزر چکا ۔

              لہذا معلوم ہوا کہ ابن نمیر ؒ کے ساتھ ساتھ علی بن حکیم الکوفی ؒ ۲۳۷؁ھ)،حافظ محمد بن عبداللہ الحضرمیؒ۲۹۷؁ھ) بھی انہیں ثقہ وصدوق تسلیم کرتے ہیں ۔

              مشہورثقہ ،امام اور حافظ محمد بن ابراہیم البوشنجى ؒ(م ۲۹۱؁ھ)[جوکہ ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں ،ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی ص:۱۹۸،وہ]کہتے ہیں کہ امام یحیی بن عبد الحمید الحمانی ؒ ثقہ ہیں ۔(تہذیب التہذیب ج:۱۱ص :۲۴۸ )،مشہور حافظ الحدیث اور صاحب سنن امام بو داؤد ؒ ۲۷۵؁ھ) کہتے ہیں کہ امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ حافظ تھے۔ (تاریخ بغداد ج:۱۴ص:۱۷۷)اور  اہل حدیث حضرات کے نزدیک کسی راوی کو حافظ کہنا ،ثقہ کہنے سے بہتر اور اعلی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے دوماہی مجلہ الاجماع :شمارہ نمبر:۲ص:۱۱۲) اسی طرح امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ(م ۲۹۰؁ھ ) اور ان کے والد امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ)جنکا امام یحیی بن عبدالحمید ؒپر کلام مشہور ہے ،دونوں نے بھی امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ سے روایت لی ہے ۔(فضائل صحابہ للامام عبداللہ بن احمد :حدیث نمبر : ۱۰۳ ۱ ، ۱۱۰۸،مسائل احمد بروایت ابوداؤد ص:۱۰)

              غیر مقلدین ،اہل حدیث حضرات کا کہنا ہے کہ امام احمد ؒ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن احمد ؒ صرف ثقہ سے ہی روا یت کرتے ہیں ۔(اتحاف النبیل :  ج:۲ص:۸۸،۱۰۳)

              معلوم ہواکہ امام عبداللہ بن احمد ؒ ۲۹۰؁ھ) کے نزیک تو امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ ثقہ ہیں ۔

اور امام ابوالحسن المیمونیؒ ۲۷۴؁ھ) [صاحب احمد بن حنبل] کی روایت میں امام احمد ؒ نے یحیی بن عبدالحمید ؒ کو ’’لیس بابی غسان باس ‘‘ قراردیاہے ۔(تہذیب الکمال ج:۳۱،ص:۴۲۲)اس سے بھی معلوم ہواکہ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک امام یحیی بن عبدالحمید ؒکی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ،لیکن امام احمد ؒ کا ابن الحمانی ؒپر کلام مشہور ہے ،جس پرمزید بحث آگے آرہی ہے ۔

              الغرض یہ تو صرف ائمہ متقدمین کے حوالے ہوئے ،جن کے نزدیک امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ ثقہ ہیں ۔

              اب متأخرین کے حوالے بھی مختصر طور پر ملاحظہ فرمائیں !

              امام ابن شاہین ؒ ۳۸۵؁ھ) نے آپ کو کتاب الثقات میں شمار کیا ہے ۔(تاریخ اسماء الثقات ص:۱۵۹)،امام حاکم ؒ    ۴۰۵؁ھ)،امام ابونعیم ؒ ۴۳۰؁ھ)،امام ضیاء الدین مقدسیؒ ۶۴۳؁ھ)،حافظ جمال الدین ابن الظاہریؒ ۶۹۶؁ھ)اور حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲؁ھ) وغیرہ نے آپ کی روایات کو صحیح کہاہے ۔ (المستد رک للحاکم حدیث نمبر:۵۰۸۹،۷۹۶۶،المستخرج علی صحیح مسلم لابی نعیم ج:۱ ص:۱۳۷ ،۱۴۱، ۱۷۷، ۱۹۷، احادیث المختارہ ج:۱۰ص:۱۰۳،مشیخۃ ابن البخاری ج:۳ص:۱۶۹۸،البلدانیات للسخاوی ص:۱۰۱)

              امام ابن عدی ؒ(م ۳۶۵ھ)کہتے ہیں کہ ’’ولیحیی الحمانی مسند صالح ویقال انہ اول من صنف المسند بالکوفۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وتکلم فیہ احمد کما ذکرت ،وعلی بن المدینی ویحیی بن معین حسن الثناء علیہ وعلی ابیہ وذکر ان الذی تکلم فیہ تکلم من حسد ولم أر فی مسندہ واحادیثہ احادیث مناکیر فأذکرہا وأرجو أنہ لا بأس بہ ۔‘‘

              اور یحیی الحمانی ؒ کی مسند (جس کو حافظ ذہبی ؒ سیر میں مسند الکبیر کہتے ہیں ،وہ )اچھی ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہو ں نے کوفہ میں سب سے پہلے مسند تصنیف کی ۔۔۔۔۔۔۔اور امام احمد ؒ اور علی بن المدینی ؒ نے ان پر کلام کیا ہے ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا اور امام یحیی بن معین ؒ ،یحیی الحمانی ؒ اور ان کے والد کی تعریف کرتے اور کہتے کہ جو کوئی یحیی الحمانی ؒپر کلام کرتے ہیں ،حسدکی وجہ سے کرتے ہیں ،اور (ابن عدی ؒ کہتے ہیں کہ )میں نے ان کی مسند میں کوئی (ایک )منکر حدیث نہیں دیکھی، جس کو میں ذکر کروں اور ان کی طرف رجوع کرو ں کہ ان میں کوئی بھی خرابی نہیں ہے ۔(الکامل لابن عدی ج ۹ ص:۹۸)  ابن عدی ؒ نے تحقیق کے ساتھ بتایا کہ انہوں نے امام یحیی الحمانی ؒ کی پوری المسند الکبیر میں کوئی منکر روایت نہیں دیکھی اور ان میں کوئی خرابی بھی نہیں ہے ۔الحمد للہ ۔

حافظ ابن حجر ؒ(م ۸۵۲؁ھ)نے تقریب میں لکھا ہے کہ ’’حافظا الا انہم اتہموہ بسرقۃ الحدیث ‘‘ یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ حافظ ہیں ،مگر ان پر (بعض لوگوں نے) حدیثیں چرانے کا الزام لگایاہے ۔(تقریب رقم :۵۷۹۱)یاد رہے کہ کسی راوی کو حافظ کہنا غیرمقلدین کے نزدیک ثقہ کہنے سے زیادہ بہتر اور اعلی ہے ۔ جسکا حوالہ پہلے گزر چکا ،معلوم ہو اکہ حافظ ؒ کے نزدیک امام یحیی ؒ ثقہ ہیں ۔پھر حافظ ابن حجر ؒ نے حدیث چرانے کے بارے میں اپنی رائے نہیں دی ،بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ بعض حضرات ان پر حدیث چرانے کا الزام لگاتے ہیں ،نیزاہل حدیث حضرات کے اصول کے مطابق ’’اتہمو‘‘کا فاعل (بعض لوگ) بھی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ جح مردود ہے۔(دوماہی مجلہ الاجماع شمارہ نمبر:۲ص:۱۰۵)ان سب کے بعد خود حافظ ؒ نے یحیی بن عبدالحمید ؒ کو’’ مختلف فیہ ‘‘قرار دیا ہے ۔(تلخیص الحبیر ج:۱ ص : ۳۲۷  ) مختلف فیہ کی روایت حسن درجے کی ہوتی ہے ،جیسا کہ غیر مقلدین حضرات کا کہنا ہے ۔(خیر الکلام ص ۲۳۸) معلوم ہواکہ حافظ ؒ کے نزدیک بھی یحیی الحمانی ؒ  ثقہ اور حسن الحدیث ہیں ۔

اسی طرح حافظ ؒ کے شیخ حافظ عراقی ؒ ۸۰۶؁ھ)امام یحیی بن عبدالحمیدؒ کی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ: ’’ہذا حدیث حسن ویحیی بن عبدالحمید الحمانی امام حافظ ولکن قد اختلف فیہ فوثقہ ابن نمیر وابن معین واختلف کلام احمد بن حنبل فوثقہ مرۃ ونسبہ مرۃ الی الکذب ۔‘‘

یہ حدیث حسن ہے اور یحیی بن عبد الحمید الحمانی ؒ امام حافظ ہیں لیکن وہ مختلف فیہ ہیں اس لئے (کہ) انہیں ابن نمیر ؒ اور ابن معین ؒ نے ثقہ کہا ہے اور امام احمد ؒ کا کلام ان کے بارے میں مختلف ہے اس لئے کہ انہوں نے ایک مرتبہ امام یحیی بن عبدالحمید ؒ کو ثقہ کہا ہے اور ایک مرتبہ انہیں کذاب کہا ہے ۔(الاربعون العشاریہ للعراقی ص:۲۰) اسی طرح خمسۃ احادیث من امالی الحافظ العراقی ،مطبوع ضمن کتاب جمہرۃ ۔الاجزاء الحدیثیہ ص:۳۶۱،پر حافظ عراقی ؒ(م ۸۰۶ھ)کہتے ہیں کہ ’’امایحیی بن عبدالحمید الحمانی وثقہ ابن معین وابن عدی ،وقال :لم أر فی مسند ہ من أحادیثہ مناکیر ‘‘ جہاں تک یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ کی بات ہے تو امام ابن معین ؒ اور امام ابن عدی ؒ نے ثقہ قرار دیا ہے اور ابن عدی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ان کی مسند میں کوئی منکر روایت نہیں دیکھی،امام یحیی بن عبد الحمید ؒ کی حدیث کو حسن کہنا اور ساری توثیق نقل کرنا یہ سب دلالت کررہی ہے کہ حافظ عراقی ؒ کے نزدیک بھی امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ ثقہ اور حسن الحدیث ہیں ۔

شیخ فقیہ فاضل ابن العماد الحنبلی ؒ ۱۰۸۹؁ھ)نے ’’ الحافظ أحد ارکان الحدیث‘‘قرار دیا ہے ۔اور حافظ ذہبی ؒ کی تضعیف کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’قلت لکن وثقہ ابن معین ‘‘ میں کہتا ہوں کہ لیکن ابن معین ؒ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے ۔(شذرات الذہب ج:۳ص:۱۳۴) ثابت ہواکہ ابن العماد ؒ کے نزدیک الحمانی ؒ کو ضعیف کہنا صحیح نہیں ہے ۔امام خلیلی ؒ     ۴۴۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’حافظ رضیہ یحیی بن معین وضعفہ غیرہ مخرج فی الصحیحیین ‘‘ امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ حافظ ہیں، یحیی بن معین ؒ ان سے راضی ہیں اور دوسرے لوگوں نے انہیں ضعیف کہا ہے ،اور (وہ)صحیحین میں موجود ہیں۔ (الارشاد للخلیلی ج:۲ص؛۵۷۷)

نوٹ :

ان سے مسلم نے روایت لی ہے ،بخاری میں ان کی ان کی روایت نہیں ملی ۔

امام ابن الجوزی ؒ ۵۹۷؁ھ)نے بھی آپ کو ثقہ کہا ہے ۔(المنتظم لابن الجوزی ج:۱۱ص:۱۴۳)معلوم ہواکہ جمہور کے نزدیک امام یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ ثقہ ہیں ۔

کچھ غور طلب باتیں :

              امام احمد بن حنبل ؒ کاامام یحیی بن عبدالحمید ؒ کو کذاب کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب امام احمد بن حنبل ؒکو معلوم ہواکہ امام یحیی الحمانی ؒ ،امام احمد بن حنبل ؒ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں’’حدث یحیی بن عبدالحمید عن احمد بن حنبل بحدیث عن اسحاق الازرق ،عن شریک عن بیان عن قیس عن المغیرۃ بن شعبۃ عن النبی ﷺ :أبردوا باالصلاۃ ‘‘ جس کو یحیی بن عبدالحمید الحمانی ؒ نے امام احمد ؒ سے اسماعیل بن علیہ ؒ کے دروازے پر سنا تھا تو امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ’’ کذب انما سمعتہ بعد ذلک ‘‘ امام یحیی بن عبدالحمید ؒنے جھوٹ کہا ۔میں نے اس حدیث کواس کے بعد سنا ہے ۔(علل امام احمد بروایت عبداللہ رقم :۴۰۷۶،۴۰۷۷) لیکن جب یہ بات امام یحیی بن معین ؒ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’’حدثنا احمد علی باب اسماعیل بن علیۃ ‘‘ امام احمد ؒنے ہم سے اسماعیل بن علیہ کے دروازے پر وہ حدیث بیان کی ہے۔(تاریخ بغداد : ج:۱۴ص:۱۷۶) اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ امام احمد ؒ سے یہاں پر خطا ہوئی ہے۔

              اسی طرح اس کا ایک اور جواب دیتے ہوئے مشہور ثقہ امام اور حافظ محمد بن ابراہیم البوشنجى ؒ ۲۹۱؁ھ) [جو کہ ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں ،ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی ص:۱۹۸،وہ )کہتے ہیں کہ ’’لو شاء یحیی الحمانی ان یکذب لقال :حدثنا شریک ،فانہ قد سمع منہ الکثیر‘‘ اگر یحیی الحمانی ؒ چاہتے تو (امام احمد ؒ اور اسحق ازرق ؒ کے ناموں کو حذف کرکے سیدھے )’’حدثنا شریک ‘‘کہتے اس لئے کہ انہوں نے شریک ؒسے بہت سی احادیث سنی ہیں ۔(لیکن انہوں نے حدثنا شریک ،نہیں کہا بلکہ اس حدیث کو امام احمد ؒ عن اسحاق الازرق کے حوالے سے شریک سے بیان کیا ہے)مزید حافظ محمد بن ابراہیم البوشنجى ؒ کہتے ہیں کہ ’’کان یحفظ حفظا جیدا ،وما ہو الا صدوق‘‘ امام یحیی الحمانی ؒ مضبوط حافظے والے تھے اور سچے ہی تھے ۔

              ثابت ہوا کہ امام یحیی الحمانی ؒ حدیث میں صدوق تھے ۔ غالبا ً یہی وجہ ہے کہ امام احمد ؒ  بھی امام یحیی الحمانی  ؒ سے حدیثیں بیان کی ہیں ،جس کا حوالہ گزر چکا ۔

نیز امام محمد بن عبداللہ بن نمیر ؒ ۲۳۴؁ھ)نے بھی امام عبداللہ بن عبدالرحمن السمرقندی المعروف عبداللہ الدارمی ؒ ۲۵۵؁ھ) کی جرح کا رد کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب ج:۱۱ص:۲۴۸) اور حافظ ذہبی ؒکی تضعیف کا رد شیخ ،فقیہ ،فاضل ابن العماد الحنبلی ؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے کردیاہے ،جس کا حوالہ اوپر گزر چکا ۔

اور بعض لوگوں نے امام یحیی الحمانی ؒ پر شیعہ رافضی ہونے کا الزام لگایا ہے ،جس کی وجہ سے انہیں جھوٹا بھی کہا گیا۔ تو عرض ہے کہ خود اہل حدیثوں کا اصول ہے کہ مسلکی تفاوت صحت حدیث کے خلاف نہیں ،مثلاً جس راوی کا ثقہ وصدوق ہونا ثابت ہو جائے ،اس کا قدری ،شیعہ، معتزلی ،جہمی ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ۔(نور العینین ص:۶۳) لہذا جب امام یحیی بن عبدالحمید ؒ  جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق ثابت ہو گئے ہیں ،تو ان پر یہ رافضی ہونے کی جرح سے ان کی حدیث کی صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔

              لہذا اہل حدیثوں کے اصول کی روسے یہ جرح کرنا ہی فضول اور بیکار ہے ۔اورتحقیق سے بات معلوم ہوئی کہ امام یحیی الحمانی ؒ حدیث میں ثقہ اور صدوق ہیں ۔واللہ اعلم

[15] ابن معین ؒ سے ان کی تضعیف بھی منقول ہے ، لیکن اس کی سند میں احمد بن محمد بن حماد الدولابی ؒ (م ۳۱۰؁ھ) موجود ہے ، دیکھئے ، کتاب الضعفاء للعقیلی :جلد۱:صفحہ ۷۶، الکامل لابن عدی :جلد۱:صفحہ ۴۶۸،اور یہ راوی غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہے ۔ (دفاع بخاری :صفحہ ۴۸۵، اللمحات :جلد۵ :صفحہ ۵۰۵،مقالات زبیر علی زئی :جلد۱:صفحہ ۴۵۳)معلوم ہوا کہ یہ سند غیر مقلدین کے نزدیک ابن معین ؒ سے غیر ثابت ہے ، جس کی وجہ سے خود غیر مقلدین کے نزدیک اس کو پیش کرنا باطل ہے ، نیز اہل حدیث حضرات کے حافظ شاہد محمود کہتے ہیں کہ اگر امام یحیٰ بن معین کے شاگردوں میں کسی راوی کے بارے میں یحیٰ بن معین کے حکم میں اختلاف ہو، تو طول ملازمت کی وجہ سے عباس الدوری کے قول کو ترجیح دی جائے گی ۔ (دفاع بخاری : (حاشیہ):صفحہ ۴۸۶)اور یہاں پر عباس الدوری ؒ کے طریق میں ابن معین ؒ نے ابو اسرائیل ؒ کو ثقہ کہا ہے ، جیسا کہ ان کی توثیق کے ذیل میں گزر چکا ۔

لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں ابن معین ؒ کی توثیق کو ہی ترجیح ہوگی ۔

[16]ابو حاتم ؒ نے ان کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ ’له أغاليط ، لا يحتج بحديثه‘۔(الجرح والتعدیل :جلد ۲:صفحہ ۱۶۶)لیکن چونکہ موسیٰ بن طلحہ ؓ (م ۱۰۳؁ھ) سے بھی یہی روایت مروی ہے ، لہذا یہاں پر ابو اسرائیل نے خطا نہیں کی ، پھر ارشاد الحق اثری صاحب ’ لا يحتج بحديثه ‘کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ جرح باعث ضعف قطعاً نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جرح قابل اعتبار (بھی ) نہیں ۔(توضیح الکلام :صفحہ ۳۸۹)نیز علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق جب جمہور نے ان کی توثیق کی ہے ، تو اس کے مقابلہ میں ہر ایک کی جرح مردود ہے ۔ (مقالات :جلد۶ :صفحہ ۱۴۳) لہذا ان کے الفاظ سے خود اہل حدیثوں کے نزدیک ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔

[17]ابو اسرائیل کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے بارے میں بھلا برا کہتے تھے ۔ (یہ بات ان سے صحیح سند کے ساتھ نہیں ملی ، واللہ اعلم ) اسی وجہ سے ان پر جرح ہوئی اور بعض نے کذاب اور متروک الحدیث تک قرار دیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہور نے انہیں صدوق ، ثقہ وحسن الحدیث تسلیم کیا ہے ۔

*بعض نے ان کو ’ ليس بالقوى ‘کہا ہے ، لیکن ان الفاظ سے غیر مقلدین کے نزدیک راوی کا ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا ، کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ لیس بالقوی کی جرح قادح نہیں ہے اور اس سے راوی کا عام معنی ٰ میں ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ (مسنون تراویح :صفحہ ۹۶) رئیس ندوی صاحب اسے جرح غیر قادح کہتے ہیں ۔ (رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز :صفحہ ۶۶۷)،ارشاد الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ لیس بالقوی بہت ہلکی جرح ہے ۔ (توضیح الکلام :صفحہ ۲۱۸)اسی کتاب کے صفحہ :۱۶۹پر لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ بھی کوئی قابل اعتماد جرح نہیں ۔  لہذا یہ جرح خود غیر مقلدین کے نزدیک معتبر نہیں ہے ۔

[18] اعتراض اور اس کا جواب :

غیر مقلد عبد الوارث اثری صاحب نے المسعودی ؒ (م۱۶۰؁ھ)پر ہی جرح کردی ۔ (گردن کا مسح :صفحہ ۲۰) حالانکہ جمہور محدثین نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔ دیکھئے (تہذیب التہذیب :جلد۶:صفحہ ۲۱۰)اور خود اہل حدیثوں کا اصول ہے کہ جمہور کے مقابلہ ہر شخص کی بات مردود ہے ۔ (مقالات: جلد۶:صفحہ ۱۴۳)

لہذا عبد الوارث اثری کی بات  مردود ہے۔

[19] اعتراض:

رئیس احمد سلفی لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے کہ عبد الرحمن بن مہدی کا مسعودی سے سماع اختلاط کے بعد والی حدیثوں کا ہوا ہے ۔ (رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز :صفحہ ۱۰۶)،عبد الوارث ضیاء الرحمن اثری صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے ۔ (گردن کا مسح :صفحہ ۲۱)

الجواب :

اول       تو ابن حجر ؒ نے صراحت نہیں کی ، بلکہ حافظ محمد بن عبد اللہ بن نمیر ؒ (م۲۳۴؁ھ)نے اس  کی ہے ، ان کے پوری الفاظ ملاحظہ فرمائیے : المسعودي كان ثقة، فلما كان بأخره اختلط، سمع عبد الرحمن بن مهدي ويزيد بن هارون أحاديث مختلطة، وما روى عنه الشيوخ فهو مستقيم. یعنی ابن نمبر ؒ کہتے ہیں کہ مسعودی ؒ ثقہ ہیں ، پھر اخیر میں مختلط ہوگئے تھے ، اور ابن مہدی اور یزید بن ہارون نے ان سے کچھ مختلط احادیث سنی ہیں اور جو بڑے راویوں نے ان سے روایت کیا ہے ، وہ صحیح سالم ہیں ۔  (الجرح والتعدیل :جلد ۵:صفحہ ۲۵۱، واسنادہ صحیح) بقول رئیس صاحب کے اگر مان لیں ، تو اس سے صرف ابن مہدی ؒ کا اختلاط کے بعد ان سے احادیث سننا ثابت ہوتا ہے، جس کی حقیقت آگے آرہی ہے ۔ لیکن عبد الرحمن بن مہدی ؒ کے متابع میں علی بن ثابت الجزری ؒ (ثقہ ، صدوق) اور حجاج بن محمد الاعور ؒ (م ۲۰۶؁ھ) (ثقہ، مضبوط ، حافظ )وغیرہ بڑے راوی موجود ہیں۔ (کتاب الطہور :صفحہ ۳۷۴، ۳۷۵)اور خود رئیس کے پیش کردہ قول میں صراحت ہے کہ وما روى عنه الشيوخ فهو مستقيمابن نمبر ؒ کہتے ہیں کہ جو بڑے راویوں نے ان سے روایت کیا ہے ، وہ صحیح سالم ہے ۔ معلوم ہوا کہ رئیس صاحب کے پیش کردہ قول سے ہماری روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ جس قول سے ابن مہدی ؒ کا اختلاط کے بعد سننا ثابت ہوتا ہے ، اسی قول سے علی بن ثابت ؒ اور حجاج ؒ کا اختلاط سے پہلے سننا ثابت ہوتا ہے ۔

نوٹ:

امام احمد بن حنبل ؒ سے ایک روایت اس طرح موجود ہے :

كل من سمع المسعودي بالكوفه فهو جيد مثل وكيع، وأبي نعيم، وأما يزيد بن هارون، وحجاج، ومن سمع منه ببغداد فهو في الاختلاط۔ (العلل للامام احمد بروایۃ عبد اللہ :رقم ۴۱۱۴)، غور فرمائیے ! اس روایت میں صرف حجاج لکھا ہے ، اس سے کون سے حجاج مراد ہیں ، اس کا کوئی ذکر نہیں، کیونکہ مسعودی ؒ کے شاگردوں میں ۲ راوی حجاج ؒ کے نام سے ہیں ، ایک حجاج بن محمد الاعور ؒ(م۲۰۶؁ھ) دوسرے حجاج بن نصیر البصری ؒ (م ۲۱۴؁ھ) ہیں ، لہذا یہ جرح  غیر متعین ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے ۔

دوم            یہ کہنا کہ ابن مہدیؒ کا سماع اختلاط کے بعد ہوا ، دلائل اور تحقیق کی روشنی میں صحیح نہیں ہے ، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :

امام ابو حاتم ؒ (م۲۷۷؁ھ) کہتے ہیں کہ : ’’ تغير بأخرة قبل موته بسنة أو سنتين ‘‘مسعودی ؒ اخیر عمر میں اپنی موت سے ایک سال یا دو سال پہلے مختلط ہوگئے تھے ۔ (الجرح والتعدیل :جلد۵: صفحہ ۲۵۱۔ ۲۵۲)ابو قتیبہ بن قتیبہ ؒ کہتے ہیں کہ ’ رأيت المسعودي سنة ثلاث وخمسين، وكتبت عنه وهو صحيح، ورأيته سنة سبع وخمسين والذر يدخل في أذنه، وأبو داود  يكتب عنه، فقلت له : أتطمع أن تحدث عنه وأنا حي؟ ‘میں نے مسعودی ؒ کو ۵۴ھ (یعنی ۱۵۴ھ)دیکھا ، تو میں نے ان سے روایت لکھی ہے ، اور وہ صحیح سالم تھے ، پھر میں نے ان کو (۱۵۷ھ)میں دیکھا تو ان کے کانوں میں غبار و میل داخل ہوگیا تھا۔(یعنی وہ بوڑھے ہوگئے تھے ) اور امام ابو داؤد طیالسی ؒ (م ۲۰۴؁ھ)نے اس نے روایت لی ہے ، تو میں نے ابوداؤد سے کہا کہ کیا آپ ان سے روایت کرنے کے لالچی ہیں ، جبکہ میں زندہ ہوں (یعنی آپ مجھ سے روایت کر ے )؟ (الضعفاء الکبیر للعقیلی :جلد ۲:صفحہ ۳۳۶،واسنادہ صحیح )  

             اس کی سند میں محمد سے مراد محمد بن عیسیٰ ابو علی الھاشمی ہے، جو کہ ثقہ راوی ہے ، الضعفاء الکبیر للعقیلی :جلد ۱:صفحہ ۷۶، ۱۳۸، تاریخ بغداد :جلد ۳:صفحہ ۲۰۶ اور عمرو بن علی سے مراد حافظ عمرو بن علی الفلاس ؒ(م۲۴۹؁ھ) ہیں ، جو کہ ثقہ حافظ ہیں ۔ (تقریب :رقم ۵۰۸۱)

             اس روایت سے معلوم ہوا کہ مسعودی ؒ ۱۵۷ھتک صحیح سالم تھے اور ابو قتیبہ ؒ نے بھی امام ابو داؤد طیالسی ؒ کو ان سے روایت لکھنے پر یہ بالکل بھی نہیں کہا کہ وہ مختلط ہو چکے تھے ، میں نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کیا ۔ لہذا مجھ سے روایت کرو، جبکہ وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ ابو داؤد ان سے روایت کریں ، جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے ، لیکن انہوں (امام ابو داؤد طیالسی ؒ ) نے ایسا نہیں کہا ۔

معلوم ہوا کہ مسعودی ؒ ۱۵۷؁ھ بالکل صحیح سالم تھے ۔

امام معاذ بن معاذ العنبری : (م ۱۹۶؁ھ )کہتے ہیں :

            قدم علينا المسعودي قدمتين: البصرة يملي علينا إملاء، قال: ثم لقيت المسعودي ببغداد سنة أربع وخمسين، وما أنكر منه قليلا ولا كثيرا، فجعل يملي علي ثم أذن لي في بيته ومعي عبد الله بن عثمان، ما ننكر منه قليلا ولا كثيرا، قال: ثم قدمت عليه قدمة أخرى مع عبد الله بن حسن، فقلت لمعاذ: سنة كم؟ قال: سنة إحدى وستين، فقال يحيى بن سعيد لمعاذ وهو إلى جنبه: خرجت قبل أن يقدم سفيان، فقال معاذ: قبل سفيان بسنة أو نحو ذلك، فقالوا: دخل عليه فذهب ببعض متاعه فأنكروه آنذاك، قال معاذ: فتلقانا يوما فسألته عن حديث للقاسم فأنكره، وقال: ليس من حديثي، قال: ثم رأيت رجلا جاءه بكتاب عمرو بن مرة عن إبراهيم، فقال: كيف وفي كتابك؟ قال: عن علقمة قال: وجعل يلاحظ كتابه، قال معاذ: فقلت له: إنك إنما حدثتناه عن عمرو بن مرة، عن إبراهيم، عن عبد الله؟ قال: فهو عن علقمة، فقال يحيى بن سعيد وهو إلى جنب معاذ، وذلك في صفر سنة ستين ومائة: آخر ما لقيت المسعودي سنة سبع أو ثمان وأربعين، ثم لقيته بمكة سنة ثمان وخمسين، وكان عبد الله بن عثمان ذاك العام معي، وعبد الرحمن بن مهدي، قال يحيى: ولم أسأله عن شيء(الضعفاء الکبیر للعقیلی :جلد ۲:صفحہ ۳۳۶، واسنادہ صحیح )

             مسعودی ہمارے یہاں بصرہ دومرتبہ آئے ، جس میں انہوں حدیثیں املاء کرائیں ، کہتے ہیں : پھر میں مسعودی سے بغداد میں ۱۵۴؁ھ میں ملا اس وقت  میں نے ان میں کوئی بھی تغیر نہیں پایا ،وہ مجھے حدیثیں لکھوانے لگے، پھر مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دی ، میرے ساتھ عبد اللہ بن عثمان بھی تھے ، ہم نے ان میں کوئی تغیر نہیں پایا ، کہتے ہیں ، پھر میں ایک مرتبہ اور ان کے پاس گیا عبد اللہ بن حسن کے ساتھ ، میں نے معاذ سے پوچھا کس سن میں  ؟ انہوں نے کہا ۱۶۱؁ھ میں ، یحیٰ بن سعید جو معاذ ؒ کے بغل میں تھے ، کہنے لگے : سفیان کے آنے سے پہلے تم گئے تھے ، تو معاذ ؒ نے کہا ، سفیا ن کے آنے سے تقریباًسال بھر پہلے ، تو محدثین نے کہا وہ ان کے پاس آئے اور ان کا کچھ سامان لے کر چلے گئے ، اس وقت محدثین نے انہیں بدلا ہوا پایا ، معاذ ؒ نے کہا ، پھر ایک روز ہماری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے قاسم کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے انکار کیا، اور کہا وہ میری (روایت کردہ ) حدیث میں سے نہیں ہے ، معاذ کہتے ہیں : پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا وہ عمرو بن مرۃ کی کتاب لے کر آئے جو عمرو بن مرۃ نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا تھا، اور اس (شخص ) نے کہا : آپ کی کتاب میں کس طرح ہے ؟تو مسعودی نے کہا علقمہ سے مروی ہے ، اور کنکھیوں سے اپنی کتاب دیکھنے لگے ، معاذ کہتے ہیں ، میں نے ان سے کہا : آپ نے تو ہمیں عمرہ بن مرۃ عن ابراہیم عن عبد اللہ کی سند سے بیان کیا ہے ، (یعنی علقمہ کا واسطہ نہیں ہے ) تو مسعودی نے کہا کہ وہ علقمہ کے واسطہ سے ہے ، تو یحیٰ بن سعید جو معاذ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، کہنے لگے یہ بات ۱۶۰؁ھ ماہ صفر  کی ہے ، آخری مرتبہ میں ۱۴۷ ؁ھ  یا   ۱۴۸؁ھ  میں ملا(شاید اس سے مراد  یہ ہے کہ میں مسعودی سے ان کے وطن میں آخری مرتبہ اس سن میں ملا، واللہ اعلم  ) ، پھر ۱۵۸؁ھ میں ، مکہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی ، اس سال عبد اللہ بن عثمان اور عبد الرحمن بن مہدیؒ میرے ساتھ تھے، یحیٰ کہتے ہیں : (جب مکہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی تو ) میں نے ان سے (معاذؒ کی طرح)  کچھ نہیں پوچھا۔ (یعنی میں  نے ان کو صحیح و سالم پایا)

             نوٹ :  الضعفاء الکبیر للعقیلی کے مطبوعہ نسخہ میں یحیی بن سعید ؒ کے قول میں  ’’ وذلك في صفر سنة ستين ومائة ‘‘  کے بجائے ’’ وذلك في صفر سنة تسعین ومائة ‘‘ آگیا ہے۔جب کہ صحیح ’’ وذلك في صفر سنة ستين ومائة ‘‘ ہے۔کیونکہ (۱۶۰؁ھ) میں مسعودی ؒ  کی وفات ہوچکی  تھی ۔لہذا  وذلك في صفر سنة سبعین ومائة ‘‘ کاتب کی غلطی ہے۔واللہ اعلم

             اس سے معلوم ہوا کہ ابن مہدی ؒنے  ۱۵۸؁ھ میں مسعودی سے مکہ میں ملاقات کی ، اور امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام یحیٰ بن سعید القطان ؒ (۱۹۸؁ھ)نے ان سے کسی چیز کے تعلق سے کوئی سوال نہیں کیا۔ کیونکہ اگر ان کو مسعودی کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی ، تو وہ ضرور بالضرور معاذ بن معاذ کی طرح ان سے سوالات کرتے ، تاکہ ان کا اختلاط ظاہر ہوجائے ، لیکن جیسا کہ خود امام صاحب ؒ نے صراحت کی ہے کہ میں نے ان سے کسی چیز کے تعلق سے کچھ نہیں پوچھا، مطلب وہ مسعودی کی حالت سے راضی تھے ۔اور (تاریخ بغداد :جلد ۱۰:صفحہ ۲۱۶)پر موجود روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن مہدی ؒ نے مسعودی ؒ سے اس مکہ کی ملاقات میں روایت سنی ہے ۔

             الغرض یہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن مہدی ؒ نے مسعودی سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا تھا ۔  لہذا ابن نمیر ؒ کی بات غیر صحیح ہے ۔

             نیز ان ساری تٖفصیل سے امام ابو حاتم ؒ کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ مسعودی ؒ کا اختلاط ان کی وفات سے ۱یا ۲ سال پہلے ہی ہوا تھا، کیونکہ ۱۵۸؁ھ میں ابن مہدی ؒ کے سماع کے وقت وہ صحیح الحال تھے ، اور ان کی وفات ۱۶۰؁ھ میں ہوئی ہے۔  لہذا یا تو ابن مہدی ؒ کے سماع کے بعد ان کی حالت تبدیل ہوئی یا وفات سے ایک سال پہلے وہ مختلط ہوگئے تھے ۔ واللہ اعلم

             بہر حال ابن مہدی ؒ نے ان سے اختلاط سے پہلے سماع کیا تھا، جس کی وجہ سے  یہ روایت صحیح ہے،اوررئیس ندوی اور عبد الوارث مدنی کا اعتراض مردود ہے ۔

 

[20] نیز، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز :صفحہ ۱۰۷پر رئیس صاحب کا اعتراض ( کہ ’قفا‘ کا معنی ٰ لغت میں سر کا پچھلا حصہ بتلایا گیا ہے ، اس اعتبار سے ’قفا‘ سر کا ہی ایک جزء ہے ) بھی مردود ہے ، کیونکہ ’قفا‘ سے یہاں مراد گدی ہے ، جیسا کہ خود اہل حدیثوں کے عالم نے تسلیم کیا ہے۔

[21] رواۃ کی تفصیل یہ ہیں :

(۱)  امام ابو احمد بن عدی ؒ (م۳۶۵؁ھ) مشہور امام ، ثقہ اور حافظ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد ۶ :صفحہ ۶۵)

(۲)  محمد بن فروخ  ؒ سے مراد محمد بن اسحٰق بن فروخ ؒ ہے ، جو کہ ثقہ ہیں ۔(الکامل لابن عدی :جلد۲:صفحہ ۲۵۳، کتاب الثقات للقاسم :جلد ۸:صفحہ ۱۷۲)
(۳)  امام ابو زرعہ رازی ؒ (م۲۸۱؁ھ) ثقہ ، حافظ، مصنف ہیں ۔ (تقریب :رقم ۳۶۹۵)

(۴)  محمد ابن الحسن بن مختارؒ(م۲۲۱؁ھ)بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد ۸:صفحہ ۲۴۰)

(۵)  مسلم بن خالد ؒ حسن الحدیث ہیں ۔

امام یحیٰ بن معین ؒ ، امام احمد بن یونس ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام دارقطنی ؒ ، امام ابن شاہین ؒ اور ابن حبان ؒ وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے ۔  (تہذیب التہذیب :جلد ۱۰:صفحہ ۱۲۹،اکمال فی تہذیب الکمال :جلد ۱۱:صفحہ ۱۷۲،مسند شافعی :جلد۲:صفحہ ۱۳، فتح المغیث :جلد۲:صفحہ ۴۰،تاریخ ابن خیثمۃ :جلد۱:صفحہ ۲۶۷) امام ابن خراط ؒ، امام ابن کثیر ؒ اور امام ابن قطان ؒ ،ان کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (الاحکام الوسطیٰ :جلد۴:صفحہ ۱۵۸،البدایہ والنہایۃ :جلد ۳:صفحہ ۹۱،بیان الوھم :جلد۵ : صفحہ ۶۲۴) یعنی معلوم ہوا کہ ابن خراطؒ ، ابن کثیر ؒ، اور ابن قطان ؒ کے نزدیک مسلم بن خالد میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔  امام بزار ؒ اور امام ابن منیر ؒ ؒ فرماتے ہیں کہ مسلم بن خالد میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (مسند بزار :جلد۱۱:صفحہ ۳۵۹،سؤالات ابن الجنید :رقم ۸۸۴) امام ابن معین ؒکی ایک روایت میں ہے کہ آپ ؒ نے فرمایا کہ : سألت يحيى عن مسلم بن خالد الزنجي، فقال: ثقة ثقة ولكن ليس بحجة۔ (شرح علل ترمذی :جلد۱:صفحہ ۶۹) قال ابن أبي حاتم: مسلمٌ الزَّنْجِي إمام في الفقه والعلم، وقال إبراهيم الحربي: كان فقيهَ أهلِ مكةَ ، وقد وفقه يحيى بن معين في رواية ، وقال أحمد بن محمد بن الوليد: كان فقيهاً عابداً يصوم الدهر۔ (تہذیب التہذیب :جلد ۱۰ :صفحہ ۱۲۹،سیراعلام النبلاء :ج ۷ : ص ۲۲۸) امام ابن الملقن ؒ فرماتے ہیں کہ :  إِمَام أهل مَكَّة ومفتيها۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ وہ مختلف فیہ ہے ۔  (البدر المنیر :جلد ۶: صفحہ ۲۴۷) امام بوصیری ؒ آپ کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :  هَذَا إِسْنَاد حسن مُسلم بن خَالِد مُخْتَلف فِيهِ۔ (مصباح الزجاجۃ :جلد ۳:صفحہ ۱۹۸) اور مختلف فیہ کی روایت غیر مقلدین کے نزدیک حسن ہوتی ہے ۔ (خیر الکلام :صفحہ ۲۳۸) امام ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ :  صدوق في حفظه مقال۔ (موافقۃ الخبر لابن حجر :جلد ۱:صفحہ ۲۷۶) نیز، آپ ؒ کی حدیثوں کو ابن حجر ؒ نے صحیح بھی کہا ہے ۔  (موافقۃ الخبر لابن حجر :جلد۲:صفحہ ۱۴۴، جلد ۲:صفحہ ۴۱۹) اور حسن بھی کہتے ہیں ۔ (فتح الباری :جلد ۲: صفحہ ۱۴۹) امام ابو احمد ابن عدی ؒ (م۳۶۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ ان کے طرف رجوع کرو، ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ، اور وہ حسن الحدیث ہیں ۔  (الکامل لابن عدی :جلد۸:صفحہ ۱۱) قال الذهبي  في سير : قُلْتُ: بَعْضُ النُّقَّادِ يُرَقِّي حَدِيْثَ مُسْلِمٍ إِلَى دَرَجَةِ الحَسَنِ.) سير:ج ۷ : ص ۲۲۸) قال الحاكم : مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزِّنْجِيُّ إِمَامُ أَهْلِ مَكَّةَ وَمُفْتِيهِمْ۔ امام ابن  الجارود ؒ ، امام ابن خزیمہ ؒ ، امام ابو عوانہ ؒ ، امام ابن حبان ؒ ، امام حاکم ؒ، اور امام ذہبی ؒ ، وغیرہ نے ان کی حدیثوں کو صحیح کہا ہے ۔  (المنتقیٰ لابن الجارود :حدیث نمبر ۶۲۶، صحیح ابن خزیمہ :حدیث نمبر ۱۴۰۰، ۲۲۰۸، صحیح ابو عوانہ :حدیث نمبر ۴۲۹۰، ۵۴۹۴، صحیح ابن حبان :حدیث نمبر ۴۸۳، ۲۳۷۶، المستدرک للحاکم مع تلخیص للذہبی ؒ :جلد ۱:صفحہ ۱۵۷، حدیث نمبر ۲۸۱) نیز، امام ترمذی ؒ اور امام ہیثمی ؒ نے آپ ؒ کی روایت کو حسن کہا ہے ۔ (سنن ترمذی : حدیث نمبر ۱۲۸۶، مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۱۵۰۷۵) اور غیر مقلدین کا اصول گزر چکا کہ کوئی محدث کا کسی حدیث کی تصحیح یا تحسین کرنا ، اس حدیث کے  ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ، معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک یہ ائمہ نے مسلم بن خالد ؒ کی توثیق کی ہے ۔  لہذا آپ ؒ جمہور کے نزدیک ثقہ ہے ،اوریادرہےکہ غیر مقلدین اہل حدیث حضرات کا اصول ہے کہ جمہور کی توثیق کے بعد ہر شخص یا بعض اشخاص کی جرح مردود ہے ۔ (مقالات :جلد ۶:صفحہ ۱۴۳)

(۶) محمد بن عبد الرحمن ابن ابی ذئب ؒ (م ۱۵۹؁ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ، فاضل اور فقیہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۶۰۸۲)

(۷) امام زہری ؒ (م۱۲۵؁ھ) مشہور امام ، فقیہ ہیں ، جن کی جلالت وثقاہت پر اتفاق ہے ۔ (تقریب : رقم ۶۲۹۶)

نوٹ : امام زہری ؒ (م۱۲۵؁ھ) کی تدلیس غیرمقلدین کے نزدیک قابل قبول ہے۔ (دو ماہی الاجماع مجلہ : ش ۱ : ص ۳)

(۸)  امام ابو سلمۃ بن عبد الرحمن ؒ (م۱۰۴؁ھ) صحیحین کے راوی ہے اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب :رقم ۸۱۴۲)

(۹) عبد الرحمن بن صخر جو کہ ابو ہریرۃ ؓ کے نام سے مشہور ہیں ، مشہور حافظ الصحابۃ ہیں ۔ (تقریب ، الکاشف)  لہذا یہ سند حسن ہے ۔

نوٹ:

امام ابن عدی ؒ (م۳۶۵؁ھ) نے اس کی ایک اور سند بھی بیان فرمائی ہے ، جو کہ درج ذیل ہے :

حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ، حَدَّثَنا أَبُو زَيْدٍ الْجَرْجَرَائِيُّ، حَدَّثَنا إِبْرَاهِيمُ بن أبي يَحْيى، عَن ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عنِ الزُّهْريّ، عَن أَبِي سَلَمَةَ، عَن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ، فَوَضَّأَنِي جِبْرِيلُ فَرْضَ الْوُضُوءِ، وَسَنَنْتُ أَنَا فِيهِ الاسْتِنْجَاءَ وَالْمَضْمَضَةَ وَالاسْتِنْشَاقَ وَغَسْلُ الأُذُنَيْنِ وَتَخْلِيلُ اللِّحْيَةِ وَمَسْحُ الْقَفَا، وَهو أَسْبَغُ الْوُضُوءِ.

سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہیں :

(۱)  امام ابن عدی ؒ کا ذکر اوپر گزر چکا۔

(۲) عبد اللہ بن ابی سفیان ؒ ثقہ ہے ۔  (کتاب الثقات للقاسم :جلد۶:صفحہ ۲۸)

(۳)  ابو زید الجرجرائی ؒ ہیں ، جن کا ذکر امام ابن عدی ؒ نے کیا ہے ، لیکن ان کی تضعیف نہیں کی ، اور غیر مقلدین کے نزدیک جس راوی کو ابن عدی ؒ ذکر کرے اور پھر ان کی تضعیف نہ کریں ، تو ایسا راوی امام ابن عدی ؒ کے نزدیک ثقہ وصدوق ہے ۔ (انوار البدر :صفحہ ۲۲۵)  لہذا غیر مقلدین کے اس اصول کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ابن عدیؒ کے نزدیک ابو زید ؒ ثقہ ہیں ۔  پھر متابع میں امام ابو زرعہؒ[ثقہ]  بھی موجود ہیں ۔  لہذا یہ راوی مقبول ہے ۔

(۴)  ابراہیم بن ابی یحیؒ(م۱۸۴؁ھ)  ہیں جن کے بارے میں اہل حدیثوں کے محدث ، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ  اپنا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ان کی کسی حدیث کے استشہاداً ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  (القول السدید :صفحہ ۳۷) یعنی اہل حدیث عالم مبارکپوری صاحب کے نزدیک ، ابراہیم بن ابی یحیؒ کی روایت شاہد کے طور پر ، سپورٹ کے طور ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  یہاں بھی ابراہیم ؒ کی روایت شاہد کے طور پر ذکر کیا ہے ، تاکہ مسلم بن خالد ؒ کی روایت اور بھی مضبوطی ہوجائے ۔

(۵) محمد بن عبد الرحمٰن ابن ابی ذئب ؒ ۔

(۶)  امام زہری ؒ ۔

(۷)  ابو سلمہ بن عبد الرحمن ؒ ۔

(۸) ابو ہریرہ ؓ کا تذکرہ اوپر گزرچکا۔

لہذا ابراہیم بن ابی یحییٰ ؒکی روایت مسلم بن خالد ؒ کی حدیث کے لئے شاہد ہے ، جس کی وجہ سے مسلم بن خالد ؒ کی حدیث اور بھی مضبوط ہوجاتی ہے ۔ الغرض یہ حدیث بھی حسن درجہ ہے ۔  معلوم ہوا کہ گدّی پر مسح کرنا معتبر اور حسن احادیث سے ثابت ہے ۔

[22] اہل حدیث غیر مقلدین کے نزدیک محض بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ لکھا ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ان ائمہ کے مقلدین ہیں ۔چنانچہ اہل حدیثوں کے محدث زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ سابقوں یا لاحقوں کا یہ مطلب قطعا ً نہیں ہے کہ یہ علماء مقلدین کی صف میں شامل تھے ۔(جزء رفع الیدین ص: ۱۰،۱۱) ایک اور مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ شافعی علماء یہ اعلان کرتے تھے کہ ہم شافعی علماء کے مقلد نہیں ہیں ،بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور عالم کیونکر مقلد ہو سکتا ہے ۔ (اختصار فی علوم الحدث مترجم ص: ۱۳) اسکین ملاحظہ فرمائے

 معلوم ہو اکہ علماء کے نام کے ساتھ محض حنفی ،شافعی ،مالکی یا حنبلی آنے سے ان کا مقلد ہونا غیر مقلدین کے نزدیک ثابت نہیں ہوتا ۔لہذا یہاں پر جتنے بھی فقہاء اور محدثین کے حوالے ذکر کئے گئے ہیں ،غیر مقلدین کے نزدیک یہ ان  ائمہ فقہاء اور محدثین کی تحقیق اور اجتہاد ہے ،نہ کہ ان کی مقلدانہ رائے ۔

[23] ان میں بعض نے اگر چہ نئے پانی کے ساتھ گردن پر مسح کرنے کا ذکر کیا ہے ، لیکن بہر حال گردن کے مسح کو تسلیم کیا ، پر دلائل کی روشنی میں غیر مقلدین کا اسے بدعت کہنا کسی بھی صورت میں مقبول نہیں ، بلکہ مردود ہے ۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...